گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۲)

ولی کو کھانا وقت پر ملے نہ ملے ، کرکٹ وقت پر ضرور کھیلنی ہے ۔ پڑھنے کو وقت ملے نہ ملے ، کرکٹ کے لیے وقت ضرور نکل آتا تھا ۔ ا می کو بہت چڑ تھی اس کے اس عشق سے ۔ دھوپ اور گرمی میں کھیل کھیل کر رنگ کالا ہو گیا تھا مگر وہ کون سا لڑکی تھا جو پرواہ کرتا ۔ ان دنوں جو ضلع کی تمام تحصیلو ں کے بیچ مقا بلہ ہو رہا تھا تو و ہ کر کٹ کے علا و ہ باقی سب کچھ بھو لا ہو ا تھا ۔
”کرکٹ تیری ماں نے امتحان نہیں دینے تیرے۔ ” ا می کا بس نہ چلتا تھا اس کے میچوں کو آگ لگا دیں۔
”ماں تو میری آپ ہی ہیں یور میجسٹی ۔ ” وہ جھک کر امی کے قدموں کو چھوتا۔
”کرکٹ تو میرا پیشن ہے پیشن ۔ ”
”آنے دو نورالحسن کو … بتاتی ہوں صبح سے کتاب کھول کر نہیں دیکھا۔ ”امی نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا۔
”مقدس چیزوں کو میں ہاتھ سے چھو کر ہی شکتی حاصل کر لیتا ہوں ۔ ” اس نے ایک بار پھر بات مذاق میں اڑائی۔
وہ نو ر الحسن تھوڑی تھا جو سر جھکا کر ماں کی بات سنتا اور سر جھکا کر جواب دیتا ۔ ا می سوچتی رہتیں کہ یہ نمونہ جانے کس پر چلاگیا ہے۔ یہ تو ایک ماں کی سوچ تھی جو پل بھر میں بدل جاتی ۔ کچھ بھی تھا ، بیٹیوں جیسا سکھ بھی اسی بیٹے نے دیا تھا ۔ کتنا خیال رکھتا تھا وہ ان کا ۔ گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتا ، باہر کے سب کام نپٹاتا ،رات ان کے پیر دبا کر سوتا ۔
”بس یہ کرکٹ میں وقت ضائع نہ کیا کرے ۔”وہ نو ر ا لحسن سے شکایت لگاتیں اور وہ مسکراتا رہتا ۔
وہ بھی چھٹی کا دن تھا ۔ پہلے تو دیر سے جاگا پھر ناشتا کیے بغیر ہی بیٹ ہاتھ میں لیے گھر سے نکل گیا ۔ شدت کی گرمی میں وہ کرکٹ کھیل کر جو واپس لوٹا تو افریقی مردانہ حسن کا شاہ کار لگ رہا تھا ۔ امی نے اسے دیکھتے ہی حکم صادر کیا۔
”میرے پاس مت بیٹھنا ۔ پہلے نہا کر آؤ ۔”
”امی ! ماں کو تو ہر روپ میں اپنا بچہ پیارا لگتا ہے ۔”وہ فلسفیانہ انداز میں بولا۔
”لگتا ہو گا ۔مگر میرے قریب نہا کر آنا ۔” امی نے ہاتھ سے اسے پرے کیا ۔
”امی … آپ منہ سے کہیں یا نہ کہیں ، ہیں آپ میری سوتیلی ماں ۔” گلو گیر انداز ڈائیلاگ ادا کر کے باہر نکلا ۔اپنے کمرے میں جاتے ہوئے اس کو گُلانے آئرن اسٹینڈ کے سامنے کیا نظر آئی ، اس نے موقع غنیمت جانا اور اپنی شرٹ اس کے سامنے لا پھینکی ۔
”یہ بھی آئرن کر دو۔”
” ام آپ کو آپ کا نوکر نظر آتا ؟” گُلانے نے اس کی شرٹ پاس پڑی کرسی پر پھینکی ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”گُلانے تم مجھے ” تم ”ہی کہہ لیا کرو ۔ یہ آپ کچھ مس فٹ ہی لگتا ہے تمہارے جملوں میں ۔” وہ اس کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ضائع نہ کرتا تھا۔
”ام تو آپ کی عزت کرتا ، اب آپ کو عزت راس نئیں …” جان بوجھ کر مسکراتے ہوئے اس نے جملہ ادھورا چھو ڑا ۔
