میں اس ایک رات میں سیانی ہو گئی۔ آپا کا شہاب بھائی کے گلے لگ کر رونا اور بھائی کا التجا کرنا کہ ساتھ چلو۔ میں نے کئی بار آپا کی حالت دیکھ کر ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کیے تھے۔
ماموں میاں نے اپنے تئیں ایک دانشمندی کا فیصلہ کیا۔ اماں اور ماموں میاں ایک بند کمرے میں جانے کیا کھسر پھسر کرتے رہے۔ باہر آئے تو اماں نے خوشی سے آپا کو گلے لگایا اور بولیں۔ مبارک ہو سیف نے اپنے حامد کے لیے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔
’’حامد بھائی؟‘‘ آپا کے بجائے میں بولی۔
’’وہ ہیں میری آپا کے قابل؟ چھی اماں؟‘‘
’’کیوں کیا برائی ہے اس میں؟‘‘
’’آپا سے بارہ سال بڑے ہیں۔ یہ بڑی توند ہے ان کی اور اور… دانت دیکھے ہیں ان کے پان کھا کھا کر۔‘‘
اماں کا زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر پڑا۔ ’’تیری حسین آپا جیسوں کی شادی نہیں ہوا کرتی سمجھی تم۔ شکر کرو سیف نے ترس کھا لیا ہے۔‘‘ مجھے بہت رونا آرہا تھا
’’آپا آپ انکار کر دیں۔ آپ کو میری قسم۔‘‘
آپا نے خالی خالی نظروں سے مجھے دیکھا۔
’’آپا وہ بالکل اچھے نہیں ہیں۔ بالکل بھی نہیں۔‘‘
’’کیا فرق پڑتا ہے چھوٹی۔‘‘
شادی طے ہو گئی۔ ممانی خوش تھیں۔ حامد بھائی کی تو باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ ماموں میاں بھی خوش تھے ان کے بیٹے کا گھر بسنے والا تھا اور لڑکی بھی کیا ملی تھی شہزادی اور خود شہزادی۔ روز بہ روز زرد ہوتی جا رہی تھی۔ چلتی تو ایسا لگتا پاؤں زمین پر نہیں کہیں فضا میں پڑ رہے ہیں۔ بات کرتی تو لگتا سسکیاں لے رہی ہوں۔ اماں کہتی تھیں آسیب ہے۔ کیا آسیب حامد بھائی کی ڈراوؑنی شکل دیکھ کر ہی جائے گا شاید۔ مایوں والے دن آپا بہت حسین لگ رہی تھیں چہرے کا رنگ کپڑوں جیسا ہو رہا تھا۔ سرخ پھولوں کا گہنا ابٹن لگائے۔ نازک گلابی ہاتھوں پر مہندی ایسی جچ رہی تھی جی چاہتا کہ ان کو دیکھتی جاوؑں۔ آپا نے بہت لجاجت سے مجھ سے پہلی بار ایک فرمائش کی۔ وہ چھوٹی فون کرنا ہے۔ بات کرا میری میں نے درمیانے گول کمرے سے تار کھینچی اور فون آپا کے ہاتھ میں لا کر دیا، تو لگا دنیا میں اس سے بڑی خوب صورت اور سعادت مندی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔
’’تو جا۔‘‘ انہوں نے کہا اور میں باہر آگئی۔
جانے کیسے اماں کی نظر پڑ گئی تار کو دیکھتی دیکھتی کمرے میں آگئیں میں ان کے پیچھے تھی۔
’’خدا حافظ۔‘‘ آپا نے کہا ا ور فون بند کر دیا۔
پتا نہیں کس سے بات کی تھی نہ اماں نے کچھ کہا اور نہ ہی میں نے۔ وہ آپا کو فون کرتا دیکھ چکی تھیں۔ بہت حیران ہوئی کہ انہوں نے آپا سے کوئی سوال کیوں نہیں کیا۔ اگلی صبح نکاح تھا آپا آنکھیں کھولے چھت دیکھ رہی تھیں کہ اماں کمرے میں آگئیں۔ ان کے ہاتھ میں دودھ کا گلاس تھا۔ میں نے سوچا شکر ہے اماں کو آپا پر پیار تو آیا۔ انہوں نے کہا۔
’’مہرو جاگ رہی ہو۔‘‘
’’جی۔‘‘ آپا اٹھ کر بیٹھ گئیں۔
’’کل تمہارا نکاح ہے۔‘‘
’’جی۔‘‘ وہی سسکی گونجی۔
’’میں چاہتی ہوں تم جب یہاں سے رخصت ہو کر سسرال جاوؑ تو تمہارے دماغ کے کسی کونے میں شہاب پر ذات کا سایہ نہ ہو۔‘‘
’’یہ میرے اختیار میں نہیں۔‘‘
انہوں نے بے بس سے لہجے میں کہا۔
’’تم میری ناک کٹوانا چاہتی ہو؟‘‘
’’اماں سوچ پر پہرہ کیسے لگ سکتا ہے۔ نہیں لگتا اماں۔‘‘
