”آئینہ تم جانے سے پپ پپ… پہلے زرقا کو بھی اس کے مم مم… مسئلے کا حل بتا دو” ”کون سا حل آئینہ زرد جوڑے میں ملبوس اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ زرد اور سبز چوڑیاں کلائیوں میں بھری ہوئیں، کہنیوں تک مہندی سے بنے گل بوٹے مہک رہے تھے۔ آنے والی زندگی کے تصور نے اسے ان دونوں مزید خوبصورت کر دیا تھا۔ فضہ نے بے اختیار نظریں چرائیں اور چُپکے سے دل میں اس کی خوشیوں کے دائم رہنے کی دعا کی وہ چائے کی چسکیاں بھرتے موبائل پر دوستوں کے پیغامات پڑھ رہی تھی۔ وہی والا لوگ، حالات بعض اوقات قابل مذمت ضرور ہوتے ہیں قابل نفرت نہیں اور مذمت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ معاف کر دو اور آگے بڑھ جاؤ اس نے پیغام پڑھتے پڑھتے سر اٹھا کر فضہ کی طرف دیکھا تھا۔
وہ بہت چھوٹی چھوٹی تھیں جب ایک دن امی نے فضہ کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا تھا بیٹا یہ آپ کی بہنا ہے اللہ نے اسے خاص آپ کے لیے اس دنیا میں بھیجا تھا، اسے اور کسی کو نہیں دیا صرف آپ کو دیا اب آپ کو اس کا ہر جگہ اور ہمیشہ خیال رکھنا ہے تاکہ اللہ میاں آپ سے خوش ہوں۔ فضہ سو چکی تھی جب کہ وہ کمرے میں آتی چودھویں کے چاند کی مدھم روشنی میں سامنے دیوار پر لگی اپنی اور فضہ کی تصویر کو تکتے ماضی میں کھوئی ہوئی تھی۔ مجھے ٹیچر نے سلیکٹ نہیں کیا میں نے اتنی محنت سے تقریر لکھی تھی تیرہ سال کی فضہ کا سارا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ فضہ اس سے ایک سال بڑی تھی مگر ہر جگہ اس کا دفاع کرتے، اس کے لیے سب سے ٹکر لیتے اور اس کا خیال رکھتے جیسے ان کی عمریں آپس میں تبدیل ہوگئی تھیں اس نے بڑی بہن کا روپ دھار لیا تھا اور فضہ نے چھوٹی بہن کا۔ اسے فضہ کے ساتھ اکثر ایسا رویہ اختیار کرنا پڑتا تھا، جیسے ماں کا بچے کے ساتھ ہوتا ہے۔ سب میرا مذاق اُڑاتے ہیں، کوئی مجھے سننا نہیں چاہتا، میرا کوئی دوست نہیں اس طرح کی باتوں پر آئینہ کو اسے دلاسہ دینے کی عادت سی ہوگئی تھی مگر اب یہ تقریر والی بات۔ میں اور تم ایک ہیں فضہ اس نے اپنے ہاتھوں سے اس کا چہرہ صاف کرتے ہوئے کہا تھا تم لکھنا میں تمہارے لکھے لفظ بولوں گی، دیکھو سب کہتے ہیں ہماری آوازیں بھی بالکل ایک جیسی ہیں سو تم بولو یا میں بات تو ایک ہے تم جو لکھو گی وہ میں بولوں گی ہمیشہ اور جب اس نے ہزاروں کے مجمعے کے سامنے فضہ کی لکھی تقریر پڑھی تھی اور آخر میں اس کا نام لے کر شکریہ ادا کیا تھا تو فضہ کو جیسے سات رنگ کے پر لگ گئے تھے۔
وہ آئینہ کی ہر بات بلا چوں چراں مانا کرتی تھی شدید اسے عادت ہوگئی تھی اس کی ہر بات سننے کی اور ماننے کی۔ آئینہ نے اس دن وہ ناسور چاک کردیا تھا اور فضہ نے تکلیف کے باوجود اسے بہنے دیا تھا۔ اس دن اس میں موجود سارا تعفن غصہ، بے بسی، شکوہ اور حسد سب کچھ بہ گیا تھا اسے قرار آگیا تھا۔ کم گو تو آئینہ کی شادی کے بعد وہ مزید ہوگئی تھی اب تو کئی کئی دن وہ صرف انہیں باتوں کا جواب دیتی تھی، جو امی، ابا پوچھتے تھے یا آفس میں جو ضرورت کے تحت بولنا پڑتا تھا مگر اب اس میں کڑواہٹ نہیں رہی تھی بس سکون سا آگیا تھا خاص طور پر رشتے کروانے والی کا جب سے گھر آنا جانا بند ہوا تھا وہ واقعی جیسے ہلکی پھلکی سی ہوگئی تھی۔ آئینہ کی شادی کے بعد ایک دن اس نے امی، ابا کو سامنے بٹھا کر اپنا کیس خود لڑا تھا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی مزید دنیا کے ہاتھوں ذلیل نہیں ہونا چاہتی اور وہ کسی حد تک ان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی کم از کم اسے تو ایسا ہی لگا تھا اور آئینہ کے لیے یہ شکر کے مقام سے کم نہیں تھا کہ وہ مکمل نہ صحیح مگر کافی حد تک لوٹ آئی تھی۔
ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے سٹیج پر گائک کے لبوں سے نکل کر بکھرتے غزل کے بولوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ مدھم مدھم جھلملاتی روشنیاں، گول میزوں کے گرد بیٹھے لوگوں کی باتوں کی ہلکی ہلکی آوازیں آسمان پر چمکتے چاند کے سائے میں اس سبزہ زار میں پھیل رہی تھیں ان آوازوں میں آئینہ اور فضہ کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ آج کمپنی کی طرف سے ایوارڈ کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ فضہ کو بیسٹ ایمپلائی آف دا ائیر کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ خاص طور پر اس کے کام کے طریقے اور محنت کو سراہا گیا تھا۔ کمپنی کے تمام ملازمین گھر والوں سمیت مدعو تھے سو فضہ آئینہ کو لے آئی تھی۔ آج کل وہ سسرال سے ان کی طرف رہنے آئی ہوئی تھی امی اور ابا کراچی پھوپھو کے پاس تھے پھوپھو نے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کیا تھا وہ لڑکے کو ابا سے ملوانا چاہتی تھیں۔
”ہیلو آئینہ۔” وہ دونوں جو غزل سے لطف اندوز ہو رہی تھیں یکدم چونکیں۔ ”آپ کو میرا نام کیسے پتا بھلا۔” آئینہ نے حیران ہوکر مخاطب سے پوچھا۔ ”کیسے نہیں پتا ہوگا بھلا۔” مخاطب نے اسی کے انداز میں اسے جواب دیا تو وہ بے اختیار مسکرا دی ”فضہ کے ہر جملے کا آغاز اور اختتام اسی نام پر تو ہوتا ہے میں کیا یہاں موجود ہر شخص کو پتا ہوگا کہ آپ آئینہ ہیں۔ مجھے پکا یقین تھا آئینہ کے علاوہ فضہ کے ساتھ آج کے دن اور کوئی نہیں آئے گا۔” وہ بات جاری رکھتے ہوئے بے تکلفی سے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ ”یہ آیان ہیں میرے ساتھ کام کرتے ہیں۔” فضہ جو اس کی بے تکلفی سے تھوڑا بے آرام ہوئی تھی اپنے چہرے کے تاثرات نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے آئینہ سے اس کا تعارف کروایا۔ ”ہیلو مسٹر آیان بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر فضہ سے اکثر ذکر سنا ہے آپ کا۔” وہ مسکراتے ہوئے اس سے بولی تھی۔ فضہ نے پہلو بدلا (میں کب ذکر کرتی ہوں اس کا کلس کر سوچا) ”مجھے دراصل آپ سے ایک ضروری کام تھا۔” وہ براہِ راست آئینہ کی طرف دیکھ رہا تھا فضہ نے چونک کر اس کو دیکھا (اس کو آئینہ سے کیا کام پڑگیا ماتھے پر بل پڑ گئے تھے جب کہ وہ مکمل آئینہ کی طرف متوجہ تھا) ”میں جانتا تھا فضہ اس معاملے میں میری مدد کبھی نہیں کرے گی سو میں آج کے دن کا ہی انتظار کررہا تھا۔” ”جی فرمائیے۔” آئینہ تھوڑا سنبھل کر بولی۔ ”میں دراصل اپنے امی ابو کو لے کر آپ کے گھر آنا چاہتا ہوں۔ فضہ کا ہاتھ مانگنے۔” فضہ کو جھٹکا لگا تھا، چہرے پر سایہ لہرایا ہر چیز پر اچانک دھند چھا گئی تھی اس نے انہیں دھندلی نظروں سے آیان کی طرف دیکھا وہ بولنا چاہتی تھی، اس کا منہ توڑ دینا چاہتی تھی وہ ہوتا کون ہے یوں اچانک آکر سامنے بیٹھ جائے اور اس کی بہن سے رشتے کی بات شروع کردے، اس کے کردار کو مشکوک کردے مگر جانتی تھی کہ اگر اس نے اس وقت کچھ کہنے کی کوشش کی تو اس کی لکنت زدہ زبان کے باعث مذاق کے علاوہ اور کچھ نہیں بنے گا سو جھٹکے سے اٹھی تھی آیان نے ایک نظر اسے سامنے پارکنگ لاٹ کے اندھیرے میں تیزی سے غائب ہوتے دیکھا اور پھر آئینہ کی طرف متوجہ ہوا جس کے چہرے پر اس کی بات سن کر پہلے استعجاب ابھرا تھا۔ وہ دوبارہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا: ”لگتا ہے ناراض ہوگئی ہیں آپ کی بہن۔” ”ہاں مجھے بھی یہی لگا ہے۔” کہتے ہوئے وہ بھی ایک دم اٹھی تھی۔
امی، ابا، آئینہ سب نے گٹھ جوڑ کر لیا تھا، سب اس کے خلاف صف آرا تھے اور اس کے پاس سر جھکا دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہاں ہونے کے بعد آناً فاناً شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی۔ سب خوش تھے بے حد خوش مگر وہ خوفزدہ تھی آنے والی زندگی سے، جس گھر وہ جارہی تھی وہاں کے مکینوں کے متوقع ردعمل سے بہ ظاہر سب ٹھیک تھا مگر جانے کیوں اسے ٹھیک نہیں لگتا تھا۔ آخر کسی جسمانی نقص کے ساتھ ایک انسان کو دوسرا انسان کتنی دیر برداشت کر سکتا ہے وہ اس سے متاثر ہو تب بھی محبت کرتا ہو تب بھی۔ مگر شادی کے بعد اس کا ہر خیال غلط ثابت ہوا تھا آہستہ آہستہ اس کے سارے وہم، خوف، خدشات ہوا میں تحلیل ہوتے گئے۔ اس سے آیان کے گھر والے اگر کبھی کسی پل بے زار ہوئے بھی تو اس کو اس کا کبھی قلق نہیں ہو اوہ جس سے زندگی اصل میں وابستہ تھی اس کے چہرے پر اس نے کبھی شکن نہیں دیکھی تھی۔ وہ اس کی بات اتنے اطمینان اور سکون سے سنتا تھا کہ اسے بھی کبھی کبھی حیرت ہوجاتی تھی۔ وہ جس نے بولنا بالکل چھوڑ دیا تھا صرف اس کی خاطر بولنے لگی تھی کیوں کہ وہ اسے سننا چاہتا تھا۔
الحمرا ہال اندھیرے میں ڈوبا تھا جب کہ سٹیج وہاں اوپر لگی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا حیدر آیان نے ابھی ابھی تقریر ختم کی تھی مائیک پر موجود اناؤنسر نے بے اختیار سراہا تھا۔ تقریر میں لکھا گیا ہر لفظ اور اس کو ادا کرنے کا انداز بلاشبہ بے حد خوبصورت تھا اس وقت حیدر نے بے اختیار تیسری قطار میں بیٹھی اپنی ماں کی طرف دیکھا اور مسکرایا وہ بھی مُسکرا دی اور چہرہ جھکا کر نم آنکھیں صاف کی تھیں ماوؤں کے دل ایسے ہی ہوتے ہیں اولاد کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور غموں پر بے قابو ہوجانے والے، چھلک پڑنے والے، آیان آج آفس میں کسی ضروری کام کی وجہ سے ان کے ساتھ نہیں آسکا تھا اس نے نتیجہ سنتے ہوئے تقریر کا وڈیو کلپ اسے واٹس ایپ پر بھیجا اور نم آنکھوں سے حیدر کو ٹرافی لیتے ہوئے دیکھنے لگی۔
