اس نے ایبا کا سے اپناتعارف نہیں کروایا تھا پھر بھی وہ اسے نام سے کیسے جانتا تھا۔ وہ ایبا کا سے یہ سوال کئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس نے جواباً اسے بتایا کہ وہ اس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ لوموکا میں ہونے والے وزٹ کے بارے میں بھی، اسے بینک کے آفس میں کام کرنے والے کسی مقامی آدمی نے بتایا تھا، جس نے ایبا کا کی سرتوڑ کوشش کے باوجود سالار سے ملاقات کے لئے اپوائنٹ منٹ کے حصول میں اس کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ چند دنوں یا چند ہفتوں کی بات نہیں تھی۔ ایبا کا ورلڈ بینک کے کنٹری ہیڈ سے ملاقات کے لئے کئی مہینوں سے کوشش کررہا تھا۔ وہ سالار کے آفس نمبرز پر ہر روز ڈھیروں کالز کرتا رہتا تھا۔ ویب سائٹ پر موجود اس کے ای میل ایڈریس پر اس نے سینکڑوں ای میلز کی تھیں جن کا جواب ہر بار صرف موصولی ہی کا آیا تھا۔ اس کے بعد آگے کچھ نہیں… فون کالز ریسیو کرنے والے سالار کے عملے کے افراد کے پاس بھی ایبا کا کے لئے صرف ایک جواب تھا، وہ میٹنگ میں ہیں آپ کا پیغام پہنچادیا جائے گا۔
ایبا کا کی ملاقات کا مقصد جان کر اسے جواباً بڑے نارمل انداز میں ٹالا جاتا۔ اس کی گفتگو سنتے ہوئے سالار اس کی زبان و بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اسے اب شبہ نہیں رہا تھا کہ بلجیئم کی کالونی ہونے کی وجہ سے جس ملک کی قومی زبان فرنچ ہو وہاں اس امریکن لب و لہجے میں انگریزی میں اتنی روانی سے بات کرنے والا جنگلات کا باسی ہونے کے باوجود بیرون ملک کا تعلیم یافتہ ہوگا۔
یہ ناقابل یقین بات تھی، لیکن اس کے بعد جو کچھ سالار سکندر نے سنا تھا، اس نے اس کے چودہ طبق روشن کردیئے تھے۔ پیٹرس ایبا کا ہاورڈ بزنس اسکول کا گریجویٹ تھا اور روال اسٹریٹ میںجے پی مارگن گروپ کے ساتھ پانچ سال کام کرنے کے بعد کانگو آیا تھا۔
اپنے والٹ سے نکالے ہوئے کچھ وزیٹنگ کارڈز اس نے سالار سکندر کی طرف بڑھادیئے تھے اس نے بے حد بے یقینی سے انہیں پکڑا۔ وہ فقیر پست قامت بے مایہ شخص تھا… کانگو کے جنگلات میں تیروں، نیزوں اور پتھروں سے شکار کرکے پیٹ کی بھوک مٹانے والا ایک جنگلی… وہ ہاورڈ کے کینڈی بزنس اسکول کہاں سے پہنچ گیا تھا۔ اور پھر جے پی مارگن گروپ کے ساتھ منسلک رہنا… تو پھر وہ یہاں کیا کررہا تھا؟
اور یہ وہ سوال تھا جس کا جواب پیٹرس ایبا کا نے سالار سکندر کو اس کے آفس میں دوسرے دن، اپنی دوسری ملاقات میں کاغذات کے ایک انبار کے ساتھ دیا تھا، جو وہ اس ملاقات میں سالار سکندر کو دینے آیا تھا۔
