وہ موسمِ زرد کی ایک شام تھی!
اس دن بھی وہ ریسٹورنٹ کی اسی نشست پراُداس بیٹھا تھا، جہاں وہ اپنی مرحومہ بیوی روزینہ کے ساتھ اکثر شام کافی پیتے ہوئے ڈھیروں باتیں کیا کرتا تھا ۔روزینہ کی وفات کو پانچ برس بیت چکے تھے۔۔۔ ان پانچ برسوں میں ان گنت لوگ لقمۂ اجل بنے اور ان گنت نے جنم لیا،لیکن اس کی زندگی شام کے اداس سورج کی مانند ہر لمحہ ڈوبنے کے لیے بے قرار رہی۔۔۔بیالیس برسوں کی رفاقت کوئی معمولی بات تو نہیں ہوتی اور رفاقت بھی ایسی کہ درمیان میں کبھی کوئی تیسرا نہ آسکا، حتٰی کہ کسی ننھے مہمان نے بھی آنے کی جرأت نہ کی۔
ساری عمر خوابوں کے پیچھے بھاگتے رہنا اور پھر خوابوں کو سینے سے لگا کر ہانپتے رہنا، کیا اس بھاگنے اور ہانپنے کے درمیانی وقفے کو زندگی کہتے ہیں؟
اس نے یہ سوچتے ہوئے ریسٹورنٹ کی کھڑکی سے باہردیکھا جہاں ساکن ہوا میں ابر چھایاہوا تھا ۔شام کا سورج دور پہاڑی کے اوپر بادلوں کی اوٹ میں کہیں گم تھا ۔
گزشتہ شب ہونے والی بارش سے درختوں کے تنے ابھی تک نم تھے ۔ٹھٹھرتی ہوئی سیاہ سڑک پر چنار کے طلائی پتے بکھرے ہوئے تھے ۔سارے منظر پر عجیب ہی مغمومیت طاری تھی ۔اس کی نظر صنوبر کے اس درخت پرٹھہر گئی ،جس کے بارے میں روزینہ کا خیال تھا کہ اس قدیم سدا بہار صنوبر کی جاذبیت روزبہ روز بڑھتی جارہی ہے ،جیسے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہو،پتا نہیں یہ بوڑھاکب ہوگا؟
آہ روزینہ!اس نے گہرا سانس لیا اور سر کے سفید بالوں میں ایک ہاتھ کی انگلیوں کو پھنسا کردوسرے سے کافی کی پیالی لبوں سے لگا لی ۔اس کے چشمے کے شیشوں سے شام کی دھندلی روشنی ،کافی کی پیالی پر منعکس ہو رہی تھی ۔اسے لگا جیسے یہ اس کے آنسوؤں کی چمک ہے۔ اس نے پیالی میز پر رکھتے ہوئے جیب سے رومال نکالا اور عینک ماتھے پر چڑھا کرچند لمحوں کے لئے رومال اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔بند آنکھیں اسے ماضی میں لے گئیں جہاں ایک یادنے اس کا ہاتھ تھام کر بیس برس کی روزینہ کے سامنے لا کھڑا کیا ،جوپھولوں کی سیج پراس کے روبہ رو سرخ جوڑے میں حیا سے دُہری ہوئی جا رہی تھی اور وہ چُپ چاپ اسے تکتا جا رہا تھا۔گویا آواز کے پتھر سے طلسم ٹوٹ جانے کا خطرہ لاحق ہو!
