گھنٹہ بھر کوشش کرنے کے بعد بھی میں بمشکل چند لائنیں کاغذ پر گھسیٹ پایا تھا۔ جھنجھلاہٹ کے عالم میں قلم کاغذ پر پٹختے ہوئے میں نے گہرا سانس لیا۔ جولائی کا مہینہ اختتام پذیر تھا۔ اس موسم میں عموماً لاہور کی ہوائیں شعلے برسارہی ہوتی ہیں، مگر گزشتہ دو تین دن کی وقفہ وقفہ سے ہونے والی بارشوں کے باعث موسم خاصا خوشگوار ہوگیا تھا۔ تاہم بارش کے بعد تالاب بن جانیوالی سڑکوں کو اصل حالت میں واپس آنے کیلئے تھوڑا وقت درکار تھا۔ موسم خوشگوار ہونے کے باعث باغ میں خاصی چہل پہل نظر آرہی تھی ورنہ عموماً اس وقت یہ جگہ سنسان ہوا کرتی تھی۔ اِدھر سے اُدھر بھاگتے ہوئے بچے کولڈ ڈرنکس، چپس اور آئس کریم تھامے خاصا چہک رہے تھے۔ میں نے فائل ایک سائڈ پر رکھ کر پاس پڑا ہوا اخبار اُٹھا لیا۔ خبروں پر ایک سرسری نظر ڈال کر بے زاری سے سرہلاتے ہوئے اخبار فولڈ کرکے دوبارہ بنچ پر رکھ دیا۔ لوڈشیڈنگ، پانی کا بحران، مہنگائی، کرپشن، تیل کی چڑھتی ہوئی قیمتیں، غیرت کے نام پر قتل جیسی خبروں سے بھرا ہوا یہ اخبار کسی بھی نارمل انسان کو محض چند منٹوں میں فرسٹریشن کا شکار کردینے کے لئے کافی تھا۔ یاور میرے ہاتھ میں دبے ہوئے اخبار کو دیکھ کر اکثر اُسے بلڈپریشر ہائی کرنے اور ہارٹ اٹیک کروانے کا سب سے آزمودہ نسخہ قرار دیا کرتا تھا۔ مگر کیا کیا جاسکتا تھا کہ ہماری فیلڈ ہی ایسی تھی کہ خبر اور اخبار ہی کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا تھے۔ اس لئے ممکن ہی نہ تھا کہ باقی لوگوں کی طرح کبوتر بن کر آنکھیں بند کرلیتے اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے۔
”سر میرا خیال ہے کہ اخبار میں جگہ جگہ قیمتوں سے متعلق بکھری ہوئی خبروں کی بجائے ہم الگ سے مہنگائی ویکلی (weekly) ایڈیشن نہ شائع کرنا شروع کردیں۔ ”یاور اکثر مذاق میں کہتا تو ایڈیٹر صاحب اپنی عینک کے اوپر سے اُسے گھورتے ہوئے جواب دیتے۔
”ہاں پھر اس کے جو چارجز ہوں گے وہ تم اپنی سیلری میں سے کٹوانا۔ کیونکہ کاغذ کون سادرختوں پر لگے ہوتے ہیں۔ ان کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔”
انہوں نے کاغذوں کا ایک انبار ڈسٹ بن کی نذر کیا۔
”قیمتیں تو ہر چیز کی ہی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اللہ کا شکر کہ آکسیجن پر ٹیکس نہیں لگا، ورنہ امیروں کے تو گودام سلنڈروں سے بھرے ہوتے اور غریب بے چارے سانس بھی مہینوں بعد ہی لیتے۔” اس نے تشکرانہ لہجہ اختیار کیا۔
”برخوردار! آج کل کے زمانے میں کوئی بھی چیز سستی نہیں ہے۔” اُنہوں نے فائلو ں میں سر گھسیڑا۔
”سوائے انسانی جان کے!” نہ چاہتے ہوئے بھی میری زبان اکثر پھسل جاتی۔
