آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

’’تم بس مجھے پاکستان بھیج دو۔‘‘ امامہ نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اس نے ایک بار پھر وہی مطالبہ دہرایا تھا۔
’’میں تمہیں اسلام آباد نہیں بھیجوں گا۔‘‘ سالار نے دوٹوک انداز میں کہا۔
’’میں وہاں جانا بھی نہیں چاہتی، مجھے سعیدہ اماں کے پاس جانا ہے میں وہاں رہ لوں گی۔‘‘ وہ اس کی بات پر حیران ہوا تھا۔ ’’سعیدہ اماں نہیں تم ڈاکٹر صاحب کے پاس چلی جاؤ۔ اگر وہاں رہنے پر تیار ہو تو میں تمہیں بھیج دیتا ہوں۔‘‘ سالار نے یک دم کچھ سوچ کر کہا تھا۔
’’ٹھیک ہے مجھے انہی کے پاس بھیج دو۔‘‘ وہ ایک لمحہ کے بھی تامل کے بغیر تیار ہوگئی تھی۔
’’ اگر تم وہاں جاکر خوش رہ سکتی ہو تو ٹھیک ہے، میں تمہیں بھیج دیتا ہوں۔ واپس کب آؤگی؟‘‘
وہ پہلا موقع تھا ساری گفت گو میں جب امامہ نے اس سے نظر ملائی تھی۔ یہ دل بس خواری کا نام ہے۔ عزت یوں اتار کر رکھتا ہے جیسے عزت کوئی شے ہی نہیں… بے عزتی کو اتنا معمولی کردیتا ہے کہ انسان آنکھ میں پانی بناکر رکھنے لگتا ہے… پی جانے لگتا ہے۔ وہ ساری دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھنے والا مرد تھا اور رسی ڈالی تھی تو اللہ نے اس کے گلے میں محبت کی رسی ڈالی تھی… رسی تھی زنجیر نہیں تھی لیکن بیڑی سے زیادہ بڑی اور کڑی تھی۔
امامہ کو لگا تھا وہ اس سے نظر ملانے کے قابل بھی نہیں رہی تھی اور نظریں ملاکے کرنا ہی کیا تھا… کچھ کہنے کے لئے لفظ ہی نہیں تھے… جو بھی گلے تھے اسے اپنی ذات سے تھے… ساری خامیاں اپنے اندر تھیں… سالار کو وہ جیسے بدقسمتی کے اس چنگل سے آزاد کردینا چاہتی تھی جس میں وہ خود سالوں سے پھنسی ہوئی تھی اور شاید پھنسا ہی رہنا تھا اسے… اس کی بے لوث… بے مول محبت کا وہ اتنا صلہ تو دیتی اسے… کہ اس بدقسمتی میں اسے نہ گھسیٹتی اسے آگے بڑھ جانے دیتی۔
’’واپس آجانا۔‘‘ اس کی لمبی خاموشی کو سالار نے مختصر زبان دی تھی… مشورہ نہیں تھا منت تھی… خواہش نہیں تھی بے بسی تھی… جو ختم ہی نہیں ہورہی تھی… امامہ نے اس کی بات خاموشی سے سن کر خاموشی سے ہی جواب دیا تھا۔
وہ ایک ہفتے کے بعد پاکستان واپس چلی آئی تھی اور جیسے کسی قید سے چھوٹ آئی تھی۔ امریکہ سے واپس آنے سے پہلے وہ گھر میں پڑی ہوئی اپنی ایک ایک چیز وہاں سے ہٹا آئی تھی یوں جیسے رگڑ رگڑ کر سالار کے گھر اور زندگی سے اپنے وجود اور یادوں کے سارے نقوش کو مٹا دینا چاہتی ہو… جیسے سالار کی زندگی کو ہر اس نحوست سے پاک صاف کردینا چاہتی ہو جو اس کے ساتھ اس کے گھر اور زندگی میں داخل ہوئی تھی۔
وہ واپس نہ آنے کے لئے جارہی تھی، سالار کو اس کا احساس اس کی ایک ایک حرکت سے ہورہا تھا لیکن وہ پھر بھی اسے جانے دینا چاہتا تھا۔ اگر فاصلہ اور اس سے دوری اسے صحت یاب کرسکتی تھی تو وہ چاہتا تھا وہ دور ہوجائے لیکن ٹھیک ہوجائے۔
جس شام اس کی فلائٹ تھی وہ ایک بار پھر دل گرفتہ ہورہا تھا… اسے لگا تھا اب وہ گھر ٹوٹنے والا تھا جو اس نے بڑی مشکل سے بنایا تھا…
’’مت جاؤ۔‘‘ وہ ٹیکسی کے آنے پر اس کا بیگ اٹھا کر بیڈروم سے لاؤنج میں لایا تھا۔ وہ اپنا ہینڈ کیری کھینچتے ہوئے اس کے پیچھے آئی تھی اور اس نے ہینڈ کیری بھی دوسرے سامان کے ساتھ سالار کو تھمانے کی کوشش کی تھی، جب سالار نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ اس نے خلاف توقع ہاتھ نہیں کھینچا تھا، بس ہاتھ اس کے ہاتھوں میں رہنے دیا تھا۔ بہت دیر سالار اس کا ہاتھ یونہی پکڑے رہا تھا پھر اس نے بہت دل گرفتی سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔





وہ لمس امامہ کے ساتھ آیا تھا۔ اس قید سے آزاد ہونے کے بعد بھی اسے بے قرار کرتا رہا تھا۔ کئی سال بعد وہ ایک بار پھر ڈاکٹر سبط علی کے گھر پناہ کے لئے آئی تھی۔ اور اسے اس بار بھی پناہ مل گئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اور اس کی بیوی اس کی ذہنی حالت سے واقف تھے اور وہاں ان کے پاس آکر کم از کم کچھ دنوں کے لئے امامہ نے یونہی محسوس کیا تھا جیسے وہ کسی قید تنہائی سے نکل آئی تھی… مگر یہ کیفیت بھی وقتی تھی۔ وہ جس سکون کی تلاش میں تھی وہ یہاں بھی نہیں تھا۔ بے چینی اور بے قراری یہاں بھی ویسی ہی تھی اور ڈاکٹر سبط علی، ان کی بیوی اور سعیدہ اماں کی محبت بھی اس کے لئے مرہم ثابت نہیں ہوپارہی تھی۔ سالار اسے روز فون کرتا تھا کبھی وہ کال ریسیو کرلیتی کبھی نہیں… کبھی وہ اس سے لمبی بات کرتی کبھی مختصر بات کرکے فون رکھ دیتی۔
پتا نہیں کتنے دن تھے جو اس نے اسی طرح گزارے تھے… سوتے جاگتے یا پھر کبھی وہ گھر سے بے مقصد نکل پڑتی… ڈرائیور کے ساتھ گاڑی میں اور سارے شہر میں گھومتی پھرتی… چلتی ہوئی گاڑی سے نظر آنے والے منظر اس کے ذہن کو وقتی طور پر بھٹکادیتے تھے ا س کی سوچ کو اس کی زندگی سے دوسروں کی زندگی لے جاتے تھے۔
وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ وہ ڈرائیور کے ساتھ گھر سے نکلی تھی اور نہر کے ساتھ سڑک پر چلتے چلتے وہ شہر سے ہی باہر نکل آئے تھے۔ ایک جگہ گاڑی رکوا کر وہ نیچے اتر آئی تھی اور نہر کے ساتھ سبزے پر نہر کے پانی پر بہتی بے کار چیزوں کو دیکھتے دیکھتے وہ اس کے ساتھ چلنے لگی تھی یوں جیسے وہ بھی پانی پر بہنے والی بے کار چیز تھی۔ پتا نہیں وہ کتنی دیر چلتی رہی تھی پھر ایک جگہ کھڑے ہوکر بہتے ہوئے پانی کو دیکھنے لگی… گھنے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں موسم سرما میں نہر میں بہتا ہوا وہ پانی برسات کے پانی کی طرح تیز رفتار نہیں تھا، نہ ہی پانی اتنا زیادہ تھا لیکن اس لمحے وہ اسے عجیب انداز میں اپنی طرف کھینچ رہا تھا، یوں جیسے وہ اسے اپنے اندر اترنے کے لئے پکار رہا ہو… چند لمحوں کے لئے وہ اس خنکی کو بھی بھول گئی تھی جو اس کے سویٹر اور شال کے باوجود اس کے جسم کو شل کرنے لگی تھی۔ نہر کے دونوں کناروں پر لگے ہوئے اونچے لمبے درخت ہوا سے ہلتے تو ان کے پتوں سے سورج کی کرنیں چھن چھن کر نہر کے پانی پر پڑتیں… لحظہ بھر کے لئے اسے روشن کرتیں غائب ہوجاتیں۔
بس صرف ایک لمحہ تھا جس نے اس سے کہا تھا کہ اسے اس پانی میں اترنا چاہیے۔ دیکھنا تو چاہیے وہاں آگے نیچے کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ قدم بڑھادیتی، کسی عورت کی آواز پر وہ ٹھٹک گئی تھی۔
’’ یہ ذرا گٹھا تو بندھوادے میرے ساتھ بیٹی۔‘‘
وہ ایک ستر اسی سالہ دبلی پتلی سانولی رنگت اور جھریوں سے بھرے چہرے والی ایک بوڑھی عورت تھی، جو ایندھن کے لئے وہاں درختوں کی گری ہوئی خشک لکڑیاں چننے کے بعد اب اسے ایک چادر نما کپڑے میں باندھنے کی کوشش میں اسے مخاطب کررہی تھی، وہاں دور دور تک ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا اور وہ بھی کب اور کہاں سے یک دم نمودار ہوئی تھی امامہ کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔ اس نے کچھ کہے بغیر نہر کے کنارے سے ہٹتے ہوئے اماں کی طرف قدم بڑھادیئے تھے۔ گٹھا اتنا بڑا تھا کہ اسے یقین تھا کہ وہ بوڑھی عورت کبھی بھی اس گٹھے کو سر پر نہیں اٹھا پائے گی… لیکن اس بڑھیا نے امامہ کی مدد سے بڑے آرام سے وہ گٹھا سر پر اٹھا تھا۔
’’ذرا میری بکری کی رسی مجھے پکڑانا۔‘‘ اس بوڑھی عورت نے اب دور ایک درخت کے دامن میں اُگی گھاس چرتی ہوئی ایک بکری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امامہ سے کہا تھا، امامہ کو ایک لمحے کے لئے تامل ہوا لیکن پھر اس نے جاکر تھوڑی بہت جدوجہد کے بعد اس بکری کی رسی پکڑ ہی لی تھی۔
’’آپ چلیں میں ساتھ چلتی ہوں کہاں جانا ہے آپ کو؟‘‘
امامہ کو خیال آیا تھا کہ وہ اتنے بڑے لکڑیوں کے گٹھڑ کے ساتھ بکری کو کیسے تھامے گی۔
’’بس یہ یہاں آگے ہی جانا ہے ادھر سڑک پار کرکے دوسری طرف۔‘‘ بوڑھی عورت نے نہر کے سبزے سے نکل کر سڑک کی طرف جاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اسے سمجھایا تھا۔
امامہ بکری کی رسی کھینچتی ہوئی چپ چاپ اس عورت کے پیچھے چل پڑی تھی، جس کے پاؤں ننگے تھے اور ایڑیاں کھردری اور پیدل چل چل کر پھٹ چکی تھیں۔ امامہ اونی جرابوں کے ساتھ بہت آرام دہ کورٹ شوز پہنے ہوئے تھی اس کے باوجود اس بوڑھی عورت کی سبک رفتاری کا سامنا نہیں کرپارہی تھی جو یوں چل رہی تھی جیسے ٹائلز کے فرش یا کسی مخملیں قالین پر چل رہی ہو۔
سڑک پار کرتے ہی امامہ کو دس بیس کے قریب وہ جھگیاں نظر آگئی تھیں، جنہیں اماں اپنا گھر کہہ رہی تھی، وہ جھگیاں بس ٹینٹوں پر مشتمل نہیں تھیں۔ لوگوں نے اپنی جھگی کے گرد سرکنڈوں کی دیواریں کھڑی کر کر کے جیسے احاطے سے بنالیے تھے جن کے فرش کو مٹی اور گارے سے لیپا ہو اتھا۔ وہ کچھ تامل کے ساتھ ایسی ہی ایک جھگی کے احاطے میں بکری کی رسی پکڑے اماں کے پیچھے چلی ہوئی داخل ہوئی تھی۔
اس بوڑھی عورت نے احاطے کے ایک کونے میں سر پر لادا ہوا گٹھر اتار پھینکا تھا اور پھر دونوں ہاتھ کمرے پر رکھے جیسے اس نے گہرے سانس لیتے ہوئے اپنی سانس بحال کی تھی۔ بکری تب تک امامہ کے ہاتھ سے رسی چھڑا کر سرکنڈوں کی دیوار کے ساتھ اس جگہ پہنچ گئی تھی جہاں اسے باندھا جاتا تھا اور جہاں زمین پر کچھ مرجھائی ہوئی گھاس پھونس پڑی تھی، وہ اب اس پر منہ مارنے لگی تھی۔
احاطے کے ایک دوسرے حصے میں مٹی کے ایک چولہے پر مٹی کی ایک ہنڈیا چڑھی ہوئی تھی جس سے اٹھنے والی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی، احاطہ رو پہلی دھوپ سے روشن اور گرمایا ہوا تھا۔ وہاں نہر والی ٹھنڈک نہیں تھی ایک آسودہ حرارت تھی۔ وہ جیسے کسی گرم آغوش میں آگئی تھی۔
بوڑھی عورت تب تک لکڑیوں کا گٹھر کھول کر اس میں سے کچھ لکڑیاں نکال کر چولہے کی طرف آگئی تھی۔
’’ارے تو کھڑی کیوں ہے اب تک… بیٹھ کر دم تو لے… میری خاطر کتنا چلنا پڑ گیا تجھے… میں نے کہا بھی تھا میں لے جاتی ہوں بکری کو… میرا تو روز کا کام ہے… پیدا ہوتے سے کرتی آئی ہوں محنت مشقت… پر تو تو شہر کی کڑی ہے۔ تجھ سے کہاں ہوتی ہے کوئی مشقت۔‘‘
اس نے کہتے ہوئے چولہے سے کچھ فاصلے پر پڑی ایک چوکی کو جیسے اس کے لئے آگے کھسکا دیا تھا۔
’’میں بھی مشقت ہی کاٹتی آئی ہوں اماں! یہ مشقت تو کچھ بھی نہیں۔‘‘
امامہ اس سے کہتے ہوئے آگے بڑھ آئی تھی۔ اس کا خیال تھا بوڑھی عورت نے اس کی بات نہیں سنی ہوگی لیکن وہ بوڑھی عورت ہنس پڑی تھی۔
’’بس مجھے مشقت نہیں لگتی تجھے لگتی ہے، یہی تو فرق ہے… پر تیرا قصور نہیں سارا فرق جوانی کا ہے… جوانی میں ہر چیز مشقت لگتی ہے… بڑھاپا خود ایسی مشقت ہے کہ باقی مشقتیں چھوٹی بنادیتا ہے۔‘‘
اس عورت نے اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر کہا تھا۔ امامہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی، وہ اس حلیے اور اس جگہ رہنے والی عورت سے ایسی بات کی توقع نہیں کرسکتی تھی۔
’’آپ پڑھی لکھی ہیں؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’بہت زیادہ۔‘‘ وہ عورت اس بار بھی چولہے ہی کی طرف متوجہ تھی اور اس بار بھی اس نے بات ہنس کر ہی کہی تھی مگر لہجے میں تمسخرتھا اپنے لئے… جو امامہ تک پہنچ گیا تھا۔ امامہ نے اگلا سوال نہیں کیا تھا وہ اب اس ہانڈی اور چولہے کی طرف متوجہ ہوگئی تھی، جس کے پاس وہ بوڑھی عورت بیٹھی تھی، اینٹوں سے بنے مٹی کے چولہے پر رکھی گھسی ہوئی پرانی مٹی کی ہنڈیا میں ساگ اپنے پانی میں گل رہا تھا۔ اس بوڑھی عورت نے نہر کے کنارے سے چنی ہوئی جھاڑیاں توڑ توڑ کر چولہے میں پھینکنا شروع کردیا۔ وہ آگ کو اسی طرح بھڑکائے رکھنے کی کوشش تھی۔ امامہ مٹی سے لیپے ہوئے گرم فرش پر چولہے کے قریب آکر بیٹھ گئی تھی۔ پاوؑں سے جرابیں اور جوتے اتار کر اس نے اپنے سرد اور سوجے ہوئے پیروں کو دھوپ سے گرم فرش پر جیسے کچھ حدت پہنچانے کی کوشش کی تھی۔
اماں اس عمر میں بھی پنجوں کے بل بیٹھی لکڑیوں کو توڑ مروڑ کر چولہے میں جھونک رہی تھی۔ آگ میں لکڑیوں کے تڑخنے اور چٹخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ ساگ کی ہانڈی سے اٹھتی بھاپ اور اس میں پڑتے ابال دیکھتی رہی۔
’ ’آدمی کیا کرتا ہے تیرا؟‘‘ وہ اماں کے اس اچانک کیے ہوئے سوال پر چونکی پھر بڑبڑائی۔
’’کیا کرتا ہے؟‘‘ اس نے جیسے یاد کرنے کی کوشش کی تھی، پھر کہا۔ ’’کام کرتا ہے۔‘‘
’’کیا کام کرتا ہے؟‘‘ اماں نے پھر پوچھا۔
’’باہر کام کرتا ہے۔‘‘ وہ ساگ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی۔
’’پردیس میں ہے؟‘‘ بوڑھی عورت نے جواباً کہا۔ وہ بھی اب اسی کی طرح زمین پر بیٹھ گئی تھی اور اس نے اپنے گھٹنوں کے گرد اس کی طرح بازو لپیٹ لئے تھے۔
’’ہاں پردیس میں ہے۔‘‘ وہ اسی طرح ساگ کو دیکھتے ہوئے بولی۔
’’تو تو یہاں کس کے پاس ہے؟ سسرال والوں کے پاس؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’میں کسی کے پاس نہیں ہوں۔‘‘ ساگ پر نظریں جمائے اس نے بے ربط جواب دیا۔
’’آدمی نے گھر سے نکال دیا ہے کیا؟‘‘ اس نے چونک کر اس عورت کا چہرہ دیکھا۔
’’نہیں!‘‘
’’پھر تو لڑکر آئی ہے کیا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے بے ساختہ سرہلایا۔
’’تو پھر یہاں کس لئے آئی ہے؟‘‘
’’سکون کے لئے۔‘‘ اس نے بے اختیار کہا۔
’’سکون کہیں نہیں ہے۔‘‘ وہ اس عورت کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’تو جو چیز دنیا میں ہے ہی نہیں اسے دنیا میں کیا ڈھونڈنا؟‘‘ اس نے حیرت سے اس عورت کو دیکھا۔ وہ گہری بات تھی اور اس عورت کے منہ سے سن کر اور بھی گہری لگی تھی اسے جو اس جھگی میں بیٹھی آگ میں لکڑیاں جھونک رہی تھی۔
’’پھر بندہ رہے کیوں دنیا میں اگر بے سکون رہنا ہے؟‘‘ وہ اس سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہتی تھی جو اس نے پوچھا تھا۔
’’تو پھر کہاں رہے؟‘‘ لکڑیاں جھونکتی اس عورت نے ایک لحظہ کے لئے رک کر اسے دیکھتے ہوئے ڈائریکٹ پوچھا، وہ کچھ لاجواب ہوتے ہوئے دوبارہ ساگ کو دیکھنے لگی۔
’’تیرا آدمی کہتا نہیں واپس آنے کو؟‘‘
’’پہلے کہتا تھا۔ اب نہیں کہتا۔‘‘ اس نے خود بھی لکڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے آگ میں پھینکنے شروع کردیئے تھے۔
’’بے چارہ اکیلا ہے وہاں؟‘‘
وہ ایک لمحے کے لئے ٹھٹکی۔ ’’ہاں۔‘‘ اس نے اس بار مدھم آواز میں کہا۔
وہ بوڑھی عورت اب پلاسٹک کے ایک شاپر میں پڑا ہوا آٹا ایک تھالی میں ڈال رہی تھی۔
’’تو اکیلا چھوڑ کر آگئی اسے؟‘‘ دھوپ میں پڑے ایک گھڑے سے ایک گلاس میں پانی نکالتے ہوئے اماں نے جیسے افسوس کیا تھا۔ وہ بے مقصد آگ میں لکڑیاں پھینکتی رہی۔
’’تجھ سے پیار نہیں کرتا تھا؟‘‘




Loading

Read Previous

بے غیرت — دلشاد نسیم

Read Next

جزا — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!