سدا بہار صنوبر سے پرے چنار کا پیڑ اپنی برہنہ ٹہنیوں کے ساتھ خالی اور اداس کھڑا تھا ۔آہ!دنیا میں لاحاصل ہی انسان کا حاصل ہے ،اس کے ذہن میں خیال آیا ۔جسم تھکنے کے لیے جنم لیتے ہیں ۔ایسی تھکاوٹ ،جس کے بعد پلٹ کر دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا ۔موت بھی ،جس کی آمد کا دھڑکا کبھی نیندیں اڑا دیا کرتابالآخرتھکن سے چور آنکھیں اسے ڈھونڈنے لگتی ہیں۔ یہ مہ و سال کی تھکن بھی کیا ظالم شے ہے ۔ اس نے اپنے ہاتھ کی جھریوں کو دیکھ کر سرد آہ بھری۔۔۔
شام مدہوش ہو کر اندھیرے کی بانہوں میں جھولنے لگی تھی ،لہٰذا اس نے گھر جانے کاقصد کیا۔اس کا شان دار مکان ریسٹورنٹ سے زیادہ دور نہ تھا ، ابھی اس نے بل کی ادائی کے لیے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا ، کہ ایک نسوانی آواز نے اسے چونکا دیا:”اگر ناگوار نہ گزرے تو میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟”اس کا ہاتھ کوٹ کی جیب میں ٹھہر گیا۔
سر اٹھا کر آواز کی سمت دیکھا ،تو وہاں دیدہ زیب کالی ساڑھی میں ملبوس خوب صورت خاتون کو کھڑا پایا ،جس کی چمکتی آنکھوں میں بے انتہا کشش اور دل کش مسکراہٹ میں ہزار معنی پنہاں تھے۔
”جی ضرور”۔اس نے خاتون کے سراپے کا بہ غور جائزہ لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔
خاتون اس کے روبرو میز کی دوسری جانب بیٹھ گئی ”معاف کیجئے گا میں کچھ دنوں سے یہاں آپ کو بے حد اُداس دیکھ رہی ہوں آج آپ سے بات کرنے کو جی چاہا سو اس لیے۔۔۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”میں تو یہاں کئی برسوں سے آرہاہوں لیکن ہاں۔۔اب کم کم آتا ہوں ۔۔”اُس پر خاتون کی موجودگی کا ایسا سحر طاری ہوا کہ اس نے گھر جانے کا ارادہ ترک کر دیا ۔
خاتون چالیس کے قریب تھیں ۔چہرہ جاڑے کے پورے چاند کی مانندپرسکون تھا۔
”جی میں جانتی ہوں ۔۔میں نے تو ان دنوں بھی آپ کو دیکھا تھا جب آپ یہاں اسی میز پر اپنی مرحومہ بیوی کے ساتھ اک دل چسپ کھیل کھیلا کرتے تھے۔”
اس نے خاتون کی جانب یک لحظہ نظر اٹھائی اور پھر چہرہ کھڑکی کی جانب موڑ لیا ۔
”میں معذرت چاہتی ہوں اگر آپ کو میری بات سے تکلیف پہنچی ہے۔”
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔”وہ خاتون پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ اندر سے کتنا دُکھی ہے ۔زندگی کا کوئی ایک بھی پل ایسا نہیں ،جس میں اس نے روزینہ کو یاد نہ کیا ہو۔اس کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک لمحہ ذہن و دل پر پتھر کی لکیر ایسا نقش تھا۔۔۔روزینہ جو کبھی اس کی شریکِ حیات رہی تھی ، اب شریکِ ذات بن چکی تھی۔
”دیکھئے ،آپ پھر اداس ہوگئے ، اگر میرا یہاں بیٹھنا آپ کو پسند نہیں تو میں چلی جاتی ہوں ۔۔”خاتون نے بناوٹ سے اپنی بات مکمل کر کے اس کے چہرے پر نگاہیں جما دیں۔
”آپ نے اپنا تعارف نہیں کروایامحترمہ ۔”اس نے عینک کو لرزیدہ ہاتھوں سے درست کیا۔۔
”اتفاق سے میرا نام بھی روزینہ ہے اور میں یہیں پاس ہی رہتی ہوں ۔”خاتون کی سحر انگیز آنکھوں میں دیکھ کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
”آپ مجھے روزی بلا سکتے ہیں۔”وہ بڑے قاتلانہ انداز میں بولی ۔
وہ اس حسین اتفاق کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا کہ زندگی اتفاقات کا نام ہے یا سب کچھ پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ دنیا ایک ا سٹیج ہے ہم سب کردار ہیں لیکن اسکرپٹ تو کسی نے دیکھا ہی نہیں، یہ کیسا کھیل ہے !لیکن کھیل دل چسپ ہے!
”اگر آپ کی اجازت ہو تو۔۔”اچانک روزی نے خیالات میں مداخلت کر دی۔
”کیسی اجازت ؟کہیے۔”
”اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا ہم وہ کھیل، کھیل سکتے ہیں جو آپ اپنی مرحومہ بیوی کے ساتھ مل کر اسی جگہ کھیلا کرتے تھے ؟”روزی نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا۔
اس نے آنکھیں موند لیں۔ چہرے پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے ،کسی دیرینہ زخم کاکھرنڈ کھرچنے کی تکلیف کا شدید احساس !
