آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

’’میں ان میں سے کسی بھی بات کا جواب دینے سے پہلے اس پروجیکٹ کے حوالے سے ایک پریزنٹیشن دینا چاہتا ہوں کیوں کہ میرا خیال ہے یہ پریزنٹیشن ان میں سے بہت سارے سوالات اور اعتراضات کا جواب دے دے گی، جو آپ لوگ مجھ پر کررہے ہیں۔‘‘
سالار نے مائیکل کے ابتدائی کلمات کے بعد اس کے کسی الزام کا جواب دینے کے بجائے کہا تھا۔ ان سات افراد میں سے کسی نے اسے اس پریزنٹیشن کو پیش کرنے سے روکا نہیں تھا لیکن ان میں سے کسی نے اس پریزنٹیشن کی نوعیت اور مقصد جاننے میں دلچسپی بھی نہیں لی تھی۔
سالار ایک بعد ایک سلائیڈ پروجیکٹر پر دکھاتا گیا۔ اس میں بہت سارے حقائق اور اعداد و شمار تھے اور اس کی اپنی ذاتی تحقیق بھی… وہ ان تمام چیزوں کو ان سلائیڈز کے ذریعے دکھا رہا تھا۔ ورلڈ بینک کے تعاون سے اگر وہ منصوبہ توڑ چڑھ جاتا تو افریقہ کی جنگلی حیاتیات کے ساتھ ساتھ پگمیز کی ممکنہ تباہی کے حوالے سے ہولناک اعداد و شمار… ورلڈ بینک کے چارٹر کی کون کون سی شقوںکی خلاف ورزی اس پروجیکٹ کے ذریعے ہورہی تھی۔ ان جنگلات میں کام کرنے والی کمپنیز کی طرف سے کانگو کی مقامی آبادی کے استحصال کے ڈاکومینٹری ثبوت… اور انٹر نیشنل ڈونر کمپنیز اور این جی او کے خدشات پر مشتمل رپورٹس کے حوالے سے… اس کی پریزنٹیشن مکمل تھی، اور وہ اگر کسی اخبا ریا نیوز نیٹ ورک کے ہاتھ لگ جاتی تو افریقہ میں وہ ورلڈ بینک کا سب سے بڑا اسکینڈل ہوتا۔ ان سات لوگوں نے وہ پریزنٹیشن بے تاثر چہروں کے ساتھ اپنی اپنی کرسیوں پر ساکت بیٹھے دم سادھے دیکھی تھی، لیکن آدھ گھنٹہ کی اس پریزنٹیشن کے ختم ہونے کے بعد ان ساتوں کے ذہن میں جو خدشہ ابھرا تھا وہ ایک ہی تھا… سالار سکندر کے ہاتھ میں وہ گرنیڈ تھا جس کی پن وہ نکال کر اسے ہاتھ میں لئے بیٹھا تھا… مسئلہ یہ نہیں تھا کہ وہ گرنیڈ دوسرے کی طرف پھینک دینے سے ان کی جان چھوٹ جاتی… وہ جہاں بھی پھٹتا وہیں تباہی پھیلاتا۔
پروجیکٹر کی اسکرین تاریک ہوئی۔ سالار نے اپنے لیپ ٹاپ کو بند کرتے ہوئے ان ساتوں لوگوں کے چہروں پر نظر ڈالی، مائیکل کے چہرے کو دیکھا جو اس کی صدارت کررہا تھا۔ اتنے سالوں کی پبلک ڈیلنگ کے بعد وہ اتنا اندازہ تو لگا ہی پایا تھا کہ اس نے پریزنٹیشن تیار کرنے اور اسے یہاں پیش کرنے میں اپنا وقت ’’ضائع‘‘ کیا تھا۔
’’تو تم اس پروجیکٹ پر کام نہیں کرنا چاہتے؟‘‘





مائیکل نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے اس سے جو سوال کیا تھا، اس نے بورڈ روم میں موجود لوگوں کے حوالے سے سالار کے خدشات کی جیسے تصدیق کی تھی۔
’’میں یہ چاہتا ہوں کہ ورلڈ بینک کانگو میں اس پروجیکٹ کو ختم کردے۔‘‘ تمہید اگر مائیکل نے نہیں باندھی تھی تو سالار نے بھی اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کیا تھا۔
’’تم مضحکہ خیز باتیں کررہے ہو۔ اتنے سالوں سے شروع کیے جانے والے ایک پروجیکٹ کو ورلڈ بینک، ایک چھوٹے سے عہدے دار کے کہنے پر ختم کردے کیوں کہ اسے بیٹھے بٹھائے یہ فوبیا ہوگیا ہے کہ بینک کانگو میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے پروجیکٹس کو سپورٹ کررہا ہے۔‘‘
