”کدھر جارہی ہو؟ یہیں بیٹھی رہو۔ اس وسیع و عریض محل میں اتنی عمارتیں، راہداریاں، باغات اور راستے ہیں، اور سیاحوں کا رش بھی ہے۔ گروپ کے لوگوں نے کہا تھا کہ آپ لوگ یہیں بیٹھے رہیں۔ واپس آکر وہ ہمیں یہیں سے لے لیں گے۔ میرے ساتھ یہیں بیٹھی رہو۔ یہیں سے دیکھ لو عمارت گروپ کے لوگوں کی بات سننی چاہیے۔
وہ فکر مندی سے بولیں۔ ان کی آواز میں پرنسپل والا رعب و دبدبہ تھا۔
”ارے میں یہیں پاس ہی ہوں۔ یہ دیکھیں، یہاں سے وہ عمارت واضع نظر آرہی ہے بالکل سامنے ہی تو ہے۔”
میں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی۔ وہ رُخ موڑ کر اس عمارت کی جانب دیکھ رہی تھیں۔ بڑی مشکل سے انہیں مناکر میں اس عمارت کے قریب آئی۔
یہ عمارت دراصل لائبریری تھی۔
اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ دورِ عثمانیہ میں لکھنے پڑھنے اور حصول ِ علم کی کتنی اہمیت تھی۔
مجھے وہاں ایک چینی لڑکی ملی جس نے پینٹ شرٹ اور ہیٹ پہنا ہوا تھا۔
اس نے کہا کہ وہ میرے ساتھ تصویر بنوانا چاہتی ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ چینی اتنے خوش اخلاق بھی ہوتے ہیں۔ وہ دو چینی لڑکیاں تھیں انہوں نے میرے ساتھ مسکرا مسکرا کر انگلش زبان میں باتیں کیں۔ میں چینی لڑکیوں کی خوش اخلاقی اور دوستانہ رویے پر حیران بھی ہوئی۔
ہم پاکستانی کسی ٹرپ پر جاتے ہوئے بے حد ایکسائیٹڈ ہوتے ہیں اور سجنے سنورنے کے اور شاپنگ کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ یہاں میں اکثر سیاحوں کو دیکھ رہی تھی جو عام سے حلیے میں بیگ پیک پہنے گھوم رہے تھے۔
میں عمارت کی سیڑھیاں چڑھ کر برآمدے کے ستون کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ یہ عمارت خوبصورتی کا شاہکار تھی۔
دیواروں پر نقاشی اور میناکاری کا دیدہ زیب کام کیا گیا تھا۔ عمارت میں بڑی بڑی کھڑکیاں بھی موجود تھیں۔ میں نے ستون کے پاس چند تصاویر بنوائیں اور سعادت منیر کے پاس چلی آئی۔
کچھ دیر بعد گروپ کے باقی لوگ بھی وہیں آگئے۔
وہاںسے ہم حاجیہ صوفیہ کی طرف چلے ۔ اس کے سامنے Blue Mosque بھی تھی اور ٹیولپ کے پھولوں کا وسیع باغ بھی تھا۔ ترکی میں آپ کو ٹیولپ کے پھولوں کی بہتات نظر آئے گی۔
Blue Mosque یعنی نیلی مسجد استنبول کی مشہور و معروف مسجد ہے۔ جسے خلافت ِ عثمانیہ کے دور میں احمد (اوّل) نے 1609ء سے 1616ء کے مابین تعمیر کروایا تھا۔ یہ مسجد فن ِ تعمیر کا شاہکار تھی۔
کونے میں دکانیں تھیں جہاں ترکی کی وہی مشہور آئس کریم ملتی ہے جس کے لئے دکاندار لوگوں کے ساتھ دلچسپ کھیل بھی کھیلتے ہیں۔
اس سے ذرا فاصلے پر حاجیہ صوفیہ کی تاریخی دیواروں والی تاریخی عمارت بھی تھی۔ حاجیہ صوفیہ کو آپا صوفیہ بھی کہا جاتا ہے، اس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ کسی زمانے میں یہ گرجا گھر ہوا کرتا تھا مگر اب اسے مسجد بنادیا گیا ہے۔ اس عمارت میں ایک وسیع ہال ہے۔ جہاں اونچی دیواروں پر اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر، عمر ، عثمان ، علی حسن، حسین کے نام لکھے ہیں۔
