مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

اگلے روز وہ چاروں تاریخی کیٹ کیارنی(kate kearney) کاٹیج کیفے کی کھلی فضا میں لنچ کے لیے بیٹھے تھے۔
”جلدی جلدی بتا کیا آرڈر کرنا ہے؟ ہمیں گھنٹے کے اندر اندر نکلنا ہے یہاں سے آگے کے لیے۔” پیٹر نے مینو دیکھتے ہوئے سب ہی کو مخاطب کیا۔ ویٹر مستعدی سے کھڑا آرڈر کا انتظار کر رہا تھا۔
”میں صرف مشروم سوپ لوں گی۔” مرم نے کارڈ پر نظر دوڑاتے ہوئے بتایا۔
”اوکے اور تم جیف ہمیشہ کی طرح بینز، مکئی اور سبزیوں کی سلاد ہی نوش فرماؤ گے۔” ڈینیل نے پوچھا تو جیف نے سنجیدگی سے سر ہلا کر اپنی مطلوبہ ڈش کا نام ویٹر کو بتایا۔ پھر کھانا آنے تک وہ یہاں کی جگہوں پر تبصرہ کرتے رہے۔
”ویسے مرم یہ جو کل کاٹجِز ہم نے دیکھے تھے تمہارے خیال میں کتنے کے ہوں گے؟ میں سوچ رہا ہوں کہ نینسی کو شادی کے گفٹ کے طور پر انہیں میں سے کوئی دے دوں۔ تمہاری طرح اسے بھی اس قسم کے بچگانہ رومانوی کاٹیج بہت پسند ہیں۔” ڈینیل نے شرارتی لہجے میں دریافت کیا، تو مرم نے اسے آنکھیں سکیڑ کر تیز نظروں سے گھورا۔ وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ ڈینیل اس کی کہی بات کا مذاق اڑا رہا ہے۔
”ہاں پھر ہنی مون کے لیے تم دونوں یہیں آجانا۔ آئیڈیل جگہ ہے یہ اس طرح کے ٹرپ کے لیے۔” یہ پیٹر کا مشورہ تھا۔
”مجھ سے زیادہ نینسی کو اس جگہ میں دل چسپی ہو گی سو میں تو کبھی اسے یہاں نہ لاؤں۔” وہ تو ویسے بھی دیوانی ہے قدرتی نظارے دیکھنے کی۔ میں نے جب اسے یہاں کیلارنی آنے کا بتایا تو اسے افسوس ہوا کہ میری آفر کے باوجود وہ یہاں کیوں نہیں آئی میرے ساتھ۔ ”
”ہاں تو پھر یہاں گھر خریدنے کا فائدہ؟ ویسے بھی وہ سب بکنے کے لیے نہیں ہیں۔” مرم نے وثوق سے بتایا۔
”سب بک جاتا ہے اگر دام اچھا ملیں تو۔” ڈینیل نے بھی اسی کے انداز میں جتایا۔ ویٹر اب کھانا لگا رہا تھا اس لیے مرم قصداً خاموش رہی اس کے جانے تک۔
”یہاں کے لوگ لالچی نہیں ہیں بلکہ بہت قناعت پسند اور اپنے بازوؤں پر بھروسا کرنے والے ہیں۔ یہ کاٹیج یہاں کے لوگوں کے قدیم اثاثے ہیں جو ان کے آباء و اجداد کی طرف سے انہیں ملے ہیں۔ وہ کبھی انہیں نہیں بچیں گے۔” مرم نے ابرو اچکا کر ڈینیل کی طرف دیکھا۔ بڑی مشکلوں سے اس نے کوئی سخت لفظ استعمال کرنے سے خود کو روکا تھا۔ اپنے ملک اور قوم کے متعلق کوئی ایک بھی غلط لفظ وہ برداشت نہیں کرتی تھی بالخصوص کسی غیر ملکی کے منہ سے۔ ایک دو مرتبہ غلطی سے ڈینیل کے منہ سے کسی جگہ کے متعلق ”بس ایویں” اور ”فضول” جیسے الفاظ نکل گئے تھے۔ بس پھر مرم تھی اور اپنے ملک کے دفاع میں بولی جانے والی اس کی تاریخی تقریر تھی۔اپنے ملک کے لیے وہ لڑنے مرنے کو ہر وقت تیار رہتی تھی۔ وہ تینوں ہی اس کی اس عادت کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور بہت متاثر بھی تھے، مگر ڈینیل کبھی کبھی شرارت میں اسے کوئی نا کوئی بات کر دیتا، تو اس کا غصہ دیکھنے والا ہوتا۔ ورنہ بہت ہی کم وہ غصے میں آتی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”یار پلیز تم لوگ زبانیں کم اور ہاتھ زیادہ چلاؤ۔ وہ بگھی کا مالک وہاں کھڑا ہمیں گھور رہا ہے۔ اس نے آدھے گھنٹے رکنے کا کہا تھا یہاں اور اب ڈیڑھ گھنٹا ہونے والا ہے۔ ہمیں آگے بھی جانا ہے سو ذرا جلدی کرو دس منٹ کے اندر اندر نکلو یہاں سے۔” لمبی بحث چھڑتی دیکھ کر پیٹر نے انہیں تنبیہ کی تو وہ سب اپنی اپنی پلیٹوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔
”تم لوگ بیٹھو میں آتی ہوں ابھی۔” اپنا سوپ جلدی جلدی ختم کر کے مرم نے بنچ پر سے اٹھتے ہوئے کہا۔
”تم پھر کہیں غائب ہو رہی ہو؟ مجھے سمجھ نہیں آتی تم جاتی کہاں ہو؟ ہم جہاں بھی گئے اب تک وہاں بھی تم ایسے ہی کچھ دیر کے لیے گم ہو جاتی ہو، چکر کیا ہے آخر یہ؟” ڈینیل نے اسے اٹھتے دیکھا، تو کہے بنا نہ رہ سکا۔ وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا، اس دن غار میں بھی وہ ”ابھی آئی” کہہ کر نہ جانے کہاں چلی گئی تھی اور آج بھی بنا کچھ وضاحت کے کہیں جا رہی تھی۔
”میری فطرت میں بھی رازداری ہے۔” ڈینیل کو اسی کی کہی بات لوٹا کر وہ چلی گئی۔
”اس لڑکی کی حرکتیں کبھی کبھی مجھے مشکوک لگتیں ہیں۔” ڈینیل نے جیف اور پیٹر کی توجہ اس گمبھیر مسئلے کی طرف دلانا چاہی۔
”چھوڑو یار ہمیں کیا گئی ہو گی کسی کام سے۔ ہو سکتا ہے واش روم میں جا کر اپنا میک اپ وغیرہ ٹھیک کرتی ہو۔” پیٹر جو کہ اپنے موبائل میں مگن تھا سرسری انداز میں بولا۔
”میک اپ ؟ کون سا میک اپ؟ آج تک لپ اسٹک تک تو لگی دیکھی نہیں میں نے۔ ہمیشہ سادہ ہی رہتی ہے۔ ٹام بوائے قسم کی لڑکی ہے یہ۔ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کے کاموں میں اس کی دل چسپی صفر ہو گی۔”
”ڈینیل بس بھی کر دو یار۔ اتنا کیوں کرید رہے ہو ہمیں کیا؟” جیف نے اسے ٹوکا۔
”یار جیف ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی جاسوسی ایجنٹ ہو اور اب رپورٹ دینے گئی ہو اپنے باس کو۔” ڈینیل دور کی کوڑی لایا۔
”ہاں یہ بتائے گی نا کہ مشہور ترین ہستی ڈینیل دی گریٹ کیمرا مین نے آج فلاں فلاں بونگیاں ماریں اور کھانے میں سالم مچھلی ہڑپ کی۔” جیف نے ہنستے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا۔
”یار جا کر دیکھو تو سہی کہ کہاں گئی ہے اور جا کر بات بھی کر لو اس سے۔” ڈینیل نے آنکھوں کے اشارے سے اسے یاد دلانا چاہا کہ اس نے اب تک سوری نہیں بولا تھا مرم کو۔
”تم ایک انتہائی فضول شخصیت ہو۔” اس کے بار بار کے اشاروں پر جیف بڑبڑاتا ہوا اٹھ گیا۔”
”کیا ہوا وہ معاملہ اب تک سلجھا نہیں۔” جیف کے جانے کے بعد پیٹر نے استفسار کیا تو ڈینیل مسکرایا۔
”فکر نہ کرو سلجھ جائے گا۔ مجھے لگتا ہے یہ کہانی نیا موڑ لینے والی ہے۔” اس نے پر سوچ انداز میں کہا۔
٭…٭…٭
