”بہت دن پہلے ایک دن سالار صاحب نے مجھ سے کہا تھاکہ میں ان کا موبائل اپنی بیٹی کے ہاتھ امامہ بی بی کو پہنچا دوں۔” سکندر عثمان کو لگا وہ دوبارہ کبھی ہل نہیں سکیں گے۔ تو ہاشم مبین احمد کا خیال اور اصرار ٹھیک تھا، ان کے بدترین قیاس اور اندازے درست تھے۔
”پھر…؟” انہیں اپنی آواز کسی کھائی سے آتی لگی۔ ”میں نے انکار کر دیا کہ یہ کام میں نہیں کر سکتی مگر انہوں نے مجھے بہت دھمکایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مجھے گھر سے نکال دیں گے۔ جس پر مجبوراً میں وہ موبائل امامہ بی بی تک پہنچانے کے لیے تیار ہوگئی۔”
اپنی پوزیشن کو مضبوط رکھنے کے لیے ناصرہ نے اپنے بیان میں جھوٹ کی آمیزش کرتے ہوئے کہا۔ ”پھر اس کے کچھ دن بعد ایک دن سالار صاحب نے کہا کہ میں کچھ کاغذات امامہ بی بی تک پہنچاؤں اور پھر اسی وقت ان کاغذات کو واپس لے آؤں۔ میں نے اپنی بیٹی کے ذریعے وہ کاغذات بھی امامہ بی بی کے پاس پہنچا کر واپس منگوا لیے اور سالار صاحب کو دے دیے۔ میں نے سالار صاحب سے ان کاغذات کے بارے میں پوچھا مگر انہوں نے نہیں بتایا مگر مجھے شک تھا کہ شاید وہ نکاح نامہ تھا کیوں کہ اس وقت سالار صاحب کے کمرے میں پانچ لوگ موجود تھے۔ ان میں سے ایک کوئی مولوی بھی تھا۔”
سکندر عثمان کو وہاں بیٹھے بیٹھے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔ ”اور یہ کب کی بات ہے؟”
”اِمامہ بی بی کے جانے سے چند دن پہلے۔” ناصرہ نے کہا۔
”تم نے مجھے اس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟” سکندر عثمان نے درشت لہجے میں کہا۔
”میں بہت خوف زدہ تھی صاحب جی… سالار صاحب نے مجھے دھمکیاں دی تھیں کہ اگر میں نے آپ کو یا کسی اور کو اس سارے معاملے میں بتایا تو وہ مجھے یہاں سے باہر پھنکوا دیں گے۔” ناصرہ نے کہا۔
”وہ کون لوگ تھے، انہیں پہچانتی ہو؟” سکندر عثمان نے بے حد اضطراب کے عالم میں کہا۔
”بس ایک کو… حسن صاحب تھے۔” اس نے سالار کے ایک دوست کا نام لیا۔ ”باقی اور کسی کو میں نہیں جانتی۔” ناصرہ نے کہا۔
”میں بہت پریشان تھی۔ آپ کو بتانا چاہتی تھی مگر ڈرتی تھی کہ آپ میرے بارے میں کیا سوچیں گے مگر اب مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔”
”اور کون کون اس کے بارے میں جانتا ہے؟” سکندر عثمان نے کہا۔
”کوئی بھی نہیں۔ بس میں، میری بیٹی اور میرا شوہر۔” ناصرہ نے جلدی سے کہا۔
”ملازموں میں سے کسی اور کو کچھ پتا ہے؟”
”توبہ کریں جی! میں کیوں کسی کو کچھ بتاتی… میں نے کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا۔”
”تم نے جو کچھ کیا اس کے بارے میں تو میں بعد میں طے کروں گا مگر فی الحال تم ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو تم کسی کو بھی اس سارے معاملے کے بارے میں نہیں بتاؤگی۔ اپنا منہ ہمیشہ کے لیے بند کرلو۔ ورنہ اس بار میں نہ صرف تمہیں واقعی اس گھر سے نکال دوں گا بلکہ میں ہاشم مبین اور پولیس سے کہہ دوں گا کہ یہ سب کچھ تم نے کروایا ہے۔ تم نے ہی ان دونوں کو گمراہ کیا تھا اور تم ہی ان دونوں کے پیغامات ایک دوسرے تک پہنچاتی رہیں، پھر پولیس تمہارے ساتھ اور تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کرے گی تمہیں یاد رکھنا چاہیے۔ تمہاری ساری عمر جیل کے اندر ہی گزر جائے گی۔” وہ غصے کے عالم میں اسے دھمکا رہے تھے۔
