استنبول سے انقرہ تک (سفرنامہ) | باب2


وہ اپنی سیلفی اسٹک درست کرتے ہوئے خوشدلی سے بولی۔
اس سیلفی اسٹک سے ہی ہماری دوستی کا آغاز ہوا۔ جب تک ہم قطار میں کھڑے رہے، باتیں کرتے رہے، تصویریں کھینچتے رہے۔
گائیڈ نے ہمارے ٹکٹ خریدے اور ہم توپ کاپی محل میں داخل ہوئے۔ محل کے اس دروازے کا نام با ب اسلام ہے۔ وہ ایک بے حد خوبصورت اور وسیع محل تھا۔ وہاں سے سیدھی سڑک جارہی تھی جس کے دونوں اطراف خوبصورت باغ تھے۔
محل میں کئی عمارتیں، باغات، شفاف پانی کے فوارے، ٹیولپ کے رنگین پھول، سرسبز درخت اور سڑک نما راستے تھے۔ ذرا قریب ہی سمندر بھی تھا۔ ہم ایکسائیٹڈ انداز میں اُجالوں میں چمکتے دمکتے نظارے دیکھ رہے تھے۔ توپ کاپی کا مطلب ہے توپ والا دروازہ ۔ اسی مناسبت سے اس محل کا نام توپ کاپی محل مشہور ہوگیا۔
ترکی جری اور بہادر قوم ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورتی، روایات، ثقافت، کلچر اور دسترخوان میں بھی نمایاں رہے ہیں۔ مسجد نبویۖ اور مسجد حرام سے ترکوں کی عقیدت کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
خلافت ِ عثمانیہ کے حکمران عبدالمجید (اول) نے مسجد نبویۖ کی توسیع کا کام کیا تھا۔ توسیع کے لئے ترکی نے پوری اسلامی دنیا سے ماہر معماروں کو اکٹھا کیا اور انہیں ترکی کے خوبصورت علاقے میں آباد کیا۔ انہیں مراعات فراہم کیں۔ ان معماروں کے گھر بیٹے پیدا ہوئے تو ان بچوں کو حافظ ِ قرآن بنایا اور ان معماروں سے کہا گیا کہ وہ اپنے حافظ قرآن بیٹوں کو اپنا فن سکھائیں۔ ان بچوں نے جب قرأت اور فن سیکھ لیا تو خلیفہ ٔ وقت نے انہیں مدینہ منورہ بھیج دیا اور مسجد نبویۖ کی توسیع کا قریضہ سونپ دیا۔ بارگاہِ رسالتۖ کی توسیع کے تین اصول تھے۔ یہ تمام معمار چوبیس گھنٹے وضو میں رہتے، قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے رہتے اور مسجد کی حدود میں کوئی چیز کسی دوسری چیز کے ساتھ نہیں ٹکراتی تھی، پتھر کا کوئی ٹکرا تراشنا ہوتا تو وہ لوگ وہ ٹکڑا مدینہ سے تقریباً چھ کلو میٹر باہر لے جاتے تھے، وہ پتھر کا ٹکڑا وہاں تراشا جاتا پھر مسجد نبویۖ میں لاکر نصب کردیا جاتا تھا۔ مسجد نبویۖ کی توسیع بے حد احترام کے ساتھ کی گئی۔
خلافت عثمانیہ کے ساتویں حکمران محمد فاتح نے 1453 میں قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔
قسطنطنیہ استنبول کا پرانا نام ہے۔ اس سے پہلے یہ عیسائیوں کا شہر تھا۔ جہاں ان کا گرجا گھر آیا صوفیہ بھی واقع تھا۔ قسطنطنیہ ہزار سال تک ناقابل تسخیررہا تھا جس کی بڑی وجہ اس کا جغرافیائی محل وقوع بھی تھا۔ یہ شہر دو سمندروں کے درمیان پہاڑ کی چوٹی پر آباد تھا۔ شہر تک پہنچنے کا راستہ باسفورس اور باسفورس کے پانیوںسے نکلا ہوا گولڈن ہارن تھا۔ گولڈن ہارن پانی کی ساڑھے سات کلو میٹر لمبی پٹی ہے۔ باظنطینی حکمرانوں نے پانی میں لوہے کی زنجیریں بچھائی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ زنجیر کھینچ دیتے تو جہاز رک جاتے تھے۔ ترک قسطنطنیہ فتح کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ ایک حدیث مبارکہ تھی۔ ترک یہ سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے۔