”دیکھئے، آپ پھر اُداس ہوگئے شاید مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔”
وہ حیران تھا کہ اس اجنبی خاتون کو یہاں سے اُٹھ جانے کا کہنے کے لیے ،کیوں اس کے ہونٹوں کی جرأت جواب دے چکی تھی ؟وہ کیوں چاہتا تھا کہ وہ یہیں اس کے روبرو بیٹھی اس سے باتیں کرتی رہے ، اس کے زخموں کو کریدتی رہے ۔
وہ کچھ دیر سر جھکائے بیٹھا رہا اور پھر لب وا کیے:” آئیے کھیلیں۔۔”
اس کے لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ ابھرکر غائب ہوگئی ۔
”بہت شکریہ۔۔نکالئے کھیل کا سامان۔”روزی نے ستائشی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
زندگی روزانہ ایک نئے کھیل کے ساتھ میدان میں اترتی ہے۔ اس نے یہ سوچتے ہوئے کسی فرماں برداربچے کی مانند کوٹ کے اندرونی جیب سے ایک چھوٹی سی ڈائری اور قلم نکال کر میز پر رکھ دیا۔ روزی کے ہونٹوں پر دل فریب مسکراہٹ پھیل گئی ۔ اس نے ڈائری پر قلم سے کچھ تحریرکیا اور ڈائری اُس کے سامنے کھسکا دی ۔ اس کھیل کا آغاز اس کی مرحومہ بیوی نے کیاتھا ،جس میں بے ترتیب حروف کو جوڑ کر لفظ کو پہچاننا تھا، شرط یہ تھی کہ بوجھنے والی شے حدِ نگاہ ہو ، کھیل کے آخر میں ہارنے والا کافی کے پیسے ادا کیاکرتاتھا۔
” و۔ا۔س۔ف۔ن ”روزی نے ایک نظر ڈائری کو دیکھا اور پھر اپنی نظریں ریسٹورنٹ میں گھماتے ہوئے مسکرا کر چھت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آہستہ سے ”فانوس ”کہا ۔اس نے تعریفی نظروں سے روزی کودیکھااور سر کواثبات میں جنبش دی:”گویا آپ کھیل سے واقف ہیں۔”
ریسٹورنٹ شہر سے دور ایک پہاڑی پر تھا،جہاں گرمیوں کی بہ نسبت سرما میں بھیڑ کم ہوتی تھی ۔
”ب۔ص۔ر۔و۔ن ”یہ لفظ روزی کی جانب سے آیا تھا اس نے لفظ دیکھ کرکھڑکی سے باہر صنوبر کے پیڑکی طرف اشارہ کیا
”ھ۔ڑ۔ا۔س۔ی ”روزی نے چند لمحے غور سے لفظ کودیکھا اور پھر دھیماسا مسکراکر ساڑھی کا فال درست کیا ۔
”م۔ی۔ن ”لکھ کر روزی نے فوراًڈائری اس کے سامنے رکھ دی۔
اس نے عینک ماتھے پر ٹکا کر رومال میں آنکھوں کی نمی جذب کی اور عینک واپس آنکھوں پر گرا کرڈائری میں لکھے لفظ کو دیکھ کر چند لمحوں تک افسردہ سا مسکراتا رہا
”آپ بالکل روزینہ کی طرح کھیل رہی ہیں ، وہ بھی اسی طرح میری کیفیات کو بھانپ کر لفظ بناتی تھی۔”روزی ہتھیلی پر ٹھوڑی جما کر اس کے افسردہ چہرے کا جائزہ لینے لگی،شادی کے بعدکچھ عرصہ تک میں اپنی کوئی بھی پریشانی روزینہ کو بتانے سے گریز کرتارہا ۔ اسے اپنے ساتھ پریشان دیکھنا مجھے گوارا نہ تھا لیکن پھر ایک روز میں اپنی ترقی کے سلسلے میں کچھ زیادہ فکر مندہو رہا تھا۔اس نے استفسار کیا اور میں نے پریشانی کا سبب بتا دیا۔۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں میرا چہرہ تھام کر پیار سے آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ کتنا عام سا فقرہ تھا لیکن اس کے ہونٹوں سے ادا ہو کر انمول اور میرے مایوس لمحات کی ڈھارس بن گیا ۔اس دن کے بعد تمام غم، مصیبتیں اور الجھنیں اس فقرے کے آگے ہیچ دکھائی دیں، وہ دل ہی دل میں اپنی بیوی کو یاد کرنے لگا۔