وہ جولیا پٹر ورڈ تھی جس نے بے حد تضحیک آمیز انداز میں، سلگا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ سالار سے کہا تھا۔ وہ اس کمرے میں مائیکل کے بعد سب سے سینئر تھی۔
’’اگر میں فوبیا کا شکار ہوں یا یہ میرا دماغی خلل ہے تو یہ بیماری اس وقت ان جنگلات میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کو لاحق ہوچکی ہے۔‘‘ سالار سکندر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا۔
’’تم کیا ہو…؟ کس حیثیت میں کانگو میں بیٹھے ہو؟ ورلڈ بینک کے ایک ایمپلائی کے طور پر یا ایک ہیومن رائٹس ایکٹویسٹ کے طور پر؟ کانگو کے لوگ یا پگمیز تمہارا سر درد نہیں ہیں۔ تمہاری ترجیح صرف ایک ہونی چاہیے کہ تم مقررہ وقت پر اس پروجیکٹ کو مکمل کرو اور تمام اہداف کے حصول کے ساتھ۔‘‘
اس بار بات کو ترشی سے کاٹنے والا الیگزینڈر رافیل تھا جو ورلڈ بینک کے صدر کے قریب ترین معاونین میں سے ایک تھا۔
’’تم نے اپنا کانٹریکٹ پڑھا ہے وہ شرائط و ضوابط پڑھی ہیں جو اس کانٹریکٹ میں ہیں اور جن سے تم نے اتفاق کرتے ہوئے سائن کیے ہیں؟ تم اپنے کانٹریکٹ کی خلاف ورزی کررہے ہو… اور بینک تمہیں جاب سے نکالنے کا پورا اختیار رکھتا ہے اس کے بدلے میں۔‘‘
اس کے لہجے کی رکھائی اس کا شناختی نشان تھی وہ اسی رکھائی اور بے مہری کے لئے جانا جاتا تھا… سالار وہاں موجود تمام لوگوں کو ان کی قابلیت کے علاوہ ان کی خصوصیات کے حوالے سے بھی جانتا تھا۔
’’میں نے اپنا کانٹریکٹ پڑھا ہے اور صرف ایک بار نہیں کئی بار پڑھا ہے۔ میں نے ورلڈ بینک کا چارٹر بھی پڑھا ہے اور نہ میرے کانٹریکٹ میں نہ ورلڈ بینک کے چارٹر میں کہیں یہ تحریر ہے کہ مجھے کوئی ایسا کام کرنا پڑے گا جو بنیادی انسانی حقوق اور کسی ملک کے قوانین و ضابطوں کی دھجیاں اُڑا کر ہوسکے… اگر ایسی کوئی شق میرے کانٹریکٹ میں شامل تھی اور میں اسے نظر انداز کر بیٹھا ہوں تو آپ مجھے ریفرنس دیں… میں ابھی اپنے کانٹریکٹ میں اسے پڑھ لیتا ہوں۔ ای میل کی صورت میں میرا کانٹریکٹ میرے پاس موجود ہے۔‘‘ اس نے لیپ ٹاپ ایک بار پھر آن کیا تھا۔
الیگزینڈر رافیل چند لمحوں کے لئے بول نہیں سکا۔ اس کے ماتھے پر بل تھے اور مسلسل تناؤ میں رہنے کی وجہ سے وہ مستقل جھریوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ وہ صرف اس وقت چہرے سے خوش گوار لگتا جب اس کے چہرے پر بھولے بھٹکے ہوئے مسکراہٹ آتی ورنہ کرختگی اس کے مزاج کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کا بھی ایک نمایاں حصہ تھی۔ اپنی کرنجی آنکھوں کو موڑتے ہوئے اس نے سالار سے کہا۔
’’تم اپنے آپ کو ان لوگوں سے زیادہ قابل سمجھتے ہو جنہوں نے یہ پروجیکٹ کئی سال کی تحقیق کے بعد شروع کیا تھا۔ تم سمجھتے ہو جنہوں نے feasabilityبنائی تھی، وہ idiots تھے؟‘‘ وہ اب تضحیک آمیز انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
