مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۴ آخری قسط)

”مان گئی وہ؟” ابھی وہ صوفے پر نیم دراز ہوا ہی تھا جب ٹیرس کا دروازہ بند کرتے پیٹر نے اس سے پوچھا۔
”ہاں بڑی مشکل سے مانی۔ دوستی کے واسطے دے کر منایا ہے اسے۔”
”ڈین ایک بار پھر سوچ لو کیا یہ سب صحیح ہے؟ اس طرح دونوں کی پرسنل لائف آن ائیر لانا؟ جیف کو بہت برا لگے گا۔”
”یہ تمہیں کس نے کہا کہ سب آن ائیر آئے گا؟ تم بے فکر رہو یہ سب صرف ڈراما ہے جیف کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے۔ مجھے یقین ہے کہ جو کام ہم اتنے ماہ میں نہ کر سکے وہ کام میچ میکر مسٹر ویلی ڈیلی کر دے گا۔ میں ملا ہوں اس سے اور ان دونوں کے بارے میں سب بتا دیا ہے۔” اس کے لہجے میں بے پروائی تھی۔
”ڈین تم پاگل ہو۔ بالکل کھسکے ہوئے۔” وہ اس کی عقل پر افسوس کر رہا تھا۔
”دیکھو کوئی تو بات ہو گی اس میچ میکر اور اس کی فیملی میں۔ یوںہی بلاوجہ تو وہ ڈیڑھ سو سال سے لوگوں کے لیے ہم سفر تلاش نہیں کر رہے نا۔ اگر تم غور کرو تو یہ کافی انٹرسٹنگ سیچوئیشن بن رہی ہے۔ ”
”وہ کیسے؟”
”یار سوچو تو ذرا وہ مرم سے شادی سے انکار کر چکا ہے۔ ایسے میں اگر وہ دونوں ڈرامائی کرداروں کی حیثیت سے ایک میچ میکر کے پاس جا کر اپنے اپنے لیے مناسب ساتھی تلاش کرنے کا کہیں گے، تو کیا پتا کہ اس ڈرامے کا کردار نبھاتے ہوئے وہ میچ میکر جیف کو اصل میں قائل کر لے۔” پھر کچھ سوچ کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔” میں مسٹر ڈیلی کو سمجھا چکا ہوں کہ جیف کو حقیقت میں راضی کرنا ہے۔ وہ بھی اس انداز میں کہ اسے محسوس تک نہ ہو کہ وہ میچ میکر سب جانتا ہے۔ بس اب مجھے کل صبح کا انتظار ہے۔ بڑا مزا آنے والا ہے۔ وہ دونوں سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ ایک اسکرپٹڈ سیچوئیشن کے لیے اداکاری کر رہے ہیں اپنے ناظرین کے لیے جب کہ حقیقت میں ناظرین کے بجائے وہ خود الو بن رہے ہوں گے۔ ”
”اور جب اسے پتا چلے گا کہ ہم نے جان بوجھ کر اسے وہ سب کرنے کو کہا ہے، تو اسے دکھ ہو گا اس دھوکے پر۔” پیٹر کو جیف کے ردعمل کی فکر تھی۔ وہ اس سے اپنی دوستی خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”کون سا دھوکا ؟ تم تینوں نے بھی تو مل کر مجھے بلیک بیوٹی کے ہاتھوں دھوکا دیا تھا۔ میں نے تو کچھ نہیں کہا تمہیں۔ تم فکر نہ کرو میں سب سنبھال لوں گا۔” اسے تسلی دے کر وہ کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”اس وقت کون آ گیا؟” گھنٹی بجنے پر وہ کوفت سے بڑبڑائی۔ سونے کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئی تھیں۔ دکھتی ہوئی کنپٹی کو دباتے ہوئے اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا۔ سامنے وہ کھڑا تھا چہرے پر تذبذب کے تاثرات لیے۔
”تم اس وقت؟ سب ٹھیک تو ہے؟ ” وہ اس شخص سے یہ توقع ہرگز نہیں کر سکتی تھی کہ رات کے گیارہ بجے اس کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا ہو گا۔
”مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔” دھیمے لہجے میں وہ گویا ہوا۔
”بات؟ مجھ سے؟ وہ بھی ضروری؟”اس نے اپنی حیرت کو چھپانے کا تکلف کرنا غیر ضروری سمجھا۔
”ٹھیک ہے اندر آجاؤ۔” راستہ دیتے ہوئے اس نے اسے اندر آنے کو کہا۔
اس نے جھجک کر انکار کیا۔”نہیں یہیں ٹھیک ہے۔”
”جبرائیل آ جاؤ اندر۔ یوں اس طرح دروازے پر بات کرتا دیکھ کر لوگ اور مشکوک ہوں گے۔ یقین مانو میں اتنی بھی بری لڑکی نہیں جتنا تم سمجھتے ہو۔” ترش لہجے میں کہہ کر وہ اندر کی جانب مڑ گئی۔ اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر وہ بے ساختہ اپنے لب بھینچ گیا۔ پھر پر سوچ انداز میں قدم اندر کی جانب بڑھا دیے۔
