آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

وہ نرم لہجے میں ان کے منہ پر جوتا مار گیا تھا اور اس جوتے کی چوٹ ان ساتوں لوگوں نے ایک ہی شدت کے ساتھ محسوس کی تھی۔ وہ سادہ زبان میں انہیں دلال کہہ رہا تھا اور وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ سالار سکندر کے ساتھ تو معاملات طے کرنے کے لئے انہیں جن لوگوں نے بھیجا تھا، وہ سالار سکندر کے ساتھ معاملات طے ہونے کے بعد انہیں ان کا کمیشن مختلف شکلوں میں ادا کرتے۔ وہ ورلڈ بینک کے اندر بنی ہوئی لابیز کے نمائندے تھے جو بظاہر مختلف ملکوں اور قوموں کی نمائندگی کرتے تھے، لیکن درحقیقت وہ ان بڑے کارپوریٹ سیکٹرز کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے جو اپنی اپنی حکومتوں کی آڑ میں کام کرتے تھے۔
ان ساتوں لوگوں میں سے کسی نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔ ستے ہوئے اور تنے ہوئے چہروں کے ساتھ وہ سب بھی اپنے کاغذات اور لیپ ٹاپ سنبھالنے لگے تھے۔ میٹنگ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئی تھی اور سالار کو اندازہ تھا کہ اس میٹنگ میں کی جانے والی باتوں کے بعد ورلڈ بینک میں اس کا کیرئیر بھی ختم ہوگیا تھا۔
وہ میٹنگ ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والی ہر میٹنگ کی طرح ریکارڈ ہوئی ہوگی۔ سالار کو اس کا اندازہ تھا لیکن اسے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ میٹنگ براہ راست کسی دوسری جگہ پر پیش بھی کی جارہی تھی۔ سالار سکندر کے اس بورڈ روم سے باہر آنے سے پہلے اس سے نمٹنے کے لئے دوسری حکمت عملی طے ہوگئی تھی۔
الیگزنڈر رافیل بورڈ روم سے سالارکے پیچھے آیا تھا اور اس نے چند منٹوں کے لئے اس سے علیحدگی میں بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ سالار کچھ الجھا لیکن پھر آمادہ ہوگیا تھا۔ وہ کون سی بات تھی جو بورڈ روم میں نہیں کہی جاسکتی تھی اور اب اس ون ٹو ون میٹنگ میں کہی جاتی۔ وہاں وہ باتیں بھی کہہ دی گئی تھیں جو ورلڈ بینک جیسی معتبر آرگنائزیشن کے کسی فرد سے سالار انفرادی طور پر بھی سننے کی توقع نہیں رکھتا تھا، چہ جائیکہ یہ کہ وہ اجتماعی طور پر اس سے کہی جائیں۔ وہ صرف مایوس نہیں ہوا تھا، اس کی ہمت ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے ورلڈ بینک کو اس لئے اور ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے جوان نہیں کیا تھا۔
الیگزنڈر رافیل کے آفس میں وہ اسی پیرائے کی کوئی مزید گفت گو سننے کی توقع کے ساتھ گیا تھا، مگر اپنے آفس میں الیگزینڈر رافیل کا رویہ اس کے ساتھ حیران کن طور پر مختلف تھا۔
’’مجھے یہ ماننے میں کوئی شبہ نہیں کہ میں تمہاری رپورٹ سے بہت متاثر ہوا ہوں اور صرف میں نہیں، پریذیڈنٹ بھی۔‘‘