’’تمہارے سامنے دو راستے ہیں۔ شہاب کا آسیب اتار کر سیف کی ہو جاوؑ۔ یا یہ پی لو۔‘‘
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’دودھ۔ زہر ہے اس میں۔‘‘
اور شاید اماں کو شک بھی نہ ہوا ہو گا۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ آپا ان کے ہاتھ سے گلاس لے کر ایک ہی سانس میں دودھ کا پورا گلاس پی جائیں گی۔ ایک لمحے میں ایک سانس میں اور پھر اگلی سانس بے قابو ہو گئی۔ وہ تو پہلے دعاوؑں کے سہارے جی رہی تھیں۔ ایسی دوا ملی کہ سہارے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ اماں نے سینے پر دو ہتھڑ مارے چیخنا چاہتی تھیں، مگر جگ ہنسائی کے ڈر سے انہوں نے آپا کو چپ چاپ مرنے دیا۔
گھر میں ممانی کے میکے والے بھی تھے اور اماں کے بھی وہ کیا کریں کیا نہ کریں۔ آپا کے منہ سے جھاگ نکلی۔ چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ تو اماں نے ماموں میاں کو ایک بار پھر راز میں لیا اور آپا کی موت کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا۔
آپا کا چہرہ سفید کفن میں پرسکون ہو گیا۔ ہاتھوں کی مہندی اور ابٹن کی خوشبو کافور کی خوشبو کے ساتھ مل کر ایسی مہک دے رہی تھی کہ پھر ایسی خوشبو نہ سونگھی۔
’’ہائے ہائے مہرو کا آسیب اس کو لے کر ہی ٹلا۔ آسیب گھر بنا لیتا ہے۔ جاتا نہیں اور جس پر عاشق ہو جائے اس کو پھلنے بھی نہیں دیتا۔ جینے نہیں دیتا۔ مہرو کی طرح جان لے کر ٹلتا ہے۔‘‘
اماں آپا کے بعد اکثر مجھے سمجھایا کرتیں اور میں سمجھ بھی جاتی، لیکن کچھ باتیں اختیار میں نہیں ہوتیں جیسے آپا نے کہا۔ سوچ پر پہرہ کون لگائے۔ آپا کے مرنے کے بارہ سال بعد میری زندگی میں طوفان آگیا۔ ویسے تو ان بارہ سالوں میں بھی کوئی کم طوفان نہ آئے تھے۔ ابا چل بسے۔ اماں کی آنکھوں میں ایک قطرہ آنسو نہ دیکھا، بعدمیں شاہانہ خالہ آئیں اور انہوں نے مجرمانہ اقرار کرتے ہوئے کہا۔
’’مجھے معاف کر دینا آپا بہت بھول ہوئی مجھ سے۔ آپ کی قسم میں تہی دامن ہی رہی ہوں۔‘‘ سلیمہ نے مہرو کے جانے کا صدمہ لیا۔ اس کی موت کا ذمہ دار خود کو سمجھتے رہے۔ گھلتے رہے۔
’’جیتے جی تو بچی باپ کے سینے سے لگنے کو ترستی رہی۔‘‘
اماں نے اپنے جی کے پھپھولے پھوڑے۔
’’بس اب انہیں معاف کر دیجیے آپ اور … مجھے بھی۔‘‘
اماں نے اس دن ابو کے مرنے کا ماتم کیا۔ بہت روئیں کہنے لگی۔ ’’بھروسے کی مار لگی ہے مجھے تو۔ شاہانہ تجھے بہن سمجھا اور میاں کو دیوتا۔ دونوں نے میری پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا۔ رہی سہی کسر مہرو نے پوری کر دی۔‘‘
شاہانہ آنٹی چلی گئیں۔ اب اماں کو چپ لگ گئی۔ اُنہیں ابا کی موت نے احساس دلایا کہ وہ تو ان کو بہت چاہتی تھیں۔ اتنا زیادہ کہ شراکت برداشت نہ کرپائیں اور پھر آپا آپا کا سوچ کر تو وہ ہاتھ ایسے ملتیں جیسے اپنی کوئی بے بسی کا ماتم کرتا ہے۔ اُنہیں پھر بھائیوں کا غم کرتے نہ دیکھا۔ آپا کے بعد میری زندگی بہت پھیکی تھی۔ میں کسی کا دامن پکڑ کر نہیں سوتی تھی۔ چونک چونک کر میری آنکھ کھلتی۔ لگتا آپا کی سسکیاں گونج رہی ہیں۔ کبھی کھڑکی پر وہ شہاب بھائی کے کندھے سے لگی دکھائی دیتیں اور کبھی میرے بال سہلا رہی ہوتیں، لیکن وہ کہیں نہیں تھیں۔ ہاں کبھی کبھی چاند میں ان کا عکس دکھائی دیتا۔ وہ کہتی تھیں جو محبت میں جان دیتے ہیں وہ چاند پر رہتے ہیں۔ ہائے اللہ پتا نہیں وہ وہاں اتنی دور میرے بغیر۔ شہاب بھائی کے بغیر کیسے رہتی ہوں گی؟
