گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

رات نے ہاتھ میں سیاہ دوات لے کر ہر سو اندھیرا چھڑک رکھا تھا ۔
کچھ ایسی ہی تاریک اس شخص کی زندگی بھی تھی جس کے ہاتھ میں سگریٹ اور نگاہ آسمان پر تھی۔ وہاں کچھ ٹمٹماتے تارے تھے ۔ اس کی نظریں دور کہیں ایک ستارے کو ڈھونڈ رہی تھیں مگر وہ ملتا نہ تھا۔ سگر یٹ اس کا ہاتھ جلا گئی ۔ اس نے جھٹک کر اسے پھینکا اور دوسری نکال کر سلگا لی۔
یوں تو عرصہ ہو ا زندگی دشوار ہوئی مگر کبھی کبھی تو ایسا گھائل کرتی کہ اس جیسا مضبوط اعصاب والا بندہ بھی خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا۔ وہ اپنا شہر چھوڑ آیا ، جان پہچان کے لوگوں سے دور ہو گیا پھر بھی ماضی دامن نہ چھوڑتا تھا ۔ زلیخا کی طرح رسوا کرنے پہ تلا تھا۔
وہ جہاں بھی چلا جاتا یہ خبر پانی کی طرح رستہ بناتے ہوئے وہاں پہنچ جاتی اور لوگ ترحم بھری یا پھر طنزبھری نظروں سے اسے دیکھنے لگتے تھے۔ وہ جو ایک وجیہہ و شکیل مرد تھا ، جس کا اپنی فیلڈ میں نام اور ایک مقام تھا جسے لوگ رشک یا حسد کی نگاہ سے دیکھتے ، ایک دم انہیں بے چارا سا لگنے لگتا۔
”کافی ٹھنڈ ہے یہاں …ہے ناں ؟ ” قرة العین اس کے پیچھے کب آ کھڑی ہوئی ، اسے پتا ہی نہ چلا تھا۔ قرة العین نے ایک طرف دیوار میں لگے سوئچ بورڈ پر دو تین بٹن دبائے تو بالکونی روشن ہوگئی۔ اس نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا، وہ وہیں اسی پوزیشن میں کھڑا تھا۔ اس کے آنے اور بالکونی روشن ہونے سے اسے جیسے کوئی فرق نہیں پڑاتھا۔ کورٹ میں ، چیمبر میں ایک ایک لمحہ حرکت میں رہنے والا یہ شخص جب کبھی اپنی ذات میں گم ہوتا تو یوں لگتا جیسے اب اس کیفیت سے عمر بھرباہر نہیں نکلے گا ،کبھی اس جگہ سے نہیں ہلے گا ،کبھی دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”ڈنر میں سب آپ کا پوچھ رہے تھے۔ جسٹس صفدر نعیم کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دفعہ ان کا بیٹاسیالکوٹ بار کونسل کے صدر کا انتخاب لڑے گا۔ ”
اگر وہ کچھ سمجھ دار ہوتی تواس کے چہرے کے تاثرات سے بخوبی اندازہ لگا لیتی کہ اسے اس وقت جسٹس صفدر نعیم یا ان کے بیٹے کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔
”میں نے سنا ہے کہ ججز کے لیے کمیشن اناؤنس ہونے والا ہے ، کیا مجھے اپلائی کرنا چاہیے؟” وہ ایک اور خبر دیتے ہوئے اس سے رائے مانگ رہی تھی۔ اس کے چہرے اور آنکھوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ جواب اثبات میں چاہتی ہے۔ مگر اس شخص کی طرف سے اثبات میں اور نہ ہی نفی میں کوئی جواب ملا تھا۔ اس کی انگلیوں میں دبی سگریٹ سلگتے سلگتے آخری سانسیں لے رہی تھی۔
”جسٹس سلیمان نواب کہہ رہے تھے کہ صرف اپنے آپ پر نہ اتراتے پھرنا، سفارش ضروری ہے، بلکہ ضروری ہی سفارش ہے۔ کیسی نا انصافی ہے ناں؟ جب بڑے لوگ اتنی چھوٹی بات کرتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے۔” ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے طبیعت پر خوب اثر ڈالا۔ قرةالعین گہرا سانس لیتے ہوئے یاسیت کی کیفیت سے باہر نکلی۔
