آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

وہ ایک لمحے کے لئے ساکت ہوئی۔
’’کرتا تھا۔‘‘ اس کی آواز بے حد مدھم تھی۔
’’خیال نہیں رکھتا تھا؟‘‘ ساگ سے اٹھتی بھاپ اس کی آنکھوں میں اترنے لگی تھی، اسے بڑے عرصے کے بعد پتا نہیں کیا کیا یاد آیا تھا۔
’’رکھتا تھا۔‘‘ آواز اور بھی مدھم ہوگئی تھی۔
اماں اب اس کے پاس بیٹھی اس تھالی میں دو روٹیوں کا آٹا گوندھ رہی تھی۔
’’روٹی کپڑا نہیں دیتا تھا؟‘‘ اس نے چادر سے اپنی آنکھیں رگڑیں۔
’’دیتا تھا۔‘‘ وہ اپنی آواز خود بھی بمشکل سن پائی تھی۔
’’تونے پھر بھی چھوڑ دیا اسے؟ تو نے بھی اللہ سے بندے والا معاملہ کیا اس کے ساتھ۔ سب کچھ لے کر بھی دور ہوگئی اس سے۔‘‘
اماں نے آٹا گوندھتے ہوئے جیسے ہنس کر کہا تھا۔ وہ بول نہیں سکی تھی۔ بولنے کے لئے کچھ تھا نہیں۔ پلکیں جھپکے بغیر وہ صرف اماں کا چہرہ دیکھتی رہی۔
’’تجھے یہ ڈر بھی نہیں لگا کہ کوئی دوسری عورت لے آئے گا وہ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس بار آٹا گوندھتے اماں نے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔
’’تجھے پیار نہیں ہے اس سے؟‘‘ کیا سوال آیا تھا! وہ نظریں چرا گئی۔ اس کی چپ نے اماں کو جیسے ایک اور سوال دیا۔
’’کبھی پیار کیا ہے؟‘‘ آنکھوں میں سیلاب آیا تھا۔ کیا کیا یاد آگیا تھا۔
’’کیا تھا۔‘‘ اس نے آنسووؑں کو بہنے دیا تھا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ اماں نے اس کے آنسوؤں کو نظر انداز کردیا تھا۔
’’نہیں ملا۔‘‘ سرجھکائے اس نے آگ میں کچھ اور لکڑیاں ڈالیں۔
’’ملا نہیں یا اس نے چھوڑ دیا؟‘‘اس کے منہ میں جیسے ہر مرچ آئی تھی۔
’’اس نے چھوڑ دیا۔‘‘ پتا نہیں ساگ ہانڈی میں زیادہ پانی چھوڑ رہا تھا یا اس کی آنکھیں ، پر آگ دونوں جگہ تھی۔
’’پیار نہیں کرتا ہوگا۔‘‘ اماں نے بے ساختہ کہا۔
’’پیار کرتا تھا لیکن انتظار نہیں کرسکتا تھا۔‘‘ اس نے پتا نہیں کیوں اس کی طرف سے صفائی دی تھی۔
’’جو پیار کرتا ہے وہ انتظار کرتا ہے۔‘‘ جواب کھٹاک سے آیا تھا اور اس کی ساری وضاحتوں، دلیلوں کے پرخچے اڑا گیا تھا۔ وہ روتے ہوئے ہنسی تھی، یا پھر شاید ہنستے ہوئے روئی تھی۔ کیا سمجھا دیا تھا اس عورت نے جو دل و دماغ کبھی سمجھا نہیں سکے تھے اسے۔
’’اس آدمی کی وجہ سے گھر چھوڑ آئی اپنا؟‘‘ اماںنے پھر پوچھا۔





’’نہیں… بس وہاں بے سکونی تھی مجھے، اس لئے آگئی۔‘‘ اس نے بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا۔
’’کیا بے سکونی تھی؟‘‘ وہ برستی آنکھوں ساتھ بتاتی گئی۔
اماں چپ چاپ آٹا گوندھتی رہی، اس کے خاموش ہونے پر بھی اس نے کچھ نہیں کہا تھا۔ خاموشی کا وہ وقفہ بڑا طویل ہوگیا تھا۔ بے حد طویل، اماں آٹا گوندھنے کے بعد رکھ کر ساگ میں ڈوئی چلانے لگی تھی… وہ ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹے ساگ کو گھلتے دیکھتی رہی۔