جیف اسے ڈھونڈتا ہوا پہلے کیفے کے اندر گیا۔ وہاں ہال نما دو کمرے تھے۔ ایک میں ریستوران بنا تھا اور دوسرا بار کے لیے مخصوص تھا۔ سامنے ریستوران میں تو وہ اسے نظر نہیں آئی اور بار میں دیکھنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیوں کہ اب تک اس نے مرم کے کردار میں کوئی جھول نہیں دیکھا تھا۔ اسے یقین تھا وہ ایسا کوئی شوق نہیں رکھتی ورنہ ایک دو مرتبہ جب پیٹر اور ڈینیل بار گئے تھے، تو وہ بھی کبھی چلی ہی جاتی ان کے ساتھ۔ پھر وہ کیفے کے پچھلے دروازے کی طرف بڑھ گیا جو ایک چھوٹے سے لان میں کھلتا تھا۔
وہاں اس وقت مکمل خاموشی اور ویرانی تھی۔ ابھی وہ واپسی کے لیے پلٹ ہی رہا تھا کہ اسے اپنے پیچھے موجود گھنے سدا بہار درخت میں سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ اسے لگا کہ وہاں کوئی کھڑا ہے۔ کچھ سوچ کر وہ درخت کی جانب بڑھنے لگا۔ یہ ایک قدیم سدا بہار درخت تھا جس کا تنا کافی چوڑا اور کئی فٹ لمبا تھا۔ اس درخت کی گھنی شاخوں نے آدھے لان کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ وہ اب درخت کے نزدیک پہنچ گیا۔ اسے پھر سے اس درخت کے پیچھے سرسراہٹ محسوس ہوئی۔ یقینا وہاں کوئی موجود تھا۔
پھر ایک قدم بڑھ کر اس نے درخت کے تنے پر ہاتھ رکھا اور پیچھے جھانکا۔ وہ یک دم چونک گیا اور بے یقینی اور حیرت سے سامنے دیکھتا رہا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ وہاں یہ منظر دیکھنے والا ہے۔ وہ بلاشبہ مرم ہی تھی۔ اس کی لانگ اسکرٹ جو وہ بہت مرتبہ اسے پہنے نوٹ کر چکا تھا۔ شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی اور وہ جس انداز میں وہاں موجود تھی اور جو کر رہی تھی۔وہ بے یقینی سے اسے سجدے کے انداز میں جھکا دیکھ رہا تھا۔ پیشانی کو ایک سفید رومال پر سجدے کے انداز میں رکھے وہ دنیا سے بے خبر نہ جانے کیا کرنے میں مصروف تھی۔ وہ درخت کے متوازی، جنوب مشرق کے رخ میں تھی اور اس انداز میں بیٹھی تھی کہ چوڑے درخت نے اسے مکمل طور پر چھپا لیا تھا۔
”یہ کیا کر رہی ہے۔” پہلا خیال اس کے ذہن میں یہی آیا تھا۔
”پتا نہیں اس کے مذہب میں سجدے جیسی کوئی عبادت تھی بھی یا نہیں، مگر اس کا مذہب کون سا ہے؟”اور اپنے ہی اندر سے جو جواب ملا اس پر وہ ایک بار پھر چونک گیا۔
”مگر میں تو سمجھا تھا کہ اس ملک کے نوے فیصد لوگوں کی طرح یہ بھی تین خداؤں پر ایمان رکھتی ہے۔تو پھر یہ چرچ کے بہ جائے یہاں کیا کر رہی ہے؟ مگر اس وقت کون سی نماز کا وقت ہے؟ تو کیا اس درخت کو،مگر نہیں اس کا رخ تو…” وہ الجھا الجھا سا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ مرم اب سجدے سے اٹھ رہی تھی اس لیے وہ تیزی سے پیچھے ہٹا۔ پھر پیشانی مسلتے ہوئے کچھ سوچ کر واپس کیفے کے دروازے کی طرف چل پڑا۔
٭…٭…٭
مئی کے وسط کی اس بھیگی دوپہر میں انہوں نے درہ ڈنلوہ(gap of dounloe) اور کیلارنی کی پرکشش جھیلوں کی طرف اپنا سفر شروع کیا تھا۔ یہ درہ دراصل آئر لینڈ کے دو مشہور پہاڑی سلسلوں کے درمیان گہرا ، خطرناک اور تنگ کئی سو سالہ قدیم راستہ تھا۔ سات میل لمبے،بل کھاتے اس راستے میں آنکھوں کو خیرہ کرتے کئی قدرتی مناظر تھے۔کہیں بلند و بالا پہاڑ اور گہری کھائیاں۔ کہیں بہتی ندیوں کا شفاف پانی، کہیں سرسبز وادیاں اور چراگاہیں، تو کہیں پہاڑوں کے بیچ و بیچ بنی خوبصورت جھیلیں۔