”بیٹھو۔”اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ خود اس کے مقابل بیڈ پر بیٹھ گئی اور اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی جو اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں چھپا، انجانا سا بھید تلاش کر رہا تھا۔
”تم شاید کوئی ضروری بات کرنے آئے تھے۔” جب بہت دیر تک وہ خاموش رہا تو بالآخر اس نے خود ہی اسے مخاطب کر لیا۔
”ہاں بس لفظوں کو جملوں میں پرونے کی کوشش کر رہا تھا۔” چونک کر شکستہ لہجے میں وہ متوجہ ہوا۔
”میرے لیے یہ بہت حیران کن بات ہے کہ لفظوں کا سحر پھونکنے والے انسان کو بھی اس کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔” ناجانے کیوں اسے اس کے سادگی بھرے لہجے میں طنز کی آمیزش محسوس ہوئی تھی۔
”میں جو بات کہنے جا رہا ہوں شاید وہ تمہارے لیے عجیب ہو اور ناگواری کا باعث بھی۔ تم اسے میری مجبوری یا ایک ریکویسٹ سمجھ لینا۔” وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر اور سوچ کر بول رہا تھا اور مرم اس کا یہ تذبذب بھرا انداز دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ ہمیشہ پر اعتماد انداز میں بات کرنے والا بندہ ناجانے کیا کہنا چاہتا ہے جو یوں جھجک رہا تھا؟
”میں چاہتا ہوں کہ کل جب تم کیمرے کے سامنے آؤ تو اپنا سر ڈھانپ کر آنا۔ میرا مطلب حجاب…حجاب لے کر۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ ٹی وی پر کوئی تمہیں جانچتی نظروں سے دیکھے۔” وہ اب بھی نظریں جھکا کر بات کر رہا تھا جب کہ مرم اسے دل چسپ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
”میں ہمیشہ سے تم سے یہ بات کہنا چاہتا تھا، مگر حق نہیں رکھتا تھا۔ حق تو شاید ابھی بھی نہیں رکھتا مگر پھر بھی میں خود کو روک نہیں پایا تمہارے پاس آ کر یہ بات کہنے سے۔ تم چاہو تو میری اس التجا پر عمل کر لینا اور اگر نہیں تو مجھے گلا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔” بات کے اختتام پر اس نے پہلی مرتبہ براہ راست اس کی جانب ملتجی نظروں سے دیکھا تھا۔
”کوئی اور ریکویسٹ؟ ” چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”نہیں بس یہی کہنا تھا۔ اتنی رات گئے تمہیں ڈسٹرب کرنے پر معذرت چاہتا ہوں۔ اب جانا چاہیے مجھے۔ اللہ حافظ۔” اس کا بے لچک اور سپاٹ انداز دیکھ کر جیف کو اپنی ساری بات بے کار اور غیرضروری لگی۔ اگلی کوئی بھی بات کیے بغیر وہ اٹھ کر تیزی سے دروازے کی سمت بڑھا۔
یہاں آنے سے پہلے بھی وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی اس کی بات نہیں مانے گی، مگر پھر بھی وہ اپنے دل اور غیرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں چلا آیا۔ چاہے اس نے اپنی زندگی کے تیرہ سال ایک آزاد معاشرے میں گزارے تھے، مگر اندر سے وہ ایک روایتی دیہاتی مرد ہی تھا جو ”اپنی” عورت کو پردے میں دیکھنا پسند کرتا ہے، مگر شاید وہ یہ بھول گیا تھا کہ اس عورت کو ”اپنی” بنانے سے اس نے خود انکار کیا تھا۔
دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے مڑ کر ایک نظر بیڈ کے پاس کھڑی مرم کو دیکھا جو دونوں بازو باہم لپیٹے اسے ہی دیکھ رہی تھی اور اس کے پرکشش چہرے پر ایک کیف آگیں رنگ ٹھہرا ہوا تھا۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر جمی ہوئی تھیں۔ ایک کی لو دیتی کندن نظریں اور دوسرے کی نظروں میں جدائی کا کوئی گہرا پیغام تھا۔
ہاتھ کی لکیروں میں
زندگی کے ساتھ ساتھ
ہجر کی لکیریں بھی
اس طرح سے پنہاں ہیں
جس طرح سے ”تم” میری
زندگی میں پنہاں ہو!