”حیرت ہے شکیلہ! بھابی تمہاری بچے سمیت کب سے میکہ بیٹھی ہوئی ہے اور تم ہو کہ ان کی محبت میں مری جارہی ہو۔” ثنا کی آواز مجھے حال میں کھینچ کر واپس لے آئی وہ شکیلہ کی فرمائش پر بچوں کے کپڑے اور کھلونے چھانٹی کرکے ایک طرف رکھتی جارہی تھی جنہیں شکیلہ محترمہ شاپرز میں بھرتی جارہی تھی۔ وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی۔ کبھی کتابیں لے کر ثنا کے پاس پہنچ جاتی تو کسی دن انگلش کے آدھے ادھورے جملے کہیں سے سن کر آجاتی اور پھر ان کا مطلب پوچھ پوچھ کر ثنا کو اُلجھائے رکھتی۔
”باجی ہو آر یو کا کیا مطلب ہے۔”
”اور آئی ایم کا؟” ثنا زچ ہوجاتی ۔ اس روز بھی وہ سامان چھانٹی کروانے کے ساتھ ساتھ آدھے ادھورے جملوں سے اُسے تپائے جارہی تھی۔
”بھابی میکے جاکر بیٹھی ہے تو قصور بھی تو بھائی کا ہی ہے نا۔” اس نے کھلونے سمیٹ کر شاپر میں ڈالے۔
”تم دنیا کی پہلی نند ہو جو بھابی کی نہ صرف طرفداری کررہی ہے بلکہ ہر بار اتنی چیزیں بھی جمع کرکے لے کر جاتی ہے بھابی اور بھتیجے کیلئے۔” ثنا نے حیرت کا اظہار کیا۔
”غلطی میرے بھائی کی ہی ہے جی۔ اس کا چکر چل رہا ہے میری چاچی کے ساتھ ۔” اس نے منہ بنایا جبکہ ثنا حیران رہ گئی۔
”چاچی کے ساتھ؟” اس کے حرکت کرتے ہوئے ہاتھ یوں ساکت ہوئے جیسے ایٹم بم گرنے کی خبر پڑھ لی ہو۔
”تو تمہارے چچا اور باقی خاندان والے کچھ کہتے نہیں؟”
”چچا کی تو وفات ہوگئی ہے۔ کافی بڑے تھے چاچی سے عمر میں۔ اب کون روک ٹوک کرے؟”اس نے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تو تم لوگ چاچی کو ا س کے والدین کے گھر بھیج دو۔ اولاد بھی نہیں ہے وہ اس کی کسی اچھی جگہ شادی کروادیں۔” ثنا نے سمجھدار کا مظاہرہ کیا۔
” اچھی جگہ؟ جب کنواری تھی تب بڑی عمر والے سے بیاہ دی تھی تو اب کون سا اچھا رشتہ ملے گا بھلا۔ والدین لے کر جانا بھی نہیں چاہتے۔ گھر میں آگے چار جوان لڑکیاں بیٹھی بڈھی ہورہی ہیں تو بیوہ بیٹی کے رشتہ اور کھانے پینے کی ذمہ داری کون اُٹھائے۔” وہ یوں ہنسی جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔
”مگر ان کو اس سب معاملے سے کوئی بڑا آگاہ کرے تب تو وہ یقینا لے ہی جائیں گے۔ اُنہیں بھی تو پتہ چلے کہ ان کی بیٹی بیوگی کے بعد ان کی عزت کو بٹہ لگارہی ہے اور کسی کا گھر خراب کررہی ہے۔” ثنا جذباتی ہوگئی تھی۔
”باجی اس کا بوڑھا باپ بستر پر پڑا ہے۔ ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے ۔ بہنیں بھی لوگوں کے کپڑے سیتی ہیں تب بھی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔ خالی پیٹ کسی نے عزت کا اچار ڈالنا ہے۔” وہ بے دھیانی میں بڑی گہری بات کر گئی تھی۔
