قلعہ اور اس سے منسلک باغات اتنے وسیع وعریض تھے کہ ایک ہی دن میں سب شوٹ کر لینا ممکن ہی نہیں تھا۔ سو ان کا یہاں کا دورہ تین سے چار دن پر مشتمل تھا۔ پہلے دن قلعے اور پتھر کی ویڈیو شوٹ کرنے کے بعد انہوں نے باقی کا کام کل پر اٹھا رکھنے کا ارادہ کر کے باقی جگہوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ صحیح طور پر اندازہ لگا سکیں کہ اسکرپٹ میں کیا کیا اور کس طرح سے لکھا جائے گا۔ پھر ان چاروں نے سب کام پس پشت ڈال کر اسی انداز سے اس جگہ کی سیر کی جیسے وہ کام کے سلسلے میں نہیں بلکہ اپنی دوستی کی جھولی میں چند یادگار سکے ڈالنے آئے تھے۔ ”پوائزن گارڈن” میں جا کر انہوں نے ہنسی مذاق کے دوران کئی خطرناک اور مہلک پودوں کا جائزہ لیا جنہیں چھونے یا سونگھنے سے موت واقع ہو سکتی تھی۔ پیٹر کا مکمل ارادہ تھا کہ وہ ان میں سے ایک پودا اپنے پڑوسی کے لیے بطور تحفہ لے جائے جس کے آدھی رات کو اونچی آواز میں گانے سننے سے وہ عاجز تھا، مگر پھر جیف اور ڈینیل کی دھمکیوں نے اسے باز رکھا کہ کہیں وہ ائیرپورٹ پر پکڑا ہی نہ جائے۔
پھر ”راک کلوز” کے حصے سے گزرتے ہوئے ایک پتھر پر کئی سکے رکھے ہوئے تھے اور ڈینیل نے بڑی مہارت سے چند سکے اپنی جیب میں منتقل کر لیے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ کسی نے اسے نہیں دیکھا مگر آئرلینڈ کی جاسوس حسینہ اسے یہ کرتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔
”ڈینیل تمہیں پتا ہے یہ سکے یہاں کیوں رکھے ہیں؟” مرم نے اسے کڑے تیوروں سمیت گھورتے ہوئے استفسار کیا۔
”میرے لیے، انہیں پتا تھا میں کتنا کنگال ہوں اور…” مگر وہ اپنی بونگی مکمل نہ کر سکا۔
”یہ سکے بلارنی کی وچ کو خوش کرنے کے لیے قیمت کے طور پر دیے جاتے ہیں۔”
”وچ؟ کون سی وچ؟” ڈینیل نے آنکھیں سکیڑ کر دائیں بائیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ جو یہاں اس پتھر میں قید ہے۔ تم نے چوری کی ہے نا اب دیکھنا وہ راتوں کو خواب میں آ کر تمہیں ڈرائے گی۔” اس نے ڈرامائی انداز میں بات مکمل کی۔ اس کی بات سن کر ڈینیل نے ڈرنے کی کامیاب اداکاری کی اور پھر ڈرتے ڈرتے ہی سکے واپس رکھ دیے۔پھر وہاں دیر تک کھڑا جناتی قہقہے لگاتا ”وچ” کو ڈراتا رہا تھا۔
”وشنگ سٹیپس” کے نزدیک سے گزرتے ہوئے پیٹر اور ڈینیل نے روایت کے مطابق آنکھیں بند کر کے الٹی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنی اپنی آرزوؤں کا اظہار بلارنی وچ کے سامنے کیا تھا۔ مرم ہیلز کی وجہ سے پہلے ہی منع کر چکی تھی۔ پھر ڈینیل اور پیٹر نے بہ مشکل جیف کو یہ رسم ادا کرنے پر آمادہ کیا اور جب اس نے چہرہ ان تینوں کی جانب کر کے آنکھیں بند کیں اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بلند آواز میں ” پلیز وچ آنٹی ڈینیل کو یہیں رکھ لیں تاکہ میری، پیٹر اور نینسی کی زندگی آسان ہو۔” دہرانا شروع کیا، تو پھر وہ تھا اور ڈینیل کے ”نازک” اور ”معصوم” گھونسے اور مکے۔
