ایباکا بے حد سنجیدہ تھا لیکن سالار کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی جانتا تھا کہ اس کی یہ یقین دہانی ایک خوش فہمی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ سالار سکندراس پروجیکٹ کی سربراہی کررہا تھا اور نہ اسے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے وہاں آئے… نہ تو وہ اتنا احمق ہوسکتا تھا کہ کسی پروجیکٹ کی تفصیلات جانے بغیر اسے جوائن کرلیتا۔ اگر وہ اس کا حصہ تھا تو کسی نہ کسی حد تک اسے بھی میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا ہونیوالا تھا۔ ایبکا کی تعریف ورلڈ بینک کی انتظامیہ کی نظروں میں اس کا امیج خراب کرتی اور اس کی خاموشی دنیا کی نظروں میں۔
’’تم جلد سے جلد ورلڈ بینک چھوڑ دو۔ میں تمہاری رپورٹ کا حوالہ دوں گا کہ اس پروجیکٹ سے ناخوش تھے اور تمہاری اس پوزیشن کو چھوڑنے کی وجہ بھی یہ ہی ہے۔‘‘ ایباکا نے جیسے اسے ایک راہ دکھائی تھی۔
’’میں اس سے پہلے ایک کوشش ضرور کروں گا کہ بینک کو مجبور کرسکوں کہ وہ اس پروجیکٹ پر نظرثانی کرے۔‘‘ جو راستہ وہ سالار کے لئے نکال رہا تھا وہ سالار کو بھی پتا تھا۔ اس کے باوجود وہ ایک آخری کوشش کرنا چاہتا تھا۔ بینک کا ردعمل جاننے کے لئے… اسے جیسے یہ امید تھی کہ بینک اگر فوری طور پر اس پروجیکٹ کو نہیں روکتا، تب بھی کوئی انکوائری تو آرڈر کرہی سکتا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اتنے تفصیلی ثبوتوں کے باوجود وہ بینک آنکھیں بند کرکے’’ صم وبکم‘‘ کی طرح بیٹھا رہتا۔
ایباکا نے اس کے ساتھ کوئی بحث نہیں کی تھی۔ وہ ان دونوں کا آخری رابطہ تھا۔ وہ واشنگٹن آنے تک میڈیا پر ایباکا اور کانگو کے بارانی جنگلات کے حوالے سے کوئی نئی خبر تلاش کرتا رہا، لیکن وہ نئی خبر اسے آج ملی تھی۔ نیوز چینل بتا رہا تھا کہ بچنے والے مسافر کی حالت تشویش ناک تھی۔ سالار کچھ دیر شل ہوتے ہوئے اعصاب کے ساتھ کھڑا رہا پھر اس نے اپنا فون نکال کر یہ جاننے کی کوشش کی تھی کہ ایباکا کو کہاں لے جایا گیا تھا۔ عجیب اتفاق تھا، لیکن یک دم جیسے اس کا فون رابطوں کے مسائل کا شکار ہونے لگا تھا۔ کچھ دیر پہلے وہ کانگو میں امامہ سے رابطہ نہیں کرپایا تھا اور اب وہ کوئی لوکل کال نہیں کر پا رہا تھا، کچھ دیر اپنے سیل فون کے ساتھ مصروف رہنے کے بعد ناکامی پر سالار نے جیسے جھنجھلا کر کمرے میں موجود فون لائن اٹحا کر اسے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ فون لائن بھی کام نہیں کررہی تھی۔ سالار حیران ہوا تھا۔ وہ ایک فائیو اسٓٹاف ہوٹل تھا اور اس کی فون لائن کا ڈائریکٹ کام نہ کرنا حیران کن ہی تھا۔ اس نے انٹر کام پر آپریٹر کے ذریعے ایک کال بک کروائی تھی۔
اگلا آدھا گھنٹا وہ آپریٹر کی کال کا انتظار کرتا رہا۔ وہ پہلا موقع تھا جب سالار کو ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی تھی، پہلی بار اسے لگا تھا جیسے اس کو کسی سے بھی رابطہ کرنے سے روکا جارہا ہے۔ وہ اس شک کو اپنے ذہن سے جھٹک دینا چاہتا تھا۔ کچھ سوچنے سمجھے بغیر وہ اسی بے چینی اور بے قراری کے عالم میں اپنے کمرے سے نکل کر نیچے استقبالیہ پر آگیا تھا۔ اس بار کہیں بھی خود کال کرنے کے بجائے اس نے ریسپشنسٹ سے کہا تھا کہ وہ اسے پولیس انکوائری سے پتا کرکے بتائے کہ آج صبح واشنگٹن میں ہونے والے اس ٹریفک حادثے کے زخمی کو کہاں لے جایا گیا تھا۔ ریسپشنسٹ نے اسے لابی میں پڑے ایک صوفے پر بیٹھنے کے لئے کہا اور چند ہی منٹوں میں اس نے سالار کو اس اسپتال کا نام بتادیا تھا جہاں پیٹرس ایباکا کو لے جایا گیا تھا۔ سالار نے اسی ریسپشنسٹ کو کانگو میں اپنے گھر کے اور امامہ کا سیل فون نمبر دیا تھا۔ وہ اگلی کال وہاں کرنا چاہتا تھا۔ وہ جیسے اپنے خدشات کی تصدیق کرنا چاہتا تھا۔
کچھ دیر تک کوشش کرتے رہنے کے بعد ریسپشنسٹ نے اسے کہا تھا کہ اس کے گھر کے نمبرز یا امامہ کے سیل فون، کسی پر کام نہیں ہو پارہی تھی شاید کانگو اور امریکا کے درمیان اس وقت رابطوں میں گڑ بڑ تھی۔ سالار کے خدشات کی لمحہ بھر میں ہوا نکل گئی تھی۔ وہ شاید ضرورت سے زیادہ وہم کرنے لگا تھا۔ اس نے اپنا سر جھٹکتے ہوئے سوچا اور ریسپشنسٹ سے اپنے کمرے کی ڈائریکٹ فون لائن کے فنکشنل نہ ہونے کی شکایت کرنے کے بعد وہ وہیں سے اسپتال کے لئے روانہ ہوگیا تھا جہاں پیٹرس داخل تھا۔
اسپتال پہنچ کر پیٹرس کو تلاش کرنا مشکل نہیں تھا، لیکن اسے ایباکا سے ملنے نہیں دیا گیا تھا۔ وہ مخدوش حالت میں تھا اور اس کی سرجری کے بعد اسے مصنوعی تنفس پر رکھا گیا تھا۔ اپنے آپ کو ایباکا کا رشتہ دار ظاہر کرنے پر اسے بہر حال ایباکا کو دور سے ایک نظر دیکھنے کی اجازت مل گئی تھی۔
اسپتال کے آئی سی یو میں نلیوں، تاروں اور پٹیوں میں جکڑے ایباکا کو سالار پہلی نظر میں پہنچا نہیں سکا تھا۔ وہ سیاہ فام پست قامت آدمی موٹی چمک دار آنکھوں اور ایسی مسکراہٹ کے لئے پہنچانا جاتا تھا جو کسی چھوٹی سی بات پر بھی اس کے چہرے پر آجاتی۔ وہ بات بے بات قہقہے لگانے کا بھی عادی تھا۔ اس کے موٹے موٹے سیاہ ہونٹوں سے نظر آنے والے دودھیا دانت اور مسوڑھے اس کے ہر قہقہے میں سب سے پہلے نمایاں ہوتے تھے۔
سالار گم صم کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ وہ صرف پگمیز کا نہیں کانگو کا صدر بننا چاہتا تھا۔ ہاورڈ بزنس اسکول اور جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ سے فارغ التحصیل ہونے والے ممتاز ترین افراد میں سے ایک پیٹرس ایباکا بھی ہوتا، اگر زندگی اسے ایک موقع دیتی۔ شاید وہ وہ کبھی نہ کبھی کانگو کا صدر جاتا اور افریقہ کے نمایاں ترین لیڈرز میں اس کا شمار ہوتا… لیکن زندگی فی الحال اسے یہ موقع نہیں دے رہی تھی۔
وہاں کھڑے کھڑے سالار کو ایک بار پھر جیسے خیال آیا تھا کہ وہ چاہتا تو اب بھی یہ سب ٹھیک کرسکتا تھا۔ ایباکا مر رہا تھا اور اس کے مرنے کے ساتھ ہی وہ سارے حقائق اور شاہد بھی غائب ہوجانے والے تھے۔ شاید ایک موقع اسے قدرت دے رہی تھی۔ وہ الجھا، بھٹکا، tempt ہوا۔ ضمیر کا چابک ایک بار پھر اس پر برسا تھا اور ضمیر کا چابک واحد چیز نہیں تھی جس نے سالار کو جھٹکا دیا تھا۔ اس کی اپنے ہوٹل واپسی پر ایک اور بڑا سانحہ اس کا انتظار کررہا تھا۔ اس کے کمرے میں اس کا لاکر کھلا ہوا تھا اور اس لاکر میں موجود اس کا پاسپورٹ، اور کچھ دوسرے اہم ڈاکومنٹس غائب تھے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کا وہ بیگ بھی غائب تھا جس میں اس کا لیپ ٹاپ اور اس رپورٹ سے متعلقہ تمام ثبوتوں کی کاپیاں تھیں۔ سالار کو چند لمحوں کے لئے یقین نہیں آیا، اسے لگا وہ اس کا کمرا نہیں ہوگا۔ وہ شاید غلطی سے کسی اور کمرے میں داخل ہوگیا تھا۔ یہ حماقت کی انتہا تھی، لیکن اس نے جیسے اپنے کمرے سے نکل کر دروازے پر نمبر پڑھا تھا۔ وہ اسی کا کمرا تھا، حواس باختگی کے عالم میں وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوا اور اس نے پاگلوں کی طرح کمرے کے ایک ایک کونے کھدرے کو چھان مارا، صرف اس موہوم امید میں کہ شاید وہ جس ذہنی کیفیت سے گزر رہا تھا، اس میں اس نے خود ہی ان سب چیزوں کو کہیں اور رکھ دیا تھا۔ کمرے میں کہیں کچھ نہیں تھا۔ وہ ایک فائیو اسٹاف ہوٹل تھا اور اگرچہ ہوٹل کے کمرے میں رکھی جانے والی کسی بھی قسم کی قیمتی اشیاکے لئے لاکر فراہم کرنے کے ساتھ ہی وہ ہر طرح کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوچکے تھے، اس کے باوجود سالار کو یقین نہیں آیا کہ وہ سب ہوچکا تھا۔ کوئی اس کے کمرے سے اس کے ٹریول ڈاکومنٹس اور لیپ ٹاپ کیوں لے کر جاتا اور اسے بھی بڑا سوال تھا کہ کون لے کر گیا تھا۔
بے حد طیش کے عالم میں اس نے فون اٹھا کر فوری طور پر اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی اطلاع مینیجر کو دیتے ہوئے اسے کمرے میں طلب کیا تھا۔ اسے اس وقت بھی یقین تھا کہ کوریڈور میں لگے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے بڑے آرام سے اس کی عدم موجودگی میں اس کے کمرے میں داخل ہونے والے کسی بھی شخص کا پتا چل جائے گا، لیکن مینیجر اور سیکیورٹی گارڈز کے اس کے کمرے میں آتے ہی سالار کا دماغ یہ جان کر بھک سے اڑ گیا تھا کہ اس پورے فلور پر صفائی سے متعلقہ کام کرنے کے لئے پچھلے دو گھنٹے اس فلور کے سی سی ٹی وی کیمرے آف کئے گئے تھے۔ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ اسے لگا تھا، یک دم جیسے اس کے ہاتھ پاؤں کٹ گئے تھے۔ اس کے پاس جو بھی تھا وہ اس لیپ ٹاپ اور اس کے بیگ میں تھا۔ ان کے غائب ہونے کا مطلب تھا کہ وہ بالکل بے دست وپا ہوگیا تھا۔ وہ اپنی رپورٹ کے کسی الزام اور تحقیق کو ڈاکومنٹری ثبوت کے بغیر ثابت نہیں کرسکتا تھا اور ان دستاویزاتی ثبوتوں کی ایک کاپی اس کے پاس تھی اور ایک کاپی گومبے میں اس کے گھر کے اس لاکر میں جو وہ امامہ کی تحویل میں دے کر آیا تھا۔
وہ پہلا موقع تھا جب سالار نے ایک عجیب سا خوف محسوس کیا تھا۔ ہر چیز کو اتفاقی سمجھتے ہوئے وہ پہلی بار ان سب واقعات کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی کوشش کررہا تھااور وہ بڑے آرام سے جڑتے جارہے تھے۔ وہ وہمی نہیں تھا، نہ ہی سازشی نظریوں پر یقین رکھتا تھا، لیکن جو کچھ اس ایک دن میں ہوا تھا، وہ اتفاق نہیں ہوسکتا تھا۔
پیٹرس ایباکا کا ایک حادثہ میں زخمی ہونا بھی اب اسے ایک اتفاق نہیں لگ رہا تھا۔ کوئی تھا جو پیٹرس ایباکا کو نقصان پہنچانے کے بعد اب اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اسے بے بس کررہا تھا۔ پہلا خیال جو اسے وہاں کھڑے کھڑے آیا تھا، وہ امامہ اور اپنے بچوں کے تحفظ کا تھا۔
