آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

ایباکا کو بات کرتے کرتے احساس ہوا تھا۔ سالار بہت دیر سے خاموش تھا۔ اسے لگا، وہ شاید اس کی گفتگو میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔
’’نہیں، اتنا فلاسفر تو میں بھی ہوں۔‘‘ سالار نے مسکرا کر کہا۔’’تم امریکہ سے یہاں واپس کیسے آگئے؟‘‘ سالار نے اس سے وہ سوال کیا جو اسے اکثر الجھاتا تھا۔
’’ایک چیز جو میں نے ریورنڈ جانسن سے سیکھی تھی، وہ اپنے لوگوں کے لئے ایثار تھا۔ اپنی ذات سے آگے کسی دوسرے کے لئے سوچنا۔ امریکہ بہت اچھا تھا وہاں میرے لئے مستقبل تھا، لیکن صرف میرا مستقبل تھا۔ میری قوم کے لئے کچھ نہیں تھا۔ میں کانگو کا پست قامت حقیر سیاہ فام تھا اور میں امریکہ میں بھی کانگو پگمی کا ہی رہا لیکن میں کانگو میں کچھ اور بننے کا خواب لے کر آیا ہوں۔‘‘ ایباکا کہہ رہا تھا۔
’’اور وہ کیا؟‘‘ سالار کو پھر تجسس ہوا تھا۔
’’کانگو کا صدر بننے کا۔‘‘ سالار کے چہرے پرمسکراہٹ آئی۔
’’تم ہنسے نہیں؟‘‘ ایباکا نے جواباً کہا تھا۔
’’تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی کہ میں ہنس پڑوں۔ ہارورڈ کینڈی اسکول سے پڑھنے کے بعد تمہیں اتنے ہی بڑے خواب دیکھنے چاہئیں۔‘‘ ایباکا اس کی بات پر مسکرا دیا تھا۔
وہ مہینے سالار کے لئے بے حد پریشانی کے تھے۔ کیا کرنا چاہیے اور کیا کرسکتا تھا، کے درمیان بہت فاصلہ تھا۔ وہ ایباکا کی مددنہ بھی کرتا تب بھی۔ وہ جتنی جانفشانی سے وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑرہا تھا۔ سالار کو یقین تھا جلد یا بدیر ورلڈبینک کے چہرے پر کالک ملنے والا ایک بہت بڑا سکینڈل آنے والا تھا۔ حفاظتی اقدامات کا وقت اب گزر چکا تھا۔ پیٹرس ایباکا صرف کنگالا یا سواحلی بولنے والا ایک پست قد یساہ فام نہیں تھا جسے کانگو کے جنگلات تک محدود کیا جاسکتا، وہ امریکہ میں اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے والا شخص تھا جس کے کانٹیکٹس تھے۔ وہ رابطے وقتی طور پر اگر اس کے کام نہیں بھی آرہے تھے تو بھی اس سے ایباکا کمزور نہیں پڑا تھا بلکہ کئی حوالوں سے وہ زیادہ طاقت ور بن کر ابھرا تھا۔ وہ صرف پگمیز کی آواز نہیں رہاتھا بلکہ بانٹو قبیلے کے بہت سے افراد کی آواز بھی بن چکا تھا جو پگمیز کی طرح جنگلات پر انحصار کرتے تھے۔
اگلا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ہی ایباکا کے ساتھ اس کا میل جول ان لوگوں کی نظروں میں آگیا تھا جن کے مفادات ورلڈ بینک کے ذریعے پورے ہورہے تھے۔
سالار پر نظر رکھی جانے لگی تھی اور اس سے پہلے کہ اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی، انگلینڈ کے ایک اخبار نے پیٹرس ایباکا کی فراہم کی گئی معلومات کی تحقیق کرنے کے بعد کانگو کے پگمیز اور ورلڈ بینک کے کانگو کے بارانی جنگلات میں ہونے والے پروجیکٹس کے بارے میں ایک کور اسٹوری کی تھی جس میں ورلڈ بینک کے کردار کے حوالے سے بہت سارے اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔





واشنگٹن میں ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر میں جیسے ہلچل مچ گئی تھی۔ ورلڈ میڈیا میں اس معاملے کی رپورٹنگ اور کوریج کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی مگر اس سے پہلے ہی یورپ اور ایشیا کے بہت سارے ممالک کے ممتاز اخبارات اس آرٹیکل کوری پرنٹ کرچکے تھے اور ورلڈ بینک کے اندر مچی وہ ہلچل اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی، جب سالار سکندر کی طرف سے ہیڈ آفس کو کانگو میں چلنے والے ان پروجیکٹس کے حوالے سے ایک تفصیلی ای میل کی گئی جس میں اس نے مختلف ماحولیاتی اداروں سے ملنے والا ڈیٹا بھی منسلک کیا تھا جو ان جنگلات کی اس طرح کٹائی کو ایک بڑے ماحولیاتی عدم توازن کا پیش خیمہ قرار دے چکے تھے۔ ایک انسانی المیہ کے علاوہ۔ اس کا وہ خط بینک کے اعلیٰ عہدے داران کے لئے شدید پریشانی کا باعث بنا تھا اور یہی وہ وقت تھا جب سالار سکندر کو نامعلوم ذرائع کی طرف سے دھمکیوں کا آغاز ہوا تھا۔ وہ پروجیکٹس جو انہیں چلانے والی کمپنیوں کو اربوں ڈالرز کی آمدنی دے رہے تھے بینک کے اپنے کنٹری ہیڈ کی مخالفت کا باعث بنتے تو وہ کمپنیز اور ان کے پیچھے کھڑی بین الاقوامی طاقتیں خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتی تھیں۔ کوئی عام صورت حال ہوتی تو اس وقت تک سالار سکندر سے استعفیٰ لے کر اسے بڑے ہتک آمیز طریقے سے ملازمت سے فارغ کیا جاچکا ہوتا مگر اس وقت اس کا استعفیٰ، انٹر نیشنل میڈیا کے تجسس کو اور ابھار دیتا۔ وہ طوفان جو ابھی چائے کے کپ میں آیا تھا وہ اس سے باہر آجاتا۔
اس ای میل کا جواب سالار سکندر کو ایک تنبیہہ کی صورت میں دیا گیا تھا جو سادہ لفظوں میں خاموش ہوجانے کی تاکید تھی اور سالار کے لئے غیر متوقع نہیں تھی۔
بینک نے نہ صرف اس ای میل میں ہونے والے اس کے تجزیے کو ناپسند کیا تھا بلکہ پیٹرس ایباکا کی فراہم کی جانے والی بنیاد پر گارڈین میں شائع ہونے والی کور اسٹوری کا ملبہ بھی اس کے سر ڈالتے ہوئے اسے، ایباکا اور اس کور اسٹوری میں استعمال ہونے والی معلومات کا ذریعہ قرار دیا گیا تھا۔
یہ الزام سالار سکندر کے پروفیشنل کام پر ایک دھبے کے مترادف تھا۔ پیٹرس ایباکا سے ہمدردی رکھنے، متاثر ہونے اور میل جول کے باوجود سالار نے اس سے بینک کی کسی انفارمیشن یا دستاویز کی بات کبھی نہیں کی تھی۔ ایباکا نے ساری معلومات یا دستاویزات کہاں سے لی تھیں، وہ ایباکا کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس تنبیہہ کے جواب میں سالار نے بینک کو اپنے استعفیٰ کی پیش کش کی تھی۔ اسے اب یہ محسوس ہورہا تھا کہ اسے مانیٹر کیا جاتا تھا۔ اس کی فون کاالز ٹیپ ہورہی تھیں اور اس کی ای میلز ہیک ہورہی تھیں۔ دنوں میں اس کے آفس کا ماحول تبدیل ہوگیا تھا۔ اس نے بینک کی ناراضی اور ہدایات کے باوجود ایباکا سے نہ تو اپنا میل جول ختم کیا تھا نہ ہی رابطہ ختم کیا تھا۔ استعفیٰ کی پیش کش کے ساتھ اس نے بینک کو کانگو میں چلنے والے جنگلات پروجیکٹ کے خلاف اپنی تفصیلی رپورٹ بھی بھیج دی تھی جو سالار سکندر کی اپنی تحقیقات اور معلومات کی بنیاد پر تھی اور توقع کے مطابق اسے واشنگٹن طلب کرلیا گیا تھا۔
