آسیب — دلشاد نسیم

میں آپا سے پورے دس سال چھوٹی ہوں۔ اماں بتاتی ہیں ان دس سالوں میں ہمارے دو بھائی ہوئے مگر بدقسمتی سے دونوں ہی کی زندگی نے وفا نہ کی۔ اماں اب بھی کبھی کبھی ہاتھ مل کے ان کی یاد کو آنکھوں کے پانی سے تازہ کرتی رہتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں یہ نمکین پانی ان دونوں کی یاد کو ہرا کر دیتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ ہرا رنگ زہر بن کر اُنہیں بے جان بھی کر دیتا ہے۔
ہائے اماں مجھے ان پر ترس آنے لگتا، لیکن میرے ننھے ذہن میں ایک اور بات کلبلاتی۔ اگر وہ زندہ رہتے، تو اماں مجھے اور آپا کو ٹکے بھاؤ نہ پوچھتیں۔ اب بھی کون سا پوچھتی ہیں۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور جب سے ابا نے چھوڑا ہم دونوں بہنیں اماں کو کانٹے کی طرح چبھنے لگیں تھیں جیسے انہوں نے اماں کو ہماری وجہ سے چھوڑا ہو۔ بات کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی۔ گفتگوبڑوں میں ہو رہی تھی، لیکن میں نے ساری سنی۔
ابا نے کہا میرا کوئی وارث ہونا چاہیے۔
اماں نے کہا۔ اللہ نے دو دیے تو تھے۔ اس کی منظوری ہوتی تو رہتے۔
ابا کو اللہ کی یہ منظوری نامنظور تھی۔ کہنے لگے شرع میں اجازت ہے، میں دوسری شادی کر سکتا ہوں اور دونوں بیویوں کو ان کے حق ادا کر سکتا ہوں، تو اماں نے ایک نہ سنی۔ چٹخ کر بولیں۔ میری خدمت کا حق کیسے ادا کرو گے اور وہ ساری راتیں جو میں تمہارے بغیر گزاروں گی اور تم اس کے ساتھ۔ شدت غم سے ان کی سانس پھول رہی تھی، لیکن وہ بولے گئیں۔
سلیم احمد یہ میرا حق ہے۔ کاغذ کے پرزے پر لکھا حق مہر نہیں جسے تم نے پہلی رات ادا کر کے مجھے خریدا تھا۔
ابا نے تلملا کر کہا۔ نکاح تو میں کر چکا ہوں، تم قبول کر لو اور ساتھ رہ لو۔ نہ رہنا چاہو، تو تمہاری مرضی۔ میں نے اماں کو اس دن سے زیادہ بے کل کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ساری رات انہوں نے کروٹیں بدل بدل کے اور آنسو پونچھ پونچھ کر گزاری۔ ایک بار میں نے اماں سے ڈرتے ڈرتے پوچھا بھی۔ اماں بھائی یاد آرہا ہے؟
اماں نے مجھے غصے سے گھورا۔ وہ بہت ڈراؤنی لگ رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں سرخ اور چہرہ سخت ہو رہا تھا۔ میں نے ڈر کے آپا کو دیکھا۔ اُنہیں تو خیر بالکل نیند نہیں آتی تھی۔ سنا تھا اُنہیں اثر ہو گیا ہے۔ جوان ہیں خوبصورت بھی تو بہت ہیں۔ یہ لمبے بال اور آنکھیں ہائے اللہ ان کی آنکھیں جو ایک بار دیکھ لو تو پتا نہیں شہاب بھائی کیسے ان کی آنکھوں میں جھانک لیتے اور بالکل نہیں گھبراتے۔ آپا ہی کو شرم آجاتی ہے۔ ابھی ایک ہفتے کی بات ہے۔ آپا نے چھت پر رکھے لکڑی کے جھولنے پر جھولتے جھولتے غالب کا کوئی شعر پڑھا۔ اس وقت شہاب بھائی مجھے انگریزی کے ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ سمجھا رہے تھے۔ شہاب پر نظر جمائے جمائے بولے۔