نہ جانے کیوں اسے یہ برسوں پہلے کی پڑھی نظم اس لمحے یاد آئی تھی۔ چند لمحے وہ یوں ہی ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہا پھر سر جھٹک کر باہر نکل گیا۔
”مرد جس عورت کو چاہتا ہے اسے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے۔ دنیا کی نظروں سے اوجھل۔” بند ہوتے دروازے کو دیکھتے ہوئے اس کی سماعت میں موری کی آواز گونج رہی تھی۔ چند سال پہلے ناجانے کس سے وہ یہ سب کہہ رہی تھیں اور یہ الفاظ اس کے لاشعور میں نقش ہو گئے تھے۔
”اور جس عورت کو وہ دنیا سے چھپاتا نہیں وہ اس کے دل میں اتری نہیں ہوتی۔ ایسی عورت کو وہ بس ایک ”شو پیس” کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ دنیا کو یہ جتانے کے لیے کہ وہ ایک زبردست اور خوبصورت ”چیز” کا ”مالک” ہے۔” مرم کے چہرے کی مسکراہٹ گہری ہوتی جا رہی تھی۔
”میرے لیے یہ یقین بھی کافی ہو چلا ہے کہ تم بھی مجھے بے حد چاہتے ہو۔ مجبوری کا لفظ جو تم نے ابھی استعمال کیا، تو محبت سے بڑھ کر اور کیا مجبوری ہو گی؟ اور محبت میں ملن کبھی ناگزیر ہوتا ہے تو کبھی کبھی ناممکن۔ ”
٭…٭…٭
”میں اس وقت آئرلینڈ کے ایک چھوٹے سے گاؤں لسڈون وارنا میں واقع ایک چھوٹے مگر عالمی شہرت یافتہ ” میچ میکنگ کیفے” کے مالک کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ان کا ماننا ہے کہ بے شک جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں مگر ان کی پہلی ملاقات ”میچ میکر” کیفے میں ہی ہوتی ہے اور آج کی یہ شام بہت دل چسپ ہو گی کیوں کہ میں نے مسٹر ڈیلی سے اپنے لیے پرفیکٹ میچ تلاش کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ تو آیئے اب میں براہ راست آپ کی بات ان سے کراتا ہوں۔” اس کی اس بات پر کیمرا گھوم کر میز کی دوسری جانب بیٹھے لگ بھگ ساٹھ سال کی عمر کے آدمی پر مرکوز ہو گیا جو مسکرا کر اپنا تفصیلی تعارف کروا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹا کر جیف نے اپنے ہاتھ میں بندھی قیمتی گھڑی کی جانب دیکھا۔ وہ حسب عادت آج بھی لیٹ تھی۔
”پتا نہیں اب کون سا ضروری کام ہے محترمہ کو جو اب تک نہیں پہنچی ۔ یہ بندہ فالتو تو نہیں بیٹھا نا یہاں۔ ہمارے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی وقت دیا ہو گا اس نے، مگر وہ سر پھری لڑکی یہ باتیں کب سمجھتی ہے۔” وہ اب کوفت سے سوچ رہا تھا۔
”تو مسٹر جیف آپ مجھے بتائیں کہ آپ کو اپنے لیے کیسے ہم سفر کی تلاش ہے؟” اچانک مسٹر ڈیلی نے اسے مخاطب کیا۔ وہ ابھی جواب سوچ ہی رہا تھا جب وہ دبے قدموں چل کر اس کے برابر رکھی کرسی پر بیٹھی تھی۔ وہ بے یقینی سے مرم کے سراپے کو دیکھ رہا تھا جو اب بے نیازی سے بیٹھی سامنے دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ مرم اس کی گزارش پر عمل کر چکی ہے۔ اس نے ایپل گرین شرٹ کے نیچے رائل بلو لانگ اسکرٹ پہن رکھا تھا اور سر پر بڑے مناسب انداز میں میچنگ اسکارف بھی اوڑھا ہوا تھا۔ لائٹ میک اپ سمیت وہ بہت پرکشش، حسین اور باوقار لگ رہی تھی۔ جیف یہ بھول چکا تھا کہ اس کے چہرے پر جو کیمرا فوکس ہوا تھا وہ جیف کے ہر ایک تاثر کو اپنے اندر محفوظ کر رہا تھا۔ وہ یہ بھی بھول جانا چاہتا تھا کہ اس سے کوئی سوال پوچھا گیا تھا، مگر افسوس اس کی یادداشت ابھی ٹھیک ہی تھی۔ بڑی مشکل سے اپنے تاثرات نارمل کر کے اس نے اپنی نظریں مسٹر ڈیلی پر مرکوز کیں جو اسی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
”مجھے ایک ایسی ہم سفر کی خواہش ہے جو ایک سیاح کے طور پر میرے ساتھ زندگی کا سفر نہ کرے بلکہ ایک گائیڈ کے طور پر میرے ساتھ رہے۔ ایک ایسا گائیڈ جو ہزاروں سال میرے ساتھ سفر کرنے کے بعد بھی مجھ سے بور نہ ہو اور میری ذات میں پنہاں تمام خوبیوں اور خامیوں کو جاننے کے باوجود بھی مجھے چاہے۔ بالکل ویسی ہی پاکیزہ محبت جیسی ایک انسان اپنے دیس سے کرتا ہے کہ اپنے وطن کی لاکھوں خامیاں جاننے کے باوجود وہ وہیں بسنا چاہتا ہے۔ سو میں بھی کسی کا ” دیس” کسی کا ”گھر” بننا چاہتا ہوں۔” یہاں آنے سے پہلے اس سوال کا جو جواب اس نے سوچا تھا۔ وہ یہ ہرگز نہیں تھا۔ ناجانے کہاں سے اس کے ذہن نے یہ الفاظ ترتیب دیے تھے اور اس کی زبان نے رٹو طوطے کی طرح انہیں من و عن ادا بھی کر دیا تھا۔ اسے پیٹر، ڈینیل اور مرم تینوں کی حیران نظروں کا اندازہ اچھی طرح تھا تبھی اس نے کسی کی جانب دیکھنے سے احتراز برتا۔
”بہت خوب، عام لوگوں سے بہت مختلف انداز میں آپ نے اپنی ڈیمانڈز بتائیں۔ جو کچھ آپ کے منفرد انداز بیان کے بارے میں سنا تھا میں نے بالکل ویسا ہی پایا۔ بالکل ایک سچے اور پکے سیاح کا سا انداز ہے آپ کا۔ آئی مسٹ سے دیٹ آئی ایم امپریسڈ۔” مسٹر ڈیلی نے محظوظ مسکراہٹ سجا کر کہا۔ اس کے تاثرات بتا رہے تھے کہ جیف کے منفرد انداز کا خاصا مزہ لیا ہے اس نے۔
”بہت شکریہ سر مگر میرا نہیں خیال کہ میں نے کوئی انوکھی بات کی ہے۔ ہاں شاید انداز تھوڑا دل چسپ ہو، مگر کیا کیا جائے کہ میرے پروفیشن کی ڈیمانڈ ہی انفرادیت ہے۔” جیف نے سنجیدگی و متانت سے جواب دیا۔
”آپ کا انداز دیکھ کر میرا دل چاہ رہا ہے کہ آپ سے سیر و سیاحت کے متعلق کچھ منفرد سنا جائے۔ اگر آپ کو چند الفاظ میں ٹریولنگ کے بارے میں بولنے کو کہا جائے تو؟” مسٹر ڈیلی کی دل چسپی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔
”میں چاہتا ہوں آپ سفر کریں۔ جہاں تک اور جتنا بھی دور ممکن ہو۔” کچھ دیر سوچ کر وہ گویا ہوا۔
” فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ اور اسی طرح کی دوسری ضروری اشیا کے بغیر سفر کریں۔ اپنے کمفرٹ زون سے کچھ عرصہ دور رہ کر دیکھیں۔ مشاہدہ کریں کہ دنیا میں دوسرے لوگ کیسے رہتے ہیں؟ اور محسوس کریں کہ آپ کے اس چھوٹے سے ٹان سے باہر کی دنیا کتنی وسیع اور منفرد ہے اور جب اس سفر کے بعد آپ گھر واپس لوٹیں گے تو آپ کا گھر شاید پہلے جیسا ہی ہو اور پھر سے آپ کی وہی پرانی روٹین اور جاب ہو گی، مگر کہیں نہ کہیں آپ کے اندر کچھ تبدیل ہو چکا ہو گا۔ یہ تبدیلی آپ کی سوچ اور فکر میں بھی ہو سکتی ہے اور آپ کے انداز و اطوار میں بھی اور یقین مانیے کہ سیاحت اسی تبدیلی کا نام ہے۔” مسکراتے لب و لہجے میں بولتا ہوا وہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔
”آپ تو کامیاب ہو گئے مجھے متاثر کرنے میں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میں کس حد تک آپ کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوں گا۔ اتنا کہ آپ جھٹ پٹ اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کر لیں۔” توصیفی کلمات کہنے کے بجائے اس نے ایک غیر متوقع بات کی تھی۔
”کیسا فیصلہ؟”اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔
”بھئی شادی کا فیصلہ جس کے لیے آپ آج آئے ہیں خاص طور پر میرے پاس۔”
”جی بالکل۔” گو کہ وہ پہلے ہی جانتا تھا کہ یہ سب ڈراما ہے، مگر پھر بھی اپنی شادی کی بات کرنا عجیب محسوس ہو رہا تھا۔
”ویسے کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟”
”بس یوںہی کوئی خاص وجہ تو نہیں اس کی۔”
”اور کوئی عام وجہ؟” وہ مسلسل مسکرا رہا تھا۔
”انسان دو چیزوں کے لیے شادی کرتا ہے یا تو اسے زندگی میں سکون اور آسودگی کی طلب ہوتی ہے یا اپنی زندگی میں تبدیلی کی خواہش جہاں تک میری بات ہے، تو میری زندگی پہلے ہی بہت پرسکون اور آسودہ ہے اور تبدیلی کی مجھے کوئی آرزو نہیں سو اسی لیے مجھے کبھی شادی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔” اس بار اس نے سامنے بیٹھے شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں جواب دیا۔
”آپ کی بات سے میں سو فیصد متفق ہوں۔ انسان سکون، آسودگی، خوشی، تبدیلی وغیرہ کے لیے ہی شادی کرتا ہے، مگر آپ نے ایک بہت اہم نقطہ نظرانداز کر دیا۔ شادی کی ایک اور اہم وجہ ”محبت”بھی ہوتی ہے۔ محبت جو ایک لازوال جذبہ ہے۔ کیا آپ کو کبھی محبت کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی؟”
”میرے خیال میں محبت بس ایک افسانوی احساس ہے۔ اصل چیز صرف ”ضرورت” ہوتی ہے۔ اگر کوئی انسان کسی شخص کے ساتھ خوشی، سکون وغیرہ محسوس کرتا ہے، تو دراصل وہ شخص اس کی ”عادت” یا پھر ”ضرورت” ہوتا ہے اور اسی چیز کو دنیا محبت کا نام دے دیتی ہے۔” بڑے ٹھوس لہجے میں اس نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ دل میں وہ حیران بھی تھا کہ ان سب باتوں کے بعد بھی اس کے ساتھ بیٹھا وجود خاموش کیوں تھا؟ اور اب تک اس نے کوئی چیز اٹھا کر جیف کا سر پھاڑنے کی کوشش کیوں نہیں کی تھی؟
”یہ تو آپ محبت کرنے والوں کی توہین کر رہے ہیں۔ میرے کیفے میں موجود لوگوں میں سے اگر کوئی یہ بات سن لے تو اچھا خاصا ہنگامہ ہو جائے یہاں۔” مسٹر ڈیلی کا لہجہ ہنوز پرسکون تھا۔
”میں نے صرف اپنی رائے ظاہر کی ہے۔”
”ہر انسان کو اختلاف رائے کا حق حاصل ہے، مگر اس انداز میں کہ کسی دوسرے کے جذبات مجروح نہ ہوں۔”
”میں معافی چاہتا ہوں اگر آپ کو میری بات بری لگی۔ شاید میں خود جذبات سے عاری انسان ہوں اس لیے کبھی کبھی مجھے دوسروں کے جذبات کی پروا نہیں رہتی۔” اس کی اس بات پر مرم نے بڑی گہری نگاہ سے اس کی جانب دیکھا۔ وہ اب پہلے کی طرح بے نیاز اور لاتعلق نہیں تھی بلکہ اس کی دل چسپی اس کے چہرے کے محظوظ تاثرات سے عیاں تھی۔
”میں اپنی بات نہیں کر رہا تھا۔ خیر بس یہی ایک وجہ تھی اب تک شادی نہ کرنے کی؟” اب کی بار جیف کو اس کا ضرورت سے زیادہ پرسنل ہونا ناگوار گزرا تھا، مگر وہ مجبور تھا سو اپنا غصہ دبا گیا۔
”نہیں ایک وجہ میرا پیشہ بھی ہے۔ سال کا زیادہ تر حصہ میں ملک سے باہر گزارتا ہوں ایسے میں اس طرح کے ریلیشن کو اچھے انداز میں نبھانا ناممکن ہوتا ہے۔”
”اور اگر میں یہ کہوں کہ میں آپ کو ایک ایسا ہم سفر تلاش کر کے دے سکتا ہوں جس کا پیشہ آپ کے پیشے سے ملتا جلتا ہو اور اسی وجہ سے اسے اعتراض بھی نہیں ہو گا آپ کے آدھا سال ملک سے باہر رہنے پر۔ بولیے منظور ہے تو میں آپ کے ناظرین سے ان کا تعارف کراؤں؟” وہ سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ جیف کو نہ جانے کیوں یہ محسوس ہوا کہ مسٹر ڈیلی کوئی ڈراما نہیں کر رہا بلکہ حقیقت میں اسے اپنا ایک کلائنٹ سمجھتے ہوئے اس سے اقرار لینا چاہ رہا ہے اور اس کے ”ہاں” کہنے کے بعد اس کے پاس پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہاں بیٹھے تمام لوگ اسی کے جواب کے شدت سے منتظر تھے۔ جب کہ وہ خود ٹیبل پر رکھے کرسٹل کے مجسموں پر نظر جمائے بیٹھا تھا۔ نو عمر لڑکے کا مجسمہ گھٹنوں کے بل بیٹھا سامنے کھڑی مسکراتی لڑکی کو انگوٹھی پہنا رہا تھا۔
”اتنا نہیں سوچتے جیف صاحب! اکثر بہت زیادہ سوچ بچار بھی نقصان کا باعث بنتی ہے۔” جب وہ بہت دیر تک خاموش رہا، تو مسٹر ڈیلی نے سمجھانے والے انداز میں اسے مخاطب کیا۔
”سچی اور پرخلوص محبت کو یوں بار بار ٹھکرا کر رسوا نہیں کرنا چاہیے۔ محبت صرف خوش قسمت انسانوں کے در پر یوں بار بار دستک دیتی ہے۔ محبت ایک ایسا شعلہ ہے کہ جیسی بھی ہوا چلے، کبھی مدھم نہیں ہوتا، ایسی آگ ہے جس کی تپش میں بدن جلتے ہیں تو روحیں مسکراتی ہیں۔ محبت ایسا پودا ہے جو تب بھی سرسبز رہتا ہے کہ جب موسم نہیں ہوتا۔ محبت ایک دریا کے مانند ہے۔ اگر بارشیں روٹھ بھی جائیں تو پانی کم نہیں ہوتا کہ یہ وہ سیلاب ہے جس کو دلوں کی بستیاں آواز دے کر خود بلاتی ہیں۔ ذات، روایات کی کسی بھی زنجیر کو محبت توڑ سکتی ہے کیوںکہ محبت ذات کی تکمیل کا نام ہے۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

Read Next

زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!