’’نہیں… وہ idiotsنہیں تھے اور نہ ہی میں idiotہوں… وہ فیئر نہیں تھے اور میں ہوں، بات صرف اس دیانت کی ہے جو اس پروجیکٹ کی feasabilityرپورٹ تیار کرتے ہوئے نظر انداز کی گئی ہے، ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس پروجیکٹ کی feasabilityرپورٹ تیار کرنے والے اتنے عقل کے اندھے اور نااہل ہوں کہ انہیں وہ سب نظر نہ آیا ہو جو مجھے نظر آرہا ہے اور میرے علاوہ اور لاکھوں مقامی لوگوں کونظر آرہا ہے۔ ورلڈ بینک کو اس پروجیکٹ کے حوالے سے دوبارہ انویسٹی گیشن کرنی چاہیے ایک انکوائری کمیٹی بناکر… مجھے یقین ہے کہ اس کمیٹی نے دیانت داری سے کام کیا تو انہیں بھی یہ سب نظر آجائے گا جو مجھے نظر آرہا ہے۔‘‘ سالار سکندر نے رافیل کے ہتک آمیز جملوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’میرے خیال میں بہتر ہے کہ اس ڈیڈ لاک کوختم کرنے کے لئے ایک کام کیا جائے جو واشنگٹن اور گومبے میں تمہارے آفس میں اس پروجیکٹ کے حوالے سے پیدا ہوگیا ہے۔‘‘
اس بار بولنے والا بل جاؤلز تھا۔ وہ واشنگٹن میں ورلڈ بینک کی میڈیا کو آرڈی نیشن کو مانیٹر کرتا تھا اور اس پروجیکٹ کے حوالے سے انٹر نیشنل میڈیا میں آنے والی خبروں کو دبانے میں اس کی قابلیت اور اثر و رسوخ کا بڑا عمل دخل تھا۔ ’’تم ریزائن کردو جیسے تم نے پریزنٹیشن اور بینک کے ساتھ ہونے والی آفیشل خط و کتابت میں بھی آفر کیا تھا کہ اس پروجیکٹ کو تم اس طرح نہیں چلاسکتے۔‘‘
وہ بڑے تحمل اور رسانیت سے سالار سکندر کو جیسے صلاح دے رہا تھا۔
’’اگر یہ آپشن ورلڈ بینک کو زیادہ مناسب لگتا ہے تو مجھے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مجھے بھی اس مسئلے کا حل صرف میرا استعفیٰ نظر آرہا ہے، لیکن میں اپنے استعفے کی وجوہات میں، اس پریزنٹیشن میں دیئے جانے والے سارے اعداد و شمار شامل کروں گا اور اپنے تحفظات بھی لکھوں گااور میں اس استعفے کو پبلک کروں گا۔‘‘
بورڈ روم میں چند لمحوں کے لئے خاموشی چھائی تھی۔ وہ بالآخر اس ایک نکتے پر آگئے تھے جس کے لئے سالار سکندر کو کانگو سے واشنگٹن طلب کیا گیا تھا اور جو ورلڈ بینک کے گلے میں ہڈی بن کر پھنسا ہوا تھا۔ بورڈروم میں بیٹھے ان سات لوگوں کے پاس صرف دو ٹاسک تھے یا سالار سکندر کو اس پروجیکٹ کو جاری رکھنے کے لئے تیار کیاجائے اور اس ے کہا جائے کہ وہ … وہ رپورٹ واپس لے لے جو اس نے ورلڈ بینک کو اس حوالے سے ارسال کی تھی یا پھر اس سے خاموشی سے استعفیٰ لیا جائے اور وہ استعفیٰ ذاتی وجوہات کی بناء پر ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ اس کے تحریری استعفے میں بیان نہیں ہونی چاہیے اور اب مسئلہ اس سے بڑھ گیا تھا۔ وہ نہ صرف استعفے میں یہ سب کچھ لکھنا چاہتا تھا بلکہ اس استعفے اور اس رپورٹ کو پبلک بھی کرنا چاہتا تھا۔
