چہرہ — اعتزاز سلیم وصلی

ڈھولک بج رہی تھی۔ پورے گھر میں شور مچا ہوا تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ آج اس کی یعنی گھر کے اکلوتے بیٹے شہزاد کی مہندی سجائی جارہی تھی۔ شہزاد جس کے نام میں ماں اکثر ‘ہ ‘کااضافہ کرکے اسے”شہزادہ”کہتی تھی اور اس وقت ماں کے شہزادے کو اس کے دوستوں نے گھیر رکھا تھا۔ اس سب رونق میلے میں شہزاد کا دل بالکل نہیں لگ رہا تھا، مگر دنیا کی رسموں کو نبھانا تو تھا۔ سو چپ چاپ دوستوں کی باتوں کو سن کر لبوں سے مسکرانے کی کوشش کررہا تھا، لیکن آنکھوں میں ابھی بھی اداسی تھی۔
”شہزاد ویسے ایک بات ہے تیری شادی کا سن کر میں بڑا اُداس ہوں۔” اکبر نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”کیوں شہزاد کون سا تیری منگیترسے شادی کررہا ہے؟” اکبر کے ساتھ کھڑے وسیم نے اس پر چوٹ کی۔ وہ غصے سے اسے گھورنے لگا۔
”یار میں اس لیے اُداس ہوں کہ ہمارا پیارا شہزاد اب جب بھی بازار میں ملے گا اور ہم اسے اسنوکر کھیلنے کی دعوت دیں گے، تو یہ کچھ اس طرح کے بہانے بنایا کرے گا، ارے آج تمہاری بھابی نے میکے جاناہے، آج منے کے پیمپر لے کر گھر جلدی جانا ہے۔ چھوٹی کا دودھ ختم ہو گیا ہے وہ لینا ہے۔” اس کی بات سن کر سب ہنس پڑے۔
”ویسے شہزادہ کچھ کچھ اُداس لگ رہا ہے۔ کہیں فیس بک والی تو یاد نہیں آرہی؟” وسیم نے اس کی بے زاری محسوس کرلی تھی شاید۔
”ارے نہیں، شہزادہ ایسی چیزیں ٹائم پاس کرنے کے لیے کرتا ہے۔ ویسے تھی بڑی پیاری۔ ایک دو تصاویر میں نے بھی دیکھی تھیں۔” اکبر نے آنکھ دبا کر اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا۔ اس کے چہرے کی رنگت بدل چکی تھی۔
”کیا ہوا شہزادے؟”وسیم نے پوچھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ گھر کے اندر چلا گیا۔ زنانہ حصے میں امی مہمان عورتوں میں گھری اپنی ہونے والی بہو کے حسن کے قصیدے پڑھ رہی تھیں۔ اس کے اشارے پر اُٹھ کر باہر آئیں۔
”کیا بات ہے شہزادے؟”
”امی مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔” اس کی بات سن کر انہوں نے حیران نظروں سے اسے دیکھا۔ چند لمحوں کے بعد ان کے منہ سے اس کی توقع کے عین مطابق الفاظ برآمد ہوئے۔
”کیا بکواس کررہا ہے شہزادے؟ہوش میں تو ہے؟”
”بس مجھے یہ شادی نہیں کرنی۔یہ مہندی وغیرہ کی رسم کرنی ہے تو کرلیں۔ کل میں سب کے سامنے اعلان کردوں گا ابھی میں کہیں جارہا ہوں۔”یہی کہتا ہوا وہ گیٹ کی طرف بڑھا۔
”شہزادے، میری بات سن شہزادے۔” امی نے پکارا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ گھر میں ہوئی لائٹنگ کی زرد روشنیوں میں امی کا چہرہ بھی زرد دکھائی دیا۔
