پہیہ —- نوید اکبر

سنہ ٢٠٠٧ء…
جی ٹی روڈ قصبوں اور شہروں کو چیرتی ہوئی لاہور کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جوں جوں لاہور کا فاصلہ کم ہوتا جاتا تھا، لاہور اُتنا ہی دور ہوتا جا رہا تھا… اور دور ہوتے ہوتے اتنا دور ہو گیا کہ ایک جھوٹے خواب کی طرح دھند لانے لگا۔
لارنس گارڈن کی پہاڑیوں میں چھپے بینچ (bench) جہاں وہ اُسے چھونے کے بہانے تراشا کرتا تھا، اب خیالوں میں موم کی طرح پگھل رہے تھے۔ راحت بیکرز کی کون آئس کریم جو پگھل پگھل کر اُن کی انگلیوں کو میٹھا کر دیتی تھی، اب خشک زبان کی کڑواہٹ کو یاد بھی نہ تھی۔ یہ کڑواہٹ بھی عجب تھی۔ زبان کڑوی تھی یا ہونٹ، سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ایسے آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی جیسے مغرب کے بعد دریا کا پانی خشک ساحل ریت پر پھیلنے لگتا ہے۔ اُف! … اب آنکھ بھی کڑوی ہو گئی۔ سڑک کچھ ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتی تھی۔ عجیب ناگن کی طرح پینترے بدل رہی تھی۔ اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ گاڑی میں گھس کر اُس لڑکی کے ہاتھ پر ڈنگ مار دے۔ پھر آہستہ آہستہ وہ با اختیار ہونے لگی۔ پہلا ڈنگ … دوسرا ڈنگ… تیسرا… ہاتھ بے قابو ہونے لگے۔ گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔
ہاں زندگی پر اُس کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ پھر حمیرا کے کان میں کسی آخری حس نے سرگوشی کی اب وقت آگیا تھا کہ بریک پر پیر رکھ دیا جائے۔ بریک پر پیر … پر کیسے؟
٭٭٭٭
ڈیفنس کے اس دو کنال کے سنسان مکان میں ٹونی کی دل چسپی کا مرکز صرف دو چیزیں تھی۔ ایک حمیرا اور دوسری وہ چند مچھلیاں جو ٹی وی کے اوپر شیشے کے vase میں دن رات تیرتی پھرتی تھیں۔ جب اُن میں سے کوئی مچھلی تیرنا بند کر دیتی تو حمیرا کو لگتا ٹونی چپ ہو گیا ہے۔ ٹونی کی آنکھیں بند رہنے لگتیں۔ وہ ٹونی کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اُسے واپس دنیا میں آنے کا پیغام دیتی۔ بند آنکھوں والا چہرہ… کھلی آنکھوں والا چہرہ… شہاب کا چہرہ۔
ٹونی واپس لوٹ آتا اور دم ہلا ہلا کر پورے گھر میں دوڑتا۔ خوب مذاق اُڑاتا حمیرا کا۔
ٹونی کا شہاب حمیرا تھی۔ وہ کبھی سمجھ ہی نہیں پایا کہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں لپ سٹک لگاتی حمیرا آئینے کے اُس پار شہاب کی خوابیدہ نگاہوں سے داد سمیٹ رہی ہے۔ حمیرا کی اس حرکت پر پاس پڑی میڈیکل فرسٹ ائیر کی کتاب کے ادھ کھلے صفحے ہوا سے اُلٹ پلٹ کر شور مچاتے۔ وہ آئینے کے اس پار شہاب سے حمیرا کی شکایت کرتی۔ کبھی وہ بھی محور تھے ان آنکھوں کا۔ کبھی یہ دو آنکھیں صرف ان لفظوں کے لئے ہی جا گتی تھیں۔ میڈیکل کی مشکل اصطلاحات (Terminologies) جب آنکھوں کے ذریعے ذہن میں اُترتیں تو رات بھر جاگتیں، کتابیں کے کھلے ہارے صفحے آنکھوں کو داد دیتے عقل کی۔ کیا ہو گیا تھا اس عقل کو جو کبھی اس لڑکی کا غرور تھی۔ کتنی پریکٹیکل باتیں کرتی تھی وہ۔ کیا وہ واقعی بھول گئی تھی کہ دل محض ایک جسمانی عضو ہے، جس کا واحد کام جسم میں خون کی گردش رواں رکھنا ہے… اور بس۔ یہی تو لکھا تھا Greys Anatomy میں۔ کیا وہ سب بھول گئی تھی؟ سہیلیاں، کالج، بازار، شہر، دنیا سب؟ اگر وہ ٹی وی ہی لگا لیتی تو اُسے پتا چل جاتا کہ اُس کے اپنے ملک میں سب اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ جج کرسیوں سے اُتر گئے تھے، صدر کرسی سے چپکاہواتھا، سیاست دان اُسے اُتارنے اور خود کرسیوں پر چڑھنے کے لئے مر رہے تھے، اور دہشت گرد … وہ ان سب کو اُڑا رہے تھے۔ بجلی کے بعد آٹا بھی غائب ہو گیا تھا لیکن لوگ پریشان کم اور خوف زدہ زیادہ تھے کہ اُن کے پیارے جو صبح گھر سے نکلے تھے کیا وہ شام کو لوٹ پائیں گے یا نہیں؟

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دنیا تباہ ہو رہی تھی اور وہ بے خبر تھی۔ اُس کے پاپا اکثر CNN دیکھتے ہوئے اُس کے لئے پریشان ہوجاتے۔ وہ سال میں صرف ایک بار پاکستان آتے تھے اور وہ بھی اپنی گوری بیوی کے ہمراہ۔ اس سال تو یہ معمول بھی ٹوٹ گیا تھا۔ شائد کیتھرین اس سالانہ معمول سے بور ہو گئی تھی۔ حمیرا کی ممی کی قبر پر پھول چڑھانا کم از اُس کی ideal vacation کے تصور سے میل نہ کھاتا تھا۔ بھائی کا فون اکثر آجاتا۔ پڑھائی کیسے چل رہی ہے؟ پیسے ہیں کہ نہیں؟ امتحان کب ختم ہوں گے؟ تم اکیلے سارا دن کیا کرتی رہتی ہو؟ اب وہ کیا بتاتی کہ وہ آج کل سارا دن کرتی رہتی ہے۔ کبھی سوچنے بیٹھتی تو پریشان ہو جاتی۔ صبح کمرے کی کھڑکی بند کرنے کا خیال آیا تھا۔ باہر کچھ چڑیاں گھاس پہ بیٹھی چہچہا رہی تھیں۔ نل سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا۔ پلک جھپکی تو چڑیاں غائب تھیں۔ نل سے ایک قطرہ ابھی بھی ٹپک رہا تھا لیکن چڑیوں کی صبح دنیا کے کسی اور کونے چلی گئی تھی۔ اُس کا گھر، اُس کی گلی، اُس کا شہر سب اندھیر ہو چکا تھا۔ شائد یہ اندھیرا اُس کے اندر اُتر جاتا، اگر اندر جگہ ہوتی۔ اندر تو شہاب کا سورج تھا،اور وہ اس سورج کی زمین … مسلسل گردش میں۔
شہاب کون تھا؟
سال پہلے جب نادیہ نے کالج کے فن فیئر میں اُس کا تعارف کرایا اُس وقت وہ کسی دس سالہ بچے کے چہرے پر کارٹون پینٹ کر رہی تھی۔ ایک نظر اُٹھا کر دیکھا پر دھیان دوبارہ کارٹون کی طرف چلا گیا تھا۔ نادیہ کے پہلو میں کھڑا شخص تو واضح طور پر نظر نہ آیا البتہ کھلے سینے پر موٹا سونے کا چمچماتا لاکٹ نظر کو خیرہ کرنے کے لئے کافی تھا۔ دس سالہ بچے کے چہرے پر نامکمل کارٹون اس جینز شرٹ پہنے چھے فٹ قامت کے گھنگریالے بالوں والے شخص سے ہزار درجے دل چسپ معلوم ہوا۔
پھر اُس کی کال آنے لگے۔ وہ ریسیور اٹھانے پر مجبور تھی۔ کچھ فون اٹھائے بنا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اُس کی پہلی گھنٹی ہی دماغ کے اُس خلیے کو متاثر کر دیتی ہے جس کا تعلق کال منقطع کرنے والے بٹن سے ہوتا ہے۔