’’تم تو خود شاعر کا خواب ہو۔ تم شعر نہ پڑھا کرو۔‘‘
آپا اسی طرح آنکھیں موندے موندے بولیں۔
’’توبہ۔ میں کیوں ہوتی کسی شاعر کا خواب۔‘‘
’’نہیں یقین آتا، تو آئینہ دیکھ لو۔ زلف گھٹا، آنکھیں پیمانہ، ہونٹ گلاب، گردن صراحی۔‘‘
آپا کھلکھلا کے ہنسیں، میں نے معصومیت سے کہا۔
’’اور دانت؟‘‘
آپا نے ہونٹ سکیڑ لیے۔ ’’یہ چھوٹی ساری باتیں سمجھتی ہے۔‘‘
سمجھتی تو نہیں تھی خیر لیکن سمجھنا چاہ رہی تھی۔
’’اور دانت… ناریل کی کچی گری جیسے، چمکتے، پکیاں اجلے گلابوں کی قید سے آزاد ہوں، تو اندھیرے میں روشنی ہو جائے۔‘‘
’’شہاب رضا شاعر جھوٹے ہوتے ہیں۔ تم ایسا نہ کرنا۔
آپا کے آخری جملے میں کچھ تھا شہاب بھائی کو چپ لگ گئی۔ آپا کی آنکھوں کے پیمانے چھلک گئے۔
اب سے پہلے تو کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ شہاب بھائی اور آپا گھنٹوں ساتھ ساتھ ہنسے، کبھی چپ نہ ہوئے۔ نہ آپا کی آنکھوں میں آنسو آتے۔
گھر کا ماحول ویسے ہی کچھ کھچا کھچا سا تھا۔ اس پر شام کو گڑکے ساتھ بھنے چنے کھاتے کھاتے میں نے اماں سے کہہ دیا۔ ’’اماں آپا خود سے باتیں کرتی رہتی ہیں۔‘‘
اماں نے ’’آئے ہائے‘‘ کہہ کر سینے پر ہاتھ رکھا۔
’’ہاں۔ روز کرتی ہے، تو کہاں ہوتی ہے اس وقت۔‘‘
’’میں۔ میں وہیں جہاں شہاب بھائی مجھے پڑھا رہے ہوتے ہیں اور آپا جھولے پہ جھولتی ہے آنکھیں بند کر کے کبھی شعر پڑھتی ہیں اور کبھی باتیں کرتی ہیں۔‘‘
’’اماں کی بے قراری میں دو سو فیصد اضافہ ہو گیا۔‘‘
’’شہاب باتیں نہیں کرتا اس کے ساتھ؟‘‘ سوال میں گہرا سوال تھا۔
’’نہیں۔ وہ تو پڑھا رہے ہوتے ہیں۔‘‘ اماں پریشان ہو گئیں۔
’’ہو نہ ہو اس پر سایہ ہو گیا ہے۔‘‘
’’سایہ تو زمین پر ہوتا ہے۔ وہاں کسی کے اوپر کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
’’تم نہیں سمجھو گی۔‘‘
’’پتا نہیں سب لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ میں نہیں سمجھوں گی۔ آج نہیں، تو کل میں ان ساری باتوں کو سمجھنے لگوں گی۔‘‘
جس دن ماموں یہاں آئے۔ اس شام ابا کے ساتھ جو عورت آئی اسے، تو ہم سب جانتے تھے۔ پتا نہیں اماں نے اتنا شور کیوں مچایا۔ اس سے پہلے جب بھی شہاب بھائی کی بہن شاہانہ ان کے ساتھ آتیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتیں۔
اماں نے رات ہی بیگ تیار کرکے رکھ دیے تھے۔ آپا نے پوچھا، تو کہنے لگیں کل تمہارے ماموں آرہے ہیں ہمیں لینے۔
’’مگر کیوں؟‘‘
میں نے پوچھا۔ ’’میں نہیں جاؤں گی۔ مجھے ان کا گھر اچھا نہیں لگتا۔‘‘
اماں نے زناٹے دار تھپڑ میرے گال پہ مارا۔ آپا نے مجھے اپنی گرم آغوش میں بھر لیا۔
’’اماں شادی آپا نے کی ہے، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ ہمیں کیوں بے گھر کر رہی ہیں۔‘‘
’’تم دونوں کا تو قصور ہے۔ آج اگر تم دونوں کی جگہ میرے بیٹے ہوتے تو سلیم کیوں دوسری شادی کرتا۔‘‘
اماں دوسری شادی کے لیے ’’جواز‘‘ جھوٹے ہوتے ہیں۔ اگر ہماری جگہ بیٹے ہوتے، تو ابا کسی اور بہانے شاہانہ خالہ کو گھر لے آتے۔