’’وہاں نہرے کے کنارے کیوں کھڑی تھی؟‘‘ اماں نے یک دم ساگ گھونٹتے ہوئے اس سے پوچھا۔ اس نے سراٹھا کر اماں کو دیکھا۔
’’بہت بزدل ہوں اماں… مرنے کے لئے نہیں کھڑی تھی۔‘‘
نم آنکھوں کے ساتھ اس نے جیسے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اس بوڑھی عورت سے پوچھا تھا، اسے جیسے اب سمجھ میں آیا تھا وہ وہاں سے اسے یہاں تک کیوں لے آئی تھی۔ اس کے ہنسنے پر جیسے وہ بھی مسکرائی تھی، اس کے خستہ حال بوسیدہ دانت دکھے تھے۔
’’یعنی تو تو بڑی بہادر ہے۔ میں نے بزدل سمجھا… تو تو میرے سے بھی بہادر ہے پھر۔‘‘
’’نہیں، آپ سے بہادر تو نہیں ہوں میں، میں تو بے حد کمزور ہوں۔ اس بکری سے بھی کمزور جس کو گھیر کے لائی ہوں۔‘‘ امامہ نے کہا تھا۔
’’تجھے اپنی ہونے والی اولاد کا بھی خیال نہیں آتا؟ پیار نہیں آتا اس پر؟‘‘ اس کی آنکھیں ایک بار پھر برسنے لگی تھیں۔
’’کوئی اس طرح گھر، آدمی چھوڑتا ے جیسے تو چھوڑ آئی۔ مرجاتے ہیں بڑے بڑے پیارے مرجاتے ہیں، پر کوئی ایک پیارے کے مرنے پر باقیوں کو چھوڑ دیتا ہے؟‘‘
برستی آنکھوں کے ساتھ امامہ نے اس کی باتیں سنیں، وہ وہی کچھ کہہ رہی تھی جو اس سے کوئی بھی پوچھتا کوئی بھی کہہ دیتا مگر وہ کسی کو وہ جواب نہیں دیتی تھی جو اس نے اس وقت اس عورت کو دیا تھا جس سے اس کی جان پہچان تک نہ تھی۔ بعض دفعہ انسان دل کا وہ بوجھ جو اپنوں کے سامنے ہلکا نہیں کرتا غیروں کے سامنے کردیتا ہے۔ وہ بھی وہاں جہاں اسے یقین ہو وہ راز دبا رہے گا۔ کبھی نکل کر نہیں آئے گا۔
’’میں اب کسی سے پیار نہیں کرنا چاہتی اماں۔‘‘
بوڑھی عورت نے ساگ کا ڈھکنا اٹھا کر کر پھر ڈوئی چلائی۔
’’مجھے لگتا ہے جس سے بھی میں پیار کرتی ہوں، وہ مجھ سے چھن جاتا ہے… وہ چیز میرے پاس نہیں رہتی۔ تو پھر کیوں اس تکلیف سے گزروں میں بار بار، کیوں میں زندگی میں ایسے رشتے رکھوں جن سے بچھڑنا مجھے اتنی تکلیف دے۔‘‘
اس نے جیسے روتے ہوئے اس بوڑھی عورت کے سامنے سینے کی وہ پھانس نکالی تھی جس نے اس کا سانس روک رکھا تھا۔
’’بار بار پیار کروں… بار بار گنوادوں… میں اب اس تکلیف سے نہیں گزر سکتی۔‘‘
وہ روتی جارہی تھی۔ آنسو یوں نکل رہے تھے جیسے آبلوں کا پانی، پتا نہیں بوڑھی عورت کی آنکھوں میں ساگ کی بھاپ نے پانی چھوڑا تھا یا اس کے درد نے لیکن اس نے بھی اپنی خستہ حال میلی کچیلی چادر کے پلو سے اپنی آنکھیں رگڑنا شروع کردی تھی۔
’’یہ تو نہیں کرسکتی، یہ کوئی انسان بھی نہیں کرسکتا کہ اپنوں کو اس لئے چھوڑ دے تاکہ ان کے بچھڑنے کی تکلیف سے بچ جائے ایک ایک کرکے بچھڑ رہے ہیں تو درد جھیل نہیں پارہی۔ سب کو اکٹھا چھوڑ کر درد جھیل لے گی؟‘‘ اس نے جو بات اس سے پوچھی تھی اس کا جواب امامہ کے پاس نہیں تھا… اور اگر تھا بھی تو وہ اس جواب کو دہرانے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔
’’اس جھگی کے اندر میرا 38سال کا جوان بیٹا ہے… ٹھہرو ذرا میں لے کر آتی ہوں اسے، تمہاری باتوں میں تو بھول ہی گئی تھی میں اسے…‘‘
وہ بوڑھی عورت یک دم اٹھ کر اندر چلی گئی تھی، چند منٹوں کے بعد وہ ایک ریڑھی نما ٹرالی کو دھکیلتی ہوئی باہر لائی جس میں ایک دبلا پتلا مرد ایک بستر پر لیٹا ہوا قہقہے لگا رہا تھا یوں جیسے وہ ماں کی توجہ ملنے پر خوش تھا۔ اس عورت نے اگر اسے یہ نہ بتایا ہوتا کہ اس کی عمر 38 سال تھی تو امامہ اسے 18-20سال کا کوئی لڑکا سمجھتی… وہ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے معذور تھا۔ بات بھی ٹھیک سے نہیں کرپاتا تھا بس اس بوڑھی عورت کو دیکھ کر ہنستا تھا اور وہ اسے دیکھ کر ہنس رہی تھی۔
اس نے ریڑھی لاکر امامہ کے قریب کھڑی کردی تھی اور خود روٹی پکانے بیٹھ گئی تھی۔
’’میرا اکلوتا بیٹا ہے یہ… 38 سال میں نے اس کے سہارے گزارے ہیں اللہ کے سہارے کے بعد۔‘‘ وہ پیڑا بناتے ہوئے اسے بتانے لگی تھی۔ ’’کوئی اور اولاد نہیں آپ کی؟‘‘ اس کے آنسو تھمنے لگے تھے۔
’’پانچ بیٹے پیدا ہوئے تھے سب صحت مند… پردنوں میں ختم ہوگئے پھر یہ پیدا ہوا تو شوہر نے کہا اسے کسی درگاہ پر چھوڑ آتے ہیں میں نہیں پال سکتا ایسی اولاد کو… بڑی ذمہ داری ہے پر میں کیسے چھوڑ دیتی اپنی اولاد… مجھے تو پیار ہی بڑا تھا اس سے۔‘‘
بوڑھی عورت نے روٹی اب اس توے پر ڈال دی تھی جس سے کچھ دیر پہلے اس نے ساگ کی ہنڈیا اتاری تھی۔ وہ اب اپنے بیٹے کو یوں پچکار رہی تھی جیسے وہ اڑتیس سال کا نہیں آٹھ ماہ کا تھا اور وہ بھی اس ریڑھی کے اندر ماں کے پچکارنے پر اپنے نحیف و نزار اعضا کو اسی طرح سیکڑ رہا تھا، کھلکھلاتے ہوئے جیسے واقعی کوئی ننھا بچہ تھا۔ ’’شوہر دو چار سال سمجھاتا رہا مجھے، پر میں نہیں مانی۔ اللہ نے دی تھی اولاد… اللہ کی دی چیز کیسے پھینک آتی۔
انسان کی دی ہوئی چیز ہوتی تو پھینک آتی۔ کوئی اور بچہ نہیں ہوا اس کے بعد میرے ہاں۔ شوہر کو بڑا پیار تھا مجھ سے، پر اسے اولاد بھی چاہیے تھی۔ میرا بھی دل چاہتا تھا خود ہی نکل آؤں اس کی زندگی سے۔ پر میرے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا اس لئے وہیں بیٹھی رہی، دوسری شادی سے دس دن پہلے کھیتوں میں اسے سانپ لڑگیا۔ لوگ کہتے تھے میری آہ پڑی ہے۔ پر میں نے تو کوئی بددعا نہیں دی اس کو ۔ میں تو خوش ہی رہی جب تک اس کے ساتھ رہی۔‘‘
اماں کی آنکھوں میں پانی آیا تھا پر وہ دوپٹے سے رگڑ کر ، توے پر پھولتی ہوئی روٹی سینکنے لگی۔
’’وہ مرگیا تو ساری زمین، جائیداد رشتہ داروں نے چھین لی۔ بس بیٹا میرے پاس رہنے دیا۔ یہ ٹھیک ہوتا تو یہ بھی چھین لیتے وہ۔ پر مولا کرم تھا یہ ایسا تھا۔ اڑتیس سال سے اس کا اور میرا ساتھ ہے، اس کو شوہر کے کہنے پر درگاہ پر چھوڑ آئی ہوتی تو میرا کیا ہوتا۔‘‘
