آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

’’چائے۔‘‘ وہ امامہ کی آواز پر باہر لان میں دیکھتے بے اختیار پلٹا۔ وہ ایک ٹرے میں چائے کے دو مگ اور ایک پلیٹ میں چند بسکٹ لئے کھڑی تھی۔
’’تھینکس۔‘‘ وہ مگ اور ایک بسٹ اٹھاتے ہوئے مسکرایا۔
’’باہر چلتے ہیں بچوں کے پاس۔‘‘ وہ باہر جاتے ہوئے بولی۔
’’میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں، کسی کال کا انتظار کررہا ہوں۔‘‘
وہ سرہلاتے ہوئے باہر چلی گئی، چند منٹوں کے بعد اس نے امامہ کو لان میں نمودار ہوتے دیکھا تھا۔ لان کے ایک کونے میں پڑی کرسی پر بیٹھتے وہ کھڑکی میں اسے دیکھ کر مسکرائی تھی۔ وہ بھی جواباً مسکرادیا تھا۔
چائے کا مگ اور بسکٹوں کی پلیٹ اب لان میں اس کے سامنے پڑی ٹیبل پر رکھی تھی۔ اس نے باری باری جبریل اور عنایہ کو اس کے پاس آکر بسکٹ لیتے دیکھا۔ جبریل نے بسکٹ لے کر جاکر نونو اور لویا کو دیئے تھے، چاروں بچے ایک بار پھر سے فٹ بال کھیلنے لگے تھے۔ امامہ اب مکمل طور پر بچوں کی طرف متوجہ تھی۔ چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے دائیں کندھے پر پڑی شال سے اپنے جسم کا وہ حصہ چھپائے جہاں ایک نئی زندگی پرورش پارہی تھی (ان کے ہاں تیسرے بچے کی آمد متوقع تھی) وہ فٹ بال کے پیچھے بھاگتے بچوں کو دیکھتے ہوئے وقتاً فوقتاً ہنس رہی تھی اور پھر انہیں ہدایات دینے لگتی۔
سٹنگ ایریا کی کھڑکی کے سامنے کھڑے باہر دیکھتے ہوئے وہ جیسے ایک فلم دیکھ رہا تھا ایک مکمل فلم۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی، ایک گہرا سانس لے کر اس نے مگ پاس پڑی ٹیبل پر رکھ دیا۔
امامہ کا اندازہ ’’ٹھیک‘‘ تھا۔ وہ ’’ٹھیک‘‘ نہیں تھا۔ وہ کھڑکی کے شیشے سے باہر لان میں نظر آنے والی ایک خوش حال فیملی کو دیکھ رہا تھا۔ آئیڈل پرفیکٹ لائف کا ایک منظر، اس کے بچوں کے بچپن کے قیمتی لمحے۔ اپنے اندر ایک اور ننھا وجود لئے اس کی بیوی کا مطمئن و مسرور چہرہ۔
چند پیپرز کو پھاڑ کر پھینک دینے سے یہ زندگی ایسے ہی خوب صورت رہ سکتی تھی۔
وہ ایک لمحہ کے لئے بری طرح کمزور پڑا۔ اولاد اور بیوی واقعی انسان کی آزمائش ہوتے ہیں ان کے لئے جنہیں ’’مال‘‘ آزمانے سے قاصر رہتا ہے، انہیں دیکھتے ہوئے وہ بھی اسی آزمائش کا شکار ہورہا تھا۔ ایک مرد، ایک شوہر ایک باپ کے طور پر لان میں موجود اس کی فیملی اس کی ذمہ داری تھی۔ وہ ان سے ’’خون‘‘ اور ’’محبت‘‘ کے رشتوں سے بندھا ہوا تھا۔





ایک لمحہ کے لئے اس کی نظر بھٹک کر جبریل اور عنایہ کے ساتھ کھیلنے والی چار اور چھ سال کی ان دو سیاہ فام، لاغر بچیوں پر پڑگئی تھی۔ اس کے خوب صورت گورے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے وہ اور بھی زیادہ بدصورت لگ رہی تھیں۔ میڈی کی وہ دونوں بیٹیاں اگر اس وقت مناسب لباس اور جوتوں میں ملبوس تھیں تو اس کی وجہ میڈی کا ان کے گھر کام کرنا تھا۔ ورنہ وہ گومبے کے بدحالی کے شکار ہزاروں بچوں کی طرح اپنا بچپن کسی آسائش کے بغیر محنت مشقت کرکے گزار رہی ہوتیں اور ان کے وہاں سے چلے جانے کے بعد ان کا مستقبل پھر کسی بے یقینی کا شکار ہوجاتا، بالکل اسی طرح جس طرح اس مغربی نو آبادی کے وہاں آجانے سے پورا افریقہ بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار ہورہا تھا۔ وہ اسی مغربی نو آبادیات کے ایک نمائندے کے طور پر وہاں موجود تھا۔
