مٹی کے پتلے — قرۃ العین خرم ہاشمی

خشک پتوں کے ڈھیرکے پاس بیٹھی وہ ہمیشہ کی طرح گم صم تھی ۔ جگہ جگہ سے ادھڑے دھاگوں کے پھیکے پڑتے رنگوں سے سجی بوسیدہ چادر،اس کے وجود کے گرد ایک حفاظتی دیوار کی طرح تنی رہتی۔ عشنا نے اسے اپنے بہت سے کپڑے اور جوتے دیے مگر نجانے کیوں وہ اپنی آرائش وزیبائش کی سب چیزوں سے ایسے دور بھاگتی جیسے وہ اس کی موت کا سامان ہوں۔ عشنا نے گاڑی سے اتر کر ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالی اور گہری سانس لے کر اندر کی طرف چل پڑی۔
اندر کا ماحول حسبِ معمول تھا۔ کہیں شور تھا ، کہیں دھیمی دھیمی آوازیں تھیں، کہیں بہت سی آوازوں میں بین کرتی خاموشی اور کہیں کسی کی گہری چپ کے پیچھے زندگی کی تلخیاں موجود تھیں۔ عشنا پچھلے کئی سالوں سے یہ سب دیکھتی اور خاموشی سے آگے بڑھ جاتی۔ اس نے بہت عرصہ پہلے یہ سوچ لیا تھا کہ اسے بھی اپنی ذات کی خاموشی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے دوسروں کے حق میں بولنا تھا، آواز اٹھانی تھی اور اس نے ایسا ہی کیا۔ وہ اپنی ٹیم کے لوگوں کے ساتھ مل کر جو کام سر انجام دے رہی تھی، وہ ایک مثال بن کر دنیا کے سامنے آرہا تھا۔
کئی سال پہلے اس کے کچھ دوستوں نے مل کر ایک این جی او بنائی تھی جو خواتین اور بچوں کی داد رسی کرتی تھی ۔ اس این جی او کے تحت چلنے والا ”ذہنی بحالی” کا یہ ادارہ عشنا کی زیرِ نگرانی تھا جہاں معاشرے کی ٹھکرائی بہت سی خواتین کو مختلف ہنر ان کی ذہنی استعداد کے مطابق سکھائے جاتے تھے۔
پروین کئی سالوں سے یہاں کام کررہی تھی۔ عشنا کی پروین کے ساتھ اچھی سلام دعا تھی۔ پروین پڑھی لکھی تو نہیں تھی، مگر بہت محنتی اور ایمان دار تھی۔ کچھ عرصہ پہلے وہ علاج کی غرض سے اپنی چوبیس، پچیس سال کی بیٹی کو ساتھ لیے ڈاکٹر صائمہ کے پاس آئی تھی کہ اسے لگتا تھا کہ اس کی بیٹی ذہنی توازن کھو بیٹھی ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے۔ پروین نے ڈاکٹر کے پوچھنے پر اس کی حالت کے بارے میں روتے ہوئے بتایا کہ ا س کی بیٹی زیادہ تر خاموش رہتی ہے اور کبھی کبھی خود سے باتیں کرتی ہے۔ کوئی بات کرو تو عجیب عجیب سے جواب دیتی ہے۔ اکثر ڈر جاتی ہے، چیختی ہے، روتی ہے اور کہتی ہے کہ اماں آس پاس بنے چھوٹے بڑے بے شمار مٹی کے پتلے ہی پتلے ہیں۔ گاؤں میں سب کہتے ہیں کہ میری بیٹی پر جن بھوت کا سایہ ہے، مگر میں بہت سے پیروں فقیروں کے در پر بھی گئی ہوں، اس کی حالت سنبھلنے کے بجائے بگڑی ہی ہے۔ یہاں جب سے کام کر رہی ہوں، بہت سی ایسی عورتیں دیکھی ہیں جو میری بیٹی کی طرح ہی خود سے باتیں کرتیں ہیں۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ میری بیٹی پر کسی چیز کا سایہ نہیں ہے بلکہ وہ پاگل ہوگئی ہے۔ آپ کے علاج سے وہ ضرور ٹھیک ہوجائے گی۔ پروین نے عشنا اور ڈاکٹر صائمہ کی بہت منتیں کی تھیں کہ کسی طرح میری بیٹی کو ٹھیک کر دو۔ ان دونوں نے اسے تسلی دی کہ پریشان مت ہو۔ وہ اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اگلے دن وہ بڑی سی ایک چادر میںسر تا پیر لپٹی ہوئی اپنی بیٹی کو ساتھ لے آئی اور ان دونوں کے پاس چھوڑ کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول ہوگئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