”کتنا خوب صورت اور مکمل منظر ہے نا۔” مرم ان تینوں کو ایک دوسرے سے لڑتے، جھگڑتے، ہنستے، کھیلتے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ ” تین بہترین دوست۔ زندگی سے اپنی دوستی کا خراج وصول کرتے ہوئے۔ اللہ اس دوستی کو ہمیشہ سلامت رکھے۔آمین اور صدا کا خاموش اور سنجیدہ ابراہیم بھی کتنا مختلف لگ رہا ہے آج۔ زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتا ہوا،خوش اور سرشار۔” وہ اب بہ غور ہنستے ہوئے جیف کو دیکھ رہی تھی جو پیٹر کے ساتھ مل کر ڈینیل کو قابو کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ ”اللہ ان روشن آنکھوں میں، میں کبھی دکھ اور محرومی کی پرچھائیں دوبارہ نہ دیکھوں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”فرن گارڈن” میں آنکھوں کو ٹھنڈک اور تازگی بخشتا سبزہ اور چھوٹی بڑی ڈھلوانوں کے بیچ سے گزرتا بل کھاتا راستہ تھا۔
”یہاں کچھ دیر ٹھہریں؟” ایک خوب صورت سے لکڑی کے پل پر سے گزرتے ہوئے مرم نے سب کو متوجہ کیا۔ چشمے کے مانند بہتی آبشار، ندی کی صورت میں بلارنی جھیل میں گررہی تھی۔ صدا بہار درختوں اور سر سبز و شاداب پودوں میں گھری یہ جگہ مرم کو بہت مسحور کن محسوس ہو رہی تھی۔ بہتی آبشار کی دل کش و دل نشیں جلترنگ سنتی، وہ پانی کے قطروں کو محو رقصاں دیکھ رہی تھی۔ پھر آنکھیں بند کر کے اس نے پانی،گیلی مٹی اور سبزے کی ملی جلی خوشبو کو اپنے اندر اتارا۔ نہ جانے کتنے لمحے یوں ہی گزر گئے جب کلک کی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر اپنے بائیں جانب دیکھا۔ جیف ہاتھ میں پکڑے کیمرے کی اسکرین پر نظریں جمائے چند سیکنڈ قبل لی گئی تصویر کو جانچ رہا تھا۔ سیاہ جینز، گرے شرٹ اور سیاہ ویسٹ کوٹ میں اپنے رف اینڈ ٹف حلیے میں اس کا دراز قد اور بھی نمایاں لگ رہا تھا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا بلکہ بے نیاز بنا مزید تصاویر کھینچنے لگا تھا۔
”تمہیں فوٹو گرافی سے کچھ زیادہ ہی دل چسپی نہیں ہے؟ جب بھی دیکھو تم ہاتھ میں کیمرا لیے یہاں سے وہاں گھوم رہے ہوتے ہو۔”
”ہاں مجھے جنون کی حد تک شوق ہے اس کا اسی لیے تم کہہ سکتی ہو کہ یہ میری ہابی ہے۔ میرے نزدیک فوٹوگرافی بھی ایک آرٹ ہے جس کی بنیاد گہرا مشاہدہ ہے۔ اہم یہ نہیں کہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا فوٹوگرافر تصاویر ”لیتا” نہیں بلکہ ”بناتا” ہے۔” اس شعبے سے متعلق اس کی معلومات خاصی وسیع معلوم ہو رہیں تھیں۔
”یہ آرٹ تم نے سیکھار بھی ہے یا بس ایک مہنگا کیمرا لے کر اپنی زور آزمائی شروع کر دی؟” اس بار اس کے لہجے میں شرارت چھپی تھی۔
”باقاعدہ ڈگری تو نہیں ہے، مگر فوٹو گرافی سے متعلق بہت سے کورسز کر رکھے ہیں میں نے۔” اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”کیا تم صرف ٹریول اور لینڈ سکیپ فوٹو گرافی کا شوق رکھتے ہو یا پھر غلطی سے انسانوں کی تصاویر بھی ”بنانے” میں دل چسپی ہے؟” ٹھنڈا، میٹھا طنز۔
”کبھی کبھار یہ غلطی سرزد ہو ہی جاتی ہے مجھ سے۔” ٹھنڈے، میٹھے طنز کا جواب ٹھنڈے میٹھے انداز میں ہی دیا گیا تھا۔