”اگر تم نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو میرا مرا ہوا منہ دیکھے گا یاد رکھنا۔ میں بھی تیری ماں ہوں۔” یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئیں۔ ان کی دھمکی نے اس کے قدم جکڑ لیے تھے۔ کچھ دیر وہ وہیں کھڑا رہا پھر چپ چاپ گیٹ سے باہر آگیا۔ کچھ دیر بعد وہ سب دوستوں کو حیران چھوڑ کر وسیم سے بائیک مانگ کر گھر سے کوئی چالیس کلومیٹر دور شہر میں خواتین کے ایک ہوسٹل کی طرف بڑھ رہا تھا۔لوگ حیرانگی سے اسے دیکھ رہے تھے جس کی آج رات مہندی تھی، مگر وہ کہیں اور جارہا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اچھے وقت کی امید میں برا وقت صبر سے گزارنا بھی بہادری کاکام ہے اور یہ کام زبیدہ خاتون اور اس کی بیٹی شاہین نے خوب کیا۔ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن، زبیدہ بچپن سے جوانی تک ضرور لاڈ پیار میں پلی بڑھی تھی، مگر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی یہ لاڈ پیار کہیں گم ہو گیا۔ جب صرف ایک ماہ کے وقفے سے اس کی ماں اور باپ چل بسے۔ بھائیوں اور بھابھیوں نے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کا وہی پرانا طریقہ اپنایا جسے آج بھی لوگ ذمہ داری نبھانا کہتے ہیں یعنی صرف سترہ سال کی عمر میں زبیدہ کی شادی کردی۔ کم عمری کی شادی اور وہ بھی اپنے سے دوگنا عمر کے شوہر کے ساتھ۔ کب تک گزارا ہوتا؟اقبال ایک شکی مزاج شخص تھا جس کے خیال میں محلے کا ہر لڑکا زبیدہ پر عاشق ہے اور اس میں زبیدہ کی ناز و ادا کا قصور ہے۔ زبیدہ کا صبر اور ایک مشرقی بیوی ہونے کے ناتے گھر بنانے کی یہ جدوجہد آٹھ سال تک چلی۔ گود میں ایک بیٹی لیے اور ماتھے پر طلاق کا دھباسجائے آٹھ سال بعد جب وہ واپس اپنے اذیتوں بھرے سفر کے اختتام پر ملنے والی منزل پر پہنچی تو یہ وہی جگہ تھا جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا۔ ابا کی حویلی اب تین حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔اس کے حصے میں نوکروں کے لیے بنایا گیا کمرا آیا۔طلاق کی کوئی خاص وجہ نہ تھی۔اقبال کے خیال میں زبیدہ کی بیٹی شاہین بھی بڑی ہو کر ماں پر جائے گی اس لیے اس ‘غیرت مند’ شخص نے ایسی ”بے شرم”بیوی کو طلاق دے دی جس نے بیٹی پیدا کی تھی۔بھائیوں سے کچھ امید تھی تو صرف روٹی ،کپڑااور مکان کی۔ جوبمشکل پوری ہوئی۔ وقت گزرا۔ شاہین پانچ سال کی ہوگئی۔ اسکول میں داخلے کا مسئلہ پیش آیا۔ زبیدہ نے گاؤں کی عورتوں کے کپڑے سینے شروع کر دیے۔ خدا نے اس کی محنت میں برکت ڈالی۔ کچھ پیسے ہاتھ آئے تو ننھی شاہین بھی اپنے کزنز کی طرح اسکول جانے لگی۔ پڑھنے میں تیز تھی وہ۔ کچھ اپنے حالات کا احساس بھی اس کے معصوم سے دماغ میں تھا۔ نو سال کی عمر میں پرائمری پاس کرنے کے بعد وہ شہر کے ہائی اسکول میں آگئی۔یہاں زبیدہ کو مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے بھائی اپنی بھانجی کو باقی خاندان کی لڑکیوں کی طرح گھر بٹھانا چاہتے تھے۔ لڑکیوں کو زیادہ تعلیم دلوانے کا رواج نہ تھا، لیکن زبیدہ ڈٹ گئی اور بھابھیوں سے”بے شرم”ہونے کا خطاب حاصل کرنے کے باوجود بیٹی کو پڑھنے شہر بھیج دیا۔ شہر لے جانے والی وین کا کرایہ اور باقی تعلیمی اخراجات وہ خود برداشت کررہی تھی۔ محنت کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ میں صفائی آگئی اور وہ شاہین کے مشورے سے نت نئے ڈیزائن کے کپڑے بنانے لگی جس سے آمدنی میں اضافہ ہوا۔ لوگوں کے طعنے، باتیں اور بہت کچھ برداشت کرنے کے بعد اس نے صرف ایک بات سوچی تھی۔ ”شاہین کو کچھ بنانا ہے۔”شاہین نے میٹرک میں شاندار کامیابی حاصل کی اور پورے اسکول میں دوسرے نمبر پر رہی۔ اب اسے کالج جانا تھا۔ اس بار زبیدہ پر دباؤ زیادہ پڑا۔ بڑے ماموں کسی صورت بھی شاہین کو کالج داخلہ نہیں کرانا چاہتے تھے، مگر زبیدہ کے ساتھ شاہین بھی ڈٹ گئی اور کالج میں داخلہ لے لیا۔بڑوں کی مرضی کے خلاف کیا گیایہ فیصلہ درست رہایا غلط اس کا بات کا فیصلہ صرف دو ماہ بعد ہو گیا تھا۔ زبیدہ اور شاہین کا مقصد تو نیک تھا، مگر کچھ لوگوں کے ساتھ ان کی بدقسمتی سفر کرتی رہتی ہے اور یہ کبھی تھکتی نہیں۔
٭…٭…٭
شہزاد کی موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کررہی تھی۔وقت تیزی سے گزررہا تھا۔ٹھنڈی ہوا اس کے جسم سے ٹکرا رہی تھی، مگر وہ پچھلے چھے ماہ کی باتیں یاد کررہا تھا۔ گزرا وقت کسی فلم کی طرح اس کے دماغ میں چل رہا تھا۔
ان دنوں وہ ایم اے کے ایگزامز کے بعد فری تھا۔شہزاد کے والد عباد احمد کی مین مارکیٹ میں تین دکانیں تھیں جن کو سنبھالنے کے لیے ملازمین تھے۔ اس لیے شہزاد کی زندگی بے فکری سے گزر رہی تھی۔ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے اسے لاڈ پیار سے پالا گیا تھا، مگر وہ بگڑا نہ تھا بلکہ ایک سلجھے مزاج کا سنجیدہ جوان تھا جو زندگی کی پریشانیوں سے دور تھا۔انہی دنوں زندگی اسے مصنوعی دنیا میں لے گئی۔ فیس بک کا شوق اسے وسیم سے لگا تھا، مگر یہ شوق جنون اختیار کر گیا کیوں کہ فیس بک پر اس کے ہم مزاج لوگ مل گئے تھے۔ ایک دو جو اسی کے شہر کے تھے۔ ان سے وہ ملاقات بھی کرچکا تھا۔
وہ ادب سے متعلق بنائے گئے ایک گروپ میں ایڈ تھاجس میں سب لوگ اپنی لکھی تحریریں،شاعری اور مضامین شیئر کرتے تھے۔ اس گروپ میں مختلف قسم کے مقابلے بھی ہوتے تھے جن میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ اسے شاعری کا شوق تھا۔خود بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑ کر انہیں شاعری کی شکل دیتا رہتا تھا۔ ایسے ہی ایک مقابلے میں، جس میں اپنے شعر کمنٹ کرنے تھے،اس کی پہلی پوزیشن آئی اور انعام میں ایک ناول ملا۔اس رات وہ کھانا کھانے کے بعد جیسے ہی آن لائن ہوا۔ اس کے میسنجر پر میسج ریکویسٹ آئی پڑی تھی۔یہ گروپ ہی کی ایک لڑکی تھی جس کا نام اس کی نظروں سامنے کئی بارگزرا تھا۔ اس نے کچھ سوچ کر میسج ریکویسٹ قبول کی ۔تھوڑی دیر بعد دوبارہ میسج ٹیون بجی۔
”السلام علیکم شہزاد صاحب،کیسے مزاج ہیں؟”
”وعلیکم السلام، میں ٹھیک ہوں۔ اللہ کا شکر ہے،آپ سنائیں؟”یہ پہلا موقع تھا کہ وہ فیس بک کی کسی لڑکی سے بات کررہا تھا ورنہ فیک آئی ڈی اور لڑکوں کے جنس تبدیل کرنے والی صلاحیت کے ڈر سے اس نے کبھی کسی لڑکی کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کی تھی نہ میسج کا جواب دیا تھا۔ رسمی کلمات کے بعد شازیہ نام کی اس لڑکی نے اپنے میسج کرنے کا مقصد بیان کیا۔