عشنا کو سانولی سلونی سی بختاور پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی تھی ۔ اس سے ابتدائی بات چیت کے دوران اسے ایسا بالکل نہیں لگا کہ وہ پاگل ہے، مگر ڈاکٹر صائمہ ہی اس بات کی تصدیق کر سکتی تھی۔ عشنا نے ڈاکٹر صائمہ سے اس بارے میں بات کی ۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صائمہ نے بتایا کہ بختاور شدید ذہنی دباؤ کا شکا رہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی تو ممکن ہے کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ ڈاکٹر صائمہ نے پروین سے کہا کہ اسے واپس گاوں مت بھیجو بلکہ یہیں رہنے دو۔ کیوں کہ ماحول کی تبدیلی اور نئی مصروفیت سے وہ بہت جلد بہتر ہو جائے گی ۔ پروین پہلے ہی اسے اپنے پاس رکھنا چاہ رہی تھی ۔ اس کے لیے بھی اتنے بڑے شہر میں ایک آسرا اپنی بیٹی کا مل رہا تھا۔ بیٹا تو اپنی بیو ی اور بچوں کے ساتھ مگن ، ماں کو شہر بلا کر بھول چکا تھا اسی لیے تو پروین نے یہاں کام شروع کیا تھا جہاں اسے رہنے کے لیے کوارٹر ملا ہوا تھا اور تنخواہ بھی مناسب تھی۔ پروین کا کام آیا گیری کا تھا۔ وہ دوسرے عملے کے ساتھ ان خواتین کی دیکھ بھال میں مدد کرواتی تھی۔ بختاور کو اپنے پاس لا کر وہ بہت خوش تھی۔ دو مہینے کے بعد بختاور قدرے بہتر ہوگئی تھی۔ وہ ماں کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانے لگی، تو عشنا کو اچھا نہیں لگا کہ وہ کام بھی کرے اور اسے معاوضہ نہ ملے۔ اسی لیے عشنا نے اسے بھی کام پر رکھ لیا۔ اسے بھی بیٹھے بیٹھائے روزگار مل گیا۔ پروین بہت خوش تھی کہ بختاور کی حالت بہتر ہوگئی ہے اور وہ کمانے بھی لگی ہے ۔ اب کم از کم کسی کی محتاج تو نہیں رہے گی نا! ایک دن باتوں ہی باتوں میں پروین نے بتا یا۔
”بچپن ہی سے اسے گڈے گڑیوں سے کھیلنے کا بہت شوق تھا ! مگر ہماری اتنی حیثیت نہیں تھی کہ اس کی یہ خوا ہش پوری کر سکتے ۔اس کا ذہن بہت تیز تھا ۔یہ چھوٹی سی تھی جب سے اپنے شوق کی خاطر مٹی کے پتلے بناتی تھی ۔ سار ا سارا دن مٹی سے کھیلتی ، مٹی ہی لگتی تھی ! ”پروین نے ماضی کی یاد کا رنگ ، حال کے پانی میں گھولا تھا ۔ عشنا نے دلچسپی سے سامنے ہری گھاس پر سر جھکائے بیٹھی بختاور کی طرف دیکھا۔ اپنے ذکر پر وہ ایسے لاتعلق رہتی تھی جیسے کسی اور کی بات ہو رہی ہو ۔پروین نے ” میڈم صاحبہ” کے چہرے پر دلچسپی کے رنگ دیکھے، تو پرجوش ہو کر مزید بتانے لگی۔
”اللہ بخشے میری ماں کہتی تھی کہ پروین تیری دھی پر کسی چیز کا سایہ ہے ! کافروں والے کام کرتی ہے۔ مٹی سے بت بناتی ہے ،روک اسے ، کوئی دم دُرود کروا نہیں تو پچھتائے گی تُو…!”
