مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

سیاہ چیتا ناجانے کیسے علاقہ غیر میں داخل ہو گیا تھا۔ رات کے اندھیرے میں وہ جان نہیں پایا تھا کہ وہ بھٹک کر اپنی راجدھانی سے بہت دور آچکا تھا یا پھر وہ جان بوجھ کر وہاں داخل ہوا تھا۔ شاید اسے اپنی چستی اورقوت پر بہت زیادہ ناز تھا جو وہاں چلا آیا جو بھی تھا، مگر اب وہ نہایت ہوشیاری اور احتیاط سے اپنی بھوک مٹانے کا کوئی سامان ڈھونڈ رہا تھا۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اس کی موجودگی کا احساس اس کی سنہری چمکتی آنکھوں سے ہو رہا تھا یا پھر اس کی سیاہ لمبی دم کی سرسراہٹ سے۔
اپنی خوف ناک چمکتی آنکھوں کو وہ بہت پھرتی سے دائیں بائیں گھوما رہا تھا کہ کہیں کسی شکار کا سراغ مل جائے۔ چند لمحوں بعد وہ چونک کر رک گیا پھر اس نے ایک ان دیکھے دائرے کے گرد دو سے تین چکر لگائے۔ وہ اپنے ارد گرد کا جائزہ لینے میں مگن تھا کہ اچانک خاموش فضا میں کہیں سے ایک خوفناک غراہٹ گونجی اور اس کا جواب بہت سی ایسی ہی وحشت ناک غراہٹوں سے دیا گیا۔ شاید اس علاقے کا اصل بادشاہ اپنی ”فوج” سمیت وہاں پہنچ چکا تھا۔ سیاہ چیتا اب گھبرایا ہوا تھا۔
اب اندھیری رات میں مزید چمکتی آنکھیں پودوں اور جھاڑیوں میں سے جھلکتی دکھائی دے رہی تھیں اور پھر بہت آہستہ آہستہ تمام آنکھیں جھاڑیوں میں سے نکل کر اس سیاہ چیتے کے رو برو آتی گئیں۔ لگ بھگ آٹھ سے دس بھورے چیتے اس کو خوں خوار نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
سیاہ چیتے کو اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا گیا کیوںکہ اب وہ غیر محسوس طریقے سے پیچھے ہٹ رہا تھا۔ شاید وہ جان چکا تھا کہ وہ واقعی ”غیر” کا علاقہ تھا۔ اس کے مقابل کھڑے تمام چیتوں کی نسل اِس کی نسل سے مختلف تھی۔ وہ سب اسے انجان نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ وہاں تنہا تھا اور اس کے بھوکے وجود میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ان سب کا مقابلہ کر پاتا۔ وہ تمام اب بھی غراتے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہے تھے اور چند ہی لمحوں میں ان تمام چیتوں نے اسے گھیر لیا۔ سیاہ چیتا بھی اب غرانے لگا اور مسلسل چکر کاٹ رہا تھا۔ گھیرا لمحہ بہ لمحہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ سیاہ چیتے کو اپنی موت چند قدموں کے فاصلے پر دکھائی دے رہی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

وہ دونوں فلم بناتے ہوئے شاید بہت دور نکل چکے تھے۔جب کہ وہ وہیں کھڑا عجیب وغریب اور اپنی نوعیت کا سب سے منفرد تہوار دیکھ رہا تھا۔ آج تک اس نے جتنے بھی تہوار فلم بند کیے تھے ان میں سب سے زیادہ عجیب اور انوکھاترین۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک کے بعد ایک آدمی آتا اور میٹرس پر سوئے ہوئے بچوں کے اوپر سے پھلانگ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ جب بھی کوئی نیا آدمی قریب آتا دکھائی دیتا تو سڑک کے دونوں جانب قطار کی صورت میں کھڑے لوگ پریشانی اور تشویش سے اسے دیکھتے کہ کیا وہ کامیابی کے ساتھ یہ مارکہ سر کر سکتا ہے یا نہیں؟ اور جب وہ میٹرس پھلانگتا ہوا آگے بڑھ جاتا تو تماشائیوں کی رکی ہوئی سانسیں بحال ہو جاتیں اور ساتھ ساتھ وہ خوشی سے تالیاں بجاتے ہوئے کودنے والے آدمی کی مہارت کو داد بھی دیتے۔ آدمی کے گزر جانے کے بعد ان بچوں کے ماں باپ نزدیک آتے اور ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرنے کے بعد جوش اور محبت سے انہیں اپنی آغوش میں بھر لیتے۔
وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اسپین کے ایک قدیم شہر برگس (Burgos) میں عالمی شہرت رکھتے، چار سو سال پرانے اس منفرد اور خطرناک تہوار کی فلم بندی کرنے آیا تھا۔ بے بی جمپنگ (baby jumping) کے نام سے مشہور اس تہوار میں اس سال پیدا ہوئے بچوں کو سڑک کے بیچ رکھے گدے پر لٹا دیا جاتا ہے۔ پھر قریبی گاؤں کے مرد پیلا اور سرخ لباس پہنے، شیطانی بہروپ میں آتے اور ان بچوں کے اوپر سے پھلانگتے چلے جاتے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے ان بچوں کے اندر موجود گناہ کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی اور ان کی بلائیں ٹل جاتیں ہیں۔ ہر قسم کی بیماری سے انہیں نجات مل جاتی ہے اور ان کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ آخر میں ان ”معصوم” اور ”پاک” بچوں پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں خوشی کی علامت کے طور پر۔
اس انوکھے منظر کو دیکھتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ کاش یہیں کھڑے کھڑے وقت تیس سال پیچھے چلا جائے اور پھر اس کے ماں باپ بھی اسے ان بچوں کے ساتھ اس بستر پر لٹا دیں اور کوئی ایسے ہی اس کے اوپر سے گزر کر اس کی تقدیر میں لکھی سیاہی کو مٹا دے اور پھر انہی ماؤں کی طرح اس کی ماں بھی ایسے ہی اسے اپنی آغوش میں سمو لے، مگر وقت کو پلٹانا اور تقدیر بدلنا تو ایک الٰہی امر ہے۔ اس جیسے عام سے آدمی کے لیے وقت کیسے پلٹ سکتا تھا؟
٭…٭…٭
مجھے پتا ہے وہ بہت آگے جائے گا۔ شہرت کی بلندیوں کو چھونا اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ جب وہ ایسا کوئی مقام حاصل کر لے تو میں لوگوں کو بتاؤں کہ دیکھو میں وہ ہوں جسے اس جیسا کامیاب بندہ چاہتا ہے۔ دروازے کے اس پار سے اسے اس لڑکی کی اٹھلاتی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
”اتنی محبت ہے تمہیں اس سے؟” کسی سہیلی نے دریافت کیا تھا۔
”محبت ؟”وہ دھیمے سے ہنسی۔
”محبت نہیں محبت کا جھانسا۔” ایک بار پھر اس کی ہنسی گونجی۔
”تمہیں تو پتا ہے کہ میں ماڈل بننا چاہتی ہوں۔ بہت زیادہ نام، پیسہ اور شہرت حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ وہ بس ایک سیڑھی ہے میرے لیے یہ سب حاصل کرنے کی ۔ ورنہ اس جیسے الو سے کون محبت کر سکتا ہے ؟ اس ملک میں اس سے کہیں بہتر لڑکے موجود ہیں محبت کرنے کے لیے مگر وہ سب کنگال اور نکمے ہیں۔ بہت سوں کو پرکھ چکی ہوں میں۔ سب کے سب ہر وقت خالی خولی محبت کا راگ الاپتے رہتے تھے۔ یہ واحد بندہ ہے جو میری محبت میں ڈوب کر میرے لیے دنیا کو تسخیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سو مجھے اسی کا انتخاب کرنا تھا نا۔” آج باہر کھڑے اس ہارے ہوئے نوجوان شخص کو وجہ سمجھ آئی تھی کہ وہ کیوں اپنے آپ کو اکثر حسین ناگن کہا کرتی تھی۔
وہ مذاق میں کبھی کبھی اسے چھیڑا کرتا تھا کہ اس نے حسن سے اس کا شکار کیا ہے اور آج اسے ادراک ہوا کہ یہی حقیقت تھی۔ وہ واقعی اس کا شکار ہی تھا۔ بند دروازے کے پیچھے سے بھی وہ اس حسین ناگن کا مکروہ چہرہ دیکھ سکتا تھا۔ وہ ناگن اسے گھیر کر اپنا پھن تو پھیلا ہی چکی تھی۔ بس اب ڈسنا باقی رہ گیا تھا۔ وہ لڑکی اور بھی بہت کچھ بول رہی تھی۔ اس کی تمسخر سے بھری آواز باہر کھڑے نوجوان کو صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ آواز اسے کہیں دور…بہت دور دھکیل رہی تھی۔