امامہ کو اس ساری صورت حال کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ وہ امید سے تھی اور سالار اسے اس ٹینشن کا حصہ دار بنانا نہیں چاہتا تھا جس سے خود گزر رہا تھا۔
’’سب کچھ ٹھیک ہے سالار؟‘‘ وہ اس رات سالار کی پیکنگ کررہی تھی جب پیکنگ کرتے اس نے اچانک سالار سے پوچھا تھا۔ وہ اپنا بریف کیس تیار کررہا تھا۔
’’ہاںیار… تم کیوں پوچھ رہی ہو؟‘‘ سالار نے اس سے جواباً پوچھا۔
’’تم واشنگٹن کیوں جارہے ہو؟‘‘ وہ اپنے خدشوں کو کسی مناسب سوال کی شکل میں نہیں ڈھال سکی تھی۔
’’میٹنگ ہے اور میں تو اکثر آتا جاتا رہتا ہوں کہیں نہ کہیں۔ اس بار تمہیں اس طرح کے سوال کیوں پوچھنے پڑ رہے ہیں؟‘‘ اپنا بریف کیس بند کرتے ہوئے اس نے امامہ سے کہا تھا۔
’’پہلے کبھی تم اتنے پریشان نہیں لگے۔‘‘ وہ اس کی بات پر چند لمحے بول نہیں سکا۔ کوشش کے باوجود اس کا چہرہ اس کی ذہنی کیفیت کو امامہ سے پوشیدہ نہیں رکھ سکا تھا۔
’’نہیں… کوئی ایسی بڑی پریشانی نہیں ہے۔ بس شاید یہ ہوگا کہ مجھے اپنی جاب چھوڑنی پڑے گی۔‘‘
امامہ کے کندھے پر ہاتھ رکھے اس نے اپنے الفاظ اور لہجے کو ممکن حد نارمل رکھنے کی کوشش کی۔ اس بار بھونچکا ہونے کی باری امامہ کی تھی۔
’’جاب چھوڑنی پڑے گی؟ تم تو اپنی جاب سے بہت خوش تھے۔‘‘ وہ حیران نہ ہوتی تو کیا کرتی۔
’’تھا… لیکن اب نہیں ہوں۔‘‘ سالار نے مختصراً کہا تھا۔ ’’کچھ مسئلے ہیں۔ تمہیں واپس آکر بتاؤں گا۔ تم اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا۔ کہاں ہیں وہ دونوں؟‘‘
سالار نے بات بڑی سہولت سے بدل دی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے اس وقت اسے خیال آیا تھا کہ ان حالات میں اسے اپنے بچوں اور امامہ کو کنشاسا میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے، لیکن حل کیا تھا اس کے پاس۔ امامہ کی پریگننسی کے آخری مہینے چل رہے تھے۔ وہ ہوائی جہاز کا سفر نہیں کرسکتی تھی اور وہ واشنگٹن میں ہونے والی اس میٹنگ کو موخر یا کینسل کرنے کی صوابدید نہیں رکھتا تھا۔
’’تم اپنا اور بچوں کا بہت خیال رکھنا۔ میں صرف تین دن کے لئے جارہا ہوں، جلدی واپس آجاؤں گا۔‘‘ وہ اب بچوں کے کمرے میں بستر پر سوئے ہوئے جبریل اور عنایہ کو پیار کررہا تھا۔ اس کی فلائٹ چند گھنٹوں بعد تھی۔‘‘ ملازمہ کو اپنے پاس گھر پر رکھنا میری غیر موجودگی میں۔‘‘ اس نے امامہ کو ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’تم ہماری فکر مت کرو۔ تین دن ہی کی تو بات ہے۔ تم صرف اپنی میٹنگ کو دیکھو۔ آئی ہوپ، وہ ٹھیک رہے۔‘‘ امامہ کو واقعی اس وقت تشویش اس کی میٹنگ کی ہی تھی۔
اسے آدھے گھنٹے میں نکلنا تھا۔ اس کا سامان پیک تھا۔ وہ دونوں چائے کا ایک آخری کپ پینے کے لئے لاؤنج میں ساتھ بیٹھے تھے اور اس وقت چائے کا پہلا گھونٹ پینے سے پہلے سالار نے اس سے کہا تھا۔