اماں نے روٹی عجیب خوشی اور سرشاری کے عالم میں اس کے سامنے رکھی تھی۔ کوئی بوجھ تھا جو امامہ کے کندھوں سے ہٹ رہا تھا، کوئی قفل تھا جو کھل رہا تھا، کوئی سحر تھا جو ٹوٹ رہا تھا۔
’’جو وچھوڑا اللہ دے اس پر صبر کر اور خود کسی کو وچھوڑا نہ دے۔ اللہ پسند نہیں کرتا ہے یہ۔‘‘
اس عورت نے روٹی پر ساگ ڈالتے ہوئے کہا تھا۔
’’غم بہت بڑا تھا میرا اماں۔‘‘ اس نے سرجھکا ئے پہلا لقمہ توڑا۔
’’اللہ نے تجھے غم دیا، تو نے اپنے آدمی کو۔ تو کون سا اپنا غم بس اپنے اندر رکھ کر بیٹھ گئی تھی!‘‘
وہ لقمہ ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی، منہ میں نہیں ڈال سکی، آنکھیں پھر دھند لائی تھیں۔ اسے سالار یاد آیا تھا۔ ہاتھ پر اس کا محبت بھرا لمس یاد آیا تھا۔ اس کی محبت اس کی عنایات یاد آئی تھیں اور اس اولاد کا خیال آیا تھا جسے اس نے بھی بڑی دعائیں کرکر کے مانگا تھا اور جب دعا پوری ہوگئی تھی تو وہ کسی بھی چیز کی قدر نہیں کررہی تھی۔
اس بوڑھی عورت کے احاطے میں بیٹھے اسے پہلی بار وسیم پر صبر آیا تھا۔ سعد پر صبر آیا تھا، وہ اس دن وہاں سے اٹھ کر بھاگی تھی۔ اسے اب گھر جانا تھا سالار کے پاس اور واپس گھر آکر اس نے خود سالار کو فون کرکے واپس آنے کے لئے کہا تھا۔ وہ حیران ہوا تھا شاید حیران سے زیادہ پریشان ہوا تھا مگر اس نے اس کی ٹکٹ کنفرم کروادی تھی۔
وہ جانے سے پہلے ایک بار پھر اس بوڑھی عورت سے ملنے آئی تھی، اس کے لئے کچھ چیزیں لے کر۔ اسے بے حد کوشش کے باوجود وہ جھگی نہیں ملی تھی۔ وہ ڈرائیور کے ساتھ آدھا دن نہر کے اس کنارے اس جھگیوں والے علاقے کو ڈھونڈتی رہی تھی۔ ڈرائیور نے وہ علاقہ خود نہیں دیکھا تھا کیوں کہ اس دن وہ اسے بہت پیچھے چھوڑ کے نہر کنارے اتری تھی اور پھر وہاں سے پیدل ہی واپس آئی تھی لیکن پھر بھی وہ جگہ وہیں ہونی چاہیے تھے۔ اسی سڑک پر کہیں، مگر وہاں وہ جھگیاں نہیں تھیں نہ وہ بوڑھی عورت جس کے ہاتھ کی روٹی اور ساگ کا سواد اسے ابھی بھی اپنی زبان پر محسوس ہوتا تھا۔ نہ وہ اڑتیس سال کی اولاد کی مشقت جس نے اس بوڑھی عورت کے لئے ہر بوجھ ہلکا کردیا تھا اور نہ اس بہت زیادہ پڑھی لکھی عورت کی باتیں جس نے چابیوں کی طرح اس کے وجود کے قفل اور گتھیاں کھول کر اسے آزاد کیا تھا۔
٭…٭…٭
چھ سال بعد بیرونی گیٹ ہمیشہ کی طرح گھر میں کام کرنے والی میڈ نے کھولا تھا۔ ڈرائیو وے پر گاڑی کھڑی کرتے ہوئے سالار نے ابھی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ ہی کھولا تھا جب ہر روز کی طرح لان میں کھیلتے اس کے دونوں بچے بھاگتے ہوئے اس کے پاس آگئے تھے۔ چار سالہ جبریل پہلے پہنچا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنے بیٹے کا چہرہ چوما تھا۔ وہ پسینے سے شرابور تھا۔