”نہیں صاحب جی! میں کیوں کسی کو کچھ بتاؤں گی۔ آپ میری زبان کٹوا دیجئے گا۔ اگر میرے منہ سے دوبارہ اس کے بارے میں ذکر سنیں۔”
ناصرہ گھبرا گئی مگر سکندر عثمان نے رکھائی کے ساتھ اس کی بات کاٹ دی۔
”بس کافی ہے۔ اب تم جاؤ یہاں سے … میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔” انہوں نے اسے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
سکندر عثمان پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ اس وقت ان کے سر پر واقعی آسمان ٹوٹ پڑا تھا اور اس وقت انہیں پہلی بار سالار کے ہاتھوں بے وقوف بننے کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ کس ڈھٹائی، مہارت اور بے ہودگی اور اگر ملازمہ انہیں یہ سب کچھ نہ بتاتی تو وہ ابھی بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھے مطمئن بیٹھے ہوتے۔ یہی سوچ کر کہ سالار امامہ کے ساتھ انوالو نہیں ہے اور نہ ہی اس کی گمشدگی میں اس کا کوئی حصہ تھا۔ وہ چند دن گھر پر رہ کر ایک بار پھر کالج جانا شروع کر چکا تھا۔
وہ جانتے تھے کہ سالار کی نگرانی کروائی جا رہی تھی اور ہاشم مبین احمد کو سب کچھ پتا چلنے کا مطلب کیا تھا۔ یہ وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ ان کا کچھ دیر پہلے کا اطمینان یک دم ختم ہوگیا تھا۔ وہ اندازہ کرسکتے تھے کہ وہ کاغذات کیسے تھے۔ ان پانچ آدمیوں کی موجودگی کا مطلب کیا تھا، سالار اور امامہ کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا تھی اور اس وقت ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس کا گلا دبا دیں یا پھر اسے شوٹ کردیں مگر وہ جانتے تھے وہ یہ دونوں کام نہیں کرسکتے تھے۔ سالار سکندر ان کا وہ بیٹا تھا جس سے وہ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اور اس طرح بے وقوف بننے کے بعد پہلی بار وہ سوچ رہے تھے کہ وہ اب سالار سکندر کی کسی بات پر یقین نہیں کریں گے۔ وہ اسے مکمل طور پر ہر معاملے کے بارے میں اندھیرے میں رکھیں گے ویسے ہی جیسے وہ کر رہا تھا۔
٭…٭…٭
”اس کی امامہ سے جان پہچان کیسے ہوئی؟” سکندر عثمان نے اپنے کمرے میں بے چینی سے ٹہلتے ہوئے طیبہ سے پوچھا۔
”مجھے کیا پتا کہ اس کی جان پہچان امامہ سے کیسے ہوئی۔ کوئی بچہ تو ہے نہیں کہ میری انگلی پکڑ کر چلتا ہو۔” طیبہ نے قدرے خفگی سے کہا۔
”میں نے تم سے بہت بار کہا تھا کہ اس پر نظر رکھا کرو مگر تم … تمہیں اپنی ایکٹویٹیز سے فرصت ملے تو تم کسی اور کے بارے میں سوچو۔”
”اس پر توجہ دینا صرف میرا ہی فرض کیوں ہے؟” طیبہ یک دم بھڑک اٹھیں۔ ”آپ کو بھی تو اپنی ایکٹویٹیز چھوڑ دینی چاہئیں۔ سارا الزام میرے ہی سر کیوں؟”