’’میں تم سے محبت کرتا ہوں اور میں تم سے ہمیشہ محبت کرتا رہوں گا۔‘‘
امامہ اپنی چائے اٹھاتے ہوئے ٹھٹکی، پھر ہنسی۔ ’’آج بہت عرصے کے بعد تم نے کہیں جانے سے پہلے ایسی کوئی بات کہی ہے۔ خیریت ہے؟‘‘
وہ اب اس کا ہاتھ تھپک رہی تھی۔ سالار نے مسکرا کر چائے کا کپ اٹھالیا۔
’’ہاں خیریت ہے، لیکن تمہیں اکیلا چھوڑ کر جارہا ہوں اس لئے فکر مند ہوں۔‘‘
’’اکیلی تو نہیں ہوں میں۔ جبریل اور عنایہ ہیں میرے ساتھ۔ تم پریشان مت ہو۔‘‘
سالار چائے کے گھونٹ بھرتا رہا، امامہ چائے پینے لگی لیکن اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔
’’تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ وہ چائے پیتے ہوئے چونکا، پھر مسکرایا۔ وہ ہمیشہ اسے بوجھ لیتی تھی۔ ہمیشہ۔
’’ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی نہیں کروں گا، واپس آکر کروں گا۔‘‘ اس نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تمہاری یہ عادت سخت ناپسند ہے، ہر دفعہ کہیں جاتے ہوئے مجھے الجھا جاتے ہو، میں سوچتی رہوں گی کہ پتا نہیں کیا اعتراف کرنا ہے۔‘‘
امامہ نے ہمیشہ کی طرح برامانا تھا اور اس کا گلہ غلط نہیں تھا وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا تھا اور جان بوجھ کر کرتا تھا۔
’’اچھا دوبارہ کبھی نہیں کروں گا۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس کے جانے کا وقت ہورہا تھا۔ بازو پھیلائے وہ ہمیشہ کی طرح جانے سے پہلے امامہ سے آخری بار مل رہا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ایک ایک گرم جوش معانقہ۔
’’آئی ول مس یو، جلدی آنا۔‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح جذباتی ہوئی تھی اور وہی کلمات دہرائے تھے جو وہ ہمیشہ دہراتی تھی۔
پورچ میں کھڑے آخری بار اس کو خدا حافظ کہنے کے لئے اس نے الوداعی انداز میں سالار کی گاڑی کے چلتے ہی ہاتھ ہلایا تھا۔ گاڑی تیز رفتاری سے طویل پورچ کو عبور کرتے ہوئے کھلے ہوئے گیٹ سے باہر نکل گئی تھی۔
امامہ کو لگا تھا زندگی اور وقت دونوں تھم گئے تھے۔ وہ جب کہیں چلا جاتا، وہ اسی کیفیت سے دوچار ہوتی تھی، آج بھی ہورہی تھی۔ گارڈ نے اب گیٹ بند کردیا تھا۔
شادی کے چھ سال کے بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ زندگی جیسے ایک پٹڑی پر چلنے لگتی ہے۔ روز مرہ کے معمول کی پٹڑی پر۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان دائروں میں سفر کرنے لگتا ہے۔
دوبچوں کی آمد سالار اور امامہ کی زندگی کو بھی بڑی حد تک ایک دائرے کے اندر لے کر آئی تھی، جہاں اپنی ذات پیچھے چلی جاتی ہے۔ سینٹر اسٹیج بچوں کے پاس چلا جاتا ہے۔ خدشات، توقعات اور غلط فہمیوں کا وہ جال جس میں ایک نیا شادی شدہ جوڑا شادی کے شروع کے کچھ عرصہ میں جکڑا رہتا ہے۔ وہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ اعتماد لمحہ بھر میں بداعتمادی میں نہیں بدلتا۔ بے اعتباری پل بھر میں غائب ہونا سیکھ جاتی ہے۔ گلہ گونگا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ بندھن عادت میں بدلنے لگتا ہے اور زندگی معمول بنتے ہوئے یوں گزرنے لگتی ہے کہ انسان دنوں، ہفتوں مہینوں کی نہیں سالوں کی گنتی بھول جاتا ہے۔