پیٹرس ایبا کا دس سال کی عمر میں لوموکا میں ایک بچہ کے طور پر ایک مشنری سے متعارف ہوا تھا، جو اسے اپنے ساتھ کانگو کے جنگلات میں وہاں کے لوگوں سے رابطہ اور کمیونی کیشن کے لئے ساتھ لے کر پھرتا رہا اور پھر اسے اس حد تک اس بچے کے ساتھ لگاؤ ہوگیا کہ بیماری کی وجہ سے کانگو چھوڑنے پر وہ ایباکا کو بھی اپنے ساتھ امریکا لے گیا تھا جہاں اس نے اسے پیٹرس کا نام دیا۔ ایک نیا مذہب بھی… لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے ایبا کا کو تعلیم دلوائی۔ تعلیم کے لئے خیرات سے فنڈنگ دلوائی۔ ایبا کا بے حد ذہین تھا اور ریورنڈ جانسن نے اس کی اس ذہانت کو جانچ لیا تھا، وہ ایبا کا کو اس کے بعد ہر سال کانگو لاتا رہا جہاں ایبا کا کا خاندان آج بھی اسی طرح جی رہا تھا۔ دس سالہ ایبا کا نے اگلے پچیس سال امریکا میں گزارے تھے۔ مگر اس کے بعد وہ امریکا چھوڑ آیا تھا۔
وہ اپنے لوگوں کے پاس رہنا چاہتا تھا کیوں کہ انہیں اس کی ضرورت تھی اور انہیں اس کی ضرورت اس لئے تھی کیونکہ ورلڈ بینک کے مالی تعاون سے ہونے والے بہت سے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ جنگل کے اس حصے میں شروع ہوگیا تھا جہاں ایبا کا کا قبیلہ آباد تھا۔ اس کا خاندان اور خاندان سے بھی بڑھ کر وہ دس ہزار لوگ جو اب جنگل کے اس حصے سے بے دخل کئے جارہے تھے، جس میں وہ صدیوں سے رہ رہے تھے۔ جنگل کٹنے جارہا تھا، وہ ساری زمین صاف ہوتی پھر اس کے بعد وہاں ان معدنیات کی تلاش شروع ہوتی جو اس منصوبے کا دوسرا حصہ تھا۔ اور ایباکا کا مسئلہ، اس کا اپنا خاندان نہیں تھا۔ ایباکاکا مسئلہ وہ پورا جنگلات کا حصہ تھا جو اب جگہ جگہ زونز بناکر کاٹا جارہا تھا اور کہیں نیشنل پارک بناکر ان لوگوں کو وہاں سے بے دخل کیا جارہا تھا۔
’’ہم پانچ لاکھ لوگ ہیں مگر یہ جنگ تو کانگو کے ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو روزگار دے رہاہے۔ ورلڈ بینک نمبر انڈسٹری کو معاونت دے رہاہے کیونکہ اس سے ہماری غربت ختم ہوگی۔ جب چند دہائیوں میں جنگل ہی غائب ہوکر یورپ اور امریکہ کی فیکٹریز اور شورومز میں مہنگے داموں بکنے والی لکڑی کی اشیاء میں تبدیل ہوجائیں گے تو کانگو کے لوگ کیا کریں گے۔ تم لوگ ہم سے وہ بھی چھیننا چاہتے ہو جو خدا نے ہمیں دیا ہے۔ اگر کبھی ہم ویسٹ میں ان سے سب کچھ چھیننے پہنچ گئے تو تمہیں کیسا لگے گا؟‘‘ ایباکا نے اپنا کیس بہت تہذیب سے پیش کیا تھا مگر بات کے اختتام تک اس کی بے چینی اس کے لب و لہجہ سے جھلکنے لگی تھی۔
سالار سکندر کے پاس اس کے سوالوں کے رٹے رٹائے جوابات تھے۔ اس پروجیکٹ کی طرح کانگو میں ہونے والے اور بہت سے پروجیکٹس کی تفصیلات اس کی انگلیوں پر تھیں۔ وہ وہاں ورلڈ بینک کا کنٹری ہیڈ تھا اور یہ ممکن نہیں تھا کہ ان پروجیکٹس کی اہمیت اور فزیبلٹی رپورٹس کے بارے میں اسے پتا نہ ہوتا، مگر ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ پیٹرس ایباکا کے انکشافات اور سوالات اسے پریشان کرنے لگے تھے۔ بہت کچھ ایسا تھا جو اس کی ناک کے نیچے ہورہا تھا اور اسے پتا نہیں تھا لیکن وہ اس سب کا حصہ دار تھا۔ کیونکہ وہ سب کچھ اس کے دستخطوں کے ساتھ منظور ہورہا تھا۔ کانگو میں وہ پہلی بار نہیں آیا تھا نہ ہی افریقہ اور اس کے مسائل اس کے لئے نئے تھے نہ ہی وہاں کے وسائل پر مغرب کی ٹپکتی ہوئی رال اس کے لئے کوئی پوشیدہ بات تھی لیکن وہ ہمیشہ یہ سمجھتا رہا تھا کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں اور کوئی بھی فلاحی کام کرنے والی بین الاقوامی مالیاتی تنظیم اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر،کسی ملک اور قوم کے لئے کچھ نہیں کرسکتی اور وہ انہیں اتنی چھوٹ دیتا تھامگر ایباکا کے اعتراضات اور انکشافات نے اسے ہولا دیا تھا۔ جو کچھ وہاں ہورہا تھا، وہ ورلڈ بینک کے اپنے چارٹر کے خلاف تھا لیکن یہ سب کچھ ہورہا تھا اور ورلڈ بینک کی دلچسپی اور مرضی سے ہورہا تھا۔
ایباکا کی دی ہوئی فائلوں کے انبار وہ کئی ہفتے پڑھتا رہا تھا۔ کئی ہفتے وہ اپنے آپ سے جنگ کرتا رہا تھا۔ ورلڈ بینک کے ایماء پر وہاں ایسی کمپنیوں کو لکڑی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی جن کا ٹریک ریکارڈ افریقہ کے دوسرے بہت سے ممالک میں اسی حوالے سے قابل اعتراض رہا تھا۔ لکڑی کٹ رہی تھی، جنگل صاف ہورہا تھا، آبادی بے دخل ہورہی تھی اور جن شرائط پر ان کمپنیز کو وہاں لائسنس دیا گیا تھا وہ کمپنیز ان شرائط کو بھی پورا نہیں کررہی تھیں۔ انہیں لکڑی کے عوض اس علاقے کے لوگوں کی معاشی حالت سدھارنے کا فریضہ سونپا گیا تھا اور وہ کمپنیاں کروڑوں ڈالرز کی لکڑی لے جانے کے عوض چند عارضی نوعیت کے اسکولز اور ڈسپنسریز لوگوں کو فراہم کررہی تھیں۔ خوراک، خشک دودھ، نمک اور مسالاجات کی شکل میں دی جارہی تھی۔
اور یہ سب ورلڈ بینک آفیشلز کے نگرانی کے باوجود ہورہا تھا کیونکہ پگمیز کو اس ملک میں اچھوت کا درجہ حاصل تھا، وہ ان کمپنیز کے خلاف عدالت میں نہیں جاسکتے تھے۔ حکومتی عہدے داران کے پاس نہیں جاسکتے تھے۔ صرف ایک کام کرسکتے تھے۔ احتجاج۔ این جی اوز کے ذریعے یا پھر میڈیا کے ذریعے اور یہ کام بہت مشکل تھا۔ وہ مہذب دنیا کا حصہ نہیں تھا جہاں پر کسی کے ساتھ ہونے والی زیادتی، چار گھنٹے میں ہر بڑے نیوز چینل کی ہیڈ لائن بن جاتی تھی۔ وہ افریقہ تھا جہاں پر ایسی زیادتی، تشدد کے ذریعے ہی دبادی جاتی تھی۔