”زیادہ باتیں نہ بناؤ … یہ شرٹ استری کر کے دو ۔”وہ یک دم سنجیدگی سے رعب جھاڑتے ہوئے بولا۔
”ام نے کوئی تمارا ٹیکہ توڑی اٹایا اے ۔”اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”یہ بھی تو استری کر رہی ہو ناں ۔” ولی نے آئرن اسٹینڈ پر بچھے امی کے دوپٹے کی طرف اشارہ کیا ۔
”یہ تو امارا پوجی کا سوٹ اے۔” گُلانے نے عقیدت سے دوپٹے کو دیکھا ۔
ولی کو سخت مایوسی ہوئی ۔ گھر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس نے آج تک جو خدمات دی تھیں ، وہ اسے گُلانے کی صورت وصول ہوتی نظر آئیں ۔وہ اس سے چھوٹی تھی۔ اب کوئی تو تھا جس پر وہ رعب ڈال سکتا تھا ، کوئی تو تھا جس سے وہ کام کروا سکتا تھا مگر گُلانے نے اسے مایوس ہی کیا تھا ۔ وہ اس کے رعب میں آتی تھی نہ ہی اس کا کوئی کام کرتی تھی۔ اس کو لگتا تھا کہ یہ سارا امی کا قصور ہے جنہوں نے پہلے دن اسے ماسی بنا کر اس لڑکی کے سامنے پیش کر دیا ، اسی حساب سے اب وہ اسے اہمیت دیتی تھی۔
ایسا کیا کیا جائے جو یہ لڑکی اسے باس ماننے پر مجبور ہو جائے ۔ابھی وہ لائحہ عمل تیار کر ہی رہاتھا جب اس کی نظر آئرن اسٹینڈ پر پڑی ۔
”یہ …یہ کیا …میری شرٹ تم سے استری ہوتی نہیں ۔ بھائی کا کلف لگا سوٹ استری ہو رہا ہے ۔ خوب…”اس نے طنزیہ انداز میں اسے کہا۔
”ہاں تو ان کے کپڑے میں استری نہیں کروں گی تو اور کون کرے گا ۔” گُلانے نے نہایت سکون کے ساتھ جواب دیا ۔
”کیوں … ان پر اتنی مہربانی کیوں؟” ولی نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا۔ ”پرسوں میں نے چائے بنانے کا کہا تو محترمہ کو پڑھائی یاد آ گئی۔ اور بھائی نے ابھی گھر میں قدم رکھا ہی تھا کہ چائے کا کپ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہو گئیں ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ۔” اس کے اندر سہیل وڑائچ نے انگڑائی لی۔
” نورا لحسن تو امارا مالک اے۔ اس کے سارے کام کرنا تو گُلانے کا پر ض ( فرض ) اے۔” اس نے اسی اطمینان اور سکون سے کہا۔
”واہ جی …کیابات ہے۔ نورا لحسن تو مالک ہے ۔ اور مالک کا بھائی؟”اس نے کمر پر ہاتھ ٹکاتے ہوئے کہا۔
”مالک کے بھائی نے امارا پیسہ توڑی دی۔” وہ حساب کتاب پکے رکھتی تھی۔
”پیسا؟ ” وہ حیران ہوا تھا ۔
”ہاں … پوری تیس ہزار دی نورالحسن نے گل زما ن کو ۔”
وہ اب متجسس ہوا تھا ۔ بھائی نے کیا کہانی سنائی تھی اور اصل کہانی کیا تھی ۔یہ تو و ہ ا ب جا ن پا یا تھا ۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭
ہانیہ کی طبیعت رات سے کچھ بہتر نہ تھی جس کی وجہ سے آج وہ ڈیپارٹمنٹ نہیں آئی تھی۔ اس کی غیر موجودگی میں نور کو احساس ہوتا تھا کہ وہ اس کے لیے اچھی دوست توہے ہی ، بہترین باڈی گارڈ بھی ہے۔ابھی بھی اس کی کمی کو محسوس کر تے ہو ئے و ہ کلا س ا ٹینڈ کر کے گرلز کامن رو م کی طرف آرہی تھی جب خزیمہ داؤد اس کے سامنے آیا تھا ۔
”ہائے نور !”