”اب ایسی بھی بات نہیں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی کے پیچھے بیٹھی کی حرکتوں کی طرف سے آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائیں۔اُنہیں خبر تو کرو۔ اپنی اماں سے کہو وہ بات کریں۔ خود ہی سے سب اندازہ لگاکر بیٹھ گئے ہو۔” اس نے منہ بسورا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”انہیں سب پتہ ہے جی، آپ نہیں سمجھیں گی باجی! جہاں سارا دن کی بھاگ دوڑ کے بعد بھی رات کو پیٹ بھر کھانا نہ ملے وہاں ان باتوں کے بارے میں کون سوچتا ہے۔ ہمارے علاقے میں کبھی آکر دیکھیںہر گھرکا یہی حال ہے۔ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والی کنواری جوان بیٹیاں چاہے شام دیر سے گھر واپس آئیں اور کام زیادہ ہونے کا بہانہ کردیں اور چاہے نیا جوڑا میک اپ جیولری اور موبائل ہاتھ میں لے کر پھر یں کسی کو کوئی فکر نہیں ہوتی نہ کوئی کچھ پوچھتا ہے۔ دن بھر گھر گھر کام کرنیوالی اور رات کو میاں سے پٹ کر ہلدی ملنے والی ہماری ماؤں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ ہم سے تفتیش کرتی پھریں یا ہم پر نظر رکھ سکیں۔” اس کے لہجے اور انداز میں ایسا کچھ تھا کہ میں لمحہ بھر کو پین روک کر اُسے دیکھنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ وہ بیس بائیس سالہ لڑکی میچورٹی کے لحاظ سے اُس وقت اپنی عمر سے دگنی باتیں کررہی تھی مگر گھر کی چار دیواری میں مارننگ شوز دیکھ کر اور برانڈڈ کپڑے پہن کر زندگی گزارنے والی میری بیوی میں اتنی سمجھ بھلا کہاں سے آتی۔ سچ ہے کہ تجربہ سب سے بڑا استاد ہے۔ تب ہی تو ان پڑھ کام والی اس وقت خود استاد بنی بیٹھی تھی اور حسب توقع ثنا ناسمجھنے والے انداز میں شکیلہ کو گھور رہی تھی۔
”اب دیکھیں میری اماں صبح صفائی اور گھر کے تھوڑے بہت کام نمٹا کر سات بجے میرے ساتھ گھر سے نکلتی ہے۔ جمیلہ بچوں کی وجہ سے صبح کام کاج نہیں کرسکتی۔ دوپہر میں میں یا جمال واپس آتے ہیں تو وہ بچوں کو روٹی کھلا کر کام پر نکلتی ہے۔ جمال کھیل کود میں لگ جاتا ہے ایسے میں میں اگر شام دیر سے بھی واپس جاؤں تو پوچھنے والا کون بیٹھا ہے۔ سائیں اور بی بی کو تو خود کا ہوش نہیں ہوتا۔” اس نے اپنے معذور بھائی اور بہن کا نام لیا ۔ دو مرلہ کے اس کے مکان میں گھر کے افراد اور مسائل کا ایک انبار جمع تھا۔ لاہور کے علاقہ ”چونگی اَمر سدھو” کا ایک غریب گھرانہ جہاں ماں اور بڑا بھائی صبح کام کو نکلتے تو رات گئے واپس آتے۔ بڑی بہن جمیلہ جو تین بچوں کے بعد طلاق لے کر گھر آبیٹھی تھی خود گھروں میں کام کرکے بمشکل اپنے بچوں کا خرچا پورا کرتی۔پھر دو ذہنی معذور بھائی بہن جو سارا دن میلے کپڑوں اور منہ سے ٹپکتی رال کے ساتھ گھر ے دروازے پر بیٹھے رہتے۔ پھر شکیلہ تھی اور اس کا بھائی جمال جو کسی خیراتی سکول میں پڑھ رہا تھا۔ ایک یہی نہیں اس علاقے میں اکثریت ایسے ہی گھروں کی تھی۔ جگہ جگہ سرنجوں میں زہر بھر کر رگوں میں اُتارنے والے بھی نظر آجاتے تھے جوکہ معمولی بات تھی۔