حاجیہ صوفیہ بے حد تاریخی عمارت ہے۔
لوگ اس تاریخی عمارت کی خوبصورتی دیکھنے میں محوہوجاتے ہیں۔
گروپ کے لوگ اس عمارت سے باہر نکلے اور قریبی ریسٹورنٹ میں لنچ کے لئے چلے گئے۔ رش کی وجہ سے لبنیٰ ابرو گروپ سے پیچھے رہ گئی۔
اس نے اپنے گروپ کے لوگوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر اجنبی چہروں میں کوئی شناسا نہ ملا۔ وہ پریشان اور حواس باختہ ہوگئی۔
ہر طرف سیاحوں کا رش تھا۔ پردیس کا معاملہ تھا۔ وہاں زیادہ تر لوگ انگریزی بھی نہیں جانتے تھے۔ وہ اِدھر اُدھر گھومتی پھرتی رہی مگر کوئی شناسا شخص نظر نہ آیا۔ اس کے پاس ترکی کی لوکل سِم بھی نہیں تھی کہ کسی سے فون پر رابطہ کیا جاسکتا۔
وہ پریشانی سے چلتے ہوئے ٹیولپ کے پھولوں کے پاس کھڑی مقامی خاتون کے پاس آئی جو تھوڑی بہت انگریزی سمجھتی تھی۔
”بات سنیں! میں پاکستانی ہوں اور اپنے گروپ سے بچھڑ گئی ہوں، کیا آپ میری مدد کرسکتی ہیں؟”
اس نے پریشانی سے کہا۔
”ضرور آپ پریشان نہ ہوں ، کیا آپ کے پاس آپ کے گائیڈ کا فون نمبر ہے۔ آپ میرے موبائل سے اپنے گائیڈ کو فون کرلیں۔”
خاتون نے حوصلہ افزاء انداز میں شائستگی سے کہا۔
لبنیٰ نے فوراً موبائل میں واٹس ایپ گروپ سے گائیڈ سرخان کا نمبر خاتون کو دیا۔
”اس نمبر پر کال کردیں۔”
اس نے بے ساختہ کہا۔
خاتون نے نمبر ملا کر اپنا موبائل لبنیٰ کو تھمایا۔
سرخان نے کال اٹھالی۔
”ہیلو! مسٹر سرخان! میں پاکستانی ٹؤر گروپ کی ممبر لبنیٰ ابرو ہوں اور ٹیولپ کے پھولوں کے باغ کے پاس کھڑی ہوں۔ گروپ سے بچھڑگئی ہوں۔ سمجھ نہیں آرہی کہ سب لوگ کہاں چلے گئے ہیں۔”
لبنیٰ نے پریشانی سے کہا۔
سرخان یہ سن کر حیران اور حواس باختہ رہ گیا گروپ کی ایک خاتون کب اور کہاں۔ بچھڑ گئی تھی اسے اندازہ نہ ہوسکا۔
“Please wait, don’t go any where, I am coming, Please tell me your exact location.
وہ کہتے ہوئے فوراً اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔
”لوکیشن کے بارے میں یہ خاتون بتادیں گی۔ میں انہی کے موبائل سے کال کررہی ہوں۔”
لبنیٰ نے انگریزی زبان میں جواباً کہااور ہمدرد خاتون کو موبائل دے دیا۔
خاتون نے ترک زبان میں سرخان سے کچھ بات کی اور اسے بتایا کہ لبنیٰ ابرو کس جگہ پر کھڑی تھی۔
سرخان صاحب یوں تو ترک تھے مگر انہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل تھا اور بھی کئی زبانیں انہیں آتی تھیں۔ بے حد شستہ انگریزی بولتے تھے۔ یوں تو ہم بھی انگریزی زبان بولتے اور سمجھتے ہیں مگر سرخان صاحب کا اعتماد بھی قابل ِ دید تھا۔
سرخان نے خون بند کرتے ہی اعلانیہ انداز میں اطلاع دی۔
“A lady is missing.”
کھانا کھاتے لوگ ایک لمحے کے لئے یکدم ٹھہر گئے۔ پریشان ہوکر بے ساختہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ بھلا کون سی خاتون missing تھی۔
“Which lady?”