اس کے پہلے ہی جملے نے اس کو حیران کردیا تھا۔ وہ کافی کا کپ اس کے سامنے رکھتے ہوئے اپنا کپ لئے اپنی سیٹ کی طرف چلا گیا تھا۔ پریذیڈنٹ سے مراد رالف ایڈگر تھا جو اس وقت ورلڈ بینک کا پریذیڈنٹ تھا اور رافیل اس کے قریب ترین معاونین میں سے تھا بلکہ کئی اعتبار سے اس کو پریذیڈنٹ کا دست راست سمجھا جاتا تھا۔ اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے رافیل کا انداز بدل چکا تھا۔ اس کے چہرے کی کرختگی ہونٹوں کے اس خم کی وجہ سے کچھ کم ہوچکی تھی جسے صرف ڈکشنری میں مسکراہٹ کہا جاتا تھا لیکن اس کا مقصد وہ نہیں تھا جو مسکراہٹ کا مطلب ہوتا ہے۔
’’پزیذیڈنٹ ہمیشہ سے تم سے بہت زیادہ توقعات رکھتے تھے۔ افریقہ کے لئے جو وژن ان کا ہے اسے جو عملی جامہ پہنا سکتا ہے، وہ صرف تم ہو اور یہ پروجیکٹ تو ان سینکڑوں پروجیکٹس میں سے صرف ایک پروجیکٹ ہے، بہت چھوٹا پروجیکٹ… جو وہ تمہارے لئے سوچتے ہیں، وہ بہت بڑی شے ہے۔ تمہارے ذریعے افریقہ کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے اور میں تمہیں یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پریذیڈنٹ افریقہ کے بارے میں بہت سنجیدہ ہیں۔ وہ مخلص ہیں اور وہاں سے بھوک، غربت اور بیماری کو واقعی مٹانا چاہتے ہیں۔ پیٹرس ایباکا کا ایک بے وقوف آدمی ہے، وہ کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے جو افریقہ ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔‘‘
سالار کو گفت گو میں پیٹرس ایباکا کا حوالہ سن کر حیرت نہیں ہوئی تھی۔ واشنگٹن میں بیٹھے لوگ مکمل طور پر اس بات سے باخبر تھے کہ اس کی ماہیئت سے قلب کے پیچھے کون تھا۔
’’تم نے کوئی سوال نہیں کیا؟‘‘ رافیل کو اچانک اس کی خاموشی چبھی۔ اگر وہ سالار کو، اس کے بارے میں، پریذیڈنٹ کے تعریفی کلمات پہنچا کر اسے جوش دلانا چاہتا تھا تو وہ ناکام ہورہا تھا۔ سالار کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
’’میرے پاس جو بھی سوال تھے وہ میں اپنی رپورٹ میں اٹھا چکا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ پریذیڈنٹ، افریقہ میں میرے کام اور اس رپورٹ سے متاثر ہیں، لیکن میں زیادہ خوش تب ہوں گا جب اس رپورٹ پر مجھے ورلڈ بینک کا کوئی پازیٹو رسپانس آئے۔‘‘
’’بینک تمہیں وائس پریذیڈنٹ کا عہدہ دینا چاہتا ہے اور یہ پریذیڈنٹ کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ اس مہینے کے آخر تک، دو وائس پریذیڈنٹس اپنی Tenure پوری کرکے اپنے عہدے سے الگ ہورہے ہیں اور ان میں سے ایک سیٹ پر تمہیں اپوائنٹ کرنا چاہتے ہیں وہ… اور اس سلسلے میں امریکن گورنمنٹ سے بھی بات ہوئی ہے ان کی… وہاں سے بھی رسپانس بہت پوزیٹو ہے… تم یقینا ڈیزرو کرتے ہو کہ تمہیں تمہاری صلاحیت اور قابلیت کے حساب سے عہدہ دیا جائے۔‘‘