اس نے اپنی تیس سالہ ملازمہ کو ڈرائیو وے پر کھڑے اپنی بچیوں کے کسی شاٹ پر تالیاں بجاتے دیکھا، بالکل ویسے ہی جیسے لان کے ایک کونے میں کرسی پر بیٹھی اس کی بیوی اپنے دونوں بچوں کو کھیلتے دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔ میڈی نے خود کبھی ’’بچپن نہیں دیکھا تھا، وہ پیدا ہونے کے فوراً بعد ’’بالغ‘‘ ہوگئی تھی۔ افریقہ کے نوے فیصد بچوں کی طرح جنہیں ’’بچپن‘‘ یا ’’بقائے زندگی‘‘ میں سے کوئی ایک چیز ہی مل سکتی تھی۔
بچپن بہر حال ان آپشن میں سے تھا جو premium کی لسٹ میں آتے تھے اور ایسا ہی ایک option اپنے بچوں کو دینے کے لئے میڈی سنگل پیرنٹ کے طور پر جان توڑ محنت کررہی تھی۔ وہ ان کے ساتھ ’’انسانیت‘‘ کے رشتے میں منسلک تھا۔
ایک لمبے عرصہ کے بعد وہ پہلی بار وہاں کھڑا اپنی اولاد کا اس عورت کی اولاد سے موازنہ کررہا تھا۔ اپنی بیوی کی زندگی اور اس عورت کی زندگی کا مقابلہ کررہا تھا حالانہ وہ آج وہاں اس کام کے لئے نہیں کھڑا تھا۔
اس کا فون بجنے لگا تھا۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے فون کرنے والے کی آئی ڈی دیکھی۔ کال ریسیو کرتے ہوئے اسے اندازہ تھا، اس وقت دوسری طرف وہ کس سے بات کرنے والا تھا اسے اپنی فیملی کی زندگی اور استعفے میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔
٭…٭…٭
افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک کانگو پچھلی کئی دہائیوں سے دنیا میں صرف پانچ چیزوں کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔
1۔ خانہ جنگی… جس میں اب تک 45 لاکھ لوگ جان گنوا چکے تھے۔
2۔ غربت… یو این کے economic indicatorsمیں کانگو یو این کے 188 ممالک کی فہرست میں 187 ویں نمبر پر تھا۔
3۔ معدنی وسائل… جن کے ذخائر کے لحاظ سے کانگو دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔
4۔ گھنے جنگلات… جہاں پر کثرت سے بارشیں ہوتی تھیں۔
5۔ پستہ قامت (Pygmy people) سیاہ فام لوگ… کانگو کے ان جنگلات میں صدیوں سے پائے جانے والی انسانوں کی ایک ایسی نسل مہذب زمانے کے واحد غلام جنہیں غلام بنانا قانوناً جائز ہے۔
اور یہ پہچان صرف کانگو کی نہیں تھی، افریقہ کے ہر ملک کی پہچان کم و بیش ایسی ہی چیزیں بن چکی ہیں۔ ایک چھٹی شناخت جو ان سب ملک میں مشترکہ ہے وہ مغربی استعماریت کی نئی شکل ہے… ورلڈ بینک جو ان تمام ملکوں میں غربت کو ختم کرنے اور بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے لیبل کے نیچے ان تمام ممالک میں امریکا اور یورپی ممالک کو اپنی ملٹی نیشنل کمپنیز کے ذریعے افریقہ کے قدرتی اور معدنی وسائل کو، گنے کے رس کی طرح نچوڑنے کا موقع فراہم کررہا ہے… کانگو میں بھی یہی ہورہا تھا اور پچھلی کئی دہائیوں سے ہورہا تھا۔0
