لالی — شاذیہ خان

رجونے چولہے میں مزید لکڑیاں جھونکیں اور جلدی جلدی پیڑے بنانے لگی ۔ چونکی اُس وقت جب بارش کی کن من اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔ وہ سب کچھ وہیں چھوڑ کر صحن کی طرف بھاگی ۔ بھائی بھابھی ابھی سو رہے تھے ۔ کاشی (چھوٹا بھائی ) دوسرے گاؤں گیا ہوا تھا ۔ سواُسے اکیلے ہی صحن میں سے بکھرا سارا سامان اور بھاری بھاری چارپائیاں سمیٹنی پڑیں۔ اس دوران بارش نے اُسے بھگو ڈالا تھا ۔ سب نپٹا کر اُس نے کپڑے بدلے اور دوبارہ چولہے کی طرف آ گئی ۔ سب کے اُٹھنے سے پہلے اُسے ناشتہ تیار کرنا تھا۔ چاٹی میں نمک اور تھوڑا ٹھنڈا پانی ڈال کر وہ جلدی جلدی لسّی بلونے لگی۔ مکھن اوپر آ جانے کے پر اُس نے ہاتھ ڈال کر پیڑا نکالا اور پیالے میں ڈھک دیا۔ بھائی ناشتے میں مکھن اور پراٹھا پسند کرتا تھا ، بھابھی روٹی اور لسّی۔
چھوٹا رات تک آنے والا تھا ۔ویسے بھی وہ ناشتے میں زیادہ تر گُڑ والی چائے اور روٹی مکھن کے ساتھ کھاتا تھا۔ اُس نے چنگیری میں موجود رات کی بچی ہوئی روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے اور مرغیوں کے ڈربے کی طرف آ گئی ۔مُرغیاں کُٹ کُٹ کرتی ایک دوسرے پر چڑھتی روٹی کے ٹکڑوں پر لپکیں ۔ وہ وہیں کھڑی اُن کو ایک دوسرے سے لڑتا دیکھ رہی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہو ئی ۔ کپڑوں کو بچاتی رجو دروازے پر آئی ۔ کاشی تھا جو کہ بُری طرح بھیگا ہوا تھا ۔ ”کاشی تو اتنی صبح؟ تو نے تو شام تک آنا تھا ”۔ ”ہاں آپا جس کا م کے لئے گیا تھا وہ تو رات کو ہی ہو گیا تھا۔ تو میں نے سوچا کہ اب نکل لوں، بارش سے پہلے ہی گھر پہنچ جاؤں گا مگر بارش نے راستے میں ہی آ لیا۔ وہ تو بھلاہو چھوٹے چودھری صاحب کا وہ بھی گاؤں ہی آرہے تھے ۔ انھوں نے اپنی گاڑی میں بٹھا لیا ۔ تو بتا، ناشتہ بنایا ہے؟” اس نے لمبی کہانی سناتے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرا ۔
”ارے تو کپڑے بدل میں ابھی تیرے لئے ناشتہ لاتی ہوں”۔ رجو نے تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے ناشتہ بنا کر ٹرے میں رکھا اور کمرے میں آگئی ۔ کاشی کپڑے بدل چکا تھا ۔ ”آپا پیسوں کا انتظام ہو گیا ”۔ اس نے نوٹوں کی ایک موٹی سی گڈی اُس کے ہاتھ میں تھمائی ۔ وہ رجو کی اور اپنی شادی کے انتظامات کے لئے دوسرے گاؤں میں موجود ابّا کی زمین بیچنے گیا تھا ۔ اچھی قیمت مل گئی تھی ۔
سب آہستہ آہستہ اُٹھ چکے تھے رجو نے بھائی اور بھابھی کے آگے ناشتہ رکھا۔ بھائی چھوٹے بھائی سے زمین کے سودے کے بارے میں بھی پوچھ رہے تھے وہ بتا رہا تھا کہ بہت تھوڑے سی زمین بچی ہے بوائی واسطے لیکن شکر ہے سودا ہو گیا۔ اب شادی کی تیاری شروع کر دی جائے۔ اس کی اور رجو کی منگنی کو دو سال ہو چکے تھے اور اب دونوں کی سسرال والے شادی کے لیے زور دے رہے تھے۔ اُن کی باتوں کو سن کر رجو اپنے کمرے کی طرف آگئی نہ جانے دل کیوں بھر آیا تھا ابا اور اماں اس وقت بہت یاد آرہے تھے۔ اس وقت اُسے رونے کے لیے کاندھے کی ضرورت تھی اور کوئی کاندھا نہ تھا۔ بھابھی ذرا لئے دیئے میں رہتیں رجو سے ضرورت کے وقت ہی باتیں کرتیں وہ اپنے دل کی ساری بھڑاس اپنی جاں سے پیاری لالی سے کر لیتی لالی اور وہ سہیلیاں تھیں لیکن اس وقت بارش اتنی تیز تھی کہ وہ لالی تک نہیں جا سکتی تھی۔ وہ لالی کو کیسے بتاتی کہ شادی کی بات سُن کر اس کا دل بھر آیا ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رجوکی ساس شادی کی بہت جلدی مچا رہی تھیں ۔ انہوں نے دوسال انتظار بھی تو کیا تھا ۔ دو سال پہلے انہوں نے اُسے پھرکی کی طرح پورے گھر میں بھاگ بھاگ کر کام کرتے دیکھا ۔ ہر طرف رجو رجو کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ کہیں وہ مہمانوں کے لئے چارپائیاں بچھا رہی ہے ۔ کہیں صبح صبح اٹھ کر ناشتہ کروا رہی ہے ۔ کہیں چولہا سنبھالے مہمانوں کے دوپہر کے کھانے کی فکر میں ہلکان تھی۔ غرض ہر دوسرے شخص کی زبان پر اسی کا نام تھا۔