ڈینیل نے ضروری بات کا بہانہ کر کے پیٹر کو اپنے ساتھ بیٹھا لیا، تو مجبوراً ان دونوں کو ایک ہی بگھی میں بیٹھنا پڑا۔ مرم غصے میں کھولتی ان حسین مناظر کو ٹھیک سے انجوائے بھی نہیں کر پا رہی تھی جب کہ جیف اپنے اندرونی خلفشار کا شکار، کھویا کھویا سا بیٹھا تھا۔ ارد گرد کے مناظر، ماضی کے جھروکوں سے بہت سے مناظر چرا کر اس کے ذہن کے کینوس پر ان کا عکس دکھا رہے تھے۔
بہت دیر تک یوں ہی گم صم بیٹھنے کے بعد بالآخر اس نے سر جھٹک کر ماضی سے پیچھا چھڑایا اور گردن موڑ کر اپنے برابر خاموش بیٹھی مرم کو دیکھا جو چہرہ دوسری جانب موڑے ہوئے تھی۔
”مجھے معاف کر دو مرم اس دن کے لیے۔ میں نے بہت غلط باتیں کہیں تھیں تم سے۔ اس کے لیے میں واقعی شرمندہ ہوں۔” اس کی آواز پر چونک کر مرم نے اسے دیکھا پھر سر جھٹک کر دوبارہ منہ موڑ لیا۔
”مجھے ندامت کا احساس اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب میں غار سے باہر آیا، مگر یہ احساس افسوس اور شرمندگی میں اس وقت تبدیل ہوا جب ڈینیل نے مجھے تمہارے جانے کے بارے میں بتایا۔ آئی ایم ایکسٹریملی سوری فار ایوری تھنگ۔” اس کے دھیمے، گمبھیر لہجے میں ندامت اور شرمندگی صا ف محسوس ہورہی تھی۔ اس کی بات سن کر مرم غصے سے پھٹ پڑی۔ اپنی توہین اور ہتک کا احساس ایک بار پھر حاوی ہوا۔
”تم مشہور ہو اور چند لوگ تمہارا شو دیکھتے ہیں اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تم کوئی بہت ہی توپ چیز ہو۔ سلیبرٹی ہو گے تم اپنے ملک میں۔ یہاں کوئی تمہیں نہیں پہچانتا۔ سیڑھی…ہونہہ۔” وہ لب بھینچ کر چپ ہو گئی ورنہ دل تو کر رہا تھا اسے خوب ٹھیک ٹھاک سنائے۔
”مجھے اندازہ ہے میرے الفاظ بہت سخت تھے۔ مجھے معاف کر دو۔” وہ دل سے شرمندہ تھا تبھی اس نے مرم کے لہجے اور الفاظ کو درگزر کیا تھا۔
”اٹس اوکے۔” گہری سانس لے کر اس نے اپنے غصے پر قابو پایا اور سر جھٹک کر گویا ہوئی۔
”مگر ایک بات میں ضرور کہنا چاہوں گی کہ میں اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر تم سے دوستی اور بات کرنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ ورنہ اور کوئی مقصد نہیں چھپا تھا اس بے تکلفی کے پیچھے۔ اس رات تم نے میری جان بچائی بس یہی سوچ کر میں نے دوستانہ رویہ اپنانا چاہا جسے تم نے نہ جانے کیا سمجھا۔ میری کوئی بات تمہیں بری لگی اس کے لیے میں بھی معذرت خواہ ہوں۔ ” مرم نے سنجیدگی سے سامنے دیکھتے ہوئے وضاحت کی۔ وہ فطرتاً صلح جو اور ملنسار لڑکی تھی۔ دل میں بغض اور عناد رکھنا اسے آتا ہی نہیں تھا۔غصے میں اپنی بھڑاس نکال کر وہ سب بھول بھال جاتی تھی۔ اس لیے ایک مرتبہ کی معافی پر اس نے بھی اپنا دل صاف کر لیا۔