1960ء میں Belgium کی استعماریت سے نجات حاصل کرنے کے بعد کانگو نے تیس سال میں کم از کم بیس بار اپنا نام بدلا تھا… ساری جنگ نام رکھنے اور نام بدلنے کے بڑے مقصد کے حصول تک ہی محدود رہی اور بڑی عالمی طاقتوں امریکا اور فرانس کی پشت پناہی سے خانہ جنگی میں تبدیل ہوتی گئی… ایک ایسی ہولناک خانہ جنگی جس میں کانگو نے اپنی آزادی کے 55سالوں میں تقریباً 45 لاکھ لوگوں کی جان گنوائی… ساڑھے چھ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں کوئی گھر اور خاندان ایسا نہیں بچا جو اس خانہ جنگی سے متاثر نہ ہوا ہو، جس کے کسی فرد نے اس وقتل و غارت میں جان نہ گنوائی ہو یا جسم کا کوئی حصہ نہ کھو بیٹھا ہو، یا جس کے خاندان کی عورتوں کی عزت پامال نہ ہوئی ہو، جس کے بچے اور بچیاں جنسی زیادتیوں کا شکار نہ ہوئی ہوں، یا چائلڈ سولجر کے طور پر متحارب گروپس کے ہاتھوں ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہوئے ہوں۔ یہ دنیا کی مہذب تاریخ کی وہ پہلی خانہ جنگی تھی جس میں ایک دوسرے سے لڑنے والے قبیلے، لڑائی کے دوران انسانوں کو قتل کرتے اور ان کا گوشت خوراک کے متبادل کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ خانہ جنگی، دریائے کانگو کے گرد بسنے والے اس ملک کے لوگوں کا ’’کلچر‘‘ تھا… ایک ایسا ’’کلچر‘‘ جو مہذب دنیا کے مہذب لوگوں نے ان پر تھوپا تھا۔ خانہ جنگی کے ذریعے عالمی طاقتیں کانگو کی زمین اور معدنی وسائل پر قبضہ کرکے وہاں سے اربوں روپے کی معدنیات اپنے ملکوں اور اپنے معاشروں کی ترقی و فلاح و بہبود کے لئے لے جارہی تھیں اور انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ وہ افریقہ میں انسانیت کی تذلیل کس کس طرح سے کررہے تھے۔
اگر 45 لاکھ لوگ خانہ جنگی کا شکار ہوئے تھے تو تقریباً اتنی ہی تعداد بھوک ،بیماری اور بنیادی انسانی ضروریات کی عدم فراہمی کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکی تھی اور یہ سب کچھ اس ملک میں ہورہا تھا جو معدنی وسائل کے ذخائر کے حساب سے دنیا کا سب سے امیر ترین ملک تھا۔ جس کی زمین کو بالٹ پلاٹینم، یورینیئم جیسی دنیا کی مہنگی ترین دھاتوں سے بھری ہوئی تھی۔
کانگو صرف ان دھاتوں سے مالا مال نہیں تھا بلکہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ خام ڈائمنڈ بھی پیدا کررہا تھا، دنیا بھر میں دوسرا سب سے بڑا بارانی جنگلات رکھنے کا اعزاز بھی کانگو کو ہی حاصل تھا، جو نہ صرف اربوں ڈالرز کی قیمتی لکڑی کا ملک تھا بلکہ ان ہی جنگلات سے دنیا بھر میں رب بھی بھیجا جارہا تھا۔