٭…٭…٭
میں سامنے بہتے دریا میں چھوٹے چھوٹے پتھرپھینکتا غیرحاضر دماغی سے بیٹھا تھا۔ وادی نیلم کے روح افزا نظارے میں میری دل چسپی نہ ہونے کے برابر تھی اور اس کی وجہ وہ شکستگی اور تنہائی تھی جس نے اس وقت میرے پورے وجود کا احاطہ کیا ہوا تھا۔ اپنی پشت سے آتی آوازیں مجھے سخت بری لگ رہی تھیں۔ قہقہے، ہنگامے، خوشی کے نعرے، سب زہر لگ رہے تھے اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ ان ہنستے کھیلتے بچوں کو کسی بھی طرح خاموش کرا دوں۔
ابھی کچھ ہی دیر پہلے میں بھی بہت شوق سے آیا تھا۔ ان بچوں کے ساتھ کھیلنے مگر ان بچوں نے مجھے اپنے ساتھ کھلانے سے انکار کر دیا۔
” تم ہمارے ساتھ نہیں کھیل سکتے کیوںکہ تم ہم جیسے نہیں ہو۔ جا ؤ اپنے لیے کوئی اپنے جیسا ہی ساتھی ڈھونڈو۔” مجھ سے دو سال بڑے بھائی نے تمسخر سے مسکرا کر کہا تو سب ہنسی میں لوٹ پوٹ ہوگئے۔
”لیکن یہ اپنے جیسا کہاں ڈھونڈے گا؟ اس جیسا کوئی بھی تو نہیں اس پورے گاؤں میں۔” ایک کزن نے پر سوچ انداز میں کہا۔ میں بس سر جھکائے کھڑا ان کی باتیں سننے پر مجبور تھا۔
”لیکن ایک جگہ ہے ایسی جہاں اس جیسے بہت سے لوگ رہتے ہیں۔” میرے بھائی نے معنی خیز نظروں سے کہا۔
”کہاں؟” بہت سے بچوں نے کورس میں پوچھا۔
”افریقہ کے جنگلات۔” جواب ملنے پر وہ سب مجھ پر کافی دیر تک ہنستے رہے اور پھر سے کھیل میں مگن ہو گئے۔ جب کہ میں آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو لیے دریائے نیلم کنارے بنے ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھ گیا۔ میرے ساتھ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔ میرے بہن بھائی، کزنز اور گاؤں کے دوسرے لڑکے ہمیشہ مجھے ایسے ہی تضحیک کا نشانہ بنا کر ساتھ کھیلنے سے انکار کردیتے تھے کیوں کہ میں اپنے خاندان کا ”نظر بٹو” تھا۔
٭…٭…٭
جیف (Jeff)ابراہیم اور پیٹر گرانٹ سیاحت و تفریح کی دنیا کے جانے مانے نام تھے۔ ان کی ٹیم یورپ کے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے علاقائی،مذہبی اور ثقافتی تہواروں کی دستاویزی فلمیںبنایا کرتی تھی جنہیںیو کے کا ایک ٹریول چینل ”کریزی فیسٹیولز آف یورپ” کے نام سے نشر کرتاتھا۔ ان کی ٹیم میں کل تین لوگ تھے۔ پیٹر ہدایت کار اور پروڈیوسر تھا۔ایک دورے (ٹور) کے لیے درکار سارا چندہ اور سرمایہ کاری وہی فراہم کرتا تھا۔ کون سا تہوار کب اور کہاں منعقد ہو رہا ہے یہ سب معلومات حاصل کرنا اسی کی ذمہ داری تھی اور وہی سفر کو ترتیب دیتا تھا۔ ڈینیل ایک پیشہ ورکیمرا مین تھا جب کہ جیف ابراہیم شو کا میزبان اور سفری راہنما (ٹریول گائیڈ) تھا۔ کیمرے کے سامنے وہی اپنے الفاظ مہارت سے استعمال کرتے ہوئے ناظرین کی دل چسپی کو برقرار رکھتا تھا۔ اس کی گمبھیر آواز میں تہوار سے متعلق سنائی جانے والی تاریخ اور کہانیاں اس کے ناظرین کو بور اور بیزار نہیں ہونے دیتے تھے۔ پچھلے دو سالوں میں وہ اٹلی اور اسپین میں منعقد ہونے والے بہت سے تہوار اور میلے فلم بند کر چکے تھے۔ وہ تینوںبھرپور محنت اور لگن سے اپنا اپنا کام کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ بہت تھوڑے عرصے میں ان کا پروگرام شہرت کی بلندیوں کو پہنچ چکا تھا اوران کے مداحوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد فیس بک اور ٹویٹر پر انہیں اور ان کے پروگرام کو ”فالو” کرتی تھی۔ ان کی یہی کوشش رہتی کہ منفرد اور دل چسپ دستاویزی فلموں سے اپنے ناظرین کی معلومات میں اضافہ کریں۔
ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ تینوں اچھے دوست بھی تھے۔ سال کا زیادہ تر حصہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزارتے۔ اس لیے کافی بے تکلف تھے۔ بالخصوص پیٹر اورڈینیل کی دوستی مثالی تھی۔ دونوں ہی شوخ مزاج، زندہ دل، سیاحت اور پر ہمت مہمات کے شوقین تھے۔ ہاں جیف ابراہیم ان سے کچھ مختلف تھا۔ ایک تو وہ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے ان کی ٹیم میں شامل ہوا تھا دوسرا وہ فطرتاً خاموش اور سنجیدہ مزاج تھا۔ وہ اس دوستی کو اہمیت ضرور دیتا تھا مگر ہمیشہ ایک حد میں رہتے ہوئے اور وہ دونوں اس کی فطرت اور مزاج کا احترام کرتے تھے۔ پچھلے سات آٹھ ماہ سے وہ اسپین کے ٹور پر تھے۔ انوکھے اور حیرت انگیز تہواروں سے بھری اس سرزمین پر انہوں نے اپنی زندگی کے بہت سے یادگار دن گزارے تھے۔ اس سرزمین میں بسنے والوں کی طرح انہوں نے بھی ہر منفرد اور دلچسپ تہوار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ چاہے وہ سنسنی خیز بل رننگ ) running bull ( فیسٹیول ہو یا پھر منفرد ترین نیئر ڈیتھ (near death) فیسٹیول یا بے مثال لاس فیلاس fallas) las ( کا میلا۔ اپنے اس تفریحی سفر کو انہوں نے اسپنش لوگوں کی طرح ہی گزارا تھا۔ہر انوکھے تہوار سے انوکھی خوشی کشید کر، مگر اب ان کا یہ سفر اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ اگلے ہفتے وہ ایک نئی منزل کی طرف سفر شروع کرنے والے تھے اور ان کا اگلا پڑاؤ لوک داستانوں کی سرزمین پر تھا۔
٭…٭…٭
”تمہارا اس ہفتے کا شو دیکھا میں نے بہت زبردست تھا ہمیشہ کی طرح۔” ایملی نے مشروب کا گھونٹ لیتے ہوئے ایک بار پھر تعریفی جملہ کہا۔ پچھلے ایک گھنٹے میں اس طرح کے بہت سے جملے وہ متعدد بار بول چکی تھی۔ ایک دو بار تو اس نے مسکرا کر شکریہ ادا کر دیا، مگر اب اسے ان مصنوعی تعریفی کلمات سے الجھن ہو رہی تھی۔ اس لیے اس بار اس نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
” یہ آسمانی بلو شرٹ بہت جچ رہی ہے تم پر۔”اف ایک بار پھر تعریفوں کا جال بنا جا رہا ہے۔ اس نے کوفت سے سوچا۔
وہ اس وقت پیٹر کے گھر الوداعی ڈنر میں آیا ہوا تھا جو پیٹر کی بیوی کرسٹی نے ان تینوں کے نئے سفر کے سلسلے میں رکھا تھا۔ اس سمیت صرف ڈینیل اور اس کی منگیتر نینسی اور کرسٹی کی بہن ایملی ہی یہاں مدعو تھے۔ کھانے کے بعد سب لوگ باتوں میں مشغول تھے اور وہ ہمیشہ کی طرح الگ تھلگ سا بیٹھا نیوز سن رہا تھا جب ایملی اس کے برابر آ کر بیٹھ گئی۔
” اتنے سنجیدہ اور بے رنگ کیوں ہو تم؟” کوئی جواب نہ پا کر اب کہ اس نے جھنجھلا کر پوچھا اور اس کے مزید نزدیک ہو گئی یوں کہ اب اس کا نیم عریاں کندھا جیف کے چوڑے شانے سے مس ہو رہا تھا۔
” پلیز مجھے یہ سب پسند نہیں۔” اس نے دھیمی آواز میں اسے تنبیہ کی تو وہ مسکرا کر تھوڑی پرے ہٹ گئی۔