اگلے دو ماہ سالار کو ایباکا کے ساتھ اور انفرادی حیثیت میں ان جگہوں کو خود جاکر دیکھنے میں لگے جن کے بارے میں ایباکا نے اسے دستاویزات دی تھیں۔ پھر اسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ دستاویزات اور ان میں پائی جانے والی معلومات بالکل ٹھیک تھیں۔ ضمیر کا فیصلہ بہت آسان تھا۔ جو کچھ ہورہا تھا وہ غلط تھا اور وہ اس کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، لیکن مشکل یہ تھی کہ وہ اب کیا کرے۔ ایک استعفیٰ دے کر اس ساری صورت حال کو اسی طرح چھوڑ کر نکل جاتا اور اسے یقین تھا ایسی صورت میں جو کچھ وہاں چل رہا تھا، وہ چلا ہی رہتا یا پھر وہ وہاں ہونے والی بے ضابطگیوں پر آواز بلند کرتا۔ بے ضابطگی ایک بہت چھوٹا لفظ تھا۔ جو کچھ ورلڈ بینک وہاں کررہا تھا وہ اخلاقیات اور انسانیت کی دھجیاں اڑانے کے برابر تھا۔
افریقہ میں ایباکا سے ملنے کے بعد، زندگی میں پہلی بار سالار سکندر نے نبی کریمﷺ کے آخری خطبے کے ان الفاظ کو سمجھا تھا کہ ’’کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پرکوئی سبقت حاصل نہیں ۔‘‘ وہ ہمیشہ ان الفاظ کو صرف ذات، برادری اور اونچ نیچ کے حوالے سے دیکھتا تھا۔ وہ پہلی دفعہ اس سیاہ فام آبادی کا حال اور استحصال دیکھ رہا تھا، جو دنیا کے ایک بڑے خطے پر بستی تھی۔ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ۔ اور پھر اس گوری آبادی کی ذہنی پسماندگی اور ہوس دیکھ رہا تھا جس کا وہ بھی حصہ تھا اور اسے خوف محسوس ہوا تھا۔ کیا نبی کریمﷺ کے الفاظ، آنے والے زمانوں کے حوالے سے اسی خطے اور اسی سیاہ فام آبادی کے حوالے سے کوئی پیش گوئی تھی یا کوئی تنبیہہ جسے صرف سفید فام لوگ ہی نہیں، مسلمان بھی نظر انداز کئے ہوئے تھے۔ صدیوں پہلے غلامی کا جو طوق سیاہ فاموں کے گلے سے بنا لیا گیا تھا، اکیسویں صدی کے مہذب زمانے میں افریقہ میں استعماریت نے وہ طوق ایک بار پھر ڈال دیا تھا۔
اور انہیں سیاہ فام پست قامت لوگوں میں سے ایک پیٹرس ایباکا تھا، جو امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اپنی زندگی کے 25 سال گزارنے کے بعد بھی وہاں سے ’’اس سیاہ دور‘‘ میں لوٹ آیا تھا۔ صرف اپنے لوگوں کی ’’بقا‘‘ کے لئے۔ ’’بقا‘‘ کے لفظ کا مفہوم سالار سکندر نے پیٹرس ایباکا سے سیکھا تھا اور اس بقائے باہمی کے لئے کیا کیا قربان کیا جاسکتا تھا وہ بھی وہ ایباکا سے ہی سکھ رہا تھا۔
زندگی میں اسے تقویٰ کا مطلب بھی اسی شخص نے سمجھایا تھا جو مسلمان نہیں تھا۔ وہ تقویٰ جس کا ذکر آخری خطبے میں تھا اور جس کو فضیلت حاصل تھی رنگ، نسل، ذات پات ہر اس دنیاوی شے پر جسے برتر سمجھا جاتا تھا۔
پیٹرس ایباکا کو اللہ کا خوف تھا۔ لادین سے کیتھولک اور کیتھولک سے پھر لادین ہونے کے باوجود اللہ سے ڈرتا تھا، اسے مانتا تھا، اس کی عبادت بھی کرتا تھا اور اسے مانگتا بھی تھا لیکن وہ یہ کام کسی گرجے مندر یا مسجد میں نہیں کرتا تھا۔ کانگو میں اپنے لوگوں کے ساتھ انسانیت سے گرا ہوا سلوک ہونے کے باوجود وہ انسانیت کا درد رکھتا تھا۔ ایمان دار تھا اور اخلاقی برائیوں سے بچا ہوا تھا، مگر پیٹرس ایباکا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ترغیبات کو خدا خوفی کی وجہ سے چھوڑتا تھا۔ وہ نفس پرست نہیں تھا۔ وہ طمع زدہ بھی نہیں تھا۔ اور سالار سکندر بہت بار اسے سمجھ نہیں پاتا تھا۔ ایباکا بلاشبہ غیر معمولی انسان تھا اور وہ اگر سالار سکندر کو متاثر کررہا تھا تو وہ کسی بھی انسان کو کرسکتا تھا۔