”ایک ہی ملک میں مختلف موسم… مجھے گرم کپڑے رکھ لینے چاہئیں تھے …آپ نے رکھے؟”
”آپ اس وقت میرے کمرے میں کیا لینے آئی ہیں مس غنی ؟” وہ اچانک اس کی طرف مڑا اور درشت لہجے میں پوچھا۔
”میں یہاں …وہ …” وہ جوبڑے آرام سے اسے ڈنر کے موقع پر حاصل ہونے والی خبریں سنا رہی تھی،اس سے اب بولنا دشوار ہو گیا۔
”جاؤ یہاں سے ۔اسکینڈل بنوانے کا زیادہ شوق ہے تو کسی اور کے کمرے میں جاؤ۔”
اس کے لفظ زہریلے تھے اور لہجہ اس سے بھی زیادہ تلخ۔
قرةالعین کچھ دیر گنگ سی کھڑی انہیں دیکھتی رہی۔جب تیزی سے پانیوں سے بھرتی آنکھیں برسنے کو ہوئیں تو وہ عجلت سے مڑی، کمرے میں آ کر سائیڈ ٹیبل پر پڑی ایک فائل اٹھائی اور کمرے سے نکل گئی۔
٭…٭…٭
رات کا جانے کون سا پہر تھا ۔چاند اس کی کھڑکی کے سامنے آ کر ٹھہر گیا تھا ۔ اس کے سامنے دو کتابیں کھلی پڑی تھیں، ساتھ ہی کچھ صفحات تھے ۔ اوپر والے صفحے پر “And” اور “Or”گیٹس ڈرا کیے ہوئے تھے ۔اس کے اوپر اسکیل اور ربر پڑے تھے ۔پنسل اس کی انگلیوں میں دبی ہوئی تھی اور وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھی۔ ہانیہ کی آنکھ کھلی تو تاسف سے سر ہلاتے ہوئے بیڈ سے اٹھی۔اس کے پاس آکر کتابیں بند کیں اورآہستگی کے ساتھ اس کا کندھا ہلاتے ہوئے اسے پکارا۔وہ ڈر کر جاگی تھی۔ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ بھی نکلی۔پھر وہ خوف زدہ نظروں سے ہانیہ کی طرف دیکھنے لگی۔
”اٹھو…بستر پر سو جاؤ۔” وہ جیسے کچھ نہ سمجھی تھی۔ یونہی تیز سانس لیتی اسے دیکھتی رہی۔
”بستر پر جاؤنور …بہت رات ہو گئی ہے۔” ہانیہ نے پھر نرمی سے کہا ۔
”نہیں …مجھے ابھی الیکٹرونکس کی اسائنمنٹ مکمل کرنی ہے ۔” اس نے اسکیل اور ربر اٹھا کر ایک طرف رکھے اور کاغذ پر بنے gatesکو دیکھنے لگی۔
”صبح بنا لینا… رات آرام کے لیے ہوتی ہے ۔” ہانیہ نے دونوں کتابیں بند کر دیں ۔
”صبح مڈ ٹرم کی تیاری کرنی ہے ۔” وہ اٹھنے کو تیار نہ تھی۔
”تو یار یہ کون سا میجر ہے جس کے لیے اتنا مغز مار رہی ہو۔ مائنر ہی تو ہے، چھوڑو۔”
”علم تو علم ہوتا ہے ۔ مائنر یا میجر سے فرق نہیں پڑتا ۔ انسان زندگی میں بہت سی چیزوں کو مائنر (معمولی) سمجھ کر اہمیت نہیں دیتا۔ یہی مائنر کبھی کبھی بڑی بلا بن کر حملہ کرتے ہیں تو خوشی، سکون ، اعتبار ، اعتماد سب نگل جاتے ہیں۔” ایک اندھیری رات کی دہشت سے آج بھی اس کا رنگ پیلا پڑا ہوا تھا۔
”یار تیری باتیں تو مجھے دن میں سمجھ نہیں آتیں ، رات کے اس پہر خاک پلے پڑنی ہیں۔” ہانیہ نے جمائی لیتے ہوئے ہار مانی۔ وہ جانتی تھی کہ اب وہ اس کے پاس گھنٹا کھڑی ہو کر اس کی منتیں بھی کر لے پھر بھی وہ دوبارہ سونے والی نہیں ۔اس نے اسائنمنٹ مکمل کر کے ہی اس کرسی سے اٹھنا تھا ۔وہ بڑبڑاتی ہوئی اپنے بیڈ پر واپس گئی۔