میں جو پچھلے دو گھنٹوں سے کچھ لکھنے کی کوشش کررہا تھا کبھی بچوں کے شور اور کبھی بیگم کے اس بحث و مباحثہ سے ڈسٹرب ہوکر کاغذ کے گولے ڈسٹ بن کی نذ رکرتا جارہا تھا۔ تنگ آکر اپنا سارا سازوسامان اُٹھا کر میں تنہائی اور خاموشی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ کچھ روز قبل ایڈیٹر صاحب نے میگزین کے اسپیشل ایڈیشن کے لئے مجھے کوئی ہلکا پھلکا، مزاح سے بھرپور مضمون لکھنے کو کہا تھا جوکہ میری عادت اور لکھنے کے انداز دونوں کے ہی برعکس تھا۔
”سرآج کل کے دور میں ہلکا پھلکا اور آسان لکھنا ہی تو زیادہ بھاری اور مشکل کام ہے۔”
میں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔
”برخوردار! اس بات کا بھی تو دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ بھاری بھرکم اکثر خود پر ہی بھاری پڑتا ہے۔” اُنہوں نے ذومعنی لہجہ اختیار کیا۔ یہ حقیقت تھی کہ میرے لکھنے کے خاصے کھلے ڈلے اور بے باک سٹائل نے اُنہیں کئی بار ناکوں چنے چبوائے تھے۔ کئی بار تنبیہی نوٹس بھی مل چکے تھے۔ مگر مجھے لمبی چھٹی دینا ان کے بس میں نہیں تھا۔ کیونکہ میرے لکھے ہوئے کالم، مضامین اور آرٹیکل ان کے اخبار اور میگزین کی جان ہوتے تھے۔ کچھ مگرمچھوں اور گندی مچھلیوں کو چھوڑ کر میرے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ باقی تمام عوام خصوصاً متوسط طبقہ کے دل کی آواز ہوتے تھے جس کی بنا پر ان کا اخبار چل رہا تھا۔ ورنہ پرانے اخبار سے سالوں کی وابستگی کے بعد ان کی حالات کے مطابق بدلتی ہوئی حکمت ِ عملی کے سبب مجھے کنارا کشی اختیار کرنا پڑی تھی۔
”سعد! تم لکھنے میں بہت تلخ ہوجاتے ہو۔ عوام یہ سب پڑھنا نہیں چاہتی اور پھر اوپر سے بھی پریشر بڑھتا جارہا ہے اتنا سچ اور اتنی تلخی کسی سے ہضم نہیں ہوتی۔” پرانے اخبار کے ایڈیٹر صاحب عاجز آچکے تھے۔
”سر یہ سب منظر عام پر نہیں آئے گا تو معاشرے کی اصلاح کیسے ممکن ہوگی؟ غربت، بیروزگاری، کرپشن جیسے مسائل کو پس پشت ڈال کر غیر اہم اور بے فائدہ چیزوں پر صفحے کالے کرنے کا کیا فائدہ؟” میں پھر سے اُسی بحث لاحاصل میں پڑگیا تھا۔ اس تلخی کی وجہ میرا یہ نیا آرٹیکل بھی تھا جس کو پڑھ کر ہر صاحب قلم تعریفوں کے پل تو باندھتا مگر ساتھ ہی اسے چھاپنے سے معذرت کے الفاظ بھی ترتیب دینے لگتا۔