رجو کی ہونے والی ساس اس کی دور پرے کی پھوپھی بھی تھیں جو شادی میں شرکت کے لئے اپنے گاؤں سے آئیں تو انہیں محسوس ہوا کہ اس ہیرے کو تو میرے گھر ہونا چاہئے ۔ شکل صورت بھی لاکھوں نہیں تو ہزاروں میں ایک تھی ۔ رجو کے باپ کا انتقال کچھ مہینے پہلے ہی ہوا تھا ۔ دو بھائی تھے ۔ ماں بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی ۔ باپ اور بھائیوں نے بڑا کیا تھا ۔ چھوٹا عظیم جسے سب پیار سے کاشی کہتے تھے رجوسے ایک سال چھوٹا تھا ۔ اس کا رشتہ بھی بھابھی کی بہن سے طے تھا۔ صرف رجو کا رشتہ طے ہونا باقی تھا۔ یہ مسئلہ پھوپھی نے حل کر دیا اور دونوں بھائیوں سے افضل کے لئے ہاں کروا کر ہی اٹھیں ۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اس رشتے میں افضل کی خوشی بھی شامل ہے یا نہیں؟
وہ اپنی چچا زاد زینب سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن ابّا کے آگے مجبور ہو گیا ۔ چند سال پہلے زمین اور جائیداد کے معاملے پر ابّا اور چاچا کا ایسا جھگڑا ہوا کہ اب دونوں بھائی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روا دار نہ تھے اوراسی جھگڑے نے افضل کی محبت کو بھی دم توڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پچھلے سال جب افضل کا باپ دنیا سے رخصت ہوا تب بھی چاچا اور اُن کا گھرانا بھائی کا منہ تک دیکھنے نہ آیا۔ اماں نے بین ڈالتے ہوئے قسم کھائی کہ آج کے بعد اُس گھر سے کوئی ناطہ نہیں رکھا جائے گا۔ بھلے کوئی مرے یا جئے اور جس نے رکھنے کی کوشش کی تو اُس کے لئے میں بھی مر جاؤں گی ۔ یہ قسم دیتے ہوئے اُن کا مخاطب صرف افضل تھا اور افضل ہاتھ مسلتے ہوئے ابّا کا آخری دیدار کر رہا تھا۔
کیا خون کے رشتے اتنے سنگ دل اور تنگ دل بھی ہو سکتے ہیں کہ آخری دیدار بھی نہ کریں۔ اس نے ابا کی میّت کو دفن کرتے وقت اپنی محبت کو بھی دکھی دل سے دفن کر دیا۔
حالاں کہ وہ اور زینب بچپن کے ساتھی تھے ۔ اُن کے بڑے ہمیشہ یہ احساس دلاتے تھے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ہی ہیں۔ اس بیج نے تن آور درخت کی صورت اس وقت اختیار کی جب لڑکپن میں اُسے کبوتر بازی کا شوق ہوا۔ دن بھر آوارہ گردی کرتے کبوتروں کو بند کرنے شام کو جب چھت پر جاتا وہ نہ صرف اس سے پہلے موجود ہو تی بلکہ اس کے انتظار میں کئی چکر بھی لگا چکی ہوتی ۔ کبھی کبھی سب کی نگاہ سے بچ کر وہ دونوں کسی بڑے پنجرے کی اوٹ میں کچھ دیر دل کی باتیں بھی کر لیتے۔ وہ کبوتروں کے لئے میوے اور دانہ لینے جاتا تو سب کی نظر بچا کر اُس کے لئے بھی کاچھو حلوائی سے جلیبیاں ، قتلمے ، سموسے یا اندرسے ضرور لاتا ۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے کھلا کر بہت خوش ہوتے۔ افضل کو محسوس ہوتا کہ زینب بھی غٹرغوں غٹرغوں کرتی ایک کبوتری ہی ہے ۔ کبوتروں کی کابک تلے ان کی محبت پروان چڑھتی گئی۔ وہ زینب کے گھر جائے یا زینب اس کے گھر دونوں کے ماں باپ اُن پر صدقے واری ہوتے ۔ اُن کے گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ الگ ہو جائیں گے۔
تعلقات منقطع ہو جانے کے بعد رحیم چاچانے افضل سے جان چھڑانے کے لئے زینب کی شادی اپنی بیوی کے یتیم بھانجے ماجد سے کر دی۔ ماجد کے ماں باپ بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے ۔ پھوپھی نے اسے اپنی اولاد سمجھ کر پالا تھا۔ تھوڑی سی زمین تھی جس پر پھوپھا کی معاونت سے بوائی کرتا اور مشورے لیتا۔ شادی کے بعد زینب نے اُسے ایک پل سکون نہ دیا ۔ ہر دوسرے دن جھگڑا کر کے میکے آ بیٹھتی اور کسی طور جانے کے لئے راضی نہ ہوتی ۔جھگڑے کی وجوہات اتنی معمولی ہوتیں کہ اُن سے ماجد تو کیا اُس کے اپنے ماں باپ بھی نالاں تھے۔ روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر پھوپھا نے ماجد کوسسرال ہی رہنے کو کہا تو وہ بڑی خوب صورتی سے ٹال گیا ۔ غیرت مند تھا ، گھر جوائی کا طعنہ کبھی نہ سہہ سکتا تھا ۔
بڑوں کے درمیان نفرتیں ان کی محبتوں پر حاوی ہو گئیں ۔اس کی شادی کے روز افضل پاؤں جلی بلّی کی طرح اِدھر سے اُدھر چکر لگاتا رہا۔ اس حالت کو صرف اُس کی ماں سمجھ رہی تھی ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۹ (آخری قسط)

Read Next

گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!