”صدر مملکت نے ایوارڈ دینا ہے ناں تمہیں۔” ہانیہ بُرا سامنہ بناتے ہوئے بستر پر لیٹتے ہوئے بولی۔
وہ منہ پر چھینٹے مار کر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ ہانیہ کی بڑبڑاہٹ اس کے کانوں تک پہنچتی رہی۔یہاں تک کہ وہ دوبارہ نیندکی وادی میں پہنچ گئی مگر اسے اب رات بھر نیند نہیں آنی تھی۔
اس کا دل ابھی بھی تیزی سے دھڑک رہاتھا۔ اور ماتھے پر پسینا چمک رہا تھا ۔
٭…٭…٭
وہ ایک بدترین ایکسیڈنٹ تھا۔
کار،موٹر سائیکل اور ٹرالرکے بیچ ہونے والے تصادم میں چار جانیں چلی گئیں۔ سیاہ مرسڈیز میں سوار دونوں لڑکے جان کی بازی ہار چکے تھے ۔ موٹر سائیکل والا لڑکا بھی مر چکا تھا۔صرف اس کے پیچھے بیٹھے لڑکے کی سانسیں چل رہی تھیں مگر حالت ایسی تھی کہ کوئی معجزہ ہی اسے بچا سکتا تھا۔ اور حواس کھو دینے سے قبل اس نے معجزہ ہو جانے کی شدت سے دعا مانگی تھی۔
مرنے سے پہلے وہ ایک چہرہ دیکھنا چاہتا تھا ۔
مرنے سے پہلے وہ ایک لفظ کہنا چاہتا تھا ، ایک جملہ سننا چاہتا تھا ۔
اس نے معجزہ ہو جانے کی شدت سے دعا مانگی تھی۔ رب نے اس کی سن لی وہ بچ گیاتھا۔
٭…٭…٭
دو روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس آج اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ ان کے ضلع کے ججز اور وکلا نے ایک دن اسلام آباد کے خوب صورت مقاما ت کی سیرکے لیے مختص کیا تھا ۔لوک و ر ثہ ،شکر پڑ یا ں اور پاک مونومنٹ گھومنے کے بعد وہ 1969 ریسٹورنٹ لنچ کے لیے پہنچے تھے۔ ریسٹورنٹ میں چلتا ساٹھ اور ستر کی دہائی کا میوزک ، میز کے شیشے کے نیچے ر کھی اس دو ر کی خبر و ں کے تراشے بو ڑ ھوں کو ا یام جوانی کی یاد دلاتے اور جوانوں پر پچھلی صدی کا سحر سا طاری کر دیتے ۔ سب اس ماحول میں لذیذ کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مختلف موضوعات پر مبنی گفتگو میں مگن تھے مگر قرةالعین خلافِ معمول آج چپ چپ سی تھی۔ساتھیوں کے استفسار پر بھی اس نے انہیں ”طبیعت کچھ صحیح نہیں ” کہہ کر ٹال دیا تھا۔وہ جانتا تھا قرةالعین کی خا موشی اور آزُردگی، کی و جہ، مگر ا س نے معذر ت کی ضر و ر ت نہ سمجھی تھی۔
غلطی اس کی تھی۔ بغیردستک دیے کسی کے کمرے میں آنا اس کے نزدیک سب سے بڑی بدتہذیبی تھی۔ اوپر سے یہ دیکھے بغیر کہ سامنے والا سننے کے موڈ میں ہے بھی یا نہیں ، بولتے چلے جانا،یہ بھی تہذیب کے دائرے میں ہر گز نہ آتا تھا۔مزید غصہ اسے یہ آیا تھا کہ آج کل کے جوانوں میں عقل سمجھ تو ہے نہیں، ملک بھر کی عدلیہ اور دنیا کے مختلف ممالک سے آئے قانون دان اس ہوٹل میں جمع تھے ۔صحافیوں نے ان کے پہنچنے سے پہلے وہاں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے ۔ اور وہ چلی آئی تھی رات کے اس پہر ا س کے کمرے میں ۔ کوئی بھی اسے وہاں ،رات کے اس پہر اس کے کمرے میں آتا جاتا دیکھ لیتا توکہانی اپنی مرضی کی گھڑتا۔ دوسرے شعبوں کی طرح اس فیلڈ میں بھی حسد و بغض کی کمی نہیں تھی۔ وہ ایک کم عمر بے وقوف لڑکی کی وجہ سے اپنا نام اور مقام خراب نہیں کرسکتا تھا۔
