جب کبھی میں اخبار اٹھاتی ہوں اور خبروں پر میری نظر پڑتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ لوگ ان سے نکل کر ہمارا گریبان پکڑتے ہیں کہ تم جو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو، ہمارا درد کیوں نہیں لکھتے؟ جو تکلیف ہم سہہ رہے ہیں اس تکلیف کو زبان کیوں نہیں دیتے؟
کل ایک خبر میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگی۔
”یہ دیکھو! میں تمہیں نظر نہیں آرہی؟ میرے خاوند نے مجھے مار دیا۔ اب میں زمین سے زبانوں پر آگئی ہوں۔ میرے بچے مجھے پکارتے ہیں۔ مجھے ابھی زمین پہ رہنا تھا۔”
میں جب کھانا لے کر اخبارپہ نظر دوڑانے لگتی ہوں تو غربت میری طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتی ہے۔
”میں کچھ نہیں کر سکتی۔” میں بے بسی سے اسے جواب دیتی ہوں۔
”تم یہ آدھا کھانا میرے کسی بچے کو دے کر تھوڑا سا حصہ ڈال سکتی ہو۔ پر تم کیوں ایسا کرو گی؟ تمہیں تو کوئی غرض نہیں۔ تم اپنا پیٹ بھرو اور ہمدردی جتاتی رہو۔ یہی تو کر سکتے ہو تم لوگ۔”وہ جواباً چیختی ہے اور میں اپنے کان بند کر لیتی ہوں۔
ہاں! کل ایک امیر کی سخاوت کی داستان پڑھی، میرا دل خوش ہو گیا۔ مطمئن ہو گئی میں۔ یہ نہ سہی، تو وہ سہی۔
تھر کا یہاں کیا ذکر؟ وہ بہت دور ہے۔ وہاں لوگ نہیں بستے۔ ہمارا کیا لینا دینا؟کشمیر کا کیا ہے؟ ساٹھ سے اوپر عمر ہو گئی ہے اس کی، بوڑھا ہو رہا ہے ناں۔
میں کیا کر سکتی ہوں؟ دیکھو مجھے ٹینشن نہیں لینی۔ اس سے ڈپریشن ہوتا ہے اور ڈپریشن سے موت۔ کوئی خبر پڑھ کر کبھی دورہ پڑگیا تو کیا پتا ہسپتال میں جگہ ملے نا ملے۔ مر گئی تو میرا کیا بنے گا؟ نہیں! مجھے نہیں پڑھنا کچھ۔ یہاں تو روز یہی چلتا ہے، روز یہی ہوتا ہے۔ میں اب اخبار کو بس پیکنگ کے لیے استعمال کرلیتی ہوں، یا ردی میں جلا دیتی ہوں۔ جب آگ لگتی ہے اخباروں کو تو لوگ چیختے ہیں۔ میں بس دیکھتی رہتی ہوں پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ راکھ بن جاتی ہے۔ میں قدم اٹھاتی ہوں اور اسے مٹی میں ملا دیتی ہوں۔ میں جب مٹی میں جاؤں گی تو یہ لوگ میرا گریبان پکڑیں گے، پر مجھے کیا؟ میں نے کون سا ابھی جانا ہے۔ ابھی تو میری عمر پڑی ہے۔ ہے نا؟