اماں نے سخت لہجے میں فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’دیکھو ہم نے جانا تو ہے۔ مجھ سے سوت کا دکھ سہا نہیں جائے گا۔‘‘
’’طلاق کے ساتھ رہنے سے تو بہتر ہے عورت سوت کے ساتھ رہ لے۔‘‘
’’بہت زبان چلتی ہے تیری۔‘‘ اماں نے آپا کی محبت بھری آغوش سے نکال کے مجھے ایک طرف کیا اور آپا کی نشیلی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
’’شہاب کے ساتھ کیا معاملہ ہے تیرا؟‘‘
’’میرا؟‘‘ وہ گھبرا گئی۔
’’تیرا…!‘‘ اماں توبہ توبہ۔ اتنا ڈراؤنا انداز ہے ان کے بولنے کا۔ مجھے چھوٹی نے سب بتا دیا ہے۔
’’نہیں آپا۔ میں نے اماں کو کچھ نہیں بتایا۔ مجھے آپا کی گود چھن جانے کا خوف لاحق ہو گیا۔‘‘
’’میں نے کہا تھا آپا خود سے باتیں کرتی رہتی ہیں۔‘‘ اماں قسم سے یہی کہا تھا۔
’’یہی کہا تھا۔‘‘ اماں نے ٹھنڈے لہجے میں کہا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ آپا کے دل میں کوئی بات نہیں آئی اور ایسا ہی ہوا۔ آپا جب کمرے سے نکلی، تو چپ تھی اور شام جب ہم ابا کا بڑا سارا سرکاری گھر اور بڑی سی کار چھوڑ کر ماموں میاں کی چھوٹی گاڑی میں بیٹھ کر ان کے گھر دوسرے شہر جا رہے تھے، تو آپا نے مجھے گھر میں بٹھا رکھا تھا۔ وہ مسلسل کچھ سوچ رہی تھیں۔ میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھیں، مگر ان کی انگلیوں کی حرکت میں بے چینی تھی۔ میرا چھوٹا سا ذہن پریشان تھا۔ سوچ رہا تھا آج آپا کے بال سہلانے سے مجھے مزہ کیوں نہیں آرہا۔ نیند کیوں نہیں آرہی اور الجھن سی کیوں ہو رہی ہے۔
وہ رات بہت بھیانک تھی۔ کالی سیاہ رات جب ہم ماموں میاں کے گھر پہنچے۔ اسلام آباد کا خاموش شہر جہاں بڑے بڑے درخت رات کی تاریکی میں پہاڑوں جیسے ڈراؤنے لگ رہے تھے۔ کمرے میں موت جیسی خاموشی تھی۔ ہم جس کمرے میں تھے وہاں کھڑکیوں پر پردے نہیں تھے۔ورنہ میں کب کا ان پہاڑوں کو پردوں کے پیچھے گم کر چکی ہوتی۔ آپا جاگ رہی تھیں۔
’’آپا۔‘‘ میں نے سرگوشی کی۔
’’ہوں۔‘‘ وہ بولیں۔
’’آپا ہم اپنے گھر کب جائیں گے؟‘‘
’’پتا نہیں۔‘‘
’’کیوں پتا نہیں؟‘‘
’’بس پتا نہیں۔‘‘
’’اماں کو پتا ہے؟‘‘
’’پتا نہیں۔‘‘ انہوں نے کروٹ بد لی۔
’’آپا‘‘ میں پھر بولی۔
’’سو جاؤ اب۔ دیکھو کتنی رات ہو چکی ہے۔‘‘
’’آپا۔‘‘ میں نے ان کی طرف رخ کیا۔
آپا نے مجھے دیکھا۔ مجھے اتنے اندھیرے میں بھی آپا کی آنکھوں کے جگنو دکھائی دے گئے۔
’’آپا طلاق کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’ضروری نہیں ہے سارے سوالوں کو جواب مل جائے۔‘‘
’’سوت۔ اماں کہہ رہی تھیں کہ…
’’چھوٹی میں دوسرے کمرے میں چلی جاؤں گا اگر تنگ کیا تو۔‘‘
میں نے ان کے گرد بازو ڈال دیے۔
’’مجھے لگا وہ رو رہی ہیں۔ میرے اندر کتنے سوال ہلچل مچا رہے تھے، مگر کیسے پوچھتی۔ وہ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی جاتیں تو…‘‘
