موسمِ گرما —- حرا قریشی

میں وہ ”موسمِ گرما” ہوں جسے بچے ‘بوڑھے’ جوان کئی مختلف صورتوں میں یاد کرتے ہیں۔ ان مختلف صورتوں میں سے ایک آئے دن ہونے والی ”لوڈ شیڈنگ” ہے جو میرے لیے ایک سرگرم تنظیم ہے۔ موسم گرما کی تاریخ کا جب بھی مطالعہ کرو۔ لوڈشیڈنگ جیسی عفریت کا ذکر زبان زد عام آتا ہے جس پر گرمی کے مارے لوگوں کے عظیم الشان فرمودات کا تذکرہ نہ کرنا انصاف کے زمرے سے باہر ہو گا.ایک صاحب کہتے ہیں:
”بھائی پورے تین بجے لائٹ آئے گی کہ آج کل ایک ایک گھنٹے کے وقفے سے جارہی ہے۔ حسن اتفاق لائٹ ڈھائی بجے آجاتی ہے تو ایک صاحب فرماتے ہیں۔”
” حیرت ہے! آج لائٹ آدھا گھنٹہ پہلے ہی آگئی۔ اسے کہتے ہیں نہ مرے چین نہ مرائے چین!۔”
یہ تنظیم سر گرم دن ہو، رات ہو یا سہ پہر اپنے فرائض سے غفلت برتنا گناہ کبیرہ سمجھتی ہے۔ یہ وہ صورت ہے جس کی وجہ سے میری بے چاری ننھی سی ناتواں جان پر کتنے ہی ستم ٹوٹتے ہیں پھر ستم بالائے ستم جو مجھے اکیلے برداشت بھی کرنے پڑتے ہیں۔ اب چاہے کسی کا سولر پینل اڑے، جنریٹر جواب دے جائے، پنکھاجل جائے، ائیرکولر یک دم رُک جائے، آندھی آئے یا طوفان۔لائٹ نے تو جانا ہی جانا ہے اور تنظیم نے بھی اپنا کام کرنا سو کرنا ہے۔ ایک اور صورت ملاحظہ ہو۔میری آمد پر ”چائے بی بی” کی شکل و صورت رونی ہو جاتی ہے.جب ”چائے”کے ہوٹلوں کا دھندا ماند پڑ جاتا ہے، تو اس کی سرد مہری عروج پر ہوتی ہے۔اس کا اترا چہرہ”غم زدہ آنکھیں” افسردہ ناک نقشہ دیکھ کر مجھے بہت ترس آتا ہے (دل سدا کا رحم دل جو ٹھہرا) پرکیا کروں میں بھی گرم، چائے بھی گرم ایسا تو ہو گا نا پھر!
کوکا کولا، پیپسی یا لیموں پانی جیسے ٹھنڈے ٹھار مشروبات مجھے دعائیں دیتے نہیں تھکتے۔
تو بھئی اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
کیوں اداس رہتے ہو میاں گرمیوں کی شاموں میں
انواع و اقسام کے ”حشرات الارض” بھی میری آمد پر پھولے نہیں سماتے۔گھر ہو دفتر یا دکان یہ ہر کونے کھدرے سے نکل، بنی نوع انسان کو سلامی دینے آتے ہیں۔حق ہا!اس سلامی کا صلہ جو مجھے ملتا ہے۔یقین جانیے! اس ناتواں جان پر بڑاگراں گزرتا ہے۔ صبروتحمل اور قناعت جیسے اوصاف چوں کہ ازل سے میری گٹھی میں شامل ہیں، سو جناب کوئی صلواتیں سنائے یا کسی ناپسندیدہ مہمان کی صورت میرے جانے کے لیے دن گن گن کر گزارے۔میرے مزاج پر ذرّہ بھر اثر نہیں ہوتا۔ بہ قول شاعر ”مومن خان مومن” رنج راحت فزا نہیں ہوتا۔اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا۔
بینگن، ٹینڈے، بھنڈی یا توری سبزیوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والی یہ نازک اندام حسینائیں مجھ سے اُکتائی سی رہتی ہیں جب لوگوں کی گز گز بھر کی زبانیں انہیں بُرا بھلا کہتی ہیں۔ نتیجے میں ان کا سارا نزلہ مجھ جیسے بہادر ہیرو پر آ گرتا ہے۔ اب چوں کہ ہیرو بہادر ہے تو کب کہاں وہ کسی سے ڈرتا ہے!
ضخیم قسم کی کتابوں کو بھی مجھ سے کئی گلے شکوے رہتے ہیں جب بہ صورت پسینا ان کے سرورق پھٹتے ہیں۔تو میاں صاحب!میں تو سو کی بس ایک بات کہتا ہوں جو کروڑ روپے مالیت سے کم نہیں ہے۔ہمہ تن گوش ہو جائیے، ذرا کان قریب لائیے۔آپ کا جب بھی جی چاہے مطالعے کا تو جناب عالی! ائیر کنڈشنز’اے سی’ ائیرکولرز کی صحبت سے استفادہ کیجیے۔ نہ مل سکے یہ تو سکھ چین یا پیپل کی چھاؤں میں کتابوں کا اعادہ کیجیے۔ ویسے آپس کی بات ہے میں (موسمِ گرما) کتنے ہی گراں قدر مفت مشورے دے ڈالوں، کسی لڑاکا ساس کی طرح سارے جہاں کی برائی میرے ہی حصے میں آتی ہے۔ ایک میں ہی برا ہوں باقی سب لوگ اچھے ہیں!عالی قدر شاعر”ظہیر کاشمیری”نے بھی کیا خوب میری حالت زار پر نظرثانی کی ہے۔اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے۔جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا!
اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا
کسی رو پہلی محبت کی مانند ”آم” جیسی نعمت بھی تو لے کر آتا ہوں اورکیا یہ شرف کم ہے کہ مشہور زمانہ شاعر ”غالب” بھی کہتا تھا کہ ”آم ہوں اور بہت ہوں!”تو میاں ایسی عزت افزائی شاید ہی کسی موسم کے حصے میں آئی ہو۔یہ میں ہی ہوں جس کی وجہ سے لوگوں کو بہ وقت شب مچھروں سے مقابلہ کرنا آجاتا ہے۔ یہ میں ہی ہوں جس کے سبب انسان بعد از برسات ڈھیر سارے پروانوں سے نمٹنا سیکھ لیتا ہے۔یہ میں ہی ہوں جس کے دم سے موم بتی، لالٹین اور چراغوں کی اہمیت باقی ہے۔یہ میں ہی ہوں جو ہر گرد آلود آندھی کے بعد بشر کو صفائی نصف ایمان جیسے فریضے کے لیے مستعد کرتا ہوں۔یہ میں ہی ہوں جس کے باعث تمازت سے کملائے اور پڑھائی سے بوکھلائے بچوں کو پورے تین ماہ کی چھٹیوں کا مزا دیتا ہوں۔ پھر بھی کسی سے کوئی جزا نہیں لیتا۔ اُلٹا استقامت، بردباری اور صبروتحمل سے اوصاف ہر بچے، بوڑھے اور جوان میں پیدا کر دیتا ہوں اور بالآخر اک سرد آہ بھر کر کہتا ہوں۔
ہم نہ کہتے تھے کہ ”اے موسم گرما” چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت!
(حالی سے معذرت کے ساتھ)
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

Read Next

مشام — میمونہ صدف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!