اگلے تین گھنٹے تک وہ بورڈ روم میں بیٹھے ہوئے سات افراد اس کے ساتھ بحث کرکے اسے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ انہوں نے اس پر ہر حربہ استعمال کرلیا تھا۔ جب دلیلوں سے کام نہیں بنا تھا تو انہوں نے بینک کے کانٹریکٹ میں استعفے کے حوالے سے کچھ شقوں کو اٹھا کر اسے دھمکی دی تھی کہ وہ جاب کے دوران اپنے علم میں لائے گئے تمام پروفیشنل معاملات کو صیغہ راز میں رکھنے کا پابند ہے اور اس استعفے کو پبلک کرنے اور اس رپورٹ کو میڈیا پر لانے پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی تھی اور اسے نہ صرف مالی طور پر لمبا چوڑا ہر جانہ بھرنا پڑتا، بلکہ وہ آئندہ بینک یا اس سے منسلک کسی بھی چھوٹے بڑے ادارے کی جاب کرنے کے لئے نااہل قرار دے دیا جاتا۔ سالار سکندر کو پتا تھا، یہ دھمکی نہیں تھی، بہت بڑی دھمکی تھی۔ وہ بالواسطہ طور پر اسے بتا رہے تھے کہ وہ اس کے پروفیشنل کیرئیر کو کم از کم صرف ورلڈ بینک میں ہی نہیں بلکہ ان تمام انٹر نیشنل آرگنائزیشنز میں ختم کردیتے جو امریکا کی سرپرستی میں چلتی تھیں اور اسے پتا تھا وہ یہ کرسکتے تھے۔
وہ اب بین الاقوامی طور پرجس سطح پر کام کررہا تھا وہاں اس کے حوالے سے ایک چھوٹی سی قانونی چارہ جوئی بھی ایک اکنامسٹ فنانشل تجزیہ کار کے طور پر اس کی ساکھ تباہ کرکے رکھ دیتی۔ کوئی نامور ادارہ اس کے خلاف اس طرح کے الزامات پر ہونے والی قانونی چارہ جوئی کے بعد اسے کبھی نہ رکھتا کہ اس نے اپنے کانٹریکٹ میں موجود رازداری کی شق کی خلاف ورزی کی تھی۔ یہ اس کی ساکھ پر لگنے والا ایسا دھبا ہوتا جسے وہ کبھی بھی مٹا نہیں سکتا تھا۔ ان سات لوگوں نے اسے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ ورلڈ بینک اس کے ماتحت کانگو میں چلنے والے پروجیکٹس کو نئے سرے سے آڈٹ کروائے گا اور مالی اور دوسری بے ضابطگیوں کے بہت سے ثبوت نکال کر اسے بہت بے عزت کرکے اس عہدے سے فارغ کیا جاسکتا تھا جس پر وہ کام کررہا تھا، پھر اگر وہ اس پروجیکٹ کے حوالے سے اپنی رپورٹ لے کر میڈیا کے پاس بھی جاتا تب بھی اس کے الزامات اور رپورٹ اپنی حیثیت کھو دیتے کیونکہ بینک کے پاس جوابی طور پر اس کے خلاف کہنے کے لئے بہت کچھ ہوتا اور میڈیا اس کی اس رپورٹ کو ذاتی عناد اور بغض کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتا۔ وہ نچلے درجے کی بلیک میلنگ تھی جس پر وہ اتر آئے تھے۔ سالار جانتا تھا وہ یہ کر بھی سکتے تھے۔ اس کی فنانشل اور پروفیشنل دیانت داری پر ورلڈ بینک میں کبھی انگلی نہیں اٹھائی گئی تھی اور اس کا پروفیشنل ریکارڈ اس حوالے سے قابل رشک تھا، لیکن وہ جانتا تھا اگر ورلڈ بینک کانگو میں اس کے آفس کے ذریعے چلنے والے پروجیکٹس میں کوئی سقم یا غبن تلاش کرنے پر مصر تھا تو وہ یہ ڈھونڈ ہی لیتے۔ وہ یا دنیا کا کوئی بندہ ورلڈ بینک کی آڈٹ ٹیم کی چھری سے نہیں بس سکتا تھا، اگر انہیں اس مقصد کے ساتھ بھیجا گیا ہوکہ انہیں کسی جگہ پر ہر صورت میں کوئی مالی بے ضابطگی تلاش کرنا ہی تھی۔