رافیل اس طرح بات کررہا تھا جیسے بہت بڑا راز اس پر افشا کررہا ہو۔ ایسا راز جس کو جاننے کے بعد سالار سکندر کی باچھیں کھل جاتیں… اس کی مایوسی کی انتہا نہیں رہی تھی جب اس نے میز کے دوسری طرف بیٹھے اپنے سے پندرہ سال چھوٹے اس سینتیس سالہ مرد کے چہرے کو اس خبر پر بھی بے تاثر پایا تھا۔
’’اور وائس پریذیڈنٹ کے عہدے کے بدلے میں مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘ رافیل کو اپنی اتنی لمبی تقریر کے جواب میں اتنا ڈائریکٹ اور دو ٹوک سوال سننے کی توقع نہیں تھی۔
’’پریذیڈنٹ کو اس پروجیکٹ پر تمہاری سپورٹ چاہیے۔ مطلق اور غیر مشروط سپورٹ۔‘‘
رافیل نے اب لفاظی اور تمہیدوں میں وقت ضائع نہیں کیا تھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا۔ سالار سکندر کے لئے یہ دونوں چیزیں بے کار اور بے اثر تھیں۔
’’میرا خیال ہے، میں وہ نہیں دے سکوں گا۔ اس پروجیکٹ کے حوالے سے میری جو رائے اور اسٹینڈ ہے، وہ میں بتا چکا ہوں۔ مراعات اور عہدے میرے اسٹینڈ کو بدل نہیں سکتے۔ میری خواہش ہے افریقہ کے لئے پریذیڈنٹ اگر اتنی ہمدردی اور اخلاص رکھتے ہیں تو وہ اس رپورٹ سے صرف متاثر نہ ہوں، وہ فوری طور پر اس پر کوئی ایکشن لیں۔ کیا کچھ اور ہے، جو آپ کو کہنا ہے؟‘‘
سالار نے کافی کے اس کپ کو ہاتھ نہیں لگایا تھا جو اس کے سامنے پڑا تھا۔ الیگزنڈر رافیل دنیا کی بہت بڑی بڑی آرگنائزیشنز میں ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ کام کرچکا تھا۔ سالار سکندر کو وہ اس ملاقات سے پہلے کچھ بھی نہیں سمجھتا تھا۔ وہ اب اسے بے وقوف سمجھتا تھا۔ سینتیس سال کی عمر میں… پلیٹ میں رکھ کر اسے اتنا بڑا عہدہ پیش کیا جارہا تھا اور وہ اسے ٹھکرا رہا تھا… غرور تھا… تو بے جا تھا… بے وقوفی تھی تو انتہا کی اور تنک تھی تو بے مقصد… اسنے اپنی پوری زندگی میں کسی ’’ذہین‘‘ آدمی کو اتنا ’’بے وقوف‘‘ اور ’’بے غرض‘‘ نہیں پایا تھا۔ وہ یہ اعتراف نہیں کرنا چاہتا تھا پر کررہا تھا۔ وہ پہلی بار ذہانت کوبے لوث اور بے غرج دیکھ رہا تھا اور وہ جانتا تھا وہ جس دنیا میں کام کررہا تھا، وہاں اس بے غرض اور بے لوث ذہانت کو عروج کبھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہاں بیٹھے اس نے سالار سکندر سے کہا تھا۔
’’تمہیں سب کچھ آتا ہے۔ ٹیکٹ نہیں آتے، اس لئے تم کامیابی کے سب سے اوپر والے زینے پر کبھی کھڑے نہیں ہوسکوگے۔‘‘ وہ اس سے ایسی بات نہیں کہنا چاہتا تھا، پھر بھی کہہ بیٹھا تھا۔
’’اگر tactful ہونے کا مطلب بے ضمیر اور بددیانت ہونا ہے تو پھر یہ خصوصیت میں کبھی اپنے اندر پیدا نہیں کرنا چاہوں گا۔ میں اپنا استعفیٰ آج ہی میل کردوں گا۔‘‘
وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس نے آخری مصافحے کے لئے الیگزنڈر رافیل کی طرف ٹیبل پر کچھ جھک کر ہاتھ بڑھایا تھا۔ رافیل اٹھنا نہیں چاہتا تھا لیکن اسے اٹھنا پڑا تھا۔ وہ مصافحہ کرکے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے سالار سکندر کی پشت کو دیکھتا رہا اور کیوں دیکھتا رہا تھا، وہ یہ نہیں جان پایا تھا۔