محمد فاتح 1451ء میں خلیفہ بنا تو اس کی بھی یہی خواہش تھی کہ قسطنطنیہ مسلمان فتح کریں۔ اس نے 1453ء میں استنبول کا محاصرہ کیا اس نے بہت سے درخت کٹواتے، درختوں کی لکڑی کے تختے بنوائے، تختوں پر جانوروں کی چربی چڑھائی، بحری جہاز تختوں پر رکھوائے، ہزاروں لوگوں نے یہ جہاز کھینچے، دھکیلے اور بحری جہازوں کو پہاڑوں کے اوپر سے دھکیل کر سمندر تک لے آئے، استنبول کے لوگ اگلی صبح جاگے تو وہ پانی میں جہاز دیکھ کر حیران رہ گئے۔ محمد فاتح نے 1493ء میں استنبول شہر کو فتح کرلیا اور تاریخ میں فاتح بن گیا۔
استنبول کو سات پہاڑیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور یہاں ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد قائم ہے۔
استنبول تقریباً چار سو سال خلافت ِ عثمانیہ کا دارالحکومت رہا۔
1923ء میں ترک جمہوریت کے قیام کے بعد دارالحکومت استنبول سے انقرہ منتقل کردیا گیا۔
توپی کاپی محل کئی برسوں کی محنت کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لئے مختلف علاقوں سے کاریگروں ، معماروں، ماہرین اور ہنر مندوں کو بلوایا گیا۔ توپ کاپی محل فن ِ تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے۔
دیواروں پر خطاطی کی گئی ہے۔ اس محل میں کاریگری، ہنر مندی کے دلکش کمالات نظر آتے ہیں۔ راہداریاں، وسیع دالان، مینار، لائونج نما کمرے جہاں کا انٹیریئر بھی بے حد نفیس اور خوبصورت ہے۔
چھت پر ڈیزائن بنے ہیں جو آرٹ کا شاہکار ہیں۔ بڑی کھڑکیاں، ٹرکش صوفے، قالین، قیمتی فرنیچر غرض ہر چیز خوبصورت تھی۔
کمروں میں بھی ستونوں کا رواج تھا۔
اس محل میں کئی دروازے تھے۔ توپ کاپی محل میں خلافت ِ عثمانیہ سے وابستہ لوگوں کی رہائش گاہ بھی تھی اور یہاں دیوانِ ہمسایوں میں سرکاری اور حکومتی امور بھی سرانجام دیئے جاتے تھے۔
1924ء میں توپ کاپی کو میوزیم بنادیاگیا۔ دنیاکے مختلف علاقوں سے لوگ اس محل کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔
توپ کاپی محل کا شمار UNESCO world heritage site میں بھی ہوتا ہے۔
یہ بے حد وسیع محل ہے، ہم محل میں گھومتے پھرتے رہے۔
ذرا قریب ہی سمندر تھا اور محل کے ایک کونے سے سمندر کا نظارہ بھی کیا جاسکتا تھا کسی زمانے میں یہاں تقریباً چار ہزار لوگ رہا کرتے تھے۔ ترک حکومت نے اس محل کی Maintenance کا بے حد خیال رکھا ہوا ہے۔ توپ کاپی محل آکر انسان بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کی جرأت، ہمت ، بہادری، دلیری، مسلمانوں کی فتوحات، مسلمانوں کے جہاد کی ایمان افروز داستانیں، مسلمانوں کا عظیم الشان ماضی، اسلام کی روشنی عرب سے نمودار ہوئی اور ساری دنیا میں حق کا بول بالا ہوا۔
آج بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلمان ایک قوم بنیں اور اپنے دین کے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ بے شک اسلام ہی سچا دین ہے۔
ہم محل کے مختلف راستوں پر چلتے رہے اور ترکوں کا فن دیکھتے رہے۔