الحمرأ سے نکل کر حیدر کو اس نے سوئمنگ کلب چھوڑا اور ہاتھ میں اس کی ٹرافی لیے وہ گاڑی سے اتری سوئمنگ کلب امی کے گھر کے قریب تھا سو ہفتے میں تین دن وہ اس کو وہاں چھوڑ کر امی کی طرف آجایا کرتی تھی اور پھر وہیں سے لے کر واپس گھر چلی جاتی۔ آج الحمرا ہال سے سیدھا وہ یہیں آئی تھی وہاں تقریب ختم ہوتے کافی دیر ہوگئی تھی۔ اس نے گھنٹی پر ہاتھ رکھ کر سامنے دیکھا خالہ کے گھر کا گیٹ کُھلا تھا، ارقم کہاں رہ گیا بُڑبُڑاتے ہوئے اسی وقت وہاں سے زرقا نے جھانکا تھا السلام و علیکم وہ اس کو دیکھتے ہی کھلکھلائی تھی اتنے سالوں میں تھوڑا سا وزن بڑھنے کے علاوہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
وعلیکم سلام اس نے اس کے خوشی سے دمکتے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے مُسکرا کر مصافحہ کیا۔ ”تم کب آئی خبر ہی نہیں ہوئی ابھی کل رات تو پہنچے ہیں۔” وہ اس کو بتا رہی تھی لہجہ ایسے کھنکتا تھا جیسے بیچ میں کرب اور نارسائی کا کوئی وقت آیا ہی نہ ہو فضہ کو اس کی ہمت اور حوصلے پر رشک آیا تھا۔ سرمد سے شادی کے بعد اس نے دس سال کی طویل مدت اس کے بغیر گزاری تھی۔ اس کے گھر والے کہتے رہے کہ طلاق لے لو مگر وہ نہیں مانی تھی اور آخر دس سال بعد وہ اس کو اپنے ساتھ لے گیا تھا اور آج وہ خوش و خرم زندگی گزار رہی تھی ہر سال انگلینڈ سے پاکستان اس کا چکر لگتا تھا۔ ”آئینہ کیسی ہے؟” اس نے اب تک اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ ”ٹھیک ہے آج کل اس اسلام آباد ہوتی ہے۔ انگلینڈ جانے کے بعد کبھی میری اس سے ملاقات ہی نہیں ہوسکی مجھے اس کا شکریہ ادا کرنا تھا۔” فضہ نے اس کے چہرے پر آئینہ کے لیے عجیب سے عقیدت دیکھی تھی ایک وہی تو تھی اتنے ڈھیر سارے لوگوں میں جس نے مجھے صحیح راستہ دکھایا تھا ورنہ باقی سب تو جذبات سے مغلوب خیر…” اس نے بولتے بولتے یک دم رُک کر گہری سانس لی تھی۔ ”کیا کہا تھا اس نے تم سے۔” فضہ نے عصر کی سنہری کرنوں میں جگمگاتے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ ”اس نے ہاں تمہیں بھی یہ منتر پتا ہونا چاہیے بلکہ ہر ایک کو۔” زرقانے جیسے خود کلامی کی تھی پھر سر اُٹھا کر اس سے مخاطب ہوئی: ”اس نے مجھے کہا تھا زرقا لوگ اور حالات بعض اوقات قابلِ مذمت ضرور ہوتے ہیں مگر قابل نفرت نہیں اور مذمت کا بہترین طریقہ ہے کہ انہیں معاف کردو اگر ان سے محبت ہے، ان کے تمہاری طرف لوٹ آنے کا یقین ہے تو انہیں وقت دو اور اگر ان کے واپس لوٹ آنے کی امید نہیں تو آگے بڑھ جاؤ، بھول جاؤ۔” وہ تھوڑا ٹھہری۔
”اور سرمد ایک وقت ہی تو مانگتا تھا مجھ سے، وہ ہر صورت وہاں سٹیل ہونا چاہتا تھا سو میں نے اسے یہ وقت دے دیا باوجود اس کے کہ مجھے بہت سہنا پڑا مگر مجھے یقین تھا کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ سچ ہے میرے علاوہ کسی کو بھی یقین نہیں آتا تھا اس کی بات پر…” وہ بولتی چلی گئی تھی آخری جملے میں تفاخر سا ابھرا تھا اس کے لہجے میں ”آؤ اندر آؤ نا” پھر اسے جیسے بات کرتے کرتے ہوش آیا تھا ”میں اتنی دیر سے تمہیں لیے گیٹ پر کھڑی ہوں۔” میں پھر چکر لگاؤں گی فضہ نے کہتے ہوئے نرمی سے اپنا ہاتھ چھڑوایا ”ابھی امی میرا انتظار کررہی ہیں اس وقت۔” ”ٹھیک ہے پھر واپسی پر لازمی چکر لگانا۔” زرقا نے اسے محبت بھری گرمجوشی سے کہا تھا فضہ نے جواباً اثبات میں سر ہلایا چوکیدار گیٹ کھول چکا تھا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی گھر میں داخل ہوگئی۔ اندر آکر اس نے گہری سانس لیتے ہوئے پرس اور ٹرافی ڈائیننگ ٹیبل پر رکھ کر وہیں کرسی پربیٹھ کر اپنے جوتے اتارے فرش کی ہلکی ہلکی ٹھنڈک پاؤں سے جسم میں سرائیت کرنے لگی تھی اسے سکون سا محسوس ہوا اس نے آنکھیں بند کرکے سر کرسی کی پشت پر ٹکا دیا، جانتی ہو میں تمہاری محبت میں نہیں براہ راست عشق میں مبتلا ہوا تھا آیان کی آواز تصور میں گونجی تھی اس کا چہرہ بند آنکھوں میں ابھرا مجھے تمہارے چہرے سے نہیں تمہاری زبان کی لکنت سے عشق ہوگیا تھا اگر تم میں یہ کمزوری نہ ہوتی تو میں کبھی تمہاری طرف متوجہ نہ ہوتا تمہاری شخصیت کی خوب صورتی کے بارے میں نہ جان پاتا وہ اس کے حیرانی بھرے چہرے کو محبت سے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔ میں نے آفس میں تمہارے بولنے کے دوران اگر کبھی کسی کے چہرے پر بے زاری دیکھی بھی تو اس سے تمہارے اعتماد میں کبھی کمی ہوتے نہیں دیکھی تم ہمیشہ پہلے سے زیادہ بااعتماد اور محنت سے کام کرتی نظر آئیں اور پھر اگر اسی شخص کو کسی ضرورت کے تحت تمہارے سامنے کھڑا پایا تو بھی تمہیں کبھی انکار کرتے نہیں دیکھا کیسے نہ ہوتا پھر میں تمہارے سحر میں مبتلا وہ مسکرایا تھا۔ امی سیڑھیاں اُتر رہی تھیں ان کے اترنے کی آہٹ سے اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں سامنے لگے آئینے پر نظر پڑی وہاں اس کے چہرے کا عکس تھا ”میرے اعتماد میں کیسے کمی آتی جب ہر قدم پر آئینہ میرے ساتھ تھی۔” وہ بڑبڑائی۔ میں جب لوگوں کے بُرے رویوں میں ان معاف کرکے، ان کو بھلا کر آگے بڑھ جاتی تھی تو پچھلی باتیں یاد ہی کہاں رہتی تھیں مجھے نہ ان کے پچھلے چہرے یاد رہتے تھے اور یہ گُر مجھے اسی نے تو سکھایا تھا اس گر کے سیکھنے کے بعد مجھے کبھی اپنی اس خامی کی وجہ سے کہیں ہارنا نہیں پڑا کسی کے آگے جھکنا نہیں پڑا وہ شروع سے جادوگرنی تھی جانتی تھی کہ کس کو کونسا منتر دینا ہے، منتر میں کتنی ترمیم و تحریف کرکے دینا ہے ”کب سے آئی ہوئی ہو خبر ہی نہیں ہوئی” اس پر نظر پڑتے ہی ”امی دیکھیں ایم حیدر نے ڈیڑھ سو بچوں میں پہلی پوزیشن لی ہے۔” اس نے ٹرافی ٹیبل سے اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی تھی چہرے پر خوشی کی دھنک تھی اور آنکھوں میں تشکر کی چمک۔