ہمیں آئے تین ماہ اور بیس دن ہو گئے تھے۔ اماں کہہ رہی تھیں ابھی وہ کہیں نہیں جا سکتیں اور ساتھ رو پڑیں۔ بھلا اس میں رونے والی کیا بات تھی۔ بعد میں چلی جائیں گی۔ اس رات اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی ہو کر جب میں چاند کو دیکھ رہی تھی، تو مجھے لگا اس کے اندر کوئی رہتا ہے، کون رہتا ہو گا اور ایک دو نہیں کئی لوگ چلتے پھرتے نظر آرہے تھے۔ شاید بڑھیا ہی رہتی ہو تو۔
آپا سے ڈرتے ڈرتے میں نے پوچھا، تو کہنے لگیں۔
’’چاند میں وہ لوگ رہتے ہیں جو محبت میں جان دے دیتے ہیں۔‘‘
آپا کی باتیں آج کل مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب شہاب بھائی اچانک ہمارے گھر آگئے۔ اماں نے اُنہیں دیکھ کر وہ واویلا مچایا کہ توبہ ہی بھلی۔ آپا کو لے کر کمرے میں بند ہو گئیں۔
’’یہ کیا لینے آیا ہے یہاں؟‘‘
جانے آپا نے کیا کہا اماں پھر چیخیں۔
’’اسے کہو یہاں سے چلا جائے نہیں تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔‘‘
’’صبح چلا جائے گا۔‘‘ آپا منمنائی۔
اور ایسا ہی ہوا۔ وہ صبح سویرے ہی چلے گئے لیکن مجھے آج تک یاد ہے رات جانے کس پہر اماں سوئیں ہوں گی وہ دبے قدموں اندر آئے۔ آپا جاگ رہی تھیں۔ میری تو جیسے ان کے ساتھ تار جڑی ہوئی تھی۔ وہ اٹھیں، تو میں بھی اٹھ گئی۔ شہاب بھائی کو کمرے میں دیکھا، تو مجھے حیرت ہوئی۔ ابھی میں کچھ کہنے ہی والی تھی کہ میری موندی آنکھوں نے دیکھا شہاب بھائی باہر لان کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پٹ سے ٹیک لگائے کھڑے ہیں اور آپا ان کے کندھے سے لگی رو رہی ہیں۔
’’تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
’’مجبور ہو گیا تھا۔ تمہاری یاد میرے سینے میں پھانس کی طرح چبھ رہی تھی۔ تمہیں بھلا نہیں پا رہا تھا۔ لگتا تھا نہ دیکھا، تو دم گھٹ جائے گا۔‘‘
شاید آپا رو رہی تھیں۔
’’تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے۔ تمہیں دیکھ کر میں ڈر گیا ہوں۔ نہ ہنستی ہو نہ بولتی ہو۔‘‘
’’محبت کا آسیب جان نہیں چھوڑتا۔‘‘
آپا نے آہ بھری اور کہا۔
’’سنو اب جاؤ چھوٹی جاگ جائے گی۔ بچی ہے جانے کیا سوچے۔‘‘
’’کیا تم میرے ساتھ چل سکتی ہو؟‘‘
’’چل سکتی ہوں، مگر اماں کا رشتوں پر سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ پہلے ابو اور اب میں۔ وہ تو بن موت مر جائیں گی۔‘‘
’’مجھے بتا دو۔ میں اتنا بہادر کیسے ہو جاؤں۔ کیسے تمہیں بھولوں؟‘‘
’’زندہ رہنے کے لیے ایک دوسرے کو بھولنا ضروری ہے؟ شاید کبھی اماں کا غصہ ختم ہو جائے۔ اُنہیں ترس آجائے پھر شاید ہم مل سکیں۔‘‘
رات آہستہ آہستہ اتر رہی تھی۔ میں جاگ کر بھی سوتی رہی۔ کروٹ بھی نہیں لی۔ شہاب بھائی چلے گئے۔ آپا نے وہ رات کھڑکی سے لگے لگے گزار دی۔
صبح اُنہیں بہت تیز بخار چڑھ چکا تھا۔ ممانی کہنے لگیں ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ ماموں میاں نے ڈاکٹر بدل بدل کر دیکھا بخار توچلا گیا، مگر آپا کو کھنڈر کر گیا۔




Loading

Read Previous

ٹرانسفر لیٹر — افتخار چوہدری

Read Next

فیصلہ — محمد ظہیر شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!