پھر ہم ایک بے حد خاص عمارت میں آئے جہاں بہت سے مقدس تبرکات موجود تھے۔ یہ توپ کاپی محل کا بے حد خاص کمرہ تھا۔ یہاں اسلام اور مسلمانوں کے قیمتی اثاثے موجود تھے۔
اس کمرے کے دروازے کے اوپر بھی پہلا کلمہ لکھا ہوا تھا۔
یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ کچھ چیزیں موجود تھیں۔ انبیاء اکرام خلفائے راشدین، صحابہ کرام، حضرت امام حسین اور حضرت فاطمہ (خاتون ِ جنت) سے وابستہ بھی کچھ چیزیں موجود تھیں۔ یہ بے حد مقدس کمرہ تھا جہاں بے حد قیمتی خزانہ موجود تھا۔
وہاں حضرت خالد بن ولید، حضرت جعفر طیار اور حضرت عمار بن یاسر کی تلواریں بھی تھیں۔ خانہ کعبہ کی چابی، حضرت موسیٰ کا عصا، حضرت یوسف کا عمامہ شریف، حضرت علی اور حضرت عثمان کی تلواریں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کا نقش ِ پا، خاتون جنت حضرت فاطمہ الزاہرا کا عبایا مبارک اور صندوقچی، حضرت امام حسین کا جُبہ مبارک(کُرتا)، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مونہہ مبارک، حضرت عثمان کا تحریردہ قرآن پاک، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی بنی ہوئی مہر، جو وہ خطوط پر لگایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیالہ مبارک، کربلا کی مٹی، مدینہ منورہ کی مٹی، خانہ کعبہ کا دروازہ مبارک جو قدیم دور میں وہاں موجود تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مصر کو دعوت اسلام دینے کے لئے لکھا جانے والا خط بھی وہاں موجود تھا۔
یہ سب کچھ دیکھ کر مسلمانوں کے دل کی جو کیفیت ہوتی ہے۔ اس کی ترجمانی کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ اس کیفیت کو نا ہی تحریر کیا جاسکتا ہے اور نا بیان کیا جاسکتا ہے، ہم تو یہ کہیں گے کہ اتنے مقدس اثاثوں کو دیکھنے کے بعد انسان وہ نہیں رہتا جو یہاں آنے سے پہلے ہوتا ہے۔ یہ مقدس اثاثے مسلمانوں کے دل کو چھو جاتے ہیں۔
یہ زیارتیں دیکھنے کے بعد ہم اس مقدس عمارت سے باہر آئی۔
اس عمارت سے باہر آکر ہمارے دل کی عجب کیفیات تھیں جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، انبیاء کرام ، حضرت امام حسین اور خاتون جنت حضرت فاطمہ سے وابستہ چیزوں کو دیکھنا ایک سعادت تھی۔ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ایسی مقدس چیزوں کی زیارت ہمارا مقدر بنی۔
ہم اسلام کی عظمت کے بارے میں ہمیشہ پڑھتے رہے۔ مسلمانوں کی عالیشان فتوحات، جذبہ ٔ ایمانی، وہ شاندار خوبیاں اور کردار جو مسلمانوں کی پہچان ہوا کرتے تھے۔
اسلام عرب کی سرزمین سے بلند ہوا اور ساری دنیا تک اس کا بول بالا ہوگیا۔
مسلمان عرب سے نکلے اور فتوحات کرتے ہوئے انہوں نے اک دنیا کو تسخیر کرلیا۔
مسلمانوں کو اپنا تشخص اور اپنی روایات ضرور یاد رکھنی چاہیے۔
کاش آج مسلمان اپنی حیثیت، اپنی اہمیت اور اپنا مقام سمجھ لیں۔ اس عمارت میں مسلمانوں کاخزانہ تھا۔ اسلام کے عظیم الشان اثاثے تھے۔ یہ مقدس تبرکات بے حد قیمتی تھے۔