”میڈم صاحبہ ٹھیک ہی تو کہتی تھی میری ماں! چنگی بھلی نظر آنے والی میری بختاور، عجیب عجیب باتیں کر نے لگی ہے ! کہتی ہے کہ اماں ہر طرف بت نظر آتے ہیں !اثر ہو گیا ہے اس کے ذہن پر ! سب کہتے ہیں کہ میری دھی پاگل ہو گئی ہے۔ اس کا گھر والا بھی تنگ آگیا ہے ! کہتا ہے کہ یہ بنجر زمین ہے ، کوئی سکھ نہیں دے سکتی ! نہ اولاد کی خوشی دے سکی ہے اور نہ بیویوں والا سکھ…! بس بوجھ کی طرح ہے اور اس نے بوجھ اتار پھینکا !مگر میڈم صاحبہ !ماں باپ تو اپنی والاد کا بوجھ تما م عمر ہی اٹھاتے ہیں ناں! وہ کیسے اپنا دامن بچا کر منہ پھیر لیں ۔ ان کے تو دل پر ہاتھ پڑتا ہے۔” عشنا کو ایسا لگا کہ جیسے ایک لمحے کے لیے بختاور کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیلی تھی، مگر فوراً ہی اس نے اپنا چہرہ سپاٹ بنا لیا ۔ عشنا نے سر جھٹک کر دوبارہ پروین کی طرف دیکھا تھا ۔پروین کے پکے سانولے چہرے پر بھی دکھ کی کالی لکیریں بہت واضح تھیں۔ اس کی بے رنگ آنکھوں میں آنسو بھی پھیکے اور بے رنگ سے تھے ۔ نجا نے کیوں غریب کی زندگی میں کوئی رنگ گہرا اور پکا نہیں ہوتا ، سوائے غربت اور ذلت کے…!
”میری بات ہوئی ہے ڈاکٹر صائمہ سے ۔ وہ بختاور کی ذہنی حالت سے مطمئن ہیں، مگر لگتا ہے کہ وہ کسی ذہنی مسئلے یا دباؤ کا شکا رہے۔ اس لیے سب سے کٹ کر رہنے لگی ہے ۔تم امید رکھو ، وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔”
عشنا نے ہمیشہ کی طرح اسے تسلی دی تھی، مگر غریب کی جھولی میں اتنے چھید ہوتے ہیں کہ تسلی بھی وہاں ٹھہر نہیں پاتی۔ اس لیے کچھ دنوں کے بعد پروین پھر کسی نہ کسی بات سے پریشان ہو کر عشنا کے پاس دوڑی چلی آتی تھی۔ اگلے ہفتے کا اہتمام کیا گیا تھا عشنا کے پانچ سالہ بیٹے ارسلان کی سالگرہ تھی۔ گھر میں بڑے پیمانے پر تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ عشنا نے پروین اور بختاور کو بھی کام کی غرض سے بلا لیا۔ وہ دونوں صبح سویرے ہی اس کے بڑے اور عالیشان گھر میں پہنچ گئیں تھیں اور آتے ہی سارا کام سنبھال لیا۔ اس دن عشنا کا شوہر خاور رضا بھی گھر پر تھا۔ اس عشنا معمول سے زیادہ چاق چوبند اور متحرک تھی کیوں کہ خاور رضا کا مزاج پل میں شعلہ بن جاتا تھا ۔ اسے چھوٹی سے چھوٹی بات بھی غُصّہ دلا دیتی تھی۔ پھر آج تو دن بھی بہت خاص تھا۔ خاور کو اپنی بڑی دونوں بیٹیوں سے بہت محبت تھی، مگر ارسلان میں سب کی جان تھی۔ وہ بہنوں کا لاڈلا تھا اور والدین کا بھی۔ آٹھ سالہ نور اور سات سالہ فاطمہ بھی بہت پرجوش ہو کر تیاریوں میں لگی ہوئیں تھیں۔