یاسمین مشتاق نے ششدرہ انداز میں بے ساختہ کہا۔
”اب کون گم ہوگیا ہے بھئی؟”
اِدھر سے اُدھر کھلبلی مچ گئی۔
”ان کا نام مس لبنیٰ ہے۔ وہ ٹیولپ کے پھولوں کے پاس کھڑی ہے میں ابھی اسے لے کر آتا ہوں۔”
وہ موبائل اٹھا کر افراتفری میں بھاگتے ہوئے باہر نکلا۔۔۔
”دیکھیں آپ لوگ گروپ کے ساتھ رہا کریں یہ پردیس ہے، یہاں گم ہوجانا بہت مسئلہ بن سکتا ہے۔ پلیز اِن باتوں کا خیال رکھیں۔ اک آسان طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ لوگ جب بھی باہر آئیں تو اپنے روم میٹ پر ضرور نظر رکھیں اگر آپ کو شک ہو کہ کوئی شخص missingہے تو فوراً گائیڈ کو مطلع کریں۔
یاسمین نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے سنجیدہ اور اعلانیہ انداز میں کہا۔ گروپ کے لوگ خاموشی سے سن رہے تھے۔ پھر انہوں نے تائیدی انداز میں سرہلادیا۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پردیس جاکر انسان اچھا سامع بھی بن جاتا ہے۔
اس ہمدرد خاتون نے لبنیٰ کو اپنے پاس ہی بٹھالیا۔
یہاں پر چونکہ لوگ پیدل چلتے تھے اس لئے یہاں ہر قسم کے ٹریفک کا داخلہ ممنوع تھا۔
لبنیٰ کرسی پر بیٹھی اجنبی سیاحوں کو آتے جاتے تصویریں بناتے دیکھتی رہی۔
کچھ دیر گزری۔
”پتا نہیں سرخان کہاں رہ گیا ہے۔ ابھی تک پہنچا نہیں ہے۔” اس نے دل میں سوچا اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی تو خاتون لپک کر قریب آئی اور فوراً اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
Sit down بیٹھ جائو۔۔ اپنی جگہ سے نہ اٹھو۔ تمہارے گائیڈ نے سختی سے کہا تھا کہ اس لڑکی کو بالکل اپنی جگہ سے ہلنے نہ دیں۔
“Sit down.”
اس نے رعب اور فکر مندی سے کہا۔
لبنیٰ میکانکی انداز میں دوبارہ بیٹھ گئی۔
پردیس میں آکر انسان کتنی جلدی دوسروں کے رعب کے زیر اثر آجاتا ہے۔
وہ خاموشی سے انتظار کرتی رہی۔
کچھ دیر بعد سرخان وہاں پہنچا۔
”مس لبنیٰ۔”
اس نے دور ہی سے لبنیٰ کو آواز دی۔
”شکر ہے کہ سرخان صاحب پہنچ گئے۔”
لبنیٰ کو اطمینان ہوا۔
سرخان نے اس اجنبی ہمدرد ترک خاتون کا شکریہ ادا کیا پھر لبنیٰ کے پاس آیا۔
”چلیں مس لبنیٰ، شکر ہے کہ آپ نے عقل کا مظاہرہ کیا اور مجھے فون کردیا۔ آئندہ بہت محتاط رہیں۔ گروپ کے ساتھ ساتھ رہیں۔ یہاں مختلف ملکوں سے ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ کسی شخص کا گم ہونا مسئلہ بن سکتا ہے۔”
اس نے سمجھاتے ہوئے کہا پھر وہ اسے ساتھ لے کر ریسٹورنٹ آگیا۔ جہاں لوگ شدت سے لبنیٰ کے منتظر تھے۔
لبنیٰ تھکے ہارے انداز میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے لئے کھانا منگوایا گیا۔ اس نے سوچا خیر یہ بھی اک ایڈونچر ہی تھا۔
کھانے کے بعد سب لوگ استنبول کے شہرہ آفاق گرینڈ بازار چلے آئے۔
وہ خوبصورت گلیوں والا سجا ہوا بازار تھا۔ جو کسی ونڈر لینڈ کی طرح لگتا تھا۔ یہ ترکی کا قدیم بازار تھا۔ وہاں تقریباً چار ہزار دکانیں تھیں۔ ٹرکش جیولری، زیورات، لیمپ، برتن، ظروف، کپڑے، سکارف، گھڑیاں، ٹوپیاں، پرس ، ڈیکوریشن پیس، خشک میوہ جات، پھلوں کی چائے، ٹرکش مٹھائیاں، غرض بے شمار اشیاء کی دکانیں تھیں۔
خوبصورت لیمپ چھت پر لٹکے تھے جن پر رنگین نقش ونگار بنے ہے۔ دکانوں کے باہر ترکی کا پرچم لہرا رہا تھا۔
یہ استنبول کا مہنگا بازار تھا یہاں آپ کو پاکستان کی طرح بھائو تائو کروانا پڑتا ہے۔ لوگوں نے کافی شاپنگ کی، بازار سے واپس آئے تو کچھ دیر ہوٹل میں آرام کیا۔ پھر رات کا کھانا ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں کھایا۔ ترکی میں آٹھ، نو بجے رات کا کھانا کھالیا جاتا ہے۔
کھانے کے بعد میں عائشہ کے کمرے میں آئی۔ جہاں یسریٰ بھی موجود تھی۔
”یہیں قریب ہی ٹاکسم اسکوائر اور استقلال اسٹریٹ ہے۔ پیدل کا راستہ ہے۔ ہوٹل سے باہر نکلیں دائیں مڑیں ، سیدھاجائیں تو ٹاکسم اسکوائر آجائے گا۔ ہم لوگ پیدل جارہے ہیں۔ آپ چلیں گی؟”
عائشہ نے کہا۔
”ٹاکسم اسکوائر!”