شام کے ساتھ زینہ زینہ اترتے وقت کو پیچھے دھکیل کرکھیل آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔
”ر۔م۔ز۔د۔ ”اس نے ڈائری آگے کھسکا دی ۔
روزی نے ایک نظر ڈائری پر دیکھا اور انگوٹھی میں جڑے زمرد پر انگلی سے دستک کی ،گویا پوچھ رہی ہو کہ آپ کو پتھروں سے بھی رغبت ہے؟
اس کی نظریں ابھی تک انگوٹھی پر مرکوز تھیں”ہاں،بس یونہی آپ کی انگوٹھی میں زمرد جڑا دیکھا تو یاد آیا کہ ایک دفعہ روزینہ نے فرمائش کی کہ اسے گہرے سبز رنگ کا زمردچاہیے ۔اس نے کسی رسالے میں پڑھا تھا کہ یہ اس کا خوش بختی کا پتھر ہے ،جب کہ میرا ایسی باتوں پر بالکل یقین نہیں تھا ۔میں نے اسے ان فریبی نجومیوں کے بارے بتانا چاہا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہی ۔بادلِ نہ خواستہ ایک روز میں نے اسے خوبصورت سا زمرد تحفہ میں دے ہی دیا ۔۔وہ شام کا وقت تھا زمرد کو اپنی ہتھیلی پر دیکھ کر اس کاچہرہ گلاب کی مانند کھل اٹھا،سرخی اس کے کنجِ لب سے کانوں کی لوتلک دوڑ گئی ۔ اس کی آنکھوں میں شادمانی کی لہر دیکھ کر مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ دنیا میں کوئی بھی شے، چاہے وہ آپ کو پسند ہو یا نہ ہو،آپ کے جیون ساتھی کی ایک مسکان سے زیادہ نہ قیمتی ہو سکتی ہے اور نہ ہی اہم۔۔” یہ کہتے ہوئے اُس نے یوں آنکھیں موند لیں جیسے وہ بے حد تھک گیا ہو۔
”آپ ٹھیک تو ہیں؟”روزی کے لہجے میں اطمینان تھا ”اچھا بس کھیل ختم کرتے ہیں”۔
شام ڈھلنے کے باعث تاریکی کھڑکی سے اندر جھانکنے لگی تھی ۔ریسٹورنٹ کی تمام بتیاں روشن ہوچکی تھیں،اس روشنی میں اس کے ستر سالہ قدیم سر کی چاندی چمک رہی تھی۔۔۔ خاموشی کا وقفہ طویل ہونے لگا ۔
”میں نے آج سے پہلے خود کو کبھی اتنا تھکا ہوا محسوس نہیں کیا۔”اس کی آنکھوں میں تھکاوٹ کے گہرے سائے تھے۔
انسان بھی کتنے بہروپ بدلتا ہے ۔بچپن، لڑکپن ، جوانی، ادھیڑ عمری اور آخر میں بڑھاپا ،سب سے خوف ناک بہروپ ،جسے دیکھ کر لوگ عبرت پکڑتے ہیں ۔سلوٹ زدہ چہرہ ،جسے آئینہ کے سوا کوئی جی بھر کے دیکھنا گوارا نہیں کرتا ۔عالمِ پیری میں انسان راستے کے پتھر سے زیادہ بے وقعت ہو جاتا ہے۔خزاں رسیدہ خشک و زرد برگِ آوارہ کی مانند بھٹکتا ہے ۔ضعیفی کی ہوا نے اس کے لئے کون سا ٹھکانہ مختص کیا ہوتا ہے، وہ نہیں جانتا ۔اسے تو بس ہوا کے رحم وکرم پر رہنا ہوتا ہے اور پھر ایک تنہا کہن سال آدمی جس کا جیون ساتھی بچھڑ گیاہو ،گویا آدھے وجود کے ساتھ زندہ ہوتا ہے ،آدھی دھڑکنیں، آدھی سانسیں اور ادھوری نظر، ادھوری باتیں سب کچھ نصف ہوتا ہے ۔ اگر کچھ مکمل ہوتا ہے تو صرف یادیں، قدم قدم پربچھی ہوئی یادیں۔ ہزار یادوں کی ایک یادیارِ خوش خصال ۔۔۔ روزینہ کی یاد!