”ویسے ایک راز کی بات بتاؤں ؟ مجھے وہ لوگ انتہائی بے وقوف اور کم عقل لگتے ہیں جولاکھوں کے ڈی ایس ایل آر کیمرے سے بھی اپنی تصاویر ہی کھینچتے ہیں جو کام ایک فون کے کیمرے سے ہو سکتا ہے بھلا اس کے لیے اتنے پیسے ضائع کرنا بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟ اب اس جوڑے کو ہی دیکھ لو۔” اس نے نزدیک کھڑے کپل کی طرف اشارہ کیا۔
”اپنے ارد گرد کی تصاویر لینے کے بہ جائے وہ ہر ہر زاویے سے اپنی تصاویر ہی کھینچ رہے ہیں۔ ان کم عقلوں کو کوئی سمجھائے بھائی کہ اگر اپنی ہی تصویر لینی تھی تو اتنے پیسے خرچ کر کے یہاں آنے کی تک ہی کیا تھی۔ یہ کام گھر بیٹھ کر کرتے، کیوں کہ جیسی شکل یہاں آرہی ہے ویسی ہی اس قیمتی کیمرے میں وہاں بھی آتی۔” اس کے انداز پر مرم بے ساختہ ہنسی۔
”مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم لوگوں کو پوائنٹ آؤٹ کر کے ایسی باتیں بھی کر سکتے ہو۔” اپنی ہنسی پر قابو پا کر اس نے حیرت کا اظہار کیا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مرم مسلسل اسے ہی دیکھتی رہی۔ بالآخر سوچ بچار کے بعد ایک نتیجے پر پہنچتے ہوئے اس نے جیف سے اپنے اور اس کے متعلق کھل کر گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے خیال میں یہ حسین جادو نگری ہی وہ بہترین جگہ تھی جہاں ان کے حسین مستقبل کو ترتیب دیا جانا چاہیے تھا۔ اس نے ایک نظر مڑ کر پیٹر اور ڈینیل کو دیکھا جو اپنے اپنے موبائل کان سے لگائے محو گفتگو تھے۔
”ابراہیم پھر تم کب چل رہے ہو موری اور ددا سے ملنے؟” اپنے کام میں مگن جیف نے کچھ چونک کر کیمرا چہرے سے ہٹا کر اسے دیکھا پھر دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ ایک اور کلک کی آواز۔
”دیکھو اگر موقع ملا ٹور کے بعد تو کوشش کروں گا۔” اس نے سرسری انداز میں مبہم سا جواب دیا۔
”کیا مطلب ہے کوشش کروں گا؟ ظاہر ہے تمہیں ملنا تو ہے ہی۔” مرم نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کہیں تم اب پھر پہلے کی طرح زبردستی ان سے ملانے پر قائل تو نہیں کرنے والی؟ جس طرح تم نے آئر لینڈ گھومنے پر ہمیں آمادہ کیا تھا؟” جیف نے اس بار مسکراتے ہوئے مصنوعی حیرت سے پوچھا۔
”میں چاہتی ہوں مجھے تمہیں اس بار فورس نہ کرنا پڑے بلکہ تم خود اپنی مرضی سے وہاں جاؤ اور…” اس نے بات ادھوری چھوڑدی۔
”اور؟” وہ اب مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ تھا۔
”اور…” وہ جھجکی۔
”اور ہمارے متعلق بات کرو۔” بات کے اختتام پر وہ کھل کر مسکرائی اور اس کی روشن آنکھیں بھی اس کے لبوں کا ساتھ دے رہیں تھیں۔
”بات؟ کون سی بات؟”’وہ اب تک ناسمجھی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔
”جیف ایسا کیوں بول رہے ہو؟ تم جانتے ہو میں کیا بات کر رہی ہوں۔” وہ اب بھی پر اعتماد دکھائی دے رہی تھی۔
”نہیں میں نہیں جانتا۔ وضاحت کرو۔” اب اس کے لہجے میں معمولی سی تلخی شامل تھی۔
”جب تک تم ان سے ملو گے نہیں تب تک کیسے بات آگے بڑھے گی ہماری شادی کی۔” اس بار وہ بھی سنجیدہ ہو چکی تھی۔
”واٹ؟ شادی؟ ہماری؟ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟” وہ حیرت کی زیادتی سے چلا اٹھا۔
