قریب ہی واقع تھی۔
برقی روشنیوں میں جگمگاتی استقلال اسٹریٹ پر بہت رونق تھی اور سیاحوں کا رش تھا۔ یہاں مختلف برانڈز کی دکانیں بھی تھیں۔
ایک ریڑھی والا سنگھاڑے سے ملتا جلتا پھل بیچ رہا تھا جس کا نام hazelnut تھا جو یہاں کی مقامی پیداوار بھی تھا اور سستا بھی تھا۔ ہم استنبول میں ریڑھی والا دیکھ کر حیران رہ گئے۔ مگر ہر ملک میں امیر غریب متوسط، سب طبقے موجود ہوتے ہیں۔ شاید اس طرح کی ریڑھی کا یہاں عام رواج تھا اور یوں مقامی لوگوں کا کاروبار بھی چلتا رہتا ہے۔ یسریٰ نے hazelnuts خریدے اور پھر ہم دکانوں کی طرف آگئے۔
استقلال اسٹریٹ کی سڑک پر ٹرین یا ٹرام کا ٹریک بھی موجود تھا، وہاں چمکتے ہوئے شیشوں والی بہت سی دکانیں تھیں جہاں لوگ شاپنگ کرنے میں مصروف تھے۔ یہ بہت پُر رونق جگہ تھی۔ استنبول آنے والے سیاح اکثر استقلال اسٹریٹ پر پیدل آتے ہیں۔ یہاں کی رونقیں دیکھتے ہیں، شاپنگ کرتے ہیں۔
ہم بچوں کے کپڑوں کی دکان میں چلے آئے۔ مائوں کے لئے بچوں کے کپڑوں اور کھلونوں کی دکانیں شاپنگ میں سب سے زیادہ پرکشش ہوتی ہیں۔ وہاں بچوں کے کپڑوں کی بہت ورائٹی تھی۔
میں نے اپنے بچوں اور بھانجے کے لئے کپڑے خریدے۔ ہم پاکستانی جب بھی کسی باہر کے ملک جاتے ہیں تو اپنی شاپنگ سے زیادہ اپنے گھر والوں کی شاپنگ کی فکر ہوتی ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں کا کلچرل ہے۔
بچوں کی شاپنگ کرنے کے بعد ہم ایک اسٹور پر چلے آئے۔ جہاں سے ہم نے میک اپ کا کچھ سامان خریدا۔ عائشہ کو یاد آیا کہ اس نے ٹوتھ برش بھی لینا تھا۔ دکانوں پر رش ہونے کی وجہ سے بل پے کرنے کے لئے لائن میں کھڑے ہونا پڑتا ہے۔
یہاں جگہ جگہ مختلف اصول تھے جن کی پاسداری لازمی تھی۔ جب انسان کسی باہر کے ملک کا سفر کرتا ہے تو صرف نئی جگہیں ہی نہیں دیکھتا بلکہ نئی چیزیں اور نئے اصول بھی سیکھتا ہے اور انسان کی شخصیت کے کئی پہلو نکھر جاتے ہیں۔
دکان سے باہر نکل کر ہم سڑک پر آئے تو سڑک کے کنارے ایک شخص کو گٹار بجاتے اور اجنبی زبان میں گیت گاتے دیکھا۔ وہ کوئی اسٹریٹ آرٹسٹ تھا اور اپنے فن کا مظاہرہ کررہا تھا۔ اس کے پاس ایک ڈبہ بھی رکھا تھا، آس پاس سے گزرتے لوگ اس ڈبے میں پیسے ڈالتے اور آگے بڑھ جاتے۔ گویا یہ بھی ایک پروفیشن تھا۔
ترکی میں اس طرح کے بہت سے اسٹریٹ آرٹسٹ نظر آتے ہیں۔ وہ شخص مہارت سے گٹار بجارہا تھا۔ اس کی سُریلی آواز دور دور تک سنائی دے رہی تھی۔ سڑک پر چلتے ہوئے سیاح اس کے پاس بے ساختہ رک جاتے۔ ہم نے بھی کچھ دیر اس کا گیت سنا پھر آگے بڑھ گئے۔
ہم پیدل چلتے ہوئے ہوٹل واپس آئے، سامان رکھا، اُسی وقت کپڑوں کی تصاویر بناکر بچوں کو بھیجی، تاکہ وہ بہل جائیں، بچے خوش ہوگئے، میری بیٹی نے اپنا Elsa والا ڈریس دیکھا تو ایکسائیٹڈ ہوگئی۔ میری ساری تھکن اُتر گئی۔ اولاد کی خوشی اور مسکراہٹ ماں کی انمول خوشی ہوتی ہے۔ اللہ سب بچوں کے سر پر ان کی مائیں سلامت رکھے، آمین، ہر بچے کے نصیب میں ماں کا پیار ہو۔ صبح ہم نے برصا کے لئے نکلنا تھا۔ ہم نے سامان رکھا اور سونے کے لئے لیٹ گئے۔ یہ تھا ہمارا ترکی میں دوسرا دن جب ہم نے توپ کاپی محل دیکھا، وہاں اسلام کے قیمتی خزانے اور اثاثے دیکھے اور پیدل چلتے ہوئے استقلال اسٹریٹ تک گئے تھے۔ یہ ہماری زندگی کا ایک خوبصورت دن تھا جس کی خوبصورتی کو ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں۔
٭…٭…٭
One Comment
بھترین فکشن، لکھنے کا انداز خود کو ماحول کے اندر پانے جیسا ، بھترین محسوسات اور مکمل معلومات کے ساتھ، بھت کم لکھاری اس طرح سے اپنا سفر نامی یادگیری کے ساتھ بیان کیا کرتے ھیں، جاندار لکھائی نے من کو مائل کردیا، اشتیاق پیدا کیا ھے کہ ھم بھی اس طرح سے ان جگہوں پر گھومتے جائیں۔