ہم پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، خاتونِ جنت حضرت فاطمہ الزاہرہ ، انبیاء کرام، حضرت امام حسین اور صحابہ کرام کے متعلق بچپن سے کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں۔ انبیاء کرام نے اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام دیا اور یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تک آکر رُک گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا اور لوگ مسلمان ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ ہمارے لئے ہدایت اورراہ نمائی ہے۔ پہلا کلمہ طیبہ ہی مسلمانوں کے لئے دنیا و آخرت کی نصرت ہے۔ حضرت فاطمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی اور خاتونِ جنت ہیں اور مسلمان عورتوں کے لئے ایک مثال ہیں۔ ان کی چیزوں کی زیارت کرنا عین سعادت ہے۔ صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تھے، صحابہ کرام اور نواسہ ٔ رسول سید شہدا حضرت امام حسین سے وابستہ چیزوں کو دیکھنا بھی خوش نصیبی ہے۔ ان مقدس زیارتوں کو دیکھنے کے بعد ہم اس عمارت سے باہر آئے۔ کچھ فاصلے پر سرسبز درختوں اور ٹیولپ کے خوش رنگ پھولوں سے سجا خوبصورت باغ تھاجہاں فوارہ بھی موجود تھا جس میں سے شفاف پانی گر رہا تھا اور فوارے کے قریب خوبصورت پرندے بیٹھے تھے۔ وہاں لوگوں کے بیٹھنے کے لئے بنچ بھی موجود تھے۔
ہم ہوٹل سے صبح کے نکلے ہوئے تھے پھر کافی دیر قطار میں بھی کھڑے رہے اور محل کے وسیع راستوں پر چلتے رہے تھے۔ شکر تھا کہ بیگ میں پانی کی بوتلیںموجود تھیں، ہوٹل سے نکلتے وقت پانی ساتھ رکھ لیا تھا ہم کچھ دیر بنچ پر بیٹھ گئے اور خوبصورت نظاروں کو دیکھنے لگے۔
گروپ کے لوگ دوسری طرف چلے گئے۔ میرے ساتھ سعادت منیر بیٹھی تھیں جن کا تعلق شعبہ ٔ تدریس سے تھا اور وہ سائیوال سے آئی تھیں۔
باغ کے دوسری طرف گرے رنگ کی بے حد خوبصورت عمارت تھی جس کے دونوں اطراف سیڑھیاں بنی تھیں اور اوپر کی منزل پر ستونوں والا برآمدہ تھا۔
عمارت پر سنہری حروف سے کچھ لکھا ہوا تھا، شاید وہ ترکی کا پرانا رسم الخط تھا۔
صدیوں پہلے بھی یہاں کا فن ِ تعمیر کمال کا تھا۔
دیوار کے پاس فوارہ بھی موجود تھا۔ اس محل میں مختلف جگہوں پر اکثر فوارے نظر آتے ہیں۔
میں کچھ دیر اس خوبصورت اور دلکش عمارت کو دیکھتی رہی پھر میں نے سعادت منیر سے کہا۔
”وہ کتنی خوبصورت عمارت ہے۔ آپ یہاں بیٹھیں، میں اس عمارت کے پاس تصویریں بناکر آتی ہوں۔”
فوٹوگرافی کے شوق نے مجھے اکسایا۔
وہ فوراً متوجہ ہوئیں۔

Loading

Read Previous

”استنبول سے انقرہ تک ” (سفرنامہ) | آغازِ سفر | باب ۱

Read Next

استنبول سے انقرہ تک  (سفرنامہ) | بُرصا کے رنگ | باب 3

One Comment

  • بھترین فکشن، لکھنے کا انداز خود کو ماحول کے اندر پانے جیسا ، بھترین محسوسات اور مکمل معلومات کے ساتھ، بھت کم لکھاری اس طرح سے اپنا سفر نامی یادگیری کے ساتھ بیان کیا کرتے ھیں، جاندار لکھائی نے من کو مائل کردیا، اشتیاق پیدا کیا ھے کہ ھم بھی اس طرح سے ان جگہوں پر گھومتے جائیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!