امامہ بھی بھول گئی تھی۔ پیچھے پلٹ کر وہ دیکھنا نہیں چاہتی تھی کیونکہ پیچھے یادیں تھیں اور یادیں آکٹوپس بن کر لپٹ جانے کی خاصیت رکھتی تھیں۔ پیچھے اب کچھ رہا بھی نہیں تھا، اور جو رہ گئے تھے ان کے لئے وہ کب کی مرچکی تھی۔
٭…٭…٭
اس بورڈ روم کا ماحول ویسا نہیں تھا جیسا سالار نے ہمیشہ دیکھا تھا۔ سنجیدگی ہر بورڈکا حصہ ہوتی تھی، لیکن جو اس نے اس دن وہاں دیکھی تھی، وہ سنجیدگی نہیں تھی وہ سرد مہری تھی اور وہ سرد مہری بورڈ روم میں بیٹحے صرف کسی ایک یا دو لوگوں کے انداز اور حرکات و سکنات سے نہیں جھلک رہی تھی… وہاں اس بورڈ روم میں بیٹھے سات کے سات لوگوں کے چہروں اور آنکھوں میں ایک جیسی ٹھنڈک اور سرد مہری تھی۔ ایسی سرد مہری جو کسی کمزور اعصاب کے انسان کو حواس باختہ کرنے کے لئے کافی تھی… بے تاثر چہرے، دوسرے کے اوسان خطا کردینے والی نظریں… کسی دوستانہ مسکراہٹ سے عاری بھنچے ہوئے لب… جن پر اگر کبھی کوئی مسکراہٹ آتی بھی تو وہ ایک تضحیک آمیز اور توہین آمیز خم سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا جو پل بھر رہ کر غائب ہوجاتا تھا۔
ایک بیضوی شکل کی میز کے گرد ٹانگوں پر ٹانگیں رکھے وہ پانچ مرد اور دو عورتیں اس کام کے ماہر تھے جو اس وقت کررہے تھے… وہ ورلڈ بینک کے سالار سکندر جیسے کئی ’’باضمیر‘‘ ایمپلائز کا دھڑن تختہ کرچکے تھے جنہیں زندگی میں کبھی بیٹھے بٹھائے ورلڈ بینک میں کام کرتے کرتے پروفیشنل ethics کا دورہ پڑتا۔ انسانیت یاد آنا شروع ہوجاتی… سالار سکندر ان کے سامنے کیا شے تھا۔ کم از کم اس میٹنگ کے آغاز سے پہلے وہ یہی سوچ کر آئے تھے۔ اجتماعی طور پر ان کی حکمت یہ نہیں بھی تھی تو بھی انفرادی طور پر ان کا طریقہ کار یہی تھا۔
وہ سات لوگ سالار سکندر کے کیرئیر کے حوالے سے ایک ایک چیز جانتے تھے اور اتنی ہی معلومات وہ ان کے بارے میں رکھتا تھا۔ ان میں سے کسی کو کسی کے تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ سالار سکندر نے میٹنگ کے آغاز میں اس میٹنگ کی سربراہی کرنے والے ہیڈ کے ابتدائی کلمات بڑے تحمل سے سنے تھے۔ وہ سالار سکندر کی نااہلی، کوتاہیوں اور ناکامیوں کو ڈسکس کررہا تھا۔ سالار نے باقی چھ لوگوں کی نظریں خود پر جمی محسوس کیں۔ وہ ایک چارج شیٹ تھی جو اس پروجیکٹ کا ذکر کرتے ہوئے مائیکل فرینک اس پر لگا رہا تھا۔ سالار بھی اتنے ہی بے تاثر چہرے کے ساتھ ان الزامات کو سنتا رہا…اس میٹنگ کا ایجنڈا یہ نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود سالار کے لئے وہ سب الزامات غیر متوقع نہیں تھے۔




Loading

Read Previous

بے غیرت — دلشاد نسیم

Read Next

جزا — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!