سالار سکندر جب ورلڈ بینک ہیڈ کوارٹرز سے نکلا اس وقت بوندا باندی ہورہی تھی، وہ کیب پر وہاں آیا تھا اور واپسی پربھی اس کو کیب میں ہی واپس جانا تھا مگر جو کچھ وہ پچھلے چند گھنٹوں میں اندر بھگت آیا تھا، اس کے بعد وہ بے مقصد، ہیڈ کوارٹرز سے باہر آکر پیدل فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔ اس کا ہوٹل وہاں سے قریب تھا۔ وہ پیدل چلتا رہتا تو آدھ پون گھنٹے میں وہاں پہنچ جاتا۔ وہاں آتے ہوئے اسے جلدی تھی۔ واپس جاتے ہوئے نہیں۔ بوندا باندھی کی وجہ سے سردی بڑھ گئی تھی، مگر وہ اپنے سوٹ کے اوپر لانگ کوٹ پہنے ہوئے تھا۔ وہ گومبے سے چلتے ہوئے واشنگٹن کی اگلے تین دن کی موسم کی پیش گوئی پڑھ کر چلا تھا۔ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ امریکا میں گزارنے کی وجہ سے ، وہ جیسے عادی ہوگیا تھا۔ ایک لگی بندھی اور میکانکی انداز میں زندگی گزارنے کا، جہاں ہر چیز پہلے سے دیکھ کر کی جاتی ہے۔ موسم کا حال دیکھ کر سفر پلان کیا جاتا ہے۔ بکنگ کروا کر کسی ہوٹل کے لئے روانہ ہوا جاتا ہے۔ ہر چیز کے بارے میں پہلے سے طے کرلیا جاتا ہے۔ اس نے ورلڈ بینک میں اس جاب کا بھی اسی میکانکی اور پروفیشنل انداز میں ادراک کیا تھا، لیکن جو کچھ وہ اب بھگت رہا تھا وہ کبھی اس کے فرشتوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔
ڈاکٹریت کی ڈگری کے حصول کے بعد وہ اس کی پہلی جاب تھی اور وہ اس جاب سے بہت خوش تھا۔ وہ اب زندگی کو پانچ، دس، پندرہ، بیس سالوں کے تناظر میں دیکھتا تھا، کیوں کہ اب اسے اپنے ساتھ ساتھ کچھ اور زندگیوں کی ذمہ داریوں کو بھی اٹھانا تھا اور اب یک دم وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے سب سے بڑے بحران میں پھنس گیا تھا۔ اس کے ساتھ بیوی اور بچوں کی ذمہ داریاں نہ ہوتیں، تب وہ اس طرح پریشان نہ ہوتا کیوں کہ جو بھی نتائج ہوتے، اس کے کسی بھی فیصلے کے، وہ صرف اسے بھگتنے پڑتے۔ کوئی اور اس کے کسی فیصلے سے پہنچنے والے کسی نقصان میں شریک نہ ہوتا… لیکن اب…
فٹ پاتھ پر چلتے چلتے اس نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ وہ چند دن پہلے تک اپنے آپ کو دنیا کا مصروف ترین انسان سمجھتا تھا اور اب ان چند گھنٹوں کے بعد نیا کا بے کار ترین انسان…