”تم پاگل ہو کیا؟ کب میں نے تمہیں کہا کہ مجھے شادی کرنی ہے تم سے؟ میرے کون سے عمل، کون سی بات سے تمہیں یہ لگا کہ مجھے تم میں دل چسپی ہے؟ ذرا سی دوستی اور ہنسی مذاق کو نہ جانے تم نے کیا سمجھ لیا۔” وہ سر جھٹک کر تلخی سے بڑبڑایا۔ جیف کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسا بھی کچھ سوچ سکتی ہے۔ وہ اسے خاصی سمجھ دار اور عقل مند لڑکی سمجھا تھا۔ باقیوں سے قدرے مختلف اس قسم کی جذباتی حرکت کا اسے بالکل اندازہ نہیں تھا۔
مرم پھٹی پھٹی آنکھوںسے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ سامنے کھڑا شخص اسے دنیا کا جھوٹا اور بے حس ترین انسان لگ رہا تھا۔
”کون سا عمل؟ بتاؤں تمہیں کون سا عمل؟” وہ اونچی آواز میں چلائی۔ ذرا فاصلے پر کھڑے پیٹر اور ڈینیل اب حیرت سے ان دونوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”اگر دل چسپی نہیں تھی مجھ میں تو یہ کیوں دی مجھے؟ بولو۔” وہ غصے اور ہتک کے احساس سے پاگل ہو رہی تھی۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھا کر اس کے چہرے کے بالکل نزدیک کیا۔
”کیوں دی یہ رنگ مجھے؟ جواب دو؟ صرف میرے جذبات سے کھیلنے کے لیے۔ تم…تم۔” اس کے دماغ میں چلتے جھکڑ اسے کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے محروم کر چکے تھے۔
انگوٹھی پر نظر پڑتے ہی اگلے لمحے جیف کی حیرانی ختم ہو گئی، انگوٹھی؟ اس کے نظروں کے سامنے دنیا گھومنے لگی۔ وہ کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ یہ کیا کر دیا اس نے؟ کتنی بڑی بے وقوفی کی جو یہ دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی کہ وہ دے کیا رہا ہے۔ وہ لڑکی اسے بتانا بھی چاہتی تھی، مگر اس نے ڈپٹ کر اسے خاموش کرا دیا۔ اوہ میرے اللہ یہ کیا ہو گیا مجھ سے؟ کیا کیا نہ سوچا ہو گا اس نے؟ کتنی آگے پہنچ چکی ہے یہ؟ اس انگوٹھی کا مطلب اس نے وہی لیا جو عموماً لیا جاتا ہے۔ آج اسے پیٹر اور ڈینیل کی محظوظ کن پراسرار مسکراہٹ کی وجہ سمجھ آئی تھی جب مرم نے انہیں اس کا دیا تحفہ دکھایا تھا۔ تب بھی وہ نہ دیکھ پایا کہ کیا ہے اس ڈبے میں۔ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اس وقت تو بس اس لڑکی پر غصہ تھا اسے سو۔
”اب کیوں خاموش ہو بولو؟ جواب دو؟” اس کی سوچوں سے ناواقف وہ مسلسل چلا رہی تھی۔ ڈینیل آگے بڑھنا چاہتا تھا، مگر پیٹر نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا تاکہ یہ معاملہ کسی انجام کو تو پہنچے، چاہے برا ہی صحیح۔
”یہی رنگ کیوں دی مجھے؟ جانتے ہو اس کا مطلب کیا ہے؟ ان ہاتھوں کا؟ اس دل کا؟ اس تاج کا؟” اس کے ایک مرتبہ پھر مخاطب کرنے پروہ چونک کر مرم کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ اب تک ہاتھ اس کے چہرے کے قریب کیے ہوئے تھی۔ اس کی بات سمجھ آتے ہی جیف کی نظریں انگوٹھی پر جم سی گئیں۔ اس نے اب غور کیا کہ وہ کس طرح کی انگوٹھی تھی۔ اب وضاحت کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