” بس تمہاری ایسی باتوں نے تو مجھے تمہارا دیوانہ بنا دیا ہے۔ ورنہ آج کل کون ایسا مضبوط کردار رکھتا ہو گا؟” اس نے معنی خیز مسکراہٹ سجا کر کہا، تو جیف بے بسی سے لب بھینچ گیا۔ دوست کی بیوی ہونے کی حیثیت سے وہ کرسٹی کی بہت عزت کرتا تھا اور اسی کی وجہ سے وہ ایملی کو کوئی سخت بات نہیں کہنا چاہتا تھا، مگر اب وہ اس لڑکی کی بے باک حرکتوں اور باتوں سے تنگ آ چکا تھا۔ نہ جانے کس طرح پہلی ملاقات ہی سے ایملی اس میں دل چسپی لینے لگی تھی۔ ایک دو مرتبہ تو وہ اس سے اظہار محبت بھی کر چکی تھی جسے وہ بے نیازی سے ان سنی کرگیا تھا۔ جیف کو ایملی سمیت کسی بھی لڑکی میں کوئی دل چسپی نہیں تھی کیوں کہ وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ لڑکیاں کس طرح کی فطرت رکھتیں ہیں۔ اسے ادراک تھا کہ ان تمام کو جیف کی اپنی ذات سے زیادہ اس کی دولت اور شہرت میں دل چسپی ہے۔ اسے اپنے ساتھ پارٹیز میں لے جا کر اپنی دوستوں کو جلانے اور حسد میں مبتلا کرنے کا خبط ہے۔اپنے نام کو اس کے نام کے ساتھ جوڑ کر اپنی برتری دنیا پر ثابت کرنے کا جنون ہے اور یہ سب سوچنے میں وہ حق بہ جانب تھا کیوں کہ اس معاملے میں اس کے تجربات کافی تلخ رہے تھے۔
” جیف یار کہاں گم ہو؟” ماضی کی چبھتی یادوں سے چونک کر وہ ڈینیل کی طرف متوجہ ہوا جو اسی سے مخاطب تھا۔
” تم نے جواب نہیں دیا نینسی کے سوال کا؟”
” کیسا سوال؟”’وہ سنبھل کر گویا ہوا۔
” یہی کہ اس ٹیم میں بس تم ہی چھرے چھانٹ ہو۔ دنیا کی کسی ایک لڑکی کو تو مسز جیف ابراہیم ہونے کا شرف بخش دو۔” ڈینیل شرارتی لہجے میں بولا۔
” نہیں میرا کوئی ارادہ نہیں کسی کو بھی مسز ” جیف” بنانے کا۔” اس نے اپنے نام پر بالخصوص زور دیتے ہوئے بلا کی سنجیدگی سے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ اس کے جواب پر پیٹر اور ڈینیل کے مابین معنی خیز نظروں کا تبادلہ ہوا۔آج ایک بار پھر انہیں اس کے لہجے میں کچھ غیر معمولی پن محسوس ہوا تھا جو لاشعوری طور پر کبھی نہ کبھی اس کے انداز اور باتوں سے جھلک ہی جاتا تھا۔
” کیوں ؟” کرسٹی نے ایملی کو ایک نظر دیکھ کر پر سوچ انداز میں پوچھا ۔
” بس ابھی کوئی ایسا ارادہ نہیں۔ جب ہو گا تو آپ لوگوں کو ہی بتاؤں گا سب سے پہلے۔” ایک بار پھر بے نیازی کا خول چڑھا کر اس نے جان چھڑانا چاہی۔
” وہیں سے کوئی ڈھونڈ لینا اپنے لیے۔ وہاں کے میچ میکنگ فیسٹیول کی دھوم پوری دنیا میں ہے۔” نینسی کے مخلصانہ مشورے پر وہ مبہم سا مسکرایا۔
”ہاں ہاں بالکل ہم دونوں اس کی بھرپور مدد کریں گے ۔کیوں پیٹر ؟”ڈینیل نے پیٹر کی تائید چاہی تو اس نے فوراً حامی بھری۔
” اور ہاں جیف دھیان رکھنا کہیں تمہاری آڑ میں یہ دونوں وہاں اپنی میچ میکنگ نہ کرنے لگیں۔” نینسی نے اسے چوکس رہنے کو کہا، تو اس سمیت ڈینیل اور پیٹر بھی مسکرا دیے۔ کرسٹی اب مسلسل ایملی کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کر کے سمجھا رہی تھی کہ جیف ابراہیم پر وقت برباد کرنا چھوڑ دو۔
اپنے منفی تجربات کی بنا پر جیف نے مصمم ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ کبھی کسی لڑکی کو موقع نہیں دے گا اپنے قریب بھی پھٹکنے کا،مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ مستقبل قریب میں اس کا واسطہ ایک ڈھیٹ اور منچلی لڑکی سے پڑنے والا تھا۔ایک ایسی لڑکی جو اس کے مضبوط ارادوں کو توڑ کر رب کی قدرت کاملہ اور اٹل فیصلوں کی پہچان کرانے اس کی زندگی میں قدم رکھنے والی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

چہرہ — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۲)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!