نارسا — فاطمہ رضوی

مہمان آنے والے تھے میں ڈرائنگ روم کی صفائی اور جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی کہ مجھے کھڑکی کے بالکل قریب ایک عورت کی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ پہلے تو واہمہ سمجھ کر نظر انداز کیا مگر جب سسکیاں اور آہیں میرے دل کے سکون کو تباہ کرنے لگیں تو میں نے جھانک کر دیکھا… لان کے بالکل قریب سبزہ پر ایک عورت مسلسل روئے جا رہی تھی اور دوسری اسے مسلسل تسلی دے رہی تھی۔ مگر میں اس عورت کی صورت نہ دیکھ سکی کیوںکہ اُس نے اپنے سر گھٹنوں میں دبا رکھا تھا میں سمجھنے سے قاصر تھی کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ کھڑکی کا شیشہ بجا کر انہیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا… دونوں خواتین نے چونک کر کھڑکی کی طرف دیکھا مگر میرے بلانے پر اندر آنے کی بہ جائے تیزی سے آگے بڑھ گئیں جتنی دیر میں باہر نکل کر اُنہیں پکارتی وہ نظر سے اوجھل ہو چکی تھیں… وہ تو چلی گئیں مگر عجیب سی کسک… تڑپ اور اضطراب کا موسم میرے دل میں بسا گئیں… نہ جانے کیا بات تھی؟ جو اُس عورت کے آنسو نہیں تھم رہے تھے… کیا اُس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں کیا وہ بھی ہر دوسری عورت کی طرح اس میل ڈومینٹنگ سوسائٹی (Male Dominating Society) میں ظلم کا شکار ہیں… یا کوئی اور غم رنج و الم کی انتہا بن کر اشکوں کی صورت بہ رہا ہے… میری طبیعت خاصی بوجھل ہو گئی… مگر بہت سے کام تھے میری اکلوتی بیٹی شامین کے رشتے کے لیے کینیڈا سے آئی میری عزیز از جان انجواپیا اور فیملی آنے والے تھے۔
کچن کے انتظامات کو آخری نظر ڈال کر لباس تبدیل کرنے ڈریسنگ روم میں گھس گئی… اُسی شام میری اکلوتی بیٹی شامین کا رشتہ طے پایا۔ بہت اچھا نصیب پایا تھا میری بچی شامین نے… اور وہ تھی بھی اس قابل… من موہنی صورت دل کش نین نقش والی شامین نے بہت کم عمری میں ماہر نفسیات بننے کا شرف بھی حاصل کیا تھا۔ مجھے اُس پر فخر تھا۔ ایک ہفتہ اُس کے نکاح کی تیاریوں میں گزر گیا۔ اس کا منگیتر میرا سگا بھانجا ارسل تھا… اگلے ہفتے تمام تر کام خوش اسلوبی سے نبٹانے کے بعد جب میں آفس پہنچی تو بہت سی اسائسنمنٹس میری منتظر تھیں۔ گزشتہ اٹھارہ سال سے میں ”طلحہ فائونڈیشن” کے نام سے ایک این جی او چلا رہی تھی جو بہت کامیابی سے مستحق افراد کی حتیٰ الامکان کوشش، امداد اور دُکھیاروں کے نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی زخموں کی مسیحائی کا کام سرانجام دے رہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”طلحہ فائونڈیشن” کی بہت سی شاخیں پشاور، ملتان، اسلام آباد، لاہور، ملتان اور فیصل آباد میں بھی سرگرمِ عمل تھیں۔
1999ء میں کارگل کی جنگ میں میرے محبوب شوہر طلحہ عباس نے دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا… تب میری شامین پانچ برس کی اور حمزہ سات برس کا تھا… میں نے اپنے مخلص دوستوں کی مشاورت سے اپنی زندگی کا لائحہ عمل مرتب کیا الحمد للہ بچوں کی تعلیم… تربیت … گھریلو اخراجات این جی او کا انعقاد سب میں مجھے حوصلہ افزائی اور پذیرائی سے خوش آمدید کہا…
وقت کی گزرتی ساعتیں… مجھے گردو پیش کے حالات سے آگاہ رکھتیں ”طلحہ فائونڈیشن” میری زندگی کا نصب العین اور مشن بن چکی تھی۔