”میں تم کو کوئی الزام نہیں دے رہا اور اس بحث کو ختم کرو۔ امامہ کے ساتھ شادی… تم اندازہ کرسکتی ہو کہ ہاشم مبین کو جب اس تعلق کا پتا چلے گا تو وہ کیا تماشا کھڑا کریں گے۔ مجھے یہ سوچ کر شاک لگ رہا ہے کہ اس نے ایسی حرکت کرنے کا سوچ کیسے لیا۔ اسے بالکل بھی احساس نہیں ہوا کہ ہماری اور ہماری فیملی کی سوسائٹی میں کتنی عزت ہے۔” سکندر عثمان طیبہ کے قریب صوفے پر بیٹھے ہوئے بولے۔ ”ایک پرابلم ختم ہوتی ہے تو ہمارے لیے دوسری پرابلم شروع کر دیتا ہے۔ یہ سارا چکر اسی وقت شروع ہوا ہوگا جب پچھلے سال اس نے خود کشی کی کوشش کے بعد اس کی جان بچائی تھی۔ ہم بے وقوف تھے کہ ہم نے اس معاملے پر نظر نہیں رکھی، ورنہ شاید یہ سب بہت پہلے سامنے آجاتا۔” سکندر عثمان اپنی کنپٹی مسلتے ہوئے کہنے لگے۔
”اور یقینا یہ لڑکی بھی اس کے ساتھ اپنی مرضی سے انوالو ہوئی ہوگی ورنہ اس طرح کوئی کسی کے ساتھ مرضی کے خلاف تو نکاح نہیں کرسکتا اور ہاشم مبین احمد کو دیکھیں، وہ یوں شور مچا رہا ہے جیسے اس کی بیٹی کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے، جو کیا ہے سالار نے ہی کیا ہے۔ انہوں نے تو ایف آئی آر بھی اغوا کی درج کروائی ہے۔” طیبہ نئے سرے سے سلگنے لگیں۔
”جو بھی ہے، قصور تمہارے بیٹے کا ہے۔ نہ وہ ایسے کاموں میں پڑتا نہ اس طرح پھنستا۔ اب تو تم صرف یہ سوچو کہ تمہیں اس صورت حال سے کس طرح بچنا ہے۔”
”ابھی ہم اتنی بری طرح سے نہیں پھنسے، جس طرح آپ سوچ رہے ہیں۔ اس پر یہ جرم ثابت نہیں ہوا۔ پولیس یا ہاشم مبین احمد کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اور ثبوت کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتے۔”
”اور جس دن ان تک کوئی ثبوت پہنچ گیا اس دن کیا ہوگا۔ تم نے یہ سوچا ہے۔” سکندر عثمان نے کہا۔
”آپ پھر امکانات کی بات کر رہے ہیں۔ ایسا ہوا تو نہیں ہے اور ہوسکتا ہے… ہو بھی نا۔”
”اس نے ہمیں اگر اتنا بڑا دھوکا دے دیا ہے تو ہوسکتا ہے ایک اور دھوکا یہ ہو کہ اس کا رابطہ اس لڑکی کے ساتھ نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ ابھی بھی اس لڑکی کے ساتھ رابطے میں ہو۔” سکندر عثمان کو خیال آیا۔
”ہاں ہوسکتا ہے۔ پھر کیا کیا جائے؟”
”میں اس سے بات کروں گا تو سمجھو پتھر کے ساتھ اپنا سر پھوڑ دوں گا، وہ پھر جھوٹ بول دے گا، جھوٹ بولنے میں تو ماہر ہوچکا ہے۔” انہوں نے تنفر آمیز لہجے میں کہا۔
”بس چند ماہ میں اس کا BBA مکمل ہوجائے گا پھر میں اسے باہر بھجوا دوں گا۔ کم از کم ہر وقت ہاشم مبین احمد کی طرف سے جن اندیشوں کا میں شکار رہتا ہوں وہ تو ختم ہوں گے۔” انہوں نے سگریٹ کا ایک کش لگایا۔
”مگر آپ ایک چیز بھول رہے ہیں سکندر!” طیبہ نے بڑی سنجیدگی سے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”کیا؟” سکندر نے انہیں چونک کر دیکھا۔
”سالار کی اِمامہ کے ساتھ خفیہ شادی …اس شادی کے بارے میں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آپ کو خود ہی کرنا ہے۔ آپ کیا کریں گے، اس شادی کے بارے میں۔”
”طلاق کے علاوہ اس شادی کا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔” سکندر عثمان نے قطعی لہجے میں کہا۔
”وہ شادی ماننے پر تیار نہیں ہے تو طلاق دینے پر رضامند ہوجائے گا۔”