”ہماری اَسّی فیصد عوام پہلے ہی ان روز مرہ مسائل اور ٹینشنز سے بے زار ہو چکی ہے۔ تھوڑی دیر کو ان سوچوں اور مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لئے اگر وہ میگزین اُٹھا لیتے ہیں تو یقینا وہ اس میگزین میں یہ سب پڑھنا نہیں چاہتے۔ کچھ مزاح اور تفریح کا سامان ڈھونڈتے ہیں۔ گلیمر چاہتے ہیں۔ اس قسم کے آرٹیکل اورخبریں عوام کو مزید فرسٹریشن کے سوا کچھ نہیں دیتے۔” انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی۔
”اور گلیمر اور تفریح کیا ہے سر؟ آخر کیا لکھو ں میں؟ یہی کہ بسنت ایک ملکی اور ثقافتی تہوار ہے کیونکہ اب ثقافت کا مطلب محض ناچ گانا رہ گیا ہے۔ اگست کے مہینے میں ہفتہ دو ہفتہ گھرو ں پر قومی پرچم لہرا کر اندر بیٹھ کر انڈین ڈراموں سے لطف اندوز ہونا اور پھر جیوے جیوے پاکستان گالینا ”حب الوطنی” ہے؟ یا پھر اس بات پر بحث کروں کہ ویلنٹائن ڈے محبتوں کا تہوار ہے۔ نوجوانوں کی بے ضرر خوشیاں اور تفریحات ہیں ان میں اسلام کو نہ ٹھونسیں ۔ پر کونسی محبت سر؟ جس قوم کا بال بال سود اور قرضے میں جکڑا ہو کیا اُسے پھولوں کے کارڈز پر پیسے ضائع کرنا زیب دیتا ہے؟ جہاں آئے دن ماؤں کے لعل اُٹھائے جارہے ہوں اُن کے اعضا بیچے جارہے ہیں، تھر میں بچے فاقہ سے مررہے ہوںوہاں میں یہ بحث لاحاصل چھیڑدوں کہ فلاں ماڈل کوکافلاں سیاست دان کے ساتھ افیئر ہے یا نئی بالی ووڈ فلم کا فرسٹ ڈے فرسٹ شو ہاؤس فل گیا؟ کیا یہ قلم اور اس کی طاقت کے ساتھ مذاق نہیں ہوگا؟”
مجھے اب واقعتا غصہ آگیاتھا۔
”تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ آج کل کی عوام یہی سب دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں؟ اخبار بند کرکے میں کوئی فلاحی کام تو نہیں کرسکتا فی سبیل اللہ۔” ان کے انداز میں تضحیک کا عنصر نمایاں تھا۔ میں نے بحث کو ختم کردینا ہی مناسب سمجھا اور خاموشی سے اُٹھ کر وہاں سے چل دیا۔
مگر اگلے ہی دن اُنہیں اپنا استعفیٰ میل کرچکا تھا۔ پیسے ، شہرت ، نمبر ون کی دوڑ میں کسی کو یہ سمجھانا کہ کیا چیز مفید ہے اور کیا مضر ، حق کیا ہے اور باطل کیا اور کونسی چیز نشے کی لت سے بھی زیادہ مہلک ہے بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔
اس کے بعد بہت عرصہ مجھے فارغ ہی رہنا پڑا۔ جہاں میری ٹیلنٹ اور معلومات کو سراہا جاتا اور یہ بتایا جاتا کہ میں اس فیلڈ میں بہت آگے تک جاسکتا تھا وہیں پر اپنا سٹائل تھوڑا سا چینج کرنے کو بھی کہا جاتا۔اس سٹائل کی تبدیلی کے مفہوم سے میں اچھی طرح واقف تھا۔ مگر اس ضمیر کا کیا کرتا جو کسی طور نہ خاموش ہوتا تھا۔ مجھے سڑکوں پر بے مقصد گھومتے ہوئے ایک گھنٹہ سے اوپر ہوچکا تھا۔ فیروز پور روڈ سے قینچی اسٹاپ کراس کرتے ہوئے مجھے بیگم کا آرڈر یاد آگیا۔ شکر ہی تھا کہ گھر نہیں پہنچ گیاتھا ورنہ جھڑپ یقینی تھی۔ آج سنڈے تھا اور شام میں اُسے کسی تقریب میں جانا تھا سو اس کی لاڈلی شکیلہ کو شام میں بچوں کے پاس ٹھہرنے کا پیغام دینا لازمی تھا۔ گاڑی واپس موڑتے ہی مجھے دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ شدید بارش کے بعد اس علاقہ میں گاڑی لے کر جانا ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ ”چونگی امر سدھو” کا وہ علاقہ جہاں ذرا سی بارش کے بعد ہی جگہ جگہ گندے پانی کے جوہڑ بن جاتے تھے۔ مگر اس علاقہ کے بچے ان گندے پانی کے جوہڑوں کو سوئمنگ پول سمجھ کر انجوائے کرتے نظر آتے۔ شکیلہ کے گھر تک جاتے جاتے میرے صاف ستھرے لباس پر جگہ جگہ مختلف نقشے بن چکے تھے۔ واپسی پر مجھے چوک سے کچھ پہلے ”وہ ” اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھی نظر آئی۔اکثر اس راستے سے گزرتے ہوئے بہت سی دکانوں کے بیچوں بیچ موجود اس سبزی فروٹ کی چھوٹی سی ٹھیلا نما دکان پر میری نظر چند سیکنڈ کے لئے اس پرجارکتی تھی۔ میلا کچیلا، جگہ جگہ سے پھٹا ہوا لباس، گرد آلود گھونسلہ جیسے بال، میل سے آٹا ہوا جسم، لمبے سیاہ ناخن، چپل سے بے نیاز سیاہ گھر والے پیر کیچڑ میں مار مار کر وہ اردگرد کے ماحول سے بے نیاز نیچے گرا ہوا گلاسڑاپھل بھی یوں رغبت سے کھا رہی ہوتی جیسے کوئی بچہ آئس کریم یا چاکلیٹ سے لطف اندوز ہورہا ہو۔ ایک لمحہ کو تو مجھے اُبکائی سی آگئی تھی۔مگر کوئی بھی ذی ہوش انسان اس پر ایک نظر ڈال کر ہی یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس کی ذہنی حالت صاف گندے، اچھے برے کا تصور سمجھنے سے قاصر تھی۔ جو چیز پہلی ہی نظر میں دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچتی ان میں سے ایک تو اس کے ماتھے پر ابھرا ہوا سیاہ گوشت کا لوتھڑا جیسے الگ سے وہاں چپکایا گیا ہو اور کے علاوہ اس کے دائیں بازو پر موجود میل کچیل کے درمیان کسی پرانے اور گہرے زخم کے واضح نشانات تھے۔ اس تمام حلیہ کے باوجود اگر اس کا بغور جائزہ لیا جاتا تو اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس کی عمر کوئی تیس بتیس کے لگ بھگ تھی۔ یقینا وہ چند سال پہلے بہت خوبصورت بھی رہی ہوگی۔ مگر اس وقت تو اُسے اس حالت میں دیکھ کر سوائے کراہیت اور ترس کے اور کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اکثر وہ اسی ساٹھ ستر سالہ سبزی والے کی ریڑھی کے پاس بیٹھی کچھ کھانے میں مصروف نظر آتی۔ کبھی ہاتھ میں پکڑا باسی روٹی کا ٹکڑا، کوئی گلاسڑا پھل یا فنگس زدہ سالن جیسے کوئی بھی نارمل انسان دیکھ کر یا سونگھ کر ہی کوسوں دور پھینک دے۔ مگر وہ یہ سب ایسی رغبت سے کھا رہی ہوتی جیسے کئی دنوں کے فاقہ کش کے سامنے ایسے لذیذ کھانوں کا دستر خوان سجادیا گیا ہو۔ جن کی خوشبو دور تک کھڑے لوگوں کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہو۔