اور کانگو کی اسی زمین پر دنیا کے دوسرے بڑے بارانی جنگلات میں تقریباً پانچ لاکھ کے قریب وہ خستہ حال آبادی رہتی تھی جو اپنی گزر بسر شکار کرکے کرتی تھی جن کے افراد آج بھی اپنے جسم درختوں کی چھالوں، پتوں یا جانوروں کی کھالوں سے ڈھانپتے تھے یا پھر وہ برہنہ رہتے تھے۔ پانچ لاکھ کی وہ آبادی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں فرانس سے دوگنا رقبے پر پھیلے ہوئے ان بارانی جنگلات میں پھیلی ہوئی تھی، اس لئے عددی اعتبار سے وہ کہیں بھی ان جنگلات کے قریبی آباد قصبوں میں آباد بانٹو قبیلے کے افراد پر غالب نہیں آسکتی تھی جو ہر لحاظ سے ان سے برتر تھے۔ وہ کانگو کے آئینی اور قانونی شہری تھے جن کے پاس بنیادی حقوق، بنیادی ضروریات کا سامان اور بہتر زندگی کے وسائل تھے۔ ان بے مایہ پست قامت کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، ان کے پاس صرف وہ جنگل تھا جس میں وہ رہتے تھے، آپس میں شادیاں کرلیتے تھے اور ڈائریا، ملیریا جیسی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا شکار ہوکر مرجاتے… ان کی زندگی کا دائرہ بس یہیں تک تھا۔
2002ء میں کانگو کی قائم مقام حکومت نے کچھ عالمی طاقتوں کے دباؤ میں جنگلات سے لکڑی کی کٹائی کا ایک نیا قانون وضح کیا اور اس قانونی کے تحت، کانگو کی حکومت کے پاس یہ اختیار آگیا کہ وہ جنگلات میں رہنے والے قبیلوں اور آبادیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے، اپنی مرضی سے جنگل کا کوئی بھی حصہ، کسی بھی طریقے سے استعمال کرسکتی تھی۔ ورلڈ بینک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے نہ صرف اس فریم ورک کو سپورٹ کیا بلکہ کانگو کی حکومت کو مالی وسائل فراہم کئے تاکہ کانگو کے جنگلات کو مختلف زونز میں تقسیم کرکے نشان دہی کی جائے کہ کس زون میں درخت کاٹے جائیں گے اور کس حصے کو صنعتی مقاصد کے لئے، جنگلی حیات کی بقا کے لئے استعمال کیا جائے گا اور نیشنل پارک کی صورت میں تبدیل کرکے انسانی رہائش کے لئے ممنوع قرار دے دیا جائے گا۔ ورلڈ بینک نے یو این کی خوراک کے عالمی ادارے کے ساتھ مل کر کانگو میں ان جنگلات کی تباہی کے ایک ’’عظیم الشان‘‘ پروجیکٹ کا آغاز کردیا تھا۔
سالار سکندر جس وقت اس پروجیکٹ کے ہیڈ کے طور پر کانگو پہنچا، تب تک اس منصوبے کو تین سال ہو چکے تھے۔ سالار سکندر کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ورلڈ بینک اسے کس طرح استعمال کرنے والا تھا، لیکن اسے یہ اندازہ بہت جلد ہوگیا تھا… ایبا کا سے پہلی ملاقات کے بعد…
٭…٭…٭
پیٹرس ایبا کا سے سالار سکندر کی پہلی ملاقات بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ اسے کانگو میں آئے تقریباً ایک سال ہونے والا تھا جب لاموکو نامی جگہ کو پانی ٹیم کے ساتھ وزٹ کرتے ہوئے پیٹرس ایبا کا تقریبا دو درجن کے قریب Pygmies کے ساتھ اچانک وہاں آگیا تھا جہاں سالار اور اس کی ٹیم کے لوگ اپنی گاڑیوں سے اتر کر اس علاقے کا جائزہ لے رہے تھے، جسے کچھ عرصہ پہلے ہی ایک یورپین ٹمبر کمپنی کو لیز پر دیا گیا تھا۔ ان کے پاس پرائیوٹ اور گورنمنٹ دونوں کی طرف سے دی جانے والی سیکیورٹی موجود تھی اور ان گارڈز نے ایبا کا اور اس کے گروپ کے لوگوں کو یک دم وہاں نمودار ہوتے دیکھ کر حواس باختگی کے عالم میں بے دریغ فائرنگ شروع کردی تھی۔