کچھ عجیب سی ذہنی کیفیت تھی اس وقت اس کی… فی الحال اس کے پاس کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔ کوئی میٹنگ… کوئی وزٹ… کوئی ایجنڈا نہیں… کوئی فون کال، کوئی ای میل، کوئی پریزنٹیشن بھی نہیں… لیکن سوچنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ ایک لمحے کے لئے چلتے چلتے اسے خیال آیا… کیا ہوا اگر وہ سمجھوتا کرلے… وہیں وے واپس ہیڈ کوارٹرز چلاجائے… وہ پیش کش قبول کرلے جو ابھی اسے کی گئی تھی۔ کوئی مشکل اور ناممکن تو نہیں تھا یہ… ابھی سب کچھ اس کے ہاتھ میں تھا۔ سب کچھ ٹھیک ہوجاتا… زندگی پھر پہلے جیسی ہوجاتی۔ ورلڈ بینک میں پہلے سے بھی زیادہ بڑا عہدہ… ترقی… مراعات… اسٹیٹس… کیا برائی تھی اگر وہ ضمیر کو کچھ دیر کے لئے سلادیتا… کانگو اس کا ملک نہیں تھانہ پگمیز اس کے لوگ… پھر؟
پھر… واقعی ٹھیک کہا تھا رافیل نے، وہ کیوں ان کے لئے یہ سب کررہا تھا اور یہ سب کرتے کرتے اپنے آپ کو وہاں لے آیا تھا، جہاں آگے کنواں تھا پیچھے کھائی… لیکن پھر اسے وہ ساری غربت اور بدحالی یاد آئی تھی جو اس نے ان لوگوں سے ملاقاتوں میں دیکھی تھی۔ وہ امید بھری نظریں یاد آئی تھیں… جن سے وہ انسانیت کی تذلیل تھی۔ وہ غلامی اور غلامانہ استحصال تھا، جو اس کا مذہب چودہ سو سال مہینے پہلے ختم ہوچکا تھا۔
اور یہ سب یاد کرتے ہوئے اسے امامہ بھی یاد آئی تھی۔
اس نے جیب سے سیل فون نکال کر فٹ پاتھ پر چلتے چلتے اسے کال کی، رابطہ نہیں ہوا۔ اسے لگا شاید سگنلز کا کوئی مسئلہ ہوگا۔ فون اس نے دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔ ایک عجیب سی اداسی اور تنہائی نے اسے گھیرا تھا حالانکہ وہاں فٹ پاتھ پر اس کے آس پاس سے درجنوں لوگ گزر رہے تھے اور برابر سڑک پر کئی گاڑیاں چل رہی تھیں… پھر بھی اس نے عجیب ہی تنہائی محسوس کی تھی… یہ ویسی ہی تنہائی تھی جو وہ امامہ کی عدم موجودگی میں محسوس کرتا تھا۔
’’مجھے لگتا ہے میری زندگی میں سکون نہیں ہے۔ کچھ دیر کے لئے سب کچھ ٹھیک رہتا ہے، پھر کچھ نہ کچھ غلط ہونے لگتا ہے۔‘‘
اس نے کئی بار امامہ سے یہ سنا تھا اور وہ کبھی اس سے یہ اعتراض نہیں کرسکا تھا کہ یہ صرف اس کی نہیں خود اس کی اپنی زندگی کا بھی یہی اندازہ تھا… کہیں نہ کہیں کچھ ٹھیک نہیں رہتا تھا، اس کی زندگی میں بھی…
اس فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے ایک لمبے عرصے کے بعد سالار سکندر نے اپنی سینتیس سالہ زندگی کے حاصل، محصول پر نظر دوڑائی تھی… نعمتیں یقینا بے شمار تھیں… اتنی کہ وہ گننے بیٹھتا تو گنتی بھول جاتا… لیکن بے سکونی تھی جو کسی بلا کی طرح ان کی زندگیوں کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھی۔ وہ بے سکونی کی جڑ تک پہنچنے میں ناکام رہتا تھا۔ وہ حافظ قرآن تھا۔ عملی مسلمان تھا۔ عبادات اور حقوق العباد دونوں میں مثالی… گناہوں سے تائب… نعمتوں سے سرفراز… لیکن سکون دل کو ترستا ہوا… خالی پن کا شکار…
سوچوں کی رفتار یک دم ٹوٹی تھی… وہ حیران ہوا تھا… وہ کس بحران میں کیا سوچنے بیٹھ گیا تھا۔ وہ آزمائش میں پھنسا تھا لیکن وہ اتنی بڑی آزمائش نہیں تھی کہ وہ اپنی پوری زندگی کے حاصل و محصول کو اس بوندا باندھی میں، ورلڈ بینک کی عمارت سے اپنے ہوٹل تک کے راستے میں چلتے ہوئے سوچتا… اس کی چھٹی حس اسے جیسے بڑے عجیب انداز میں بے چین کررہی تھی۔