ایک فون بوتھ سے اس نے ایک بار پھر کانگو میں اپنے گھر کے نمبر اور امامہ کا نمبر ملانے کی کوشش کی تھی۔ نتیجہ وہی آیا تھا۔ اس کا ذہن ماؤف ہورہا تھا۔ اس نے اپنے فون پر ای میلز سوشل میسجنگ کے ذریعے بھی امامہ سے رابطہ کرنے کی کوششش کی تھی۔لیکن کسی ای میل، کسی میسج کا جواب نہیں آیا تھا۔ سالار نے باری باری پاگلوں کی طرح اپنے آفس کے ہر شخص کو کال کرنی شروع کردی تھی جو اس کے اسٹاف میں شامل تھا اور جن کے نمبرز اس وقت اس کے پاس تھے۔ کوئی ایک نمبر ایسا نہیں تھا جس پر رابطہ ہو پاتا۔
اس نے بالآخر پاکستان میں سکندر عثمان کو فون کیا تھا اور جب اسے فون پر ان کی آواز سنائی دی تو کچھ دیر کے لئے تو اسے یقین ہی نہیں آیا تھا کہ وہ بالآخر کسی سے بات کرنے میں کامیاب ہو پارہا تھا۔ سکندر عثمان کو بھی اس کی آواز سے پتا چل گیا تھا کہ وہ پریشان تھا۔
سالار نے کوئی تفصیلات بتائے بغیر مختصراً انہیں بتایا کہ وہ اپنے سفری دستاویزات گنوا بیٹھا ہے اور اس وجہ سے وہ فوری طور پر اگلی فلائٹ پکڑ کر واپس نہیں جاسکتا تھا اور وہ امامہ سے رابطہ بھی نہیں کر پارہا تھا۔ اس نے سکندر سے کہا کہ وہ پاکستان سے امامہ کو کال کریں اور اگر اس سے رابطہ نہ ہوسکے تو پھر فارن آفس میں اپنے جاننے والوں کے ذریعے کنشا سا میں پاکستان ایمبسی کے ذریعے اسے تلاش کریں اور فوری طور پر اس سے کہیں کہ وہ لاکر میں پڑے سارے ڈاکومنٹس سمیت ایمبیسی چلی جائے۔ سکندر عثمان بری طرح کھٹکے تھے۔
’’ایسا کیا ہوا ہے کہ تمہیں یہ سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے؟ سالار سب کچھ ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’پاپا! اس وقت آپ صرف وہ کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔ میں ڈیٹیلز آپ کو بعد میں بتادوں گا۔‘‘ وہ جھنجھلا گیا تھا۔
’’میں تھوڑی دیر تک آپ کو خود کال کرکے پوچھتا ہوں، آپ میرے فون پر کال مت کریں، نہ ہی میرے نمبر پر میرے لئے کوئی میسج چھوڑیں۔‘‘ اس نے باپ کو مزید تاکید کی۔
’’سالار! تم مجھے پریشان کررہے ہو؟‘‘ سکندر عثمان کا ان ہدایات کے بعد خوف زدہ ہونا لازمی تھا۔
سالار نے فون بند کردیا تھا۔ وہ باپ کو یہ نہیں بتاسکتا تھا کہ اس کے اپنے حواس ان سے زیادہ خراب ہورہے تھے۔ فون بوتھ سے کچھ فاصلے پر پڑی ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے اس نے بے اختیار خود کو ملامت کی تھی۔ اسے اپنی فیملی کو کانگو میں چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا اور ان حالات میں… میٹنگ جاتی بھاڑ میں… وہ اسے آگے پیچھے کروادیتا… کیا ضرورت تھی اتنی مستعدی دکھانے کی…
اب رات ہورہی تھی اور صبح سے لے کر اس وقت تک اس کے فون پر کوئی کال، کوئی ٹیکسٹ میسج نہیں آیا تھا۔ یہ ممکن نہیں تھا تب تک جب تک اس کے فون کو مانیٹر نہ کیا جارہا ہو یا اس کے سگنلز کو کنٹرول نہ کیا جارہا ہوتا۔ فون سگنلز کو بہترین حالت میں دکھا رہا تھا مگر سالار کو یقین تھا اس کا فون اور فون کے ذریعے ہوئے اس کے رابطوں کو کنٹرول کیا جارہا تھا اور کس لئے…؟ یہ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔
وہ اگر اسے نقصان پہنچانا چاہتے تھے تو ان سب ہتھکنڈوں کے بغیر نقصان پہنچاتے، جیسے پیٹرس پر وار کیا گیا تھا اور انہیں اگر اسے بینک سے نکالنا تھا تو وہ یہ کام تو خود ہی کررہا تھا، پھر یہ سب کیوں کیا جارہا تھا۔