اس کی تیوری پر بل پڑے ۔ اس کے حجاب کی وجہ سے خزیمہ کو یہ بل نظر نہ آئے مگر آنکھوں میں یہ تحریر آج بھی نظر آئی تھی ۔
”Prohibited”
اس کو ایک دفعہ پھربچپن کے شوق چڑھے ۔ جستجو اور تجسس کی تو جیسے اسے گڑتی ملی تھی۔
”مجھے یہ نوٹس آپ کے ساتھ شیئر کرنے تھے۔ اس میں نیوٹن کی Philosophiae Naturalis Principia Mathematica.سے کچھ پوائنٹس لیے گئے ہیں ۔ آپ تو جانتی ہیں کہ اس بک کی انگلش کاپی بھی ابھی تک دست یاب نہیں ۔ ” اس نے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق بات شروع کی۔
”آپ نے یہ نوٹس باقی کلاس کے ساتھ شیئر کیے ہیں ؟ ” نور نے نوٹس تھامنے کے لیے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا تھا ۔
”نہیں ۔ ”
”پھر مجھ سے بھی شیئر نہ کریں ۔ ”اس نے گرلز کامن روم کی طرف قدم بڑھائے ۔
”ایک منٹ نور ۔ ” وہ اس کے ساتھ ساتھ چلا ۔
”جی کہیں ۔” اسے رکنا پڑا تھا ۔
”میرے بھائی کی شادی ہے ۔ آپ اور ہانیہ آئیں گی تو مجھے خوشی ہو گی۔ میں آپ لوگوں کا کارڈ بھی لے کر آیا ہوں ۔ ”
”آپ نے باقی کلاس کو انوائٹ کیا ہے ؟” اس نے روایتی سرد مہری سے پوچھا۔
”صرف فرینڈز کو ۔ ”اس نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
”سوری … آپ اپنا کارڈ ضائع مت کریں ۔ میں آپ کی فرینڈ نہیں ہوں ۔” وہ یہ کہہ کر رکی نہیں تھی ، کامن روم میں چلی گئی ۔خزیمہ بھی ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھا۔ اگلے دن ہانیہ ڈیپارٹمنٹ آئی تو اس نے کارڈ اسے تھما دیا ۔
”کون کون سی ڈشز ہوں گی؟” ہانیہ نے شادی کا ذکر سنتے ہی پوچھا ۔اس کی طرف سے ایسا سوال غیر متوقع نہیں تھا ۔ خزیمہ نے ان ڈشز کے نام بھی گنوا دیے جو مینیو میں نہیں تھیں ۔
”اچھا لگتا تو نہیں ہے ۔ ” وہ بھی کم استاد نہ تھی۔
”کیوں ؟”
”تمہاری صحت دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ تمہارا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے ہے۔
”اور تمہاری صحت دیکھ کر …” باقی جملہ ادھورا چھوڑ دیا گیا ۔ اس وقت دشمنی مول نہیں لی جا سکتی تھی۔ یہی تو وہ کریکٹر تھی جس کا رومانوی داستانوں میں بڑا رول ہوتا ہے ۔ہیروئن کی سہیلی …
مانا کہ خزیمہ داؤد کو لو اسٹوریز پڑھنے اور دیکھنے کا کوئی شو ق نہ تھا مگر یہ تو قصہ ما ضی تھا ناں ۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭
”بھائی مجھے تیس ہزار چاہئیں۔”
نورالحسن نے کتاب سے نظر ہٹا کر انوکھے لاڈلے کی طرف دیکھا۔ چھوٹی موٹی فرمائشیں تو اس کی چلتی رہتی تھیں مگر ایک ساتھ تیس ہزار ۔
”کیوں بھئی … ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ۔” اس نے مسکرا کر پوچھا ۔
”میں نے اپنے لیے کنیز خریدنی ہے ۔”
” کنیز ۔ ” وہ حیران ہوا۔
”ہاں کنیز… جو میرے اشاروں پر چلے ۔ میرے حکم پر پلک جھپکتے میں چائے بنا لائے ، میرے کپڑے استری کر دے ۔”وہ ٹیپ ریکارڈر کی طرح بولا۔
”ایسے کام کنیز نہیں بیوی کرتی ہے ۔” وہ مسکرا کر بولے ۔
”نہیں اب وہ دور نہیں رہا، اب تو ایسے کام بیوی کرواتی ہے ۔” اس نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا ۔
”اب کنیزوں اور باندیوں کو خریدنے کا دور بھی نہیں رہا ۔” نور الحسن نے اس کی بات کو انجوائے کرتے ہوئے کہا۔
”مگر آپ نے تو خریدی۔ ” وہ فوراً بولا تھا ۔