”میں آپ سے شاعری سیکھنا چاہتی ہوں۔”
”مجھ سے؟”وہ ہنس پڑا۔
”جی آپ سے۔”
”ارے نہیں، مجھے شاعری نہیں آتی۔ یہ مقابلوں وغیرہ میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ جوڑ لیتا ہوں ورنہ مجھے نہیں آتی شاعری۔” اس نے سچ بولا تھا مگر شازیہ ضد پر اڑ گئی۔
”پلیز نہ مت کریں۔مجھے شاعری کا شوق ہے۔اپنا درد لفظوں میں سمیٹنا ایک صلاحیت ہے جو بہرحال آپ میں ہے مجھے بھی سکھا دیں تھوڑا بہت۔”شہزاد جھنجلا گیا۔
”مگر جب مجھے کچھ آتا نہیں تو سکھاؤں گا کیسے؟”
”جیسے خود الفاظ جوڑ لیتے ہیں، مجھے بھی سکھا دیں ایسے ہی۔”وہ پکاارادہ کرکے آئی تھی شاید۔ شہزاد کو ہاں بولتے ہی بنی لیکن جلد اسے اندازہ ہو گیا شازیہ کا مقصد شاعری سیکھنا ہرگزنہ تھا۔وہ صرف اچھا وقت گزارنا چاہتی تھی۔ شاید تنہائی کا شکار تھی۔ میسج چیٹ کے بعد دونوں میں موبائل نمبرز کا تبادلہ ہو گیا۔یوں شہزاد کی زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی نے قدم رکھا ورنہ وہ سنجیدہ مزاج کا تھا،اس کی ایک عدد منگیتر خاندان میں موجود تھی جس سے کبھی اس نے کال پر بات نہ کی تھی، لیکن شازیہ اس کی زندگی میں رنگ لے آئی تھی۔ مصنوعی دنیا کے ذریعے ایک حقیقی رشتہ بن چکا تھا۔ وہ اسے اپنی تصویریں دکھا چکی تھی۔ وہ واقعی خوبصورت لڑکی تھی۔ شہزاد نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ جڑتا جا رہا تھا۔
٭…٭…٭
دنیا جس دن بنائی گئی تھی اس دن ایک لفظ بھی زمین پر اترا تھا۔”غلط فہمی”معمولی سی غلط فہمی اور بڑی لڑائیاں۔معمولی سی غلط فہمی اور کئی زندگیاں تباہ۔ایسی ہی ایک غلط فہمی نے شاہین اور زبیدہ کی زندگی کے درست جاتے راستے کو غلط سمت پر ڈال دیا تھا۔
اس دن شاہین کالج سے چھٹی کے بعد سڑک کنارے کھڑی وین کا انتظار کررہی تھی۔ اس کے چہرے پر حسب معمول نقاب تھاجس میں سے اس کی سیاہ آنکھیں جھانک رہی تھیں۔ اچانک اس کے پاس ایک بائیک آکر رکی۔ اس پر سوار دو لڑکوں میں سے پیچھے بیٹھے لڑکے کے ہاتھ میں بوتل تھی۔ اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اور ایک جھٹکے سے بوتل میں موجود سیال اس کے چہرے پر اچھال دیا۔ اس نے چہرہ بچانے کی غیرارادی کوشش کی اور رخ پھیر لیا، مگر ہونٹ سے نیچے ٹھوڑی اور گردن کا کچھ حصہ تیزاب کی زد میں آگیا۔ نقاب اس کے چہرے سے اتر چکا تھا۔ جل جانے کے خوف اور جلن سے اس کے حلق سے چیخیں نکلیں۔آخری الفاظ جو اس نے سنے تھے وہ بائیک چلانے والے لڑکے کے تھے جس نے کہا تھا۔
”ارے یہ کوئی اور ہے۔”خوف کی شدت تھی یا تکلیف کا احساس۔وہ گری اور بے ہوش ہوگئی۔
اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھی۔ چہرے کا نچلا حصہ جل چکا تھا اور چہرے پر ایک انمٹ داغ بن چکا تھا۔ چہرے کا داغ تو شاید برداشت ہو جاتا، مگر گاؤں میں اس کے جلنے کی خبر، جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور یہ خبر اس کے کردار پر داغ بن چکی تھی۔ ہر شخص کی زبان پر ایک ہی قصہ تھا اور ایک ہی کہانی۔ شاہین کا کسی لڑکے کے ساتھ چکر تھا جسے دھوکا دیا اور نتیجے میں اس کے منہ پر تیزاب پھینک دیا گیا۔ہسپتال سے اسے زبیدہ گھر لے گئی۔ماں کا رویہ بھی عجیب تھا۔کبھی اس سے ضرورت کے وقت بات کرتی ورنہ چپ رہتی۔آخر شاہین نے ہمت کرکے پوچھ لیا۔
”امی آپ مجھ سے ناراض ہیں؟”۔زبیدہ نے خاموش نظروں سے اسے دیکھا۔چند لمحوں بعد جب اس نے سوال دہرایا تو وہ بولی۔
”تم نے کیوں میری عزت کی دھجیاں اڑا دیں شاہین؟”وہ ساکت رہ گئی۔
”مگر امی میں نے کیا کیا ہے؟”
”تیرے چہرے پر یہ تیزاب اس لڑکے نے اس لیے پھینکا ہے نا کہ تو نے اسے چھوڑ کر کسی اور سے چکر چلا لیا تھا؟”زبیدہ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کئی دنوں کے غصے کا نتیجہ تھے۔وہ چیخی۔
”امی! میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔کس نے کہا آپ سے؟”
”سارا گاؤں کہہ رہا ہے شاہین۔تیرے ساتھ جانے والی لڑکیاں بھی کہہ رہی ہیں۔” اسے یقین نہیں آرہا تھا۔اس نے ماں کو تیزاب پھینکنے والے لڑکے کے آخری الفاظ بتائے۔
”اماںوہ کسی اور پہ پھینکنے آئے تھے۔”دونوں ماں بیٹی کی باتیں جاری تھیں کہ کسی نے کمرے کے دروازے پہ دستک دی۔زبیدہ نے دروازہ کھولا۔ سامنے اس کا بڑا بھائی صدیق کھڑاتھا۔
”تم دونوں ماں بیٹی یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ ہمارے گھر میں بے شرموں کے لیے جگہ نہیں۔ ایک طلاق لے کر گھر بیٹھ گئی دوسری شہر میں لڑکوں سے چکر چلاتی ہے۔ میں نے کہا تھا نا اس کو نہ بھیج کالج۔اب دیکھ لے اس کے کارنامے۔” اس کی زہر اگلتی زبان نے زبیدہ کو گنگ کردیا۔وہ کچھ دیر خاموش کھڑی باتیں سنتی رہی اچانک اس کے سینے کے بائیں جانب درد اٹھااور نیچے گرگئی۔شاہین چیختی ہوئی ماں کی طرف بڑھی۔ صدیق باتیں سنا کر واپس چلا گیا اور بہن کی حالت نہ دیکھ سکا۔ کمرے میں شاہین کی چیخیں گونج رہی تھیں۔ وہ بھاگ کر باہر گئی۔ چھوٹے ماموں کا کمرہ نزدیک تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
”چھوٹے ماموں،چھوٹے ماموں”۔اندر سے ممانی باہر آئی۔
”کیا بات ہے کیوں چیخ رہی ہے منحوس۔ ایک تیری وجہ سے سکون برباد ہوا ہے اب کیا سونے بھی نہیں دے گی؟”
”ممانی! امی کو دیکھیں انہیں کچھ ہو گیا ہے۔”وہ ان کی باتیں نظرانداز کر کے بولی۔ اس کے آنکھ سے آنسو روانی کے ساتھ بہ رہے تھے۔
”اب کیا نیا ڈراما کر دیا زبیدہ نے۔”وہ بڑبڑاتی ہوئی اس کے ساتھ ان کے کمرے میں گئی جہاں زبیدہ شاہین کو اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر اپنے خالق کی جانب لوٹ گئی تھی۔شاہین چیختی رہی، مگر اس کے سرپر ہاتھ رکھنے کے لیے کوئی نہ آیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

محبت ہوگئی تم سے — تنزیلہ یوسف

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!