عالی چچا کامران کا بیٹا تھا۔ اماں کو عالی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن چچا ابو کے بھائی دنیا دار، جگ ہنسائی لوگ کیا کہیں گے۔ ایسے شخص کو لڑکی دے دی جن کے بھائی نے ڈھلتی عمر میں سوت ہی نہیں طلاق کا ٹیکا بھی ماتھے پر دھبے کی طرح لگا کر میکے روانہ کر دیا۔
اماں کا حکم نامہ جاری ہوا تب مجھے یاد آیا۔ آپا نے اپنی مایوں کی رات فون پر کسے خداحافظ کہا تھا۔ انہوں نے ایک سانس میں زہر ملا دودھ کا گلاس کیوں پی لیا۔ محبت کا آسیب سرچڑھ کر بولتا ہے، تو سدھ بدھ کہاں رہتی ہے۔
شہاب بھائی تو بہت کم گو تھے۔ کبھی اماں کے سامنے بات نہ کی۔ عالی نے شور مچا دیا۔ اماں سے بولو اگر آپ کو تایا ابا نے طلاق دی تھی، تو اس میں ہمارا کیا قصور… مگر اماں سزا سناتے ہوئے قصور کہاں گنواتی تھیں۔ کہہ دیا سو کہہ دیا۔
میری بات طے کر دی گئی میں بہت روئی۔ بیٹی عالی نے مجھے ورغلانے کی پوری کوشش کی، مگر جانے کیوں مجھے آپا کی وہ بات یاد آگئی۔ جب وہ شہاب بھائی کے کندھے سے لگی روتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
’’نہیں جا سکتی۔ اماں کا رشتوں سے اعتبار اٹھ جائے گا اور اماں کہتی ہیں ان کو بھروسے کی مار پڑی ہے۔‘‘
ہائے اللہ۔ کروں تو کیا کروں۔ میرے آنسو نہ تھمتے تھے۔ اماں میرے لیے پریشان تھیں، لیکن ان کی انا ان کی دنیا داری میری آنکھوں میں جھانکنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔
عالی نے مجھے میسج میں لکھا اگر میں نے شادی سے انکار نہ کیا، تو وہ سچ کہتی ہیں اماں بھی عاشتوں نے موت کو کھیل سمجھ لیا ہے۔ عالی بھی یہی کہہ رہا تھا۔ میں شہاب بھائی کی طرح بزدل نہیں ہوں۔ چوڑیاں نہیں پہنی میں نے اور مجھے یہ خوف کہ وہ جو کہتا ہے کر دکھاتا ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا۔ ایسا ہے، تو پھر ایسا ہی سہی۔ میں نے دودھ میں چاولوں میں رکھنے والی گولیاں ڈالیں اور اماں کے پاس چلی گئی۔
اماں فجر کی نماز کے بعد تسبیح کر رہی تھیں۔ میرے ہاتھ میں شیشے کا گلاس دیکھا، تو گھبرا گئیں۔ اس میں دودھ تھا۔ وہ بھی بارہ برس پیچھے چلی گئیں۔ میری طرح۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’دودھ۔ زہر سے ملا ہوا۔‘‘
’’لیکن…‘‘ وہ میرے سرد لہجے سے خوف زدہ ہو گئیں۔
’’اماں محبت واحد وہ جذبہ ہے جس کی تاریخ نہیں بدلتی۔ آپ سچ کہتی ہیں یہ آسیب گھر بنا لیتا ہے۔ میری محبت کے سائے میں بھی دو راستے ہیں۔ رہائی یا جدائی۔‘‘ رہائی کہتے کہتے میں نے گلاس آگے بڑھایا۔ اماں کے ہاتھ سے تسبیح چھوٹ گئی۔
’’آپا کا فیصلہ آپ نے آپا پر چھوڑا تھا۔ میرا آپ کریں گی۔‘‘
’’پاگل ہوئی ہے کیا؟‘‘
’’ابھی میں نے مہندی نہیں لگائی۔ مہمان بھی گھر پر نہیں ہیں۔ کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا۔‘‘ میری بات ابھی ادھوری تھی کہ اماں نے گلاس کو اپنے ہاتھ سے پرے پھینک دیا۔ مجھے گلے لگا کر رونے لگیں اور اتنا روئیں کہ شاید اس سے پہلے کبھی روئیں تھیں اور نہ اب کبھی رونے جیسی حالت رہ گئی تھی۔
’’اس منحوس آسیب نے، تو لگتا ہے میرے گھر کا رستہ ہی دیکھ لیا۔ جا جا کے کہہ دے کم بخت سے اس بار وہ جیت جائے۔‘‘
میں اور اماں دونوں گلے لگ کر زاروقطار رو رہی تھیں۔ جانے کیوں۔
٭…٭…٭