اس کی ریڑھ کی ہڈی میں جیسے کوئی سنسناہٹ ہوئی تھی۔ اسے اچانک احساس ہوا وہ لوگ اسے یہ احساس ہی دلانا چاہتے تھے کہ اسے مانیٹر کیا جارہا تھا۔ اسے نقصان پہنچایا جاسکتا تھا… اور کس کس قسم کا… اسے یہ بھی بتایا جارہا تھا اور یہ سب ورلڈ بینک نہیں کرسکتا تھا، صرف ورلڈ بینک نہیں… اسے سی آئی اے چیک کررہی تھی۔ پتا نہیں جو پسینے چھوٹے تھے، وہ جسم کے ٹھنڈا ہونے پر چھوٹے تھے یا گرم ہونے پر… لیکن سالار کچھ دیر کے لئے پانی میں نہا گیا تھا۔ اس کا دماغ اس وقت بالکل خالی ہوگیا تھا۔ یہ کبھی اس کے فرشتوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ کبھی کیسی ایسے معاملے میں انوالو ہوسکتا تھا کہ سی آئی اے اس کے پیچھے پڑجاتی اور اب اسے اندازہ تھاہورہا تھا کہ وہ پروجیکٹ ورلڈ بینک کی خواہش نہیں، امریکا کی خواہش تھا اور وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا تھا۔
وہ ڈیڑھ گھنٹہ وہیں بت کی طرح بیٹھا رہا تھا۔ اسے تین دن کے لئے واشنگٹن میں رہنا تھا اور تیسرے دن واپس چلا جانا تھا، لیکن اب اپنی ٹریول ڈاکومنٹس گم ہوجانے کے بعد اسے یقین تھا، وہ فوری طور پر واپس نہیں جاسکتا تھا۔ کم از کم تب تک جب تک وہ ان مطالبات پر کچھ لچک نہ دکھاتا جو وہ ولگ اس سے کررہے تھے۔
ڈیڑھ گھنٹے کے بعد سکندر عثمان کو اس نے دوبارہ فون کیا تھا اور انہوں نے اسے بتایا کہ امامہ اور اس کے بچے گھر پر نہیں ہیں۔ گھر لاکڈ ہے اور وہاں کوئی ملازم یا گارڈ نہیں ہے جو ان کے بارے میں کوئی اطلاع دیتا۔ ایمبیسی کے افسران نے کانگو کی وزارت داخلہ کے ساتھ اس سلسلے میں رابطہ کیا تھا، مگر اس کی فیملی کے بارے میں جو بھی پتا چلتا، وہ فوراً پتا نہیں چل سکتا تھا۔ کچھ وقت تو لگتا ہے۔
جو کچھ وہ فون پر سن رہا تھا، اس کے جسم میں کپکپاہٹ دوڑانے کے لئے کافی تھا۔ امامہ اور اس کے بچے کہیں نہ جاسکتے تھے۔ اس سے پوچھے اور اسے اطلاع دیئے بغیر… گارڈز بینک کے فراہم کئے ہوئے تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ گھر لاکڈ ہونے پر وہ بھی وہاں سے چلے گئے۔
’’میں کوشش کررہا ہوں، فوری طور پر ایمبیسی میرے ویزے کا انتظام کرے اور میں وہاں جاکر خود اس سارے معاملے کو دیکھوں۔‘‘
سکندر عثمان اسے تسلی دینے کی کوشش کررہے تھے۔
’’تم بھی کوشش کرو کہ فوری طور پر وہاں پہنچو۔ امریکن ایمبیسی کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دو… تم تو امریکن نیشنل ہو… تمہارے بچے بھی… وہ ہماری ایمبیسی سے زیادہ مستعدی سے انہیں تلاش کرلیں گے۔
سکندر عثمان نے اسے ایک راستہ دکھایا تھا اور بالکل ٹھیک دکھایا تھا، لیکن وہ باپ کو اس وقت یہ نہیں کہہ پایا تھا کہ وہ اس وقت امریکن گورنمنٹ کے ساتھ ہی الجھ پڑا تھا۔
’’سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا سالار تم پریشان مت ہو۔ کانگو میں ابھی اتنا بھی اندھیر نہیں مچا کہ تمہاری فیملی اس طرح غائب ہوجائے۔‘‘
سکندر عثمان اگر کانگو میں رہ چکے ہوتے تو شاید کبھی یہ جملہ نہ کہتے۔ وہ شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا بیٹا جو امریکن نینشل اور ورلڈ بینک سے منسلک تھا اس کے یا اس کی فیملی کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں ہوسکتا تھا۔ جواب میں کہنے کے لئے سالار کے پاس کچھ بھی نہیں تھا… کچھ بھی…