”کیا مطلب؟” نو ر الحسن چونکا ۔
”ہوں … تو نکلا چھپا رستم … تو نکلا چھپا رستم ۔ ” و لی شرارت سے گنگنانے لگا تھا ۔ نورا لحسن اسے گھورنے لگا۔
”بھائی وہ میجر صاحب یاد ہیں جو کچھ عرصہ ہمارے پڑوس میں رہے تھے ۔ وہی… جن کی تین بیویوں سے اولاد نہیں تھی تو پھر وہ پشاور کی طرف کسی گاؤں سے چوتھی بیوی خرید کر لائے تھے پچیس ہزار میں جس کے تین بیٹے ہوئے تھے ۔”
”ہاں … یاد ہے ۔ ”نور الحسن پلکیں چھپکے بغیر بولا۔
”اس وقت یہ میجر صاحب کا قصہ سن کر مجھے لگتا تھا کہ سیف الملوک والا قصہ سچا ہی ہے ، سرحد میں واقعی پریاں رہتی ہیں جو پچیس ہزار میں مل جاتی ہیں ۔ اب پتا چلا کہ پریوں کے ہاں بھی مہنگائی کا دور ہے ۔ پری پچیس کے بجائے تیس ہزار کی ہو گئی ۔”وہ بنا رکے بولے جارہا تھا۔
”کیا مطلب ؟” نور الحسن اب سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔
”گُلانے ۔ ” ولی انگلیوں کو نچاتے ہوئے مسکرایا ۔
”میں بھی کہوں ، کیوں بھاگ بھاگ آپ کی خدمتیں کرتی ہے وہ ، کیوں ا تنی عقیدت سے کہتی ہے ”امارا مالک اے نور الحسن۔ ” یہاں تو آقا و کنیز کا قصہ ہے ۔ ” اس نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
” ولی تم سے یہ سب کس نے کہا ؟” نور الحسن نے سنجیدگی کے ساتھ دریافت کیا ۔
”خود گُلانے نے ۔ ” اس کی نظروں میں ابھی بھی شرارت تھی جس سے نور ا لحسن کو الجھن ہو رہی تھی۔
”بھائی ! سچی بتائیں یہ پٹھان اپنی بیٹیاں بیچتے ہیں کیا ؟ ”وہ یک دم سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”میں اس بارے میں شیور نہیں ہوں ۔ افغانستان ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے کچھ قبائل میں ” والوار ” نامی ایک رسم ہے جس کا مطلب ہے ”دلہن کی قیمت” ، جس میں دلہا، دلہن کے ماں باپ کو شادی پر آنے والے اخراجا ت ادا کرتا ہے ۔ ایسا عموماً غریب گھرانوں میں ہوتا ہے ۔ ایسی رسومات ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی پریکٹس میں ہیں ۔” نور الحسن اسے بتانے لگا۔
”پھر میجر صاحب کی چوتھی بیوی ؟ ”ولی یک دم بولا۔
”کچھ ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جس میں بیٹیوں کو حقیقتاً بیچا گیا ، مگر اس عمل کو صرف پٹھانوں کے ساتھ یا تمام پٹھانوں سے منسوب کرنا ٹھیک نہیں ۔ بلوچستان میں تو یہاں تک سنا کہ کچھ قبائل میں بیٹی کو تول کر اس کا مول لگایا جاتا ہے ۔ ہے تو افسوس ناک امر مگر حقیقت ہے کہ پورے ملک میں ہی کئی لالچی یا غربت کا شکار مجبور ماں باپ بیٹیوں کا سودا کرتے ہیں ۔” نور الحسن کا لہجہ افسردہ سا ہوا۔
”گُلانے کو لالچ میں بیچا گیا یا مجبوری میں ؟”نور الحسن نے اسے حقیقت بتا دی۔
”گُلانے کو اس کے بابا نے نہیں بیچا بلکہ گل زمان نے اس کا سودا کیا جو کہ اس کی پھوپھو کا شوہر اور گُلانے کا نگران تھا ۔اور اس نے لالچ میں اسے بیچا ۔”نور الحسن نے اسے حقیقت بتا دی۔
”اچھا ۔ مگر آپ نے کیوں خریدا ؟”اس کا تجسس عروج پر تھا۔
نورالحسن نے تاسف سے سرہلایا ۔ اسے آج گُلانے پر غصہ آ رہا تھا ۔ ولی سارے جواب لے کر ہی ٹلاتھا ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

سمے کا بندھن — ممتاز مفتی

Read Next

مس ظرافت کا باورچی خانہ — حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!