سالار نے دو پگمیز کو زخمی ہوکر گرتے دیکھا اور باقیوں کو درختوں کی اوٹ میں چھپتے اور پھر بلند آواز میں ایبا کا کو کسی درخت کی اوٹ سے انگریزی زبان میں یہ پکارتے سنا تھا کہ وہ حملہ کرنے نہیں آئے بات کرنے آئے ہیں۔ سالار اس وقت اپنی گاڑی کی اوٹ میں تھا اور اسی نے سب سے پہلے ایباکاکی پکار سنی تھی۔
سالار کی ٹیم کے ساتھ موجود گارڈز، اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے تب تک ٹیم کے تمام افراد کو گاڑیوں میں پہنچا چکے تھے ماسوائے سالار سکندر کے… اس سے پہلے کہ وہ اپنے گارڈز کی رہنمائی میں گاڑی میں سوار ہوتا اور پھر اس کی گاڑی بھی وہاں سے تیز رفتاری سے غائب ہوجاتی، سالار نے گارڈز سے وہاں کی مقامی زبان کنگالا میں کہا تھا کہ وہ اس پکارنے والے آدمی سے بات کرنا چاہتا ہے، وہ فائرنگ بند کردیں، کیوں کہ یہ یک طرفہ ہے، دوسری طرف سے نہ تو فائرنگ ہورہی ہے نہ ہی کسی اور ہتھیار کا استعمال…
اس کے گارڈز کچھ دیر تک اس سے بحث کرتے رہے اور اس بحث کو ختم کرنے کا واحد حل سالار نے وہ نکالا تھا جو اس کی زندگی کی سب سے بڑی بے وقوفی ثابت ہوسکتی تھی اگر دوسرا گروپ واقعی مسلح ہوتا تو… وہ یک دم زمین سے اٹھ کر گاڑی کی اوٹ سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کی سیکیورٹی پر تعینات گارڈز ان پگمیز کے سامنے آنے پر اس طرح حواس باختہ نہیں ہوئے تھے جتنے اس کے اس طرح بالکل سامنے آجانے پر ہوئے تھے۔
فائرنگ اب تھم گئی تھی اس کی تقلید میں اس کی سیکیورٹی کے افراد بھی باہر نکل آئے تھے۔ وہاں اب صرف دو گاڑیاں تھیں۔ ٹیم کے باقی سب افراد وہاں سے اپنے اپنے گارڈز کی حفاظت میں نکل چکے تھے۔
فائرنگ کے تھمتے ہی ایبا کا بھی باہر نکل آیا تھا۔ سالار نے چلا کر اپنے گارڈز کو گولی چلانے سے منع کیا تھا پھر وہ اس ساڑھے چار فٹ قد کے بے حد سیاہ چپٹی ناک والے اور موٹی موٹی سیاہ آنکھوں والے آدمی کی طرف متوجہ ہوا، جو اپنے ساتھیوں کے برعکس جینز اور شرٹ میں تھا۔ ان ننگے پاؤں والے پست قامت لوگوں کے درمیان جاگرز پہنے بے حد عجیب لگ رہا تھا۔
’’پیٹرس ایبا کا!‘‘ اس پست قامت شخص نے آگے بڑھ کر تعارف کرواتے ہوئے سالار سے ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا جسے تھامنے سے پہلے سالار نے بڑے نپے تلے انداز میں ایبا کا کاسر سے پاؤں تک جائزہ لیا تھا۔ وہ ابھی تک یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ بھی ان مفلوک الحال لوگوں ہی کی طرح ہوگا جو غیر ملکیوں کی گاڑیاں سامنے آنے پر امداد کے لئے ان کے سامنے آجاتے تھے۔ مالی امداد نہ سہی، لیکن خشک خوراک کے ڈبے، دودھ، جوسز بھی ان کے لئے ایک عیاشی ہوتی۔ سالار بھی ایبا کا سے ایسی ہی کسی ڈیمانڈ کا انتظار کررہ اتھا، لیکن جواباً ایبا کا کوی زبان سے اپنا نام سن کر وہ حیران ہوگیا تھا۔




Loading

Read Previous

بے غیرت — دلشاد نسیم

Read Next

جزا — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!