وہ دنیا کے دو ذہین ترین انسانوں کا آمنا سامنا تھا، یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک متاثر ہوتا دوسرا نہیں۔
’’سالار سکندر ! میں اپنی زندگی میں تم سے زیادہ قابل اور ذہین انسان سے نہیں ملا۔‘‘
ایبا کا نے ایک مہینے کے بعد سالار کے ساتھ ہونے والی کئی ملاقاتوں کے بعد جیسے اس کے سامنے اعتراف کیا تھا۔ سالار صرف مسکرا کر رہ گیا تھا۔
’’میں خود انٹر نیشنل آرگنائزیشنز میں کام کرچکا ہوں اور ان میں کام کرنے والے بہت افراد سے ملتا بھی رہا ہوں لیکن تم ان سب میں مختلف ہو مجھے یقین ہے، تم میری مدد کروگے۔‘‘
’’تعریف کا شکریہ لیکن اگر تم اس خوشامد کا سہارا میری مدد کے لئے لے رہے ہو اور تمہارا خیال ہے کہ میں تمہارے منہ سے یہ سب سننے کے بعد آنکھیں بند کرکے تمہاری خاطر اس صلیب پر چڑھ جاؤں گا تو میرے بارے میں تمہارا اندازہ غلط ہے۔ میںجو بھی قدم اٹھاؤں گا، سوچ سمجھ کر اٹھاؤں گا۔‘‘
ایباکا کی اس فیاضانہ تعریف کو خوشامد قرار دینے کے باوجود سالار جانتا تھا ایباکا کو اس کی شکل میں اور اس پوزیشن پر واقعی ایک مسیحا مل گیا تھا۔ مسیحا بھی وہ جو ورلڈ بینک میں کام کرنے کے باوجود اپنا ضمیر زبردستی بے ہوش تو کرسکتا تھا، سلا نہیں سکتا تھا۔
’’تمہارا سینس آف ہیومر بہت اچھا ہے۔‘‘ ایباکا نے جواباً مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ ’’یہ چیز مجھ میں نہیں پائی جاتی۔‘‘
سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔ ’’اور جس صورت حال میں تم مجھے ڈال بیٹھے ہو، اس کے بعد تو اگلے کئی سالوں بھی اس کے پیدا ہونے کے کوئی امکانات نہیں۔‘‘
’’میں بہت سارے مسلمانوں کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں، کام کرتا رہا ہوں، ملتا رہا ہوں مگر تم ان سے مختلف ہو۔‘‘ وہ عجیب تبصرہ تھا یا کم از کم سالار کو لگا تھا۔
’’میں کس طرح مختلف ہوں؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
’’تم ایک اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ اچھے انسان بھی ہو۔ جن سے میرا واسطہ پڑا، وہ یا اچھے مسلمان ہوتے تھے یا اچھے انسان۔‘‘
سالار کچھ دیر تک بول نہیں سکا، بولنے کے قابل ہی کہاں چھوڑا تھا افریقہ کے اس بے دین انسان نے۔
’’اچھا مسلمان تمہاری نظر میں کیا ہے؟‘‘ سالار نے بہت دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے پوچھا تھا۔ ’’تمہیں میری بات بری تو نہیں لگی؟‘‘ ایباکا یک دم محتاط ہوا تھا۔