”دیکھو یہ صرف تمہاری سالگرہ کا تحفہ تھا۔ مجھے لگا تمہیں یہ پسند آئی ہے تو بس اسی لیے دے دی۔ باقی اور کوئی مطلب نہیں تھا۔ یہ صرف ایک انگوٹھی ہی تو ہے۔” اس کا انداز معذرت خواہانہ ضرور تھا، مگر اس میں بے پروائی اور بے حسی کا تاثر جھلک رہا تھا۔ جیسے کوئی سنگین غلطی کر کے بغیر شرمندگی کے سوری بول دیا جائے۔ یوں ہی سرسری سا سوری کہ اب یہی ہے کہنے کو میرے پاس تو اسے ہی قبول کرنا ہوگا تمہیں۔ اس انداز پر مرم کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا۔
”صرف انگوٹھی؟” وہ رو دینے کو تھی۔ اسے اس کی بے حسی پر غصے کے بجائے اب دکھ ہو رہا تھا۔
”یہ صرف انگوٹھی نہیں ہے جیف ابراہیم… یہاں کے کلچر میں یہ انگوٹھی کوئی لڑکا ایک لڑکی کو اسی وقت دیتا ہے جب وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہو۔” وہ اب بھی تیز اور ترش لہجے میں بول رہی تھی۔
”ان ہاتھوں کا مطلب یقین، دوستی اور ساتھ ہے، عمر بھر کا ساتھ اور اس تاج کا مطلب وفاداری ہے اور…اور اس دل کا مطلب۔آہ چھوڑو تم کیا سمجھو گے۔” طنزیہ لب و لہجے میں کہتی وہ اب ہاتھ نیچے کر چکی تھی۔ شدت ضبط کے باعث اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور ہونٹ بھینچے ہوئے تھے۔ بالآخر ضبط کا دامن چھوٹا اور ایک ننھا سا قطرہ گالوں پر سے پھسلتا چلا گیا۔ ان دونوں میں سے کسی کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں بچا تھا۔
مرم نے بے دردی سے اپنی آنکھیں رگڑیں۔
”مجھے تمہاری اس عنایت کی کوئی ضرورت نہیں۔ تم جیسا بے حس شخص میرے سچے جذبوں کے قابل ہی نہیں تھا۔” انگوٹھی اتار کر اس کی طرف اچھالی گئی اور پھر وہ تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔ آبشار کی صورت گرتا پانی اب بین کرتا معلوم ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
”تم جیسا بے حس شخص میرے سچے جذبوں کے قابل ہی نہیں تھا۔” تلخی بھرا لہجہ ایک بار پھر اس کی سماعت میں گونجا۔ کی پیڈ پر تیزی سے چلتے اس کے ہاتھ ایک بار پھر ساکت ہوئے تھے۔ ایک بار پھر کرب اور اذیت سے اس نے آنکھیں میچ لیں۔
”گاڈ میں کیا کروں کے یہ جملہ میرا پیچھا چھوڑ دے۔ ”اِس نے اپنے بالوں کو جکڑتے ہوئے بے بسی سے سوچا۔
”وہ کیا جانے کہ میں نے اسے وہی لوٹایا جو مجھے ہمیشہ دوسروں سے ملتا رہا۔ وہ کیا جانے کہ جو چیز ساری زندگی سمیٹی ہے میں نے، وہی آگے منتقل کروں گا نا میں۔ اسے کیا معلوم یہ بے حسی مجھے ورثے میں ملی ہے۔ میری رگ رگ میں یہی ایک جذبہ تو پوری طرح سے سمایا ہوا ہے۔ پر وہ کیا جانے۔” تھکی تھکی سی سانس فضا کے سپرد کر کے وہ صوفے پر ہی نیم دراز ہو گیا۔
”کہتی ہے شادی کرنی ہے تم سے، میرے بزرگوں سے ملو۔ جیسے مجھے اِدراک ہی نہیں کہ مجھ جیسے کو پہلی نظر دیکھنے پر ان کا ردعمل کیا ہو گا؟ ایک بار پھر مسترد ہونے کی ذلت نہیں اٹھا سکتا میں۔ اب اپنا تماشا بنوانے کا حوصلہ نہیں مجھ میں۔اس کے سر پر جو محبت کا بھوت سوار ہے وہ اسی لمحے اتر جائے گا جس وقت لوگ پہلا طنز اور تمسخر بھرا نشتر اس کی جانب پھینکیں گے۔میں تو شاید اپنی اسی خوبی (بے حسی) کی وجہ سے برداشت کر جاؤں، مگر وہ نہیں سہ پائے گی۔ تب عمر بھر کا ساتھ، وفاداری اور وہ دل، اس کا مطلب… جو میں جانتا تو ہوں پر سمجھنا نہیں چاہتا۔ سب ایک پل میں ختم ہو جائے گا جس چیز کو وہ آج میرے پیروں کی بیڑیاں بنانا چاہتی ہے کل وہی پیروں کی دھول بن جائے گی۔ ہاں میں جانتا ہوں ایسا ہی ہو گا، تو پھر کیوں میں…” اس کی سوچوں کو اسی لمحے تھمنا پڑا۔ کوئی مستقل بیل پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا ۔ وقفے وقفے سے دروازہ بھی بجایا جا رہا تھا۔ ناجانے کون ایسا بے صبرا تھا ۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔
”اوہ ڈین تم۔ مجھے لگا پتا نہیں کون ہے۔ اتنے جنگلی کیوں بن رہے ہو تم لوگ؟ ”
”بتاؤں کیوں؟ کیوں کہ آج میں تم سے تمہاری زبان میں بات کرنے آیا ہوں۔” ڈینیل کے ترش لہجے میں غصہ نمایاں تھا۔
”ڈینیل آرام سے۔” پیٹر نے اسے پرسکون رہنے کو کہا۔
”کیوں رہوں میں پرسکون؟ اس سب کے بعد بھی جو اس نے آج کیا ہے؟ کیا چاہتا ہے یہ ؟ کیوں اپنا ہی دشمن بنا ہوا ہے یہ ؟” بالآخر وہ پھٹ پڑا۔
”آج چاہے ہماری دوستی کا آخری دن ہو، مگر آج میں کھل کر بات کروں گا۔ پھر چاہے زندگی بھر یہ میری شکل نہ دیکھے۔پھر مجھے افسوس نہیں ہو گا کہ میں نے اپنے دوست کو کنویں میں گرنے سے روکا نہیں۔” پیٹر نے اس کی تائید میں سر ہلایا جب کہ وہ گم صم کھڑا ڈینیل کو تک رہا تھا۔
”مجھے بتاؤ تم اپنے ہی دشمن کیوں ہو ؟ کیوں تم سے برداشت نہیں ہو رہی اپنی زندگی کی واحد خوشی؟ کیوں کیا اس کے ساتھ ایسا؟ کیا تم ابنارمل ہو جیف جو اپنی جانب بڑھنے والی ہر خوشی، ہر سکھ کو روک دیتے ہو؟کیا سمایا ہوا ہے تمہارے دماغ میں بتاؤ مجھے؟ کیوں اپنے ماضی کی وجہ سے اپنا مستقبل تباہ کر رہے ہو تم؟ کیوں سینے سے لگا رکھا ہے تم نے اپنے ماضی کی تلخ یادوں کو؟”
”تم،تم…کیسے جانتے ہو سب؟ تمہاری یہ جرأت؟ کس نے تمہیں حق دیا کہ تم میرے ماضی کو کھوجو؟ اس کے حوالے سے کوئی بات کرو مجھ سے؟” وہ جو شروع میں سب کچھ خاموشی سے سن رہا تھا اچانک ماضی کا ذکر آنے پر چلا اٹھا۔
”ہاں مجھے حق ہے کیوں کہ میں خود کو تمہارا دوست کہتا نہیں بلکہ مانتا بھی ہوں۔ اسی لیے حق رکھتا ہوں تم سے اس حوالے سے بات کرنے کا۔” ڈینیل نے خود اعتمادی سے جواب دیا۔ اس کی اس بات پر جیف لب بھینچ گیا۔
”دیکھو جیف ہم صرف تمہارا بھلا چاہتے ہیں۔ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔اس کا ہاتھ تھام لو۔مجھے یقین ہے وہ تمہیں سنبھال لے گی۔” اس بار پیٹر نے اسے رسان سے سمجھانا چاہا تھا۔
”مجھے کسی کی ضرورت نہیں۔” اس نے تلخی سے جتایا۔
”وہ اچھی لڑکی ہے میں جانتا ہوں، مگر میں اچھا نہیں سو یہ بحث یہیں ختم کرو ورنہ…”
”ورنہ کیا ہاں؟ کیا کرو گے؟ ہم سے دوستی ختم کر لو گے؟ سب چھوڑ کر چلے جاؤ گے؟ یا پھر اس کے پاس جا کر اسے بے عزت کرو گے دوبارہ؟” ڈینیل نے تیز لہجے میں کہا۔
” نہیں میں خود کو ختم کر لوں گا۔” اس کے سپاٹ لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔ جیسے وہ جو کہہ رہا تھا سو فیصد وہی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ وہ دونوں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کے بے تاثر چہرے کو دیکھنے لگے
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});