”آپ کو کیا لگتا ہے چیف جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اردو کو آفیشل لینگویج کے طو ر پر اڈاپٹ کرنے کا جو حکم صادر کیا ہے وہ امپلی منٹ ہو گا یا صرف دیوانے کا خواب بن کر رہ جائے گا ؟” سیشن جج اعتبار احمد نے کانٹا چمچ چلاتے ہوئے تبصرہ کیا تو اس کا دھیان بھی اُدھر ہوا۔
”آپ نے اپنے سوال میں جتنے انگریزی کے الفاظ استعمال کر ڈالے ،اس سے تو نہیں لگتا ۔ ” جوڈیشل مجسٹریٹ خورشید عطا نے مچھلی کا ٹکڑا پلیٹ میں رکھتے ہوئے ہنس کر کہا ۔
”اردو بھی تو بہتر ہوئی ہے میرے ہم دم… یہ بھی تو ملاحظہ فرمائیں۔” اعتبار احمد بھی ان کی اِس بات پر ہنسے تھے۔
”مجھے نہیں لگتا۔ کیوں کہ ہمارے یہاں بہت سے ایسے انگریزی الفاظ رائج ہو چکے ہیں جنہیں اردو کے کسی لفظ سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔” جوڈیشل مجسٹریٹ نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”اس سے فرق نہیں پڑتا۔ تبدیل کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ ہر زبان میں ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جن کا اوریجن کوئی اور زبان ہے مثلاً انگریزی ہی لے لیجیے جس میں ہزاروں ایسے الفاظ ہیں جو دوسری زبانوں سے لیے گئے ہیں۔ فرنچ یا لیٹین (لاطینی) ہیں، مگر اب انگریزی کا حصہ بن چکے ہیں۔ لفظ ایڈووکیٹ کو ہی لے لیں۔ اگر اس کی etymology دیکھیں تو اس کا اوریجن فرنچ اور لیٹین ہیں۔ اسی طرح اگر انگریزی کے کچھ لفظ عربی ،فارسی اور سنسکرت کی طرح اردو زبان کا حصہ بن چکے ہیں توکوئی مضائقہ نہیں ۔اس بات کو بنیاد بنا کر ہم اپنی قومی زبان کو پیچھے نہیں دھکیل سکتے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس فیصلے کو رائج ہونا چاہیے ۔” وہ اپنی رائے د ے ر ہا تھا اور قرةالعین دل میں اس سے خفا ہونے کے باوجود اسے دیکھے بنا نہ رہ سکی تھی۔اس کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔
”میں اس حق میں نہیں ہوں۔ ہم پہلے ہی پیچھے ہیں ،انگلش کو چھوڑ کر مزید پیچھے چلے جائیں گے۔” لرنڈ کاؤنسل منیب طاہرنے نفی میں سر ہلاتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا۔
”چائنا پیچھے چلا گیا؟” اس نے منیب کی آنکھوں میں جھانک کر سوال کیا۔
”آپ نے نہیں سنا، ماؤ زے تنگ نے کہا تھا کہ میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں چین گونگا نہیں ہے ۔ اس کی اپنی ایک زبان ہے اور اگر دنیا ہمارے قریب آنا چاہتی ہے یا ہمیں سمجھنا چاہتی ہے تو اسے ہماری زبان سمجھنا اور جاننا ہو گی۔” اس کی آنکھوں میں بلا کی سنجیدگی تھی۔
خوداری… میرے ہم دم خوداری۔ اپنی زبان کو فروغ دینے کے لیے، عزت دینے کے لیے خوداری لازم ہے اور فقیر خوددار ہو گیا تو کاسہ کیسے بھرے گا ؟” اعتبار احمد پھر ہنسے تھے ۔ وہ کڑوی مگر سچی بات کر گئے تھے ۔