”نہیں تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں بس یہ بتا ؤکہ اب تم واپس تو نہیں جا رہی نا۔” جیف اس کا تبدیل شدہ فیصلہ اس کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔
”نہیں واپس تو میں جا ہی رہی ہوں آج کے ٹرپ کے بعد۔” مرم نے گہری سانس لیتے ہوئے بتایا، تو جیف حیران ہوا۔
”مگر کیوں ؟ تم میری وجہ سے جا رہی تھی نا؟ تو ابھی میں نے معافی مانگی جو تم نے قبول بھی کر لی؟ پھر اب کیوں؟” اُس نے اچنبھے سے پوچھا۔
”بس مجھے ددا اور موری یاد آ رہے ہیں۔ مجھے ان سے ملنے جانا ہے اور پھر یہ تم تینوں دوستوں کا ٹرپ ہے۔ اس میں، میں نہ جانے کیا کر رہی ہوں۔”
”تم ہماری گائیڈ اور دوست کے فرائض بھی انجام دے رہی ہو۔” جیف نے اس بار مسکراتے ہوئے کہا۔
”گائیڈ تک تو ٹھیک ہے، مگر دوستی کا پتا نہیں۔” مرم نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا، تو جیف سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد دوبارہ گویا ہوا۔
”کیا ہم اچھے دوست بن سکتے ہیں؟” لہجہ نارمل بناتے ہوئے اس نے مرم کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ مرم نا سمجھی سے کبھی اسے اور کبھی اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔
”دیکھو نا ابھی تم نے کہا کہ دوستی کا پتا نہیں تو پتا کرنے کے لیے ہی میں تمہیں آفر کر رہا ہوں۔” جیف نے سادگی سے کہا۔
”ہاں تاکہ چند دن بعد پھر تم یہ بولو کہ میں سیڑھی سمجھ رہی ہوں تمہیں۔” مرم نے سر جھٹک کر جلے کٹے انداز میں کہا۔
”کسی مشہور ہستی نے کہا ہے کہ جب سوال کے جواب میں ”طعنے” ملنے لگیں تو سمجھ لو کہ دوستی پکی ہو چکی ہے۔” ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے اس نے خوبصورتی سے بات گھمائی۔ مرم نے جواباً کچھ نہیں کہا جس کا مطلب تھا وہ اس کی بات سے اتفاق کرتی ہے۔ چند منٹ اِن کے بیچ خاموشی چھائی رہی۔ ایک مرتبہ پھر جیف اسے پر سوچ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے تجسس کا گلا مزید نہیں گھونٹ سکتا۔
”مرم ایک بات پوچھوں تم مائنڈ تو نہیں کرو گی؟ نہ بتانا چاہو تو مت بتانا۔”
”ابراہیم تم ہر ایک کو اپنے جیسا کیوں سمجھتے ہو؟” وہ اپنے ازلی پراعتماد اور دوستانہ انداز میں گویا ہوئی۔
”تم… تم وہاں اس درخت کے پیچھے کیا کر رہی تھی۔ میرا مطلب ہے کہ ابھی…” وہ جھجک کر رک گیا۔ پتا نہیں یہ سوال مناسب تھا یا نہیں۔ یورپ میںزندگی گزارنے کے بعد اس نے یہی سیکھا تھا کہ وہاں کسی کے مذہب کے بارے میں پوچھنا بدتہذیبی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
”تمہارے خیال میں، میں درخت کو سجدہ کر رہی تھی؟ ہے نا ابراہیم؟ مگر یقین جانو وہ کوئی مقدس، پاک اور نایاب درخت نہیں تھا جسے میں سجدہ کرتی اور اگر تم نے نوٹ کیا ہو تو میں اس درخت کے برابر بیٹھی ہوئی تھی نہ کہ سامنے۔” تو گویا وہ جانتی تھی کہ جیف اسے وہاں دیکھ چکا ہے اس لیے چونکنے کے بہ جائے اس نے تحمل سے جواب دیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۳)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!