”عشنا!” خاور نے تند خو لہجے میں اسے پکارا تھا ۔ بختاور کو کام سمجھاتی وہ ”جی” کہتے ہوئے پلٹی تھی۔
”جاہل عورت! میں نے کہا بھی تھا کہ یہ کتابیں ردی میں پھینک دو! پرانی کتابیں ہوں یا پرانی چیزیں، مجھے دونوں سے سخت نفرت ہے۔ یہ بوسیدہ اوراق، نحوست کی علامت ہوتے ہیں۔ زندگی میں ہر دم نئی اوربغیر کسی سلوٹ یا شکن کے چیزیں ہونی چاہئیں! اٹھا و یہ سب کچھ!”
خاور جو عشنا کو جاہل کہہ رہا تھا۔ خود گلا پھاڑ کر چلاتا ہوا، سب سے بڑا جاہل لگ رہا تھا۔ عشنا نے جلدی سے پاس موجود بختاور کو آواز دی جو خاموشی سے آگے بڑھی اور زمین پر گری کتابیں اٹھانے لگی۔ خاور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا، سگار سلگانے لگا۔ اس کا رخ دوسری طرف تھا۔ جب بختاور نے کتابیں اٹھا لیں، تو دروازے کی طرف جاتے ہوئے، ایک لمحے کے لیے خجالت بھرا چہرہ لیے کھڑی عشنا کے پاس رک کر بولی:
”میڈم صاحبہ! کیا پرانی چیزوں اور بوسیدہ ہوتی کتابوں کی طرح، بوسیدہ اور بساند دیتے رشتوں کو بھی زندگی سے نکال دینا چاہیے؟ اگر ایسا ہے، تو پھر آپ نے دیر کیوں کی ہے؟”
خاور رضا نے حیرت سے پلٹ کر بد رنگ اوڑھنی میں لپٹے وجود کو دیکھا۔ وہ صرف اس کی پشت ہی دیکھ سکا، مگر اس کا متوازن لہجہ اور لفظ اسے چابک طرح لگے تھے۔ عشنا خود اس کی جرأت پر دنگ رہ گئی تھی۔ وہ تیزی سے خاور کی طرف بڑھی اور معذرت خواہ لہجے میں بولی:
”اسے کچھ مت کہنا ۔ یہ ذہنی مریضہ ہے۔ وہ تو میں اسے…!” عشنا کی بات ختم ہونے سے پہلے بختاور وہاں سے جا چکی تھی اور خاور کسی گہری سوچ میں گم خلاؤں میں گھورتا رہ گیا تھا۔ اتنی جرأت تو کبھی اس کی پڑھی لکھی، اپ ٹوڈیٹ بیوی نے نہیں کی تھی ، جسے ایک زمانہ سراہتا تھا۔ عورت کی ایسی جرأت، مرد کی انا پر کڑی ضرب کی طرح ہوتی ہے اور یہ ضرب ہی اسے بلبلانے اور تسخیر کرنے پر اکساتی ہے۔ وہ بھی یہ سوچ کر تسخیرکرنے نکلا تھا کہ سامنے ایک کمزور اور زمانے کی ستائی عورت ہے جو بہت جلد اس کی جال میں پھنس جائے گی، مگر سامنے کمزور اور زمانے کی ستائی عورت نہیں، بلکہ زمانے کی سکھائی اور برتی ہوئی ایک عورت کھڑی تھی ۔ اس دن عشنا کو پہلی بار پتا چلا کہ خود میں گم رہنے والی بختاور پڑھنا ،لکھنا بھی جانتی ہے کیوں کہ وہ اس کی اجازت سے سب پرانی کتابیں اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اب عشنا اکثر اسے فلاحی سنٹر میں کسی نہ کسی کونے میں بیٹھی کتاب کے ساتھ مگن دیکھتی تھی۔ کتاب پڑھتے ہوئے وہ بہت پرسکون اور خوش نظر آتی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس دوران خاور رضا نے بھی کئی بار یہاں کا دورہ کیا تھا۔ کبھی کوئی فنڈدینے کے بہانے اور کبھی کوئی نئے پروجیکٹ کا آئیڈیا لے کر اور کچھ نہیں تو عشنا کے پاس ہی کسی نہ کسی کام کے بہانے آجاتا تھا ۔ عشنا کے لیے یہ تبدیلی بہت خوشگوار تھی ۔ ان کے تعلق پر جمی سرد برف پگھلنے لگی تھی ۔ ان دنوں وہ خوش تھی اور ہواؤں میں اُڑ رہی تھی۔ جب بہار کی ایک گلابی شام، کیاری سے پھول چنتی بختاور سے اس نے سوال کیا:
”لگتا ہے کہ تم یہاں آکر بہت خوش ہو!” یہ سن کر اپنی جھولی میں پھول رکھتی وہ مسکر ا دی۔
” خوش…! ہاں شاید…! کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے ناں کہ اپنی زندگی کی بند گلی کا ایک سرا ، کسی دوسرے کی زندگی سے ہو کر گزرتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک مجھے لگتا تھا کہ میرا وجود جیتا جاگتا، سانس لیتا جسم نہیں ہے، بلکہ یہ بھی میرے ہاتھوں سے بنائے مٹی کے پتلوں کی طرح ہے۔ بے ترتیب، بے ڈھنگا۔۔۔! پھر مجھے لگنے لگا کہ صرف میرا وجود ہی نہیں، میرے آس پاس بے شمار، پتلے ہی پتلے ہیں۔ اتنے پتلے کہ اُنہیں گنتے ہوئے میری آنکھیں دکھنے لگیں۔ میری سانسیں رکنے لگیں تھیں اتنی حبس اور گھٹن تھی ان کے خاک اڑاتے جسموں کی…! مجھے لگتا تھا کہ یہ صرف میرے ساتھ ہی ہو رہا ہے۔ میں ہی مٹی کے پتلوں کی قید میں سانس لیتا ایک وجود ہوں۔
مگر میڈم صاحبہ! ہر گزرتے دن کے ساتھ میں اب جان گئی ہوں کہ چاہے کسی غریب کی جھونپڑی ہو یا کسی امیر کا محل ! مٹی کے بنے چھوٹے بڑے پتلے ہر جگہ ہی موجود ہوتے ہیں۔”
”کیا مطلب ہے تمہارا؟” عشنا نے الجھ کر پوچھا۔ وہ مسکرا کر کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر اس کی طرف متوجہ ہوکر بولی ۔
” ایک کہانی سنیں گی آپ…!” بختاور کا انداز جھجھک لیے ہوئے تھا ۔
” ہاں ضرور ! اگر وہ کہانی تم خود ہو تو…!” عشنا کا انداز حوصلہ افزاتھا ۔وہ چاہتی تھی کہ بختاور اپنے اندر کی گھٹن کو اظہار کاراستہ دے ۔
”اچھا حیرت ہے آپ کہانی سننا چاہتی ہیں اور وہ بھی میرے جیسی عام اور معمولی عورت کی…!” بختاور نے تعجب کا اظہار کیا۔ عشنا نے پرُ سکون انداز میں کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کر متوجہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

سرپرست — فوزیہ احسان رانا

Read Next

بارِ گراں — افشاں علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!