’’السلام علیکم!‘‘ گاڑی میں پڑے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر اس نے جبریل کا ماتھا اور چہرہ صاف کیا جو اس نے بڑی فرماں برداری سے کروایا تھا۔ دو سالہ عنایہ تب تک ہانپتی کانپتی، شور مچاتی گرتی پڑتی اس کے پاس آگئی تھی۔ دور سے پھیلے اس کے بازوؤں کو دیکھ کر وہ کچھ اور کھلکھلائی تھی۔
اس نے ہمیشہ کی طرح اسے گود میں لیا تھا۔ بہت زور سے اسے بھینچنے کے بعد اس نے باری باری بیٹی کے دونوں گال چومے تھے۔ جبریل تب تک ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ بند کرچکا تھا۔
اس نے عنایہ کو نیچے اتار دیا۔ وہ دونوں باپ سے ملنے کے بعد دوبارہ لان میں بھاگ گئے تھے جہاں وہ میڈ کی دو بیٹیوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے۔ وہ چند لمحے ڈرائیو وے پر کھڑا اپنے بچوں کو دیکھتا رہا۔ پھر گاڑی کے پچھلے حصے سے اپنا بریف کیس اور جیکٹ نکالتے ہوئے وہ گھر کے اندرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
امامہ تب تک اس کے استقبال کے لئے دروازے تک آچکی تھی۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں۔ وہ حیرانی سے اس کے پاس آتے ہوئے مسکرائی۔
’’تم جلدی آگئے آج؟‘‘
اس نے ہمیشہ کی طرح اسے گلے لگاتے ہوئے اس کے بالوں کو ہولے سے سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں آج زیادہ کام نہیں تھا۔‘‘
’’تو ڈھونڈ لیتے۔‘‘ وہ جواباً اس کے ہاتھ سے جیکٹ لیتے ہوئے ہنسی، وہ جواب دینے کے بجائے مسکرادیا۔
اپنے بیڈروم میں بیٹھے اس نے جب تک اپنا بریف کیس رکھا اور جوتے اتارے، وہ اس کے لئے پانی لے آئی تھی۔ ’’تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ وہ اس کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے سے گلاس اٹھا رہا تھا جب امامہ نے اچانک پوچھا تھا۔ اس نے چونک کر اس کی شکل دیکھی۔
’’ہاں بالکل۔ کیوں؟‘‘
’’نہیں، مجھے تھکے ہوئے لگے ہو، اس لئے پوچھ رہی ہوں۔‘‘ سالار نے جواب دینے کے بجائے گلاس منہ سے لگالیا۔ وہ ٹرے لے کر چلی گئیں۔
کپڑے تبدیل کرکے وہ سٹنگ ایریا میں آگیا تھا۔ ان میں اس کے دونوں بچے ابھی بھی فٹ بال کے پیچھے بھاگتے پھر رہے تھے۔ وہ سٹنگ ایریا کی کھڑکی کے سامنے جاکر کھڑا ہوگیا۔ کانگو کا موسم اسے کبھی پسند نہیں رہا تھا اور اس کی وجہ وہ بارش تھی جو کسی وقت بھی شروع ہوسکتی تھی اور جو شاید ابھی کچھ دیر میں پھر شروع ہونے والی تھی۔ کنشا سا میں پچھلے کئی دن سے ہر روز اسی وقت بارش ہوتی تھی۔ سہ پہر کے آخری چند گھنٹے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ کی بارش اور اس کے بعد مطلع صاف۔




Loading

Read Previous

بے غیرت — دلشاد نسیم

Read Next

جزا — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!