لالچ — سونیا چوہدری

”دیکھو بہن آپ کا بیٹا چودہ پاس ہو یا سولہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں تو بس اس کی کمائی سے مطلