آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

آج وہ محاورتاً نہیں حقیقتاً گونگا ہوا تھا اور جب کچھ بول نہیں پارہا تھا تو اس کا دل چاہ رہا تھا، وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر بے ہنگم ناداز میں چلائے… سکندر عثمان سے مزید کچھ بھی کہے بغیر وہ فون رکھ کر فون بوتھ سے آگیا تھا۔ اس فون بوتھ سے واپس ہوٹل میں جانے میں اسے صرف پانچ منٹ لگے تھے، لیکن اس وقت وہ پانچ منٹ سالار کو پانچ ہزار سال لگ رہے تھے۔ وہ ملک اور وہ شہر اس کے دوستوں اور رشتہ داروں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ایک فون کال کرتا اور وہاں مجمع لگا لیتا، لیکن کوئی مجمع کوئی اس کا مسئلہ، اس کی آزمائش ختم نہیں کرسکتا تھا اور آزمائش تھی کہ بلا کی طرح اس کے سرپر آئی تھی، اس سے بھی بڑھ کر اس کی فیملی کے سر پر۔
وہ ہوٹل کے کمرے میں آکر دروازہ بند کرکے خود پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔ وہ بے اختیار چیخیں مارتا رہا تھا۔ اس ہوٹل کے ساتویں فلور کے ایک ڈبل گلیزڈ شیشوں والے ساؤنڈ پروف کمرے کے دروازے کو اندر سے لاک کئے، وہ اس کے ساتھ چپکا پاگلوں کی طرح چلاتا رہا تھا۔ بالکل اسی طرح جب کئی سال پہلے مارگلہ کی پہاڑیوں پر ایک تاریک رات میں ایک درخت سے بندھا چلاتا رہا تھا۔ بے بسی کی وہی انتہا اس نے آج بھی محسوس کی تھی اور اس سے زیادہ شدت سے محسوس کی تھی۔ تب جو بھی گزر رہا تھا، اس کے اپنے اوپر گزر رہا تھا اور ان کو پہنچنے والی کسی تکلیف کا تصور بھی سالار سکندر کو جیسے صلیب پر لٹکا رہا تھا۔ اگر کوئی غلطی تھی تو اس کی تھی، اس کی فیملی کا کیا قصور تھا… وہ اسے مار دیتے، پیٹرس ایباکا کی طرح… اسے یہ بھی قبول تھا کہ وہ ایباکا کی طرح اس بستر پر اسی حالت میں پڑا ہوتا لیکن امامہ، جبریل اور عنایہ اور وہ اس کا وہ بچہ جو ابھی دنیا میں آیا بھی نہیں تھا، ان کا کیا قصور تھا۔
وہ لوگ جو اس کے عصاب کو شل کرنا چاہتے تھے، وہ اس میں کامیاب ہورہے تھے۔ وہ اگر اسے گھٹنوں کے بل گرانا چاہتے تھے تو وہ گر گیا تھا۔ وہ اسے اوندھے منہ دیکھنا چاہتے تھے تو وہ اوندھے منہ پڑا تھا۔
وہ رات سالار پر بہت بھاری تھی۔ پتا نہیں وہ کتنی بار ہوٹل سے نکل کر فون بوتھ پر گیا تھا۔
امامہ کا پوچھتا اور پھر اسی طرح واپس آجاتا۔ وہ ساری رات ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں سوپایا تھا۔ امامہ، جبریل اور عنایہ کے چہرے اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے تھے۔





اگلی صبح وہ آفس کے اوقات کے شروع ہونے سے بہت دیر پہلے ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گیا تھا۔
الیگزنڈر رافیل نے اپنے کمرے میں آتے ہوئے سالار سکندر کو بڑے اطمینان سے دیکھا تھا۔ یہ وہ سالار نہیں تھا جو کل یہاں آیا تھا۔ ایک دن اور ایک رات نے اسے جیسے پہاڑ سے مٹی کردیا تھا۔
’’مجھے پریذیڈنٹ سے ملنا ہے۔‘‘
اس نے آتے ہی جو جملہ کہا تھا، رافیل اس سے اس جملے کی توقع نہیں کررہا تھا۔ اس کا خیال تھا، وہ کہے گا کہ وہ ان کی تمام شرائط ماننے کے لئے تیار تھا، لیکن وہ کچھ اور کہہ رہا تھا۔
’’پریذیڈنٹ سے ملاقات… بہت مشکل ہے یہ تو… کم از کم اس مہینے میں تو یہ ممکن نہیں ہے… اور پھر اس ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی تمہیں؟ اگر تمہیں وہ سب کچھ دہرانا ہے جو تم کل یہاں کہہ کر گئے تھے تو وہ میں پریذیڈنٹ تک پہنچا چکا ہوں۔‘‘
رافیل آج اس ٹون میں بات کررہا تھا جس ٹون میں وہ کل بورڈ روم میں بیٹھا بات کرتا رہا تھا۔ کچھ لمحوں کے لئے سالار کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے۔ وہ ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر رونا نہیں چاہتا تھا، لیکن اس وقت اسے لگ رہا تھا، وہ کسی بھی لمحے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے گا اور آخری چیز جو وہ کرنا چاہتا تھا، یہی ایک کام تھا۔
’’کنشاسا میں کل سے میری فیملی غائب ہے… میری بیوی… میرا بیٹا… میری بیٹی…‘‘ اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے اس نے رافیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
’’اوہ… بہت افسوس ہوا… تمہیں فوری طور پر واپس جانا چاہیے کانگو، تاکہ پولیس کی مدد سے اپنی فیملی کو برآمد کرواسکو… جو حالات کانگو میں ہیں ان میں کوئی گمشدہ شخص بہت کم ہی صحیح سلامت ملتا ہے، لیکن پھر بھی…‘‘
رافیل یوں بات کررہا تھا جیسے اخبار پڑھ رہا تھا۔ اس کے لہجے، چہرے، آنکھوں میں کہیں سالار کے انکشاف پر افسوس یا ہمدردی نہیں تھی۔ سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’میرا پاسپورٹ اور سارے ڈاکومنٹس گم ہوچکے ہیں۔ ہوٹل کے کمرے سے سب کچھ غائب ہوا ہے کل… اور اب میں کل واپس کنشاسا نہیں جاسکتا۔ مجھے ہیڈ کوارٹر کی مدد چاہیے اپنے پاسپورٹ اور دوسری دستاویزات کے لئے… اور مجھے ورلڈ بینک سے فوری طور پر ڈاکومنٹس چاہئیں تاکہ میں اپنا پاسپورٹ لے سکوں۔‘‘
رافیل نے اس کی بات خاموشی سے سننے کے بعد اسے بڑے ہی ٹھنڈے انداز میں سرد مہری سے کہا۔
’’ان حالات میں ورلڈ بینک تمہیں نئے پاسپورٹ کے لئے کوئی لیٹر جاری نہیں کرسکے گا، کیوں کہ تم آج ریزائن کررہے ہو… میرا خیال ہے، تمہیں معمول کے طریقہ کار کے مطابق پاسپورٹ کے لئے اپلائی کرنا چاہیے اور پھر کانگو جانا چاہیے ایک وزیٹر کے طور پر… اگر تم ورلڈ بینک کے ایمپلائی ہوتے تو ہم تمہاری فیملی کے لئے کسی بھی حد تک جاتے، لیکن اب وہ اور ان کا تحفظ ہماری آرگنائزیشن کی ذمہ داری نہیں… تمہارے لئے زیادہ مناسب یہ ہے کہ تم کنشاسا میں امریکن ایمبیسی سے رابطہ کرو اور اپنی فیملی کے لئے مدد مانگو یا پھر پاکستانی ایمبیسی سے۔ تم اوریجنلی پاکستان سے ہی ہونا؟‘‘
رافیل نے اپنی گفت گو کے اختتام پر بڑے بھول پن سے اس سے یوں پوچھا جیسے اسے یہ اچانک یاد آیا ہو کہ وہ دہری شہریت رکھتا تھا۔
سالار اس کے اس تضحیک آمیز جملے کو شہد کے گھونٹ کی طرح پی گیا۔ ورلڈ بینک کے ایمپلائی کو بلو پاسپورٹ ایشو ہوتا تھا اور اس پاسپورٹ کے حصول کے لئے اسے ایک بار پھر سے ہیڈ کوارٹر سے اس کے لئے لیٹر چاہیے تھا یا پھر ورلڈ بینک اس کی جگہ پر خود اس پاسپورٹ کے اپلائی کرکے اسے پاسپورٹ دلواتا… لیکن اب رافیل کے دوٹوک انکار نے سالار کے ذہنی ہیجان میں اضافہ کردیا تھا۔ زندگی میں کبھی کسی مغڑبی ادارے سے اسے اتنی شدید نفرت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اس دن ورلڈ بینک ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ہوئے ہوئی تھی۔
وہ اپنی زندگی کے بہترین سال اور بہترین صلاحیتیں مغرب کو دیتا آیا تھا۔ اقوام متحدہ کے باقی ادارے اور اب ورلڈ بینک… وہ اس ہیڈ کوارٹر میں کل تک ایک خاص اسٹیٹس کے ساتھ آتا رہا تھا اور آج وہ اس سے اس طرح کر برتاؤ کررہے تھے جیسے وہ ایک بھکاری تھا۔ ایک ناکارہ، بے کار آدمی… جس کے پاس اب ورلڈ بینک کو دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ انہیں اس کی اتنی ہی دیانت داری، اخلاص اور ضمیر چاہیے تھا جو صرف ان کے ادارے اور تہذیب کی ترقی کے لئے ضروری تھا۔ انسانیت، مادہ پرستی کے اس جنگل کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی جسے مغرب ترقی کہتا تھا اور اسی ترقی کے حصول کی خواہش میں وہ بھی ساری عمر سرگرداں رہا تھا۔
بعض لمحے انسانوں کی زندگی میں تبدیلی کے لمحے ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی تبدیلیوں کے۔ صرف ایک لمحے کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو بہت ساری زنجیروں سے آزاد کردیتا ہے۔ سینتیس سالہ زندگی میں آج دوسری بار سالار کی زندگی میں وہ لمحہ آیا تھا۔
پہلی بار مارگلہ کی پہاڑی پر موت کے خوف کی گرفت میں وہ اس طرز زندگی سے تائب ہوگیا تھا جو وہ گزارتا آیا تھا اور آج دوسری بار وہ امامہ اور اپنے بچوں کی موت کے خوف اور ورلڈ بینک میں اپنے سینئرز کے ہاتھوں ملنے والی ہتک اور تذلیل کے بعد وہ فیصلہ کربیٹھا تھا جو وہ اب تک کرتے ہوئے جھجکتا اور کتراتا رہا تھا۔
بعض خوف سارے خوف کھا جاتے ہیں، سالار سکندر کے ساتھ بھی اس دن یہ ہی ہوا تھا۔ وہاں بیٹھے اس نے اس دن یہ طے کیا تھا، وہ اگلے دس سال میں ورلڈ بینک سے بڑا ادارہ بنائے گا۔ وہ دنیا کے اس مالیاتی نظام کو الٹ کر رکھ دے گا جس پر مغرب قابض تھا۔ وہ ساری عمر مغربی اداروں میں مغربی تعلیم حاصل کرتا رہاتھا۔ وہ مغرب کا مداح تھا، لیکن وہ مغرب کا مطیع نہیں بن سکتا تھا۔
ذلت بہت کم لوگوں کو مطیع بناتی ہے۔ تذلیل لوگوں کو منتقم المزاجی سکھاتی ہے… بدلہ لینے پر مجبور کرتی ہے… سالار سکندر نے اپنی پروفیشنل زندگی میں پہلی بار ایسی تذلیل چکھی تھی۔ ہتک… ذلت، تذلیل… جتنے بھی لفظ اس احساس کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں، اس کو محسوس ہوئے تھے… مغرب کی مشینری کا ایک بہترین اور کارآمد پرزہ بن کر بھی وہ صرف ایک پرزہ ہی بن سکا تھا جس کی مدت میعاد اور ضرورت ختم ہونے پر اسے ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا جاتا… وہ ساری عمر یہ سمجھتا رہا تھا۔ وہ اپنی قابلیت،اپنی مہارت، اپنے کام سے جزولاینفک بن چکا تھا۔ وہ خود کو اہم نہیں ’’اہم ترین‘‘ سمجھتا رہا تھا۔ اس کا یہ یقین خوش فہمی نکلی تھی۔
’’تم مزید کسی ایشو کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟‘‘ الیگزنڈر رافیل نے بظاہر بے نیازی جتاتے ہوئے اس سے کہا۔
’’نہیں۔‘‘ وہ مزید کچھ بھی کہے بغیر اٹھ گیا تھا۔ رافیل بھونچکارہ گیا تھا۔ وہ اسے اپنے بیوی، بچوں کی زندگی کے لئے گڑگڑاتا دیکھنا چاہتا تھا… اپنے پاسپورٹ کے ایشو کرانے کے لئے ورلڈ بینک کی اپروول اور تعاون کی بھیک مانگتے ہوئے اور پھر آخر کار ان ٹرمز اور کنڈیشنز کو مانتے ہوئے استعفیٰ دینے یا کانگو میں اس پروجیکٹ کوجاری رکھنے کی… جس کے لئے وہ کل یہاں بیٹھا تھا، لیکن سالار سکندر ان حالات میں بھی اٹھ کر چلا گیا تھا۔ رافیل کو لگا، اس کا ذہنی توازن خراب ہوگیا تھا۔
ہیڈ کوارٹرز کی عمارت سے اس طرح نکلتے ہوئے سالار کو خود بھی یہی ہی محسوس ہورہاتھا جیسے اس کا ذہنی توازن خراب ہوگیا تھا۔ ورنہ وہ اتنا بے رحم اور بے حس تو نہیں ہوسکتا تھا کہ امامہ اور بچوں کے لئے وہاں کچھ بھی کیئے بغیر آجائے ۔ وہ وہاں کمپرومائز کرنے گیا تھا۔ اپنی بیوی اور بچوں کی زندگی بچانے کے لئے، ان کی شرائط ماننے کی نیت سے وہاں گیا تھا، لیکن رافیل کے الفاظ اور رویے نے جیسے سالار سکندر کا ذہن ہی الٹ کر رکھ دیا تھا۔
’’میں ان میں سے کسی سے بھی اپنی فیملی کی زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا۔ اگر گڑگڑاؤں گا تو بھی ان میں سے کسی کے سامنے نہیں گڑگڑاؤں گا۔ عزت اور ذلت دونوں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ نے ہمیشہ مجھے عزت دی ہے۔ ذلت جب بھی میرا مقدر بنی ہے میرے فیصلوں، میرے انتخاب سے بنی ہے۔ میں آج بھی اللہ سے ہی عزت مانگوں گا… پھر اگر اللہ مجھے عزت نہیں ذلت دے گا تو میں اللہ کی دی ہوئی ذلت بھی قبول کروں گا، لیکن میں دنیا میں کسی اور شخص سے ذلت نہیں لوں گا… نہ جھکوں گا…نہ کمپرومائز کروں گا…کم از کم اب اس سب کے بعد نہیں۔‘‘
وہ ریت کا ٹیلا بن کر اندر گیا تھا اور آتش فشاں بن کر باہر آیا تھا۔ وہ وہی لمحہ تھا جب اس نے امامہ اور اپنے بچوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگادی تھیں۔
’’امامہ… جبریل… عنایہ… یہ نعمتیں مجھے اللہ نے دی ہیں۔ کسی انسان سے تو کبھی بھی نہیں ملیں… تو پھر میں انسانوں سے ان کے لئے بھیک کیوں مانگوں؟‘‘
وہ ضدی تھا، لیکن اس نے زندگی میں سوچا کبھی بھی نہیں تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب وہ امامہ اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو اپنی ضد کے سامنے قربان کرنے پر تیار ہوجائے گا۔
سالار سکندر کو پھانسنے کے لئے جو پھندا تیار کیا گیا تھا، وہ اس سے بچ کر نکل گیا تھا اور جن لوگوں نے وہ پھندا تیار کیا تھا، انہیں اندازہ نہیں تھا، بساط کس طرح پلٹنے والی تھی۔ وہ اس کو مات دینا چاہتے تھے، وہ انہیں شہ مات دینا چاہتا تھا۔
’’اور اللہ بے شک بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘
٭…٭…٭
وہ دن ورلڈ بینک کے لئے بہت بڑی خوش خبری لے کر آیا تھا۔ پیٹرس ایبا کا کوماکی حالت میں مرگیا تھا۔ سالار سکندر نے وہ خبر بینک سے واپس ہوٹل آکر ٹی وی پر سنی تھی۔ یہ اس کے لئے ایک اور دھچکا تھا، مگر یہ وہ خبر تھی جو اس کے لئے غیر متوقع نہیں تھی۔ وہ پیٹرس ایباکا کی جو حالت دیکھ آیا تھا، اس کے بعد اس کا دوبارہ نارمل ہونا ناممکن تھا، لیکن وہ رات ورلڈ بینک کے لئے، سیاہ ترین رات تھی۔
پیٹرس ایباکا مرنے سے پہلے ورلڈ بینک کی موت کا سامان کر گیا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بے غیرت — دلشاد نسیم

Read Next

جزا — نایاب علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!