عام حالات میں سالار اس طرح کے کسی معاملے پر اپنے آپ کو اتنی مشکل صورت حال میں کبھی نہ ڈالتا، خاص طور پر اب جب اس کی ایک فیملی تھی۔ ایک بیوی تھی۔ کم سن بچے تھے، جو اس پر انحصار کرتے تھے لیکن یہ عام حالات نہیں تھے۔ پیٹرس ایباکا نے اسے ان سارے معاملات کے معاملے میں بے حس نہیں رہنے دیا تھا۔ یہ اس کی بدقسمتی تھی۔ وہ افریقہ اور پگمیز کے بارے میں جذباتی ہوکر سوچنے لگا تھا اور اس کی یہ ہی جذباتیت اس وقت اس کے آڑے آرہی تھی۔ خاموشی سے اس معاملے پر استعفیٰ دے کر اس سارے معاملے سے الگ ہوجانے کا مطلب صرف ایک تھا۔ وہ بھی اس جرم کا شریک کار ہوتا جو اکیسویں صدی کی اس دہائی میں کانگو میں پگمیز کے ساتھ کیا گیا ہوتا۔ وہ روکنے والوں اور احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوکر تاریخ کا حصہ نہ بنتا مگر اس کا مسئلہ تاریخ کا حصہ بننے کی خواہش نہیں تھی، صرف ضمیر کی چبھن سے بچنے کی خواہش تھی جو زندگی کے کسی نہ کسی اسٹیج پر اسے احساس جرم کا شکار کرتی۔
دباؤ اور دھمکیاں جتنی بڑھتی گئی تھیں، سالار سکندر کی ضد بھی اتنی ہی بڑھتی گئی تھی۔ اگر سکندر عثمان اس کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ڈھٹائی میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں، تو وہ ٹھیک کہتے تھے۔ اس کا ایک عملی مظاہرہ اس نے واشنگٹن ڈی سی میں ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹرز میں سات لوگوں کے اس گروپ کے سامنے بھی پیش کردیا تھا جو سالار سکندر جیسے عہدے داران کو چٹکی بجاتے میں موم کی ناک کی طرح موڑ لیتے تھے۔
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ تین گھنٹے کے بعد بالآخر مائیکل نے اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے، جیسے اس سے پوچھا۔
’’ایک غیر جانب دارانہ انکوائری ٹیم جو اس پروجیکٹ کا نئے سرے سے جائزہ لے اور اس کے بعد پگمیز اور ان بارانی جنگلات کے بہترین مفاد میں اس پروجیکٹ کو ختم کردے یا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو ان جنگلات میں رہنے والے لوگوں کے لئے قابل قبول ہو اور میں مقامی لوگوں کی بات کررہا ہوں۔ وہاں کی مقامی حکومت اور اس کے عہدے داران کی بات نہیں کررہا۔‘‘
سالار سکندر نے جواباً وہی مطالبہ دہرایا تھا جو اس کی پریزنٹیشن کی بنیاد تھا۔
’’تمہاری قیمت کیا ہے؟‘‘ الیگزینڈر نے جواباً، جو سوال اس سے کیا تھا اس نے سالار سکندر کو جیسے بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ وہ اس ہیڈ کوارٹرز میں ہر نرم گرم گفت گو کی توقع کرسکتا تھا لیکن معاملات کو نمٹانے کے لئے اس جملے کی نہیں۔ ’’کوئی تو ایسی چیز ہوگی جس کے لئے تم اپنے اس مطالبے سے ہٹ جاؤ۔ ہمیں بتاؤ وہ کون سی ایسی چیز ہے جس پر تم ہم سے سودا کرلو۔‘‘ رافیل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سالار نے ٹیبل پر رکھی اپنی چیزیں سمیٹنا شروع کردیں۔
’’میری کوئی قیمت نہیں ہے اور میں نے ورلڈ بینک کو اسی غلط فہمی میں جوائن کیا تھا کہ میں ایسے لوگوں کے ساتھ کام کروں گا جو دنیا میں اپنی پروفیشنل مہارت اور قابلیت سے جانے جاتے ہیں۔ اگر بروکرز کے ساتھ کام کرنا ہوتا، بیچنے، خریدنے اور قیمت لگانے والا تو اسٹاک ایکسچینج میں کرتا یا کسی بینک میں انوسٹمنٹ بینکنگ۔‘‘




Loading

Read Previous

بے غیرت — دلشاد نسیم

Read Next

جزا — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!