میں نے طویل و عریض اراضی خرید کر اپنا آفس اس سے ملحقہ ایک سکول … اور ہاسٹل بنایا تھا… اس روز میں اپنی ساتھی کارکنوں کی ہمراہی میں ایک خاتون کی مزاج پُرسی کے لیے گئی، جس کے بارے میں چند لمحوں پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ وہ شوہر کے تشدد کے بعد بُری طرح زخمی ہوئی اور اپنی ایک پڑوسن کی مدد سے یہاں تک پہنچی۔ مجھے یہ دیکھ کر جھٹکا لگا کہ یہ وہی عورت تھی جو چند ماہ قبل میرے گھر کے باہر زارو قطار رو رہی تھی۔ میں نے اُس کے ساتھ آئی دوسری خاتون شاہدہ کو پہچان لیا تھا… رونے والی عورت کا نام شاہدہ اور ساتھ آئی پڑوسن کا نام فریحہ تھا… شاہدہ برُی طرح گھائل تھی… اُس کے چہرے ہاتھوں اور بازئوں پر ضربوں کے نشانات تھے۔ عمر غالباً چالیس سے اُوپر تھی مگر بال کھچڑی ہو چکے تھے۔
اُس نے دل کھول کر میرے سامنے رکھ دیا… اس کی مرہم پٹی کے دوران وہ مسلسل روتی رہی… بولتی رہی…
اس کی تین جوان بیٹیاں تھی… اس نے بتایا نو عمری سے ہی اُس کے والدین نے اُس کا رشتہ اس کے چچا کے بیٹے سے طے کر دیا تھا… جو ان ہوئی تو شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی چچا کے بیٹے راشد نے مسلسل رابطہ کر کے کہا تم خود تایا جی کو منع کر دو میں تم سے نہیں اپنے ایک دوست کی بہن سے شادی کرنا چاہتا ہوں…
مگر تایا جی اور چچا میرے ابو اور کوئی بھی خاندان کا فرد یہ رشتہ توڑنے پہ راضی نہ تھا… آخر کار میری شادی راشد سے ہو گئی… شادی کیا ہوئی؟ میرے لیے آہوں کا در کھل گیا… اس نے مجھے جیتے جی مار دیا… مجھے لے کر ایک اور شہر چلا گیا گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ہر وقت طنز، جھگڑے اور مارپیٹ برداشت کرنی پڑتی… میرے لیے زندگی گزارنا اور بھی عذاب ہو گئی جب چار سالوں میں تین بیٹیوں نے جنم لیا… جو ہو بہو میری ہم شکل تھیں… راشد نے انہیں اس قابل بھی نہ سمجھا تھا کہ اُن کی صورت دیکھے انہیں پیار سے گود میں اُٹھائے… بچیوں نے نو عمری میں قدم رکھا تو رنگ روپ نکھرنے لگا… تینوں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں… پھر ملازمت سے جواب مل گیا تو گھر بیٹھ کر میری زندگی اور اجیرن بنا دی مگر میں بچیوں کی خاطر سہتی رہی…
ایک روز دبئی سے اُس کا دوست آیا… میری بڑی بیٹی نے چائے کی ٹرے تیار کی تو راشد بولا اندر لے آئو… میری بیٹی شہر بانو چائے لے کر اندر گئی تو راشد بولا… آئو آئو تمہارے چچا تایا کی طرح ہیں میرے دوست ہیں یہ… اتنی حسین لڑکی کو دیکھ کر اس شخص کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ جاتے ہوئے پانچ ہزار میری بیٹی کو تھما گیا کہ میں تم لوگوں کے لیے کچھ لا نہیں سکا… اب تو راشد کو آمدنی کا ذریعہ مل گیا۔ ہر وقت گھر میں بیٹھا رہتا اور اس کے نئے نئے نمونے دوست گھر آنے لگے۔ کچھ قرض لینے آتے اور کھا پی بھی جاتے… کچھ اُدھار دے جاتے اور خوش گپیوں میں مصروف رہتے۔ بچیوں کو بلا کر ان سے بے ہودہ مذاق کرتے… مگر راشد کی غیرت کی حس تو گویا ختم ہو گئی تھی۔ میں احتجاج کرتی تو راشد دوستوں کے سامنے ڈانٹ پھٹکار شروع کر دیتا اور اُن کے جانے کے بعد مجھے روئی کی طرح دُھنک کر رکھ دیتا… اب تو بیٹیاں بھی اُس کی طرف دار ہو گئی تھیں وہ دوستوں کی طرح اسے اُنہیں اچھا لباس، زیور… ضرورت کی ہر چیز مہیا کرتا۔ شہر بانو نے ہر حد پار کرنے کی گویا قسم کھائی تھی وہ کئی بار دبئی والے چاچا کے ساتھ گھومنے گئی واپسی پر ہزاروں کی شاپنگ… کیش … برانڈڈ شوز… وہ تو مجھے صاف صاف سُنا دیتی امی آپ نے اپنا کیا حلیہ بنایا ہے چالیس کی عمر میں ساٹھ کی لگتی ہیں خود کو چینج کریں… جب ابو کو اعتراض نہیں تو آپ بھی گھوما پھرا کریں لائف انجوائے کریں… میں جانتی ہوں ان مقدس رشتوں کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا جاتا ہے آج کل سگے رشتوں پر اعتبار نہیں یہ تو پھر باپ کے دوست تھے۔ وہ بھی عیاش اور نو دولتیے… میری سب سے چھوٹی بیٹی نور بانو ان باتوں کو پسند نہیں کرتی کئی بار باپ سے ڈانٹ اور تھپڑ کھانے کے باوجود وہ ان محفلوں میں شرکت کرنے سے انکاری ہوئی۔ تو راشد نے میری پھول سی اٹھارہ سالہ بچی کو اپنے ایک عیاش دوست سے بیاہ دیا جو اُس سے دُگنی عمر کا تھا… نہ جہیز دیا نہ پیار کے دو بول… بلکہ اُس کے شوہر سے بھی پانچ لاکھ روپیہ لیا… اور وہ میری بچی کو لے کر امریکا چلا گیا جہاں سے اُس کے دو خط اور صرف ایک بار فون آیا ہے کہ وہ نہایت دُکھی اور غمگین زندگی گزار رہی ہے… کیوںکہ اُس کا شوہر بھی وہی گھنائونا اور قبیح کاروبار کرتا ہے، جو راشد کرتا ہے… مگر میں کس سے فریاد کرتی کسی بات پر اعتراض کروں تو بیٹیاں کاٹ کھانے کو آتی ہیں۔ اب تو ستم کی انتہا ہو گئی کہ وہ جس عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا وہ بیوہ ہو گئی ہے۔ اُس کی بیٹی کے ساتھ اُس کو بھی گھر لے آیا ہے۔ وہ عورت اور اُس کی بیٹی بھی بدکردار اور بے حیا ہیں۔ مردوں کی محفل میں بے ہودہ لباس پہن کر جانا… اپنی چودہ سالہ بیٹی کو وہ مردوں میں ایسے پیش کرتی ہے گویا شوپیس ہو۔ مگر راشدہ کو وہ عورت اور اُس کی بیٹی بہت پسند ہیں۔ میں نے بڑی بیٹی شہربانو اور مہربانو کو بہت سمجھایا کہ میں تمہارے باپ سے اس لیے جھگڑتی ہوں کہ مجھے تمہاری عزت پیاری ہے اور تم لوگ میرا ساتھ نہیں دیتیں۔ مگر اُن کا کہنا ہے یہ ماڈرن دور ہے ۔ مرد عورت اگر آپس میں ہنسی خوشی رہنا چاہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے…
اور آج کس بات پر اُس نے تمہیں اتنا مارا… آج کوئی خاص بات ہوئی… میری این جی او میں کام کرنے والی سماجی خاتون ندرت نے پوچھا…
جی باجی آج جب شہر بانو دبئی والے دوست کے ساتھ باہر گئی ہوئی تھی مہر بانو سوئی ہوئی تھی۔ میری سوتن اپنے کسی پرانے دوست کے ساتھ فون پر خوش گپیوں میں مصروف تھی کہ میں چائے لے کر راشد کے کمرے میں گئی تو یہ دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کہ راشد اور میری سوتن کی چودہ سالہ بیٹی … اُف کسی کو رشتوں کے تقدس اور خدا کا خوف نہیں تھا… سب گناہ کی دلدل میں پھنس چکے تھے… راشد نے مجھ پر تھپڑوں کی بھرمار کر دی… ذلیل عورت تمیز نہیں کسی کے کمرے میں بتائے بغیر نہیں آتے… اور شور کی آواز سن کر میری سوتن بھاگتی ہوئی آئی اور راشد کو کچھ کہنے کی بہ جائے مجھ پر برس پڑی… ان دونوں نے مجھے مل کر مارا اور گھر سے نکال دیا… میں اپنی پڑوسن فریحہ کے ساتھ آپ کے پاس آئی ہوں…
اور اُسی شام میں نے لیڈی پولیس کی امداد طلب کیا ور راشد کے گھر چھاپہ مارا اُس کی چھوٹی بیٹی سوتیلی بیٹی اور دوسری بیوی تین مرد اور راشد رنگے ہاتھوں پکڑے گئے…
”طلحہ فائونڈیشن” میں شاہدہ محفوظ اور مطمئن ہے میں نے اُس کی بیٹی نور بانو سے بھی رابطہ کیا ہے۔ اُس کا نام نہاد شوہر وہاں کسی کالے امریکا کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہے… نور بانو ماں سے ملنے کے لیے بے تاب ہے… اور میں چائے کا کپ تھامے کھڑکی سے باہر گرتی بارش کی بوندوں کو ٹپ ٹپ گرتا دیکھ کر سوچ رہی ہوں… اس دیس میں ناجانے کتنی عورتوں کی کہانی نالۂ نارسا ہے جسے کوئی سننا پسند نہیں کرتا…
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

میں لکھاری ہوں — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

میٹھی یاد — لعل خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!