”ہم فقیر نہیں ہیں۔” قرة العین نے صدائے احتجاج بلند کی۔
اس نے بہت غور سے قرةالعین کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھا۔ جوانی میں فرطِ جذبات سے چہرہ ایسا ہی ہو جاتا ہے کیوں کہ بات دل سے کی جاتی ہے ۔پھر دھیرے دھیرے وقت، دماغ کو سردار بنا دیتا ہے، اسی کے فیصلے چلنے لگتے ہیں، مصلحتوں سے بھرے لہجے جذبات سے عاری ہونے لگتے ہیں۔ چہرے سپاٹ ہونے لگتے ہیں ۔
”خود فریبی سی خود فریبی ہے ۔” اعتبار احمد گنگناتے ہوئے طنزیہ انداز میں ہنس دیے تھے ۔
قرةالعین کاچہرہ ایک بار پھر لال ہوا ۔اس نے پلیٹ پر جھکنے سے پہلے اس بے درد کو دیکھا جو اپنی رائے دینے کے بعد کھانے میں مصروف ہو چکا تھا۔ یہ اس کی عادت تھی۔ ا پنی ر ا ئے د ینے کے بعد چپ ہو جا تا تھا، بحث میں نہیں پڑتا تھا۔ ہاں دوسروں کا مؤقف ضرور غور سے سنتا تھا۔ مگراس کے معاملے میں یہ نام ور جج اچھا منصف نہیں تھا۔ اس سے جانے کیا خار رکھتا تھا کہ اس کا مؤقف سننے کی کبھی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ زیادہ تکلیف دہ بات تو یہ تھی کہ زیادتی کرنے کے بعد اسے احساس تک نہ ہوتا تھا۔ اب بھی اس کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں تھی، انداز میں کوئی ندامت نہ تھی جیسے وہ بھول چکا تھا کہ رات کتنے سخت الفاظ اسے کہہ چکا ہے۔ و ہ تو ڈنر کے بعد جب علینہ اور فرواکے ساتھ وہ روم میں آئی تو اس وقت اسے ایک دم یاد آیا کہ اس نے انہیں شام میں اس پیپر کو ریویو کرنے کو کہا تھا جو ا س نے کل کانفرنس کے پہلے سیشن میں پڑھنا تھا ۔وہ اس کے کمرے سے اپنا پیپر لینے گئی تھی۔یہ اور بات ہے کہ اسے یوں تنہا ،اداس دیکھ کر وہ رہ نہ سکی تھی اور اس کے قریب چلی آئی تھی۔
یہ سچ تھا کہ اسے اس شخص کی تنہائی تکلیف دیتی تھی۔ اسے اس شخص کا کرب بھی رنج دیتا تھا۔ وہ اس شخص کا ہاتھ تھام لینا چاہتی تھی، اس کو تنہائی کے عذاب سے نکالنا چاہتی تھی، اس کے سب غم سمیٹ لینا چاہتی تھی۔
ہاں! اس سے انکاری کب تھی وہ۔ ایسا تو وہ چاہتی تھی مگر وہ نہ چاہتی تھی جو یہ بے درد شخص سمجھا تھا اس کی عزت اسے بہت عزیز تھی۔ اس کی بدنامی اسے کب قبول تھی؟ اس کا تو ابھی تک ہیومن رائٹس کی اس علم بردار کا منہ نوچ لینے کو جی چاہ رہا تھا جس نے کل دوپہر اسے ماضی کا طعنہ دیا تھاجس کے بعد سے ہی اس نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا تھا ۔
اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ کسی کے زخم پر نمک چھڑک کر بھلا لوگوں کو کیا مزہ آتا ہے؟
وہ اس شخص کے لیے اپنا دل جلا رہی تھی جو اسے اپنے لفظوں اور اپنے رویے سے گھائل کرتا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالی — شاذیہ خان

Read Next

موسمِ گرما —- حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!