میںنے بے ساختہ ایکسائیٹڈ انداز میں کہا۔ تھکن بھی تھی مگر ٹاکسم اسکوائر دیکھنے کی آرزو شدید تھی۔
”ہاں میں ضرور چلوں گی۔”
میں خوش ہوگئی۔
ہم تینوں ہوٹل سے نکل کر پیدل ہی ٹاکسم اسکوائر کی جانب چل دیئے۔
باہر بہت رونق تھی۔ سڑک پر گاڑیوں کا رش تھا۔ ہم فٹ پاتھ پر چلتے رہے۔
”مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ ہم ٹاکسم اسکوائر جارہے ہیں۔”
میں نے فٹ پاتھ کے کنارے چلتے ہوئے ایکسائیٹڈ اندا زمیں کہا۔
”آپ ترکی میں ہیں اور ہم استنبول میں کہیں بھی جاسکتے ہیں۔”
عائشہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہم ہنستے مسکراتے باتیں کرتے ہوئے ٹاکسم اسکوائر پہنچے جسے تقسیم اسکوائر بھی کہاجاتا ہے۔ یہ ترکی کا تاریخی mounment تھا۔ شہر کے مختلف علاقوں کی سڑکیں یہاں آکر ملتی تھیں۔ اہم موقعوں پر یہاں پر جلسے جلوس کا اہمنام بھی کیا جاتا ہے۔
”وہ دیکھیں ٹاکسم اسکوائر!”
عائشہ نے سامنے چوک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو ش و خروش بھرے اندا زمیں کہا۔
میں نے بھلا کب سوچا تھا کہ ایک دن ہم استنبول کی سڑکوں پر چلتے ہوئے ٹاکسم اسکوائر آئیں گے۔ خواہشیں یوںبھی پوری ہوجایا کرتی ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کے راز ہیں، کب کس کو کسی چیز سے نواز دے۔ جو خواہشیں انسانوں سے نہ کہی، انہیں رب جانتا ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی معبود برحق ہے، تمام تعریفیں اُسی کے لئے ہیں۔ وہی وسیلے بناتا ہے، وہی انسانوں کو نوازتا ہے۔ دنیا اُسی کی ہے، کائنات کی ہر شے اُسی کی ملکیت ہے، بادشاہت اسی کی ہے، حکمرانی کا تخت بھی اُسی کا ہے۔
ہم چلتے ہوئے ٹاکسم اسکوائر کے قریب آئے جہاں برقی بلب روشن رہے تھے۔ کچھ دیر ہم وہی رُکے رہے پھر استقلال اسٹریٹ چلے آئے جو وہیں
One Comment
بھترین فکشن، لکھنے کا انداز خود کو ماحول کے اندر پانے جیسا ، بھترین محسوسات اور مکمل معلومات کے ساتھ، بھت کم لکھاری اس طرح سے اپنا سفر نامی یادگیری کے ساتھ بیان کیا کرتے ھیں، جاندار لکھائی نے من کو مائل کردیا، اشتیاق پیدا کیا ھے کہ ھم بھی اس طرح سے ان جگہوں پر گھومتے جائیں۔