اس نے اپنی ہر منفی سوچ کو ذہن سے جھٹک دیا تھا۔ شاید یہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہورہا تھا۔ اس نے چند لمحوں کے لئے سوچا تھا اور پھر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔
اپنے ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر اپنا لیپ ٹاپ والا بیگ رکھتے ہوئے اس نے معمول کے انداز میں ٹی وی آن کیا تھا۔ ایک مقامی چینل پر واشنگٹن میں صبح سویرے ہونے والے ایک ٹریفک حادثے کی خبر چل رہی تھی، جس میں دو مسافر موقع پرمرگئے تھے، جبکہ تیسرا مسافر شدید زخمی حالت میں اسپتال میں تھا۔ لوکل چینل پر تباہ شدہ گاڑی کو جائے وقوع سے ہٹایا جارہا تھا۔ اپنا لانگ کوٹ اتارتے ہوئے سالار نے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ سے چینل بدلنا چاہا، لیکن پھر اسکرین پر چلنے والے ایک ٹکر کو دیکھتے ہوئے وہ جامد ہوگیا۔ اسکرین پر اسکرول میں اس حادثے کے متعلق مزید تفصیلات دی جارہی تھیں اور اس میں زخمی ہونے والے شخص کا نام پیٹرس ایباکا بتایا جارہا تھا جو ایک activist تھا اور سی این این کے کسی پروگرام میں شرکت کے لئے آرہا تھا۔ سالار کا دماغ جیسے بھک سے اُڑگیا تھا۔
دنیا میں ہزاروں پیٹرس ایباکا ہوسکتے تھے۔ لیکن کانگو میں پگمیز کے لئے کام کرنے والا پیٹرس ایباکا ایک ہی تھا۔ اور سالار یہ بھی جانتا تھا کہ وہ پچھلے کئی دنوں سے امریکا میں تھا… وہ امریکا روانہ ہونے سے پہلے اس سے ملنے آیا تھا، اور اس نے سالار کو بتایا تھا کہ اس کے کچھ دوستوں نے بالآخر بڑی کوششوں اور جدوجہد کے بعد کچھ بڑے نیوز چینلز کے نیوز پروگرامز میں اس کی شرکت کے انتظامات کئے تھے اور یہ گارڈین میں شائع ہونے والی رپورٹ کے بعد ممکن ہوسکا تھا۔
’’اس کا مطلب ہے کہ چھری میری گردن پر گرنے والی ہے۔‘‘ سالار نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔ ’’تم اگر اس پروجیکٹ کے حوالے سے ورلڈ بینک اور اس کے عہدے داران پر تنقید کروگے تو سب سے پہلے میں ہی نظروں میں آؤں گا اور یہ چینلز مجھ سے رسپانس لینے کے لئے رابطہ کریں گے۔‘‘
سالار کو اس مشکل صورت حال کا اندازہ ہونے لگا تھا جس میں وہ پیٹرس ایباکا کے اٹرویوز کے بعد پھنستا۔ وہ آتش فشاں جو بہت عرصہ سے پک رہا تھا، وہ اب پھٹنے والا تھا اور پھٹنے کے ساتھ ساتھ وہ بہت سوں کو بھی ڈبونے والا تھا۔
’’میں تمہیںبچانے کی پوری کوشش کروں گا۔‘‘ ایباکا نے اسے یقین دلایا تھا۔ ’’میں تم پر کوئی تنقید نہیں کروں گا بلکہ تمہاری سپورٹ کے لئے تمہاری تعریف کروں گا۔ تم تو اب آئے ہو، یہ پروجیکٹ تو تمہاے آنے سے پہلے جاری ہے۔‘‘




Loading

Read Previous

بے غیرت — دلشاد نسیم

Read Next

جزا — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!