”جب میں اسے ثبوت پیش کروں گا تو اسے اپنی شادی کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا۔”
”اور اگر شادی کا اعتراف کرنے کے بعد بھی اس نے امامہ کو طلاق دینے سے انکار کر دیا تو۔”
”کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑے گا اور وہ میں نکال لوں گا۔ چاہے وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے یا پھر مجھے زبردستی کرنا پڑے۔ میں یہ معاملہ ختم کردوں گا، اس طرح کی شادی انسان کو ساری عمر خوار کرتی ہے۔ اس سے تو پیچھا چھڑانا ہی پڑے گا، ورنہ میں اسے اس بار مکمل طور پر اپنی جائیداد سے عاق کردینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔” سکندر عثمان نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
٭…٭…٭
حسن کچھ دیر پہلے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں تھا، جب اچانک اسے اپنے والد کی کال ملی، وہ جلد از جلد اپنے گھر پہنچنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ ان کا لہجہ بے حد عجیب تھا مگر حسن نے توجہ نہیں دی، لیکن جب پندرہ منٹ بعد اپنے گھر پہنچا تو پورچ میں کھڑی سکندر عثمان کی گاڑی دیکھ کر چوکنا ہوگیا۔ وہ سالار کے گھر کی تمام گاڑیوں اور ان کے نمبرز کو اچھی طرح پہچانتا تھا۔
”سکندر انکل کو میرے اس معاملے میں انوالو ہونے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں اس لیے مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ سالار کا دوست سمجھ کر پوچھ گچھ کے لیے آئے ہوں گے۔ میں بڑے اطمینان سے ان کی باتوں کا جواب دوں گا اور کسی بھی الزام کی تردید کر دوں گا لیکن میری پریشانی پاپا کے سامنے میری پوزیشن مشکوک کردے گی، اس لیے انکل سکندر کو دیکھ کر مجھے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔” اس نے پہلے اپنا لائحہ عمل طے کیا اور پھر بڑے اطمینان کے ساتھ اسٹڈی میں داخل ہوگیا۔ اس کے والد قاسم فاروقی اور سکندر عثمان کافی پی رہے تھے، لیکن ان کے چہرے کی غیر معمولی سنجیدگی اور اضطراب وہ ایک لمحے میں بھانپ گیا تھا۔
”کیسے ہیں انکل سکندر آپ!اس بار بہت دنوں کے بعد آپ ہماری طرف آئے۔” باوجود اس کے کہ سکندر یا قاسم نے اس کی ہیلو کا جواب نہیں دیا۔ حسن نے بہت بے تکلفی کا مظاہرہ کیا۔ اسے اس بار بھی جواب نہیں ملا تھا۔ سکندر عثمان اسے غور سے دیکھ رہے تھے۔
”بیٹھو۔” قاسم فاروقی نے قدرے درشتی سے کہا۔
”سکندر تم سے کچھ باتیں پوچھنے آیا ہے، تمہیں ہر بات کا ٹھیک ٹھیک جواب دینا ہے۔ اگر تم نے جھوٹ بولا تو میں سکندر سے کہہ چکا ہوں کہ وہ تمہیں پولیس کے پاس لے جائے۔ میری طرف سے تم بھاڑ میں جاؤ۔ میں تمہیں کسی بھی طرح بچانے کی کوشش نہیں کروں گا۔”
قاسم فاروقی نے اس کے بیٹھتے ہی بلا تمہید کہا۔
”پاپا! آپ کیا کہہ رہے ہیں، میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔” حسن نے حیرت کا مظاہرہ کیا مگر اس کا دل دھڑکنے لگا تھا۔ معاملہ اتنا سیدھا نہیں تھا جتنا اس نے سمجھ لیا تھا۔
”اوور اسمارٹ بننے کی کوشش مت کرو۔ سکندر! پوچھو اس سے، کیا پوچھنا چاہتے ہو اور میں دیکھتا ہوں یہ کیسے جھوٹ بولتا ہے۔”
”اِمامہ کے ساتھ سالار کی شادی میں شرکت کی ہے تم نے؟”
”انکل… آپ… آپ کیا بات کر رہے ہیں… کون سی شادی… کیسی شادی…” حسن نے مزید حیرت کا مظاہرہ کیا۔
”وہی شادی جو میری عدم موجودگی میں میرے گھر پر ہوئی جس کے لیے امامہ کو پیپرز بھجوائے گئے تھے۔”
”پلیز انکل! آپ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں۔ آپ کے گھر میں ضرور آتا جاتا رہتا ہوں مگر مجھے سالار کی کسی شادی کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے اور نہ ہی میری معلومات کے مطابق اس نے شادی کی ہے… مجھے تو اس لڑکی کا بھی پتا نہیں ہے، جس کا آپ نام لے رہے ہیں… ہوسکتا ہے سالار کی کسی لڑکی کے ساتھ انوالو منٹ ہو، مگر میں اس کے بارے میں نہیں جانتا، وہ ہر بات مجھے نہیں بتاتا۔”
سکندر عثمان اور قاسم فاروقی خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔ وہ خاموش ہوا تو سکندر عثمان نے اپنے سامنے ٹیبل پر پڑا ایک لفافہ اٹھایا اور اس میں موجود چند کاغذ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیے۔ حسن کا رنگ پہلی بار اڑا۔ وہ امامہ و سالار کا نکاح نامہ تھا۔
”اس پر دیکھو… تمہارے ہی signaturesہیں نا۔” سکندر نے سرد لہجے میں پوچھا۔ اگر یہ سوال انہوں نے قاسم فاروقی کے سامنے نہ کیا ہوتا تو وہ ان دستخط کو اپنے دستخط ماننے سے انکار کر دیتا مگر اس وقت وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا۔
”یہ میرے signaturesہیں، مگر میں نے نہیں کیے۔” اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
”پھر کس نے کیے ہیں، تمہارے فرشتوں نے یا سالار نے۔” قاسم فاروقی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ حسن کچھ بول نہیں سکا۔ وہ حواس باختہ سا باری باری انہیں دیکھنے لگا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سکندر عثمان اس طرح اس کے سامنے وہ نکاح نامہ نکال کر رکھ دیں گے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھاکہ انہوں نے وہ نکاح نامہ کہاں سے حاصل کیا تھا، سالار سے یا پھر… اس کی ساری عقل مندی اور چالاکی دھری کی دھری رہ گئی تھی۔
”تم یہ نہیں مانوگے کہ سالار کا امامہ کے ساتھ نکاح تمہاری موجودگی میں ہوا ہے۔” قاسم فاروقی نے اکھڑے ہوئے لہجہ میں اس سے کہا۔
”پاپا! اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب سالار کی ضد پر ہوا تھا، اس نے مجھے مجبور کیا تھا۔” حسن نے یکدم سب کچھ بتانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کچھ بھی چھپانے کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ جھوٹ بولتا تو اپنی پوزیشن اور خراب کرتا۔
”میں نے اسے بہت سمجھایا تھا مگر۔۔۔”
قاسم فاروقی نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اس وقت یہاں تمہیں صفائیاں اور وضاحتیں پیش کرنے کے لیے نہیں بلایا۔ تم مجھے صرف یہ بتاؤ کہ اس لڑکی کو اس نے کہاں رکھا ہوا ہے؟”
”پاپا! مجھے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔” حسن نے تیزی سے کہا۔
”تم پھر جھوٹ بول رہے ہو۔”