یادوں کا بوجھ بھی انسان کو تھکا دیتا ہے ۔ روزی نے اس کا چہرہ پڑھا۔ہاں۔۔شاید۔۔
”تم نے لفظ نہیں دیا”اس نے لرزاں ہاتھ سے بہ مشکل پانی کا گھونٹ حلق میں اتارا۔۔روزی نے ایک لفظ ڈائری پر لکھ کراُس کے آگے کھسکا دی ۔”س۔۔ا۔د۔ا۔ی ”۔
اس نے سر ہلاتے ہوئے آہستہ سے کہا: ”ہاں بہت گہری ”اداسی” وہ سچ مچ اداس تھا ۔ایسی یخ اداسی میں وہ اپنی بیوی کے پہلو میں کسی نونہال کی مانند سمٹ جایا کرتا تھا ۔
”سر آپ کہیں توکافی اور لے آؤں؟”نوجوان ویٹر نے مؤدبانہ انداز میں مسکرا کردوبارہ آرڈر طلب کیا۔ تو جیسے اسے دھیان آیا کہ وہ تو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کرنا بھول ہی گیا تھا ۔اس نے روزی کی جانب دیکھا اور پھر اسے اچانک ویٹر کی مداخلت کھلنے لگی :”جاؤ،کچھ نہیں چاہیے جاؤ”ویٹراسی مسکراہٹ کے ساتھ واپس چلا گیا۔
اس نے روزی پر نگاہیں جما دیں ۔اس کا سانس، دل کی دھڑکن سے کوسوں دور ہونے لگا۔روزی نے ایک ادا سے اپنی زلفوں کو چہرے سے ہٹاتے ہوئے ہلکا سا نقرئی قہقہ لگایا تو جیسے وہ واپس اپنے آپ میں آیا:”ایسے کیا دیکھ رہے ہیں پروفیسر صاحب؟”
”و۔چ۔ل” اس سے قلم تھامنامحال ہوا جا رہا تھااس نے عجلت میں لفظ لکھا۔
”چلو؟کہاں چلیں”؟ روزی کی کجراری آنکھیں مسکرائیں ۔”ے۔ب۔ا۔ت۔ب ”۔اس کی معصوم آنکھوں میں بے بسی کے آثار تھے ”ہاں بہت بے تاب ہوں۔۔”اس کا حلق سوکھنے لگا۔
”سب ٹھیک ہو جائے گا”روزی کے لبوں پر معنی خیز مسکان ناچنے لگی۔
”خدا کے لیے اسی وقت چلو”۔اس پر اضطراب حاوی ہو رہا تھا ۔اس نے پلکیں بھینچ کر جب دوبارہ کھولیں تو سامنے روزی کی جگہ اسے اپنی بیوی دکھائی دی۔”روزینہ” اس کے ہونٹوں پر نام کپکپایا۔
جب طویل تنہائی کے لق و دق صحرا میں کسی پیارے کی کمی پیاس کی مانند محسوس ہوتی ہے تو احساسِ تنہائی قوتِ مدافعت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ انسان ذہنی دبا ؤ کا شکار ہوکر پریشانی، مایوسی اور افسردگی میں گھرتا چلا جاتا ہے۔ نفسیاتی عوارض میں بہ تدریج اضافہ ہونے لگتا ہے ۔وہ خود کو سماج سے کاٹ کر اپنی علیحدہ دنیا بسا لیتا ہے ۔اسے زندگی سے دلچسپی نہیں رہتی ،خود کو دنیا میں بے گانہ محسوس کرتا ہے اور راہِ فرار چاہتا ہے ۔اخیر وقت میں یہی تو ہوتا ہے کہ پہلے انسان اپنی اہمیت کھوتا ہے اور پھر خود کھو جاتا ہے۔
”تو آخر آپ نے بوجھ ہی لیا ۔۔اچھا بتائیے میں کون ہوں؟”روزینہ دوبارہ روزی میں بدل گئی اور اپنے ہاتھوں کو اس کے قریب کر لیاگویا کھیل کا آخری منظر ختم ہونے کو تھا ۔۔اس کی دھندلی آنکھوں کی کسی کنج گلی میں وصالِ یار کا دیا ٹمٹما نے لگا۔اس نے قلم اٹھا کر شکستہ حروف میں لفظ لکھ کر ڈائری آگے کھسکا دی اور روزی کے ہاتھ تھام کر آہستہ سے ان پر اپنا سر رکھ دیا۔
کھڑکی کے کانچ پر بارش کی بوندیں تالیوں کی طرح بجنے لگیں گویا پردہ گرا دیا گیا۔
کچھ دیر بعد وہی ویٹر دوبارہ آیا اور” سر، سر ”پکارتا رہالیکن وہ ابدی نیند سو چکا تھا۔
جب ایمبولینس اس کا بے جان وجودلے کر روانہ ہوگئی تو ویٹر نے منیجر کو وہ چھوٹی سی ڈائری لا کر دی جس میں بے تحاشابے ترتیب الفاظ درج تھے۔
ڈائری کاآخری لفظ ”م-و-ت ” تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});