’’نہیں، مجھے تمہاری بات انٹر سٹنگ لگی مگر تمہاری زبان سے ادا ہونے والا یہ پہلا جملہ تھا جس میں تمہاری کم علمی جھلکی۔‘‘
اس بار ایباکا الجھا۔ وہ مذہب ڈسکس کرنے کے لئے نہیں ملے تھے لیکن مذہب ڈسکس ہورہا تھا۔ وہ مذہب پر بحث نہیں کرنا چاہتے تھے اور مذہب پر بحث ہورہی تھی۔
’’اچھا مسلمان؟ جو بہت Practising ہے۔ ساری عبادات کرتا ہے۔ پورک نہیں کھاتا۔ شراب نہیں پیتا۔ نائٹ کلب میں نہیں جاتا۔ میرے نزدیک وہ ایک اچھا مسلمان ہے جیسے ایک اچھا عیسائی یا ایک اچھا یہودی۔‘‘
ایباکا کو اندازہ نہیں تھا، وہ اپنی کم علمی میں بھی جو باتیں کہہ رہا تھا۔ وہ سالار سکند رکو شرمسار کرنے کے لئے کافی تھیں۔ رنج اپنے لئے نہیں ہورہا تھا اپنے مذہب کے پیروکاروں کے تعارف پر ہورہا تھا۔ یعنی کوئی فرق ہی نہیں رہا تھا صرف عبادات اور باعمل ہونے پر، ایک کم علم شخص کے ذہن میں مسلمان، عیسائی یا یہودی میں۔ وہ لمحہ ذاتی حیثیت میں سالار کے لئے سوچنے کا تھا۔ ایباکا اسے اچھا انسان بھی مان رہا تھا اور اچھا مسلمان بھی، مگر کیا واقعی وہ اس معیار پر پورا اترتا تھا کہ ایک باعمل یہودی یا عیسائی سے اپنی شناخت الگ رکھ پاتا۔
کانگو کے اس جنگل میں ایباکا کے ساتھ بیٹھے سالار نے کبھی مذہب کو اس زاویے سے نہیں دیکھا تھا جس زاویے سے پیٹرس ایباکا دیکھ رہا تھا۔
’’یہ بدقسمتی کی بات ہے یا صرف اتفاق کہ مجھے اپنی زندگی میں کبھی اچھے مسلمان، اچھے عیسائیوں یا اچھے یہودیوں سے اچھے تجربات نہیں ہوئے۔ وہ مجھے کبھی متاثرنہیں کرسکے اور جنہوں نے متاثر کیا اور جنہیں میں آج تک اچھے انسانوں کی فہرست میں رکھتا ہوں، وہ کبھی مذہبی نہیں تھے۔ باعمل نہیں تھے۔
’’ریورنڈ جانسن کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔؟‘‘ سالار نے بے ساختہ کہا۔
’’ویل!‘‘ ایباکا کہہ کر مسکرایا تھا۔ ’’ان کے مجھ پر بہت احسانات ہیں، لیکن وہ کبھی میرے آئیڈیل نہیں بن سکے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ سوال و جواب سالار کو عجیب لطف دے رہے تھے۔
’’ان احسانوں کی ایک قیمت تھی وہ مجھے کرسچن بنانا چاہتے تھے۔ جب میں نے وہ مذہب اختیار کرلیاتو پھر انہوں نے وہ سارے احسانات ایک کرسچن بچے پر کیے۔ ایک انسان کے طور پر صرف انسان سمجھ کر تو انہوں نے میرے لئے کچھ نہیں کیا۔ مذہب کسی کے دل اور دماغ میں زبردستی نہیں ڈالا جاسکتا۔ میں یونیورسٹی جانے تک چرچ جاتا رہا پھر نہیں گیا۔
ایباکا مدھم آواز میں کہہ رہا تھا۔ شاید اسے ریورنڈ جانسن کومایوس کرنے پر افسوس بھی تھا اور پچھتاوا بھی۔ ’’میں نے تھوڑا بہت سب مذاہب کا مطالعہ کیا ہے۔ سب اچھے ہیں، لیکن پتا نہیں جو انسان ان مذاہب کا پیروکار ہوجاتا ہے، وہ اپنی اچھائیاں کیوں کھو بیٹھتا ہے۔ تمہیں لگ رہا ہوگا میں فلاسفر ہوں۔‘‘