”وہ کون تھی؟ کہاں سے آئی تھی؟” میں نے کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ کیونکہ میں جس فیلڈسے وابستہ تھا اس میں میرا واسطہ ہر طرح کے لوگوں سے پڑتا رہتا تھا۔ معاشرہ کی اکثریت غربت اور مسائل کی چکی میں پس رہی تھی۔ خاص طور پر اس علاقے میں تو مسائل کا ایک انبار جمع تھا۔ ڈھائی تین مرلہ کے گھروں میں کئی کئی خاندان بیک وقت، لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت ، نشے کی لت اور بھوک جیسے محاذوں پر برسرپیکار نظر آتے تھے۔
مگر اس روز بلا ارادہ ہی میرے قدم ”مراد فروٹ شاپ” کی طرف بڑھنے لگے تھے ۔
٭…٭…٭
”اماں چوڑیاں۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بھاری تھیلا ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کیا اور للچائی ہوئی نظروں سے سامنے دکان میں لشکارے مارتی رنگ برنگی چوڑیوں کو دیکھنے لگی۔
”چل آگے۔” شیمو نے رکے بغیر اُسے گھر کا۔
”اماں آج تو لے دے۔ عید آرہی ہے نا!” تھیلا نیچے رکھ کر وہ ہمکنے لگی تھی۔ دکان میں رنگ برنگی ٹیوب لائٹس کی روشنی میں چکتی دمکتی چوڑیوں نے اس بار بھی اس کے قدم جکڑ لئے تھے۔
”آہو، تیرے پیو کا منی آرڈر آئے گا نا عید پر۔” سرپر رکھی وزنی بوری نیچے رکھ کر پھولی سانسیں بحال کرتے ہوئے اُس نے دوپٹے کے پلو سے پسینہ صاف کیا جبکہ شیمو کو رکتے دیکھ کر اس کے دل میں موہوم سی اُمید جاگ اُٹھی تھی۔
”اماں صرف آدھی درجن لے دے۔وہ سستی والی۔” اماں کے ہاتھ بوری کی طرف دوبارہ بڑھتے دیکھ کر اس نے پھر التجا کی۔
”سیدھی طرح ٹر(چل) ہن(اب)۔” اس نے ہاتھ گھما کر اُسے کس کر دو تھپڑ جڑے اور بوری دوبارہ سر پرلادلی۔ اماں کے قدم آگے بڑھتے دیکھ کر بھی اُسے من من بھر وزنی قدم اُٹھاتے دقت ہورہی تھی۔ نگاہیں جیسے جم سی گئیں تھیں۔ دفعتاً شیمو نے مڑ کر اُسے پھر سے گھورا اور ساتھ ہی گالیوں سے بھی نوازا۔ جبکہ اب دکاندار بھی اُسے اشارے سے وہاں سے ہٹنے کا کہہ رہا تھا۔ ہاتھ میں تھیلا پکڑے وہ مرے مرے قدم گھسیٹتی اس کے پیچھے چل پڑی۔ مگر بار بار مڑ کر حسرت بھری نظروں سے دکان کی جانب دیکھتی جاتی تھی۔ ایک قطار میں لگے ڈھیر سارے سیٹ اس کی نظروں کے سامنے سے ہٹ ہی نہیں رہے تھے۔موڑ مڑنے تک وہ مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتی رہی۔
شیمو نے گھر میں داخل ہوکر بوری باہر صحن میں رکھی جبکہ وہ ٹھیلا لئے ابھی باہر ہی کھڑی تھی گویا ناراضی کااظہار کررہی ہو۔مگر پروا کسے تھی۔
”نواب زادی اب اندر آئے گی یا بینڈ باجے بجواؤں تیرے لئے۔ اتنے کا م پڑے ہیں تیرا خصم آکر کرے گا۔” صحن میں اس کی چنگھاڑ بخوبی آس پاس کے مکان میں بھی سنی جاسکتی تھی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});