وہ اُسے بات کرنے کے لئے قائل کرتا تھا۔ قائل کرنے کے لئے کبھی اُس کے سامنے اپنے ماموں کے سیاسی کارناموں کا ذکر کرتا تو کبھی ابا کی فیکٹری کے اس فٹ بال کا تذکرہ شروع کر دیتا جسے گورے ورلڈ کپ میں ٹھڈے مارنے کا اعزاز بخش چکے تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتوں میں اُس کے نجی کالج کا ذکر ہوتا جہاں سے وہ سات لاکھ روپے ادا کر کے ایم بی اے کر رہا تھا۔ مرغوب کرنے کے لئے اور بھی کئی چیزیں تھیں۔ مثلاً اُس کے پاس ایک لش پش کرتی نئے ماڈل کی ہونڈا سوک… اعلیٰ ترین اٹالین (Italian) اور کونٹی نینٹل (Continental) ریستورانوں میں اُس کی پسندیدہ دیسی خوراکیں وغیرہ وغیرہ۔لباس پر وہ بہت دھیان دیا کرتا۔ مہنگی ترین شرٹس، اس سے بھی مہنگی پینٹس اور پھر اس سے بھی مہنگے جوتے۔ کل ملا کر جو نقشہ بنتا وہ اس سرکاری ملازم سے تشبیہ کھاتا جس کی اوپر کی آمدن زیادہ ہو جائے تو ہاتھ پر رولیکس (Rolex) کی چم چم کرتی گھڑی بھی بندھ جاتی ہے اور جیب میں پڑا امپورٹڈ موبائل فون نجی محفلوں میں فلمیں بھی بنانے لگتا ہے۔
حمیرا ہنستی تھی… وہ ان سب باتوں پر ہنستی تھی اور ہنستے ہنستے اچانک چپ ہو جاتی تھی۔ واقعی فون کی گھنٹی نے ”اُس” خلیے کو متاثر کر دیا تھا۔ وہ شہاب سے بندھ گئی تھی بالکل ویسے ہی جیسے بچپن میں اُس نے آیا بو اسے ضد کر کے اپنے جوتوں کے تسمے خود باندھے اور سارا دن وہ لیسز اسکول میں نہ کھلے کتنی خوش تھی وہ اور کتنی پریشان تھیں آیا بوا جب گھر آکر بھی وہ تسمے اُن سے نہ کھل سکے۔آیا بوا تو ان دنوں بھی بہت پریشان تھیں۔ اُنہوں نے زندگی کی بارش دیکھی تھی۔ بارش کے بعد آسمان پر روشنی کے جو سات رنگ بنتے ہیں وہ اُن سب سے واقف تھیں۔ حمیرا کے ہر رنگ سے آشنا تھیں وہ۔ وہ دیکھ سکتی تھیں کہ حمیرا بندھ گئی ہے۔ پریشانی یہ تھی کہ اگر گرہ نہ سلجھی تو؟
ان دنوں بوا کی زبان بند اور ہونٹ ہلنا شروع ہو گئے تھے۔ آخر یہ دعائیں ہونٹوں کو لرزتا چھوڑ کر کہاں چلی جاتی ہیں؟ بوا کا اپنا ایک یقین تھا۔ وہ اپنے یقین پر قائم رہناچاہتی تھیں۔ دن بدن ایسا کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ حمیرا کے رنگ گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے۔
شہاب کا خیال ہی اُس کے لئے آکسیجن کی مانند تھا۔ یہ آکسیجن اُس کے رنگوں کو گاڑھا کر رہا تھا۔ شہاب کی ہونڈا سوک کو عرصے سے اُس کے کالج کے گیٹ کے پاس پارک ہونے کی عادت تھی۔ اُس کی فرنٹ سیٹ کے لئے زنانہ پرفیوم اپنے اندر جذب کرنا کوئی نیا تجربہ نہ تھا۔ اُس کی گاڑی کے اندر کا موسم باہر کے موسم سے ہمیشہ متضاد رہتا۔ گاڑی کے شیشے ہر موسم میں بند رہتے۔ گاڑی کے دروازے ایک ہی جنس کے مسافروں کے لئے کھلتے بند ہوتے۔ گاری کے اندر ٹیپ تو تھی پر کیسٹ خریدنا عرصہ ہوا اس نے چھوڑ دیا تھا۔ ہر سواری اپنی موسیقی ساتھ لاتی اور جاتے ہوئے ساتھ لے جاتی پر اُن کی کیسٹیں اکثر گاڑی میں ہی رہ جاتیں۔ حمیرا اُس کی یہ رنگ برنگی کولیکشن دیکھ کر بہت محظوظ ہوتی۔ اُس کے لئے شہاب کی گاڑی ایک ٹائم کیپسول (Time Capsule) تھی۔ جب گئیر بدلتے ہوئے پہلی بار اُس نے حمیرا کا ہاتھ پکڑا تھا اُس کے بعد وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔ گاڑی پہیوں سے بندھ گئی تھی اور پہئے اُسے گھما گھما کر دنیا گھما رہے تھے یا گاڑی پہیوں کو؟ اُس کا دماغ آہستہ آہستہ مدہوش ہونے لگا اور وہ سونے اور جاگنے لگی۔ گاڑی کسی مہنگے ہوٹل کے پاس رُکی پر پہیے نہ رُکے۔ پہیے ریسیپشن تک لڑھکے، پھر ایک کیپسول لفٹ نے پہیوں کا تعلق زمین سے کاٹ دیا۔ لفٹ آسمان کی طرف جا رہی تھی اور آسمان آنکھوں کے قریب آنے لگا۔ چاروں طرف بادل چھا گئے۔ دھند ہی دھند۔ ایسی دھند کہ چاروں طرف ایک ہی منظر۔ چاروں طرف ایک ہی شہاب۔
ہوٹل کے اُس کمرے میں نہ پنکھا تھا نہ قالین، نہ بستر نہ چادر، نہ چھت نہ دیوار۔ چاروں طرف صرف پہیے ہی پہیے۔ اُس کو یوں لگا جیسے شہاب کی بارش ہو رہی ہو۔ دیواروں میں شہاب بہنے لگا۔ کمرے کے فرش میں شہاب اُبل پڑا۔ بجلی کی تاروں میں شہاب دوڑنے لگا۔ اُس کی حسیات عروج پر تھیں۔ وہ روپ بدل بدل کر کبھی دیوار، کبھی فرش اور کبھی بجلی کی تار بن جاتی… اور پھر بنتے بنتے سب کچھ سفید ہو گیا۔
کہتے ہیں سفید رنگ سب رنگوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ واقعی سب کچھ آپس میں گھل گیا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سفیدی زائل ہونے لگی۔ ایک ایک کر کے ہر رنگ چھٹنے لگا۔ آنکھوں کا اندھیر ا واپس لوٹ آیا۔ آہستہ سے آنکھیں کھولیں تو سر پر ہوٹل کی چھت چاروں دیواروں کا سہارا لئے اوندھے منہ ٹکی ہوئی تھی۔ اس چھت کے اوپر کئی سو فٹ کی بلندی پر کوئی جہاز اُن کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ اُس جہاز کی آواز حمیرا کے وجود سے گزری اور وہ جاگ گئی۔ پھر اچانک حمیرا کو یاد آنے لگا… اُس کے بائیو کیمسٹری کے نوٹس جوتیاری کی آخری رات گم ہو گئے تھے دراصل ٹی وی لاؤنج میں پڑی الماری کی سب سے نچلی دراز میں تھے۔ اُس کے بھائی کا وہ سوئیٹر جو پچھلی گرمیوں میں مری چھوڑ آئی تھی اب اُس لاؤنج کے ایک بیرے کا بیٹا کالج پہن کر جاتا تھا۔ اُس کے کان کا ایک بندا جو نادیہ کی کزن کی مہندی کی تقریب میں کہیں گر گیا تھا وہ آج بھی اُس کے ایک تایا زاد کی جیب میں تھا۔ شہاب نے جیب سے سگریٹ کی ڈبیہ نکالی تو اچانک حمیرا کی کان میں اک سرگوشی ہوئی… پینتیس سال بعد شہاب کو دل کا دورہ پڑے گا۔
شہاب نے گاڑی سٹارٹ کی اور پہیے دوبارہ گھومنے لگے۔ شہر سردیوں کی پہلی بارش سے گیلا تھا۔ اُن دنوں اُسے پہلی بار پتا چلا کہ دوپہر کو تین بجے جب سورج اک خاص نیزے پر ہوتا ہے تو اُس کی روشنی گندے نالے سے جڑی ظفر علی روڈ سے ٹکرا کر ہر طرف نور ہی نور کر دیتی ہے۔ گندے نالے کی ڈھلان پر لگی لال پھولوں کی جھاڑیاں، ہرے بھرے پتے، سبز گھاس اور گورا قبرستان کے جنگلے کی بیلیں سب روشنی میں نہا جاتے ہیں۔ اس نہائی ہوئی روشنی کے بیچ کی یہ سڑک نہ جانے کس چاند کی طرف جاتی تھی۔ اُن دنوں اُسے پتا چلا کہ شالامار باغ میں بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ وہاں بھی جہاں سیر کرنے لوگوں کا مجمع لگا رہتا ہے اور وہاں بھی جہاں صدیوں سے کسی کا گزر نہیں ہوا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

درد کا درد —- عشوہ رانا

Read Next

سرپرست — فوزیہ احسان رانا

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!