اسائنمنٹ مکمل کرتے ہوئے اس نے پانچویں، چھٹی بار اضطراب میں سر اٹھا کر سامنے دیکھا، کھڑکی کے شیشے پر رنگ برنگی جلتی بجھتی روشنیوں کا عکس تھا۔ جلتی بجھتی روشنیاں جو اسے لمحہ بہ لمحہ اندھیرے میں دھکیل رہی تھیں، دل ڈوبتا تھا پھر ڈوبتا تھا پھر ابھرتا تھا۔ باہر شدید سردی تھی اندر چلتے ہیٹر کی حدت کے باعث شیشے پر پانی کے قطرے پھسلتے تھے وہ بے ارادہ ہی کتنی دیر ان قطروں کو اوپر سے نیچے پھسلتا دیکھتی رہی ساتھ والے گھر میں شادی تھی ہفتہ پہلے سے ہی ڈھولک شروع ہوگئی تھی اس کے گھر والے بھی مدعو تھے۔ اس وقت سب وہیں گئے ہوئے تھے امی، ابا، آئینہ مگر وہ نہیں گئی تھی، کیسے جاسکتی تھی کل بائیو کیمسٹری کی اتنی اہم اسائنمنٹ جمع کروانی تھی سو گہری سانس لے کر سر دوبارہ جھکایا مگر دھیان کہیں اور تھا اور دل بھی۔ وہاں سے آتی ڈھولک اور گانوں کی آوازیں، قہقہے اور باتیں اس نے سر سامنے پھیلے کاغذوں پر رکھ دیا جن پر لکھے نیلے حروف اس کے آنسوؤں سے پھیلتے چلے گئے۔
دفعتاً اسے احساس ہوا کمرے میں کسی نے جھانکا ہے وہ تیزی سے چہرہ صاف کرکے واپس مصروف نظر آنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسائنمنٹ بنی نہیں ابھی تک اگلے پل آئینہ اس کے سر پر کھڑی پوچھ رہی تھی، نہیں ابھی تو کک… کافی کام رہتا ہے وہ قلم تیزی سے کاغذ پر چلاتے ہوئے بولی تھی۔ آئینہ نے غور سے اس کے جھکے سر اور کاغذ پر پھیلے گیلے حروف کو دیکھا۔ فنکشن ختم نہیں ہوا ابھی اب کی بار اس نے سر اُٹھا کر پوچھا تھا۔ ”نہیں ابھی تو ان کا کافی دیر جاگنے کا پروگرام ہے” آئینہ نے اس کی سوجی ہوئی آنکھوں سے بے اختیار نظریں چرائیں۔ ”تم کہتی ہو تو میں آجاتی ہوں امی، ابا تو آگئے ہیں واپس تمہاری مدد کروا دیتی ہوں۔ نہیں تم وہاں رہو خالہ کو برا لگے گا۔” آئینہ نے بے اختیار گہری سانس لی وہ جانتی تھی کہ وہ اس وقت اکیلے رہنا چاہتی ہے۔ ”چلو تم اسائنمنٹ مکمل کرلو میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں” وہ اس کے سر کو نرمی سے سہلاتے ہوئے بولی تھی۔ کمرے سے باہر جاتے ہوئے اس نے مُڑ کر دوبارہ فضہ کو دیکھا جو واپس اسائنمنٹ پر جُھک گئی تھی اور باہر نکل گئی کسی کے ہاتھوں رد ہونا یقینا ایک تکلیف دہ چیز ہے مگر اس کے ہاتھوں رد ہونا جس سے دل وابستہ ہو اس تکلیف کو ناپنے کا شاید کوئی پیمانہ نہیں بن سکتا، اس توہین کو برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے بے حد مشکل۔
آئینہ نے کپڑے تہ کرتے ہوئے پانچویں چھٹی بار اس کی طرف دیکھا تھا، جو پچھلے آدھے گھنٹے سے بے حس و حرکت ٹیرس میں کھڑی تھی نگاہیں بھی تب سے مسلسل ایک ہی جگہ پر ٹکی تھیں۔ ٹیرس سے خالا کے گھر کا برآمدہ اور لان نظر آتا تھا۔ سرمد کی شادی کو ایک ہفتہ گزر بھی گیا تھا آج کل ان کے گھر خوب رونق لگی ہوئی تھی۔ بیٹیوں نے ابھی تک میکے میں ہی ڈیرہ ڈال رکھا تھا نئی نویلی بھابھی کے خوب چاؤ چونچلے کیے جارہے تھے۔ دو دن بعد دلہا، دلہن ہنی مون پر جانے والے تھے سو ان کے جانے کے بعد ہی دونوں بیٹیوں نے بھی سسرال سدھارنا تھا۔ ”فضّہ ذرا میری مدد کروا دو صبح سے میں اکیلے ہی لگی ہوئی ہوں” آئینہ نے ہمت کرکے بلآخر اسے پکارا وہ اس کی آواز پر یکدم چونک کر پلٹی۔ مجھے دھیان نہیں رہا پریشانی میں اس کی لکنت بڑھ جایا کرتی تھی۔ آئینہ نے اس کے خوبصورت چہرے پر بکھرے آزردگی کے رنگ کو دیکھا کچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر پھر خاموش ہوگئی۔
وہ جہاں کھڑی ہوجاتی تھی کسی بیش قیمت ہیرے کی طرح سب میں الگ سے چمکتی ہوئی نظر آتی تھی، یہ خوبصورتی اور انفرادیت صرف اس کی صورت تک محدود نہیں تھی اخلاق، کردار، تعلیم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ بس جس ایک چیز نے اس چمکتے چاند پر گرہن لگایا تھا وہ اس کی پیدائشی کمزوری تھی اس کی زبان کی لکنت سرمد کی شادی طے ہونے سے پہلے تک آئینہ کو اس کے دل میں موجزن اس جذبے کی شدت کا احساس نہیں تھا۔ وہ اندر کہیں اس کی پسندیدگی کو جانتی اور سمجھتی تھی۔ وہ سب اکٹھے پلے بڑھے تھے اور جس طرح ان دونوں کی آپس میں دوستوں والی بے تکلفی تھی، جس طرح سے خواہ وہ پڑھائی کا معاملہ ہو یا کچھ اور وہ اس کی مدد کیا کرتا تھا ہر جھگڑے، ہر گیم میں اس کی طرف داری کیا کرتا تھا وہ بھی یہی اندازہ لگا پائی تھی کہ وہ فضہ کو پسند کرتا ہے۔ امی کو بھی سرمد کے جھکاؤ کے بارے میں اندازہ تھا وہ تو بلکہ خالہ کی طرف سے رشتہ مانگنے کے انتظار میں تھیں۔ ”ہاتھ چلانا بند کیوں کردیئے ہیں۔” فضہ نے اس کو ہلایا تو وہ سوچتے سوچتے ہوش میں آئی تھی۔ اس نے نرمی سے اس کے ہاتھ تھام لیے: ”زندگی میں نافضہ دل ٹوٹتے، جڑتے رہتے ہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ہر ایک کی زندگی میں کبھی نا کبھی ایسا مرحلہ آتا ہے مگر جو اس چھوٹے سے فیز میں اپنی پوری زندگی کو قید کردیتا ہے وہ ایک دن ضرور پچھتاتا ہے۔” اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا فضہ جو اس سے اس بات کی توقع نہیں کررہی تھی اس نے شرمندگی سے سر جُھکا لیا وہ یہ کیسے بھول گئی وہ آئینہ تھی اس کی سگی بہن اس کے کہے اور بن کہے لفظوں کو اس سے بہتر اور کون سمجھ سکتا تھا۔ بچپن سے اب تک اس کو سنبھالنے، اس کو سمجھنے کی ذمہ داری وہی تو اٹھاتی آئی تھی۔ اتنے سال اس نے مجھے غلط فہمی میں مبتلا رکھا اس نے سر اٹھایا تو اب کی بار آنکھوں میں آزردگی اور تکلیف نہیں غصہ تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے اسے اندازہ نہ ہو آئینہ کو اس پل اس کی جلتی آنکھوں سے خوف آیا تھا جن کے شعلے بار بار ان میں ابھرنے والے آنسو بُجھا دیتے تھے پھر تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ بھڑکنے لگتیں مجھے یقین نہیں آتا کہ اس نے خالا کے سامنے میرے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے۔ آئینہ اس کی بات پر چونکی تھی یکدم اسے اس کے اتنے شدید ردعمل کا سبب سمجھ میں آیا تھا اس کا دل ٹوٹا تھا اس لیے نہیں کہ سرمد نے اسے رد کیا تھا بلکہ اس کے دل ٹوٹنے کی وجہ وہ سبب تھا جس کی وجہ سے وہ ردکی گئی تھی۔ وہ آئینہ کو بتاتی چلی گئی تھی سارا کچھ امی کی طرح خالہ کو بھی یہی خیال گزرا تھا کہ اس کا انتخاب فضہ ہی ہوگی اسی سلسلے میں انہوں نے اس سے بات کی تھی۔ وہ جو اپنے دھیان میںمگن امی کا پیغام لیے کمرے میں داخل ہونے لگی تھی ان کی بات سن کر اس کے قدم دروازے پر تھمے تھے۔ خالہ کی بات پر اس کی سانس رک گئی تھی وہ دم سادھے سرمد کے جواب کی منتظر تھی وہ جواب میں ہنس پڑا تھا اس کے ہنسنے سے اسے توہین محسوس ہوئی تھی، شدید توہین، ٹانگیں لرزی تھیں۔ ”امی میں اس کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کیسی باتیں کرتی ہیں آپ ترس کھا کر میں اس کی مدد کردیتا ہوں یا اس کا دل رکھنے کے لیے بات چیت کرلیتا ہوں انسان ہونے کے ناتے اس سے ہمدردی رکھتا ہوں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں اس کو ساری زندگی کے لیے اپنے سر منڈھ لوں۔ مجھے ایسی بیوی چاہئے جس کے ساتھ چلتے جسے لوگوں سے ملواتے میں فخر محسوس کروں جو میرے لیے سکون کا باعث ہو نہ کہ مصیبت بن جائے۔” ماں کو اس کے جواب پر یقین نہیں آیا تھا وہ تو اتنا عرصہ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہی تھیں کہ فضہ کی طرف اس کا جھکاؤ ہے اسی لیے وہ اپنی بہن کو اشاروں کنایوں میں رشتے کا عندیہ بھی دے چکی تھیں۔ ”اس کی ایک بات سننے میں پتا ہے کتنا وقت درکار ہوتا ہے۔” انہوں نے سرمد کی بات پر تاسف سے اس کی طرف دیکھا پھر ان کی نظر سامنے اٹھی تھی جہاں سفید پڑتے چہرے کے ساتھ فضہ کھڑی تھی وہ دروازے میں کسی مجسمے کی طرح ایستادہ تھی۔
”بعض اوقات ہمیں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کا سامنا ہم نہیں کرنا چاہتے، ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو ہماری ذات میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں مگر ایک بات بتاؤں میں تمہیں۔” آئینہ نے اسے دھیرے سے تھام کر بیڈ پر بٹھا دیا اور خود بھی تکیے اور کپڑوں کو آگے دھکیل کر بیٹھ گئی ”لوگ، حالات، دنیا بعض اوقات قابل مذمت ضرور ہوتے ہیں قابل نفرت نہیں، سو دلیلیں ہوتی ہیں ان کے پاس کہ وہ حق پر ہیں سو ان کو ان کے برے رویوں سمیت ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ تم بھول جاؤ اس کو اور اس منظر کو۔” آئینہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ آئینہ کے مطابق مذمت کا بہترین طریقہ یہی تھا معاف کرو دو اور آگے بڑھ جاؤ۔ پتا نہیں فضہ نے اس کی بات کو کتنا سنا اور کتنا مانا تھا مگر اس کے بعد اس نے کبھی ٹیرس میں کھڑے ہوکر ان کے گھر کی طرف نہیں دیکھا تھا وہ دن بہ بدن مصروف ہوتی چلی گئی اور بدلتی چلی گئی۔ آج کل وہ ایک بڑی نامور فرماسوٹیکل کمپنی کے ساتھ کام کررہی تھی۔ وہاں اس کے کولیگز اس کی ذہانت اور قابلیت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے اور یہاں گھر میں رشتے کے لیے آنے والوں کے ہاتھوں جانے کتنی بار اس نے ذلت کی گہرائیاں دیکھی تھیں، اندھی اندھیری گہرائیاں وہ جیسے سم سم کے بال کی طرح ہوگئی تھی جس کا دل چاہتا آسمان کی طرف اچھال دیتا اور جس کا دل چاہتا زمین پر مار کر لطف اندوز ہوتا۔ سم سم کی بال جو زمین پر جتنی زور سے ٹکراتی ہے آسمان کی طرف بھی اسی زور اور شدت سے اٹھتی ہے۔ اسی مدوجذر میں ڈوبتے ابھرتے اس کی زندگی بھی گزر رہی تھی۔ اب اس سے جو بھی پہلی بار ملتا وہ اس کے بارے میں بہت سنجیدہ، لیے دیئے رہنے والی، کم گو اور اردگرد کی ہر چیز سے بے نیاز کڑوی سی لڑکی کا تاثر لے کر اٹھتا رفتہ رفتہ یہ شکایت اس کے رشتے داروں اور دوستوں کو بھی ہونے لگی اور دوسری طرف آئینہ کے سبھی دیوانے تھے فضہ کے پس منظر میں چلے جانے کے بعد وہ اور نمایاں ہوگئی تھی۔ اب تو یہ صورت حال تھی فضہ جلتا ہوا مشرق تھی تو آئینہ ٹھنڈا ٹھار مغرب کا حساس، مٹھاس سے بھری، زندہ دل فضہ کہیں کھو گئی تھی اور آئینہ اس کھوئی ہوئی فضہ کو واپس لانا چاہتی تھی، جو سورج کی دھوپ اور بارشوں کو پہلے کی طرح محسوس کرے، جسے پھولوں پر منڈلاتی تتلیاں اچھی لگیں، جو ہمسایوں کی بہو پر ظلم ہونے پر تلملائے، بجلی جانے پر حکومت کو کوسے، اپنے جذبوں کا اظہار کرتے ہوئے خوفزدہ نہ ہو، گھبرائے نہیں تلخی سے ایک لفظ پر بات ختم نہ کردے، اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والی فضہ، اپنے خوابوں کے پیچھے دوڑنے والی فضہ، اور نچی آواز میں قہقہہ لگانے والی فضہ آئینہ کو وہی فضہ چاہیے تھی یہ والی نہیں جو لوگ اب اسے جانے کن کن القابات سے نوازتے تھے انہی لوگوں کے رویوں نے چھوٹی سی جسمانی کمزوری کے باعث اسے ایسا کردیا تھا بار بار ٹھکرائے جانے کے احساس اور اپنے خوابوں کے مسمار ہوجانے نے اس کی شخصیت کو بدل ڈالا تھا۔
”تمہیں پتا ہے خالہ کل امی کے پاس کافی دیر بیٹھ کر گئی ہیں بہت رو رہی تھی۔ ”آئینہ ابھی کمرے میں داخل ہوئی تھی فضہ جو تکیہ گود میں دھرے بیٹھی تھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی کچھ تھا اس کی بات کرنے کے انداز میں جسے آئینہ نے محسوس کیا تھا ”اچھا کیوں رو رہی تھیں خالہ” آئینہ نے سامنے اپنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا اس کے باوجود کہ امی اسے سب کچھ بتا چکی تھیں۔ سرمد نے بغیر کسی کو بتائے نیشنیلٹی حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ میں پیپر میرج کی تھی وہ لڑکی نیشنیلٹی ملنے سے عین پہلے اس سے طلاق لے کر چلی گئی۔ زرقا کے گھر والوں کو پتا نہیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ وہاں کیا گل کھلا رہا ہے انہوں نے خالا سے بہت جھگڑا کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں یا تو وہ زرقا کو فوراً اپنے پاس بلائے نہیں تو طلاق دے۔ جب کہ اس نے خالہ کو کہا ہے کہ وہ نیشنلٹی حاصل کیے بغیر اس کو ہر گز نہیں بلائے گا میرا تو خیال ہے وہ پھر سے پیپر میرج کے لیے پرتول رہا ہے۔ آئینہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی کتنے عرصے بعد وہ یوں بغیر رکے لگاتار بول رہی تھی۔ تمہیں خوشی ہوئی ہے اس بات سے فضہ کو بولتے بولتے بریک لگا تھا وہ اس جملے کی توقع نہیں کرسکتی تھی وہ بھی آئینہ کے منہ سے وہ ہکّا بکّا اسے دیکھ کررہ گئی۔ ”تمہیں میں ایسی لگتی ہوں۔” ”نہیں تم ایسی نہیں ہو۔” وہ تکیے سے ٹیک لگاتے اپنا جوڑا کھولتے ہوئے نرم لہجے میں بولی تھی اصل میں اتنے سالوں میں مجھے عادت نہیں رہی تمہارے منہ سے کسی کے بھی بارے میں کوئی بات، کوئی رائے، کوئی تبصرہ سنوں اس لیے سوچا اس میں کچھ تو غیر معمولی ہے۔ فضہ نے شرمندگی سے سرجُھکا لیا چہرہ سرخ ہوا تھا کیا پتا میرے نفس کو اس سے کچھ اطمینان ملا ہو اب کی بار لکنت زدہ جملے میں لرزش شامل تھی وہ شرمسار لگ رہی تھی اسے آئینہ نے جیسے اس کے نفس کا چہرہ دکھایا تھا اسے گھن آئی تھی۔ تو تم پھر ایسا کرو کہ اپنے اس نفس کو سزا دو فضہ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، آج واقعی اس کے لیے دل میں موجود ہر جذبے کو نکال باہر کرو محبت، نفرت اور مذمت سب کچھ اس گندے پانی کو بہ جانے دو جو تمہارے اندر تعفن پھیلا رہا ہے فضہ یک ٹک اسے دیکھے گئی تھی۔
ان دنوں آئینہ کے لیے ڈھڑا ڈھڑ رشتے آرہے تھے ساتھ امی ابا اس کے لیے بھی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ کچھ عرصے بعد آئینہ کی شادی طے ہوگئی تھی وہ اس کے لیے بے حد خوش تھی مگر اس کے بچھڑنے کے احساس سے شدید اداس مہندی کے فنکشن پر سب مگن تھے ڈھولک، گانے، مذاق، رنگ برنگے قمقوں میں مُسکراتے کھلکھلاتے چہرے وہ کونے میں موجود ہاتھ کے آخری ٹیبل پر آبیٹھی سب کھانا کھانے میں مصروف تھے وہ آئینہ کو سٹیج پر کھانا کھلا کر ابھی یہاں آکر بیٹھی تھی۔ کھانے کے بعد ساری کزنوں نے آئینہ کا محاصرہ کرلیا تھا وہاں بجتی ڈھولک کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی اس نے زرقا کو دیکھا جو سُرخ لباس زیب تن کیے، ڈھیر سارا سونے کا زیور پہنے، گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک لگائے مگر چہرے پر گزرے تین سالوں کی خزاں کا عکس اور گرد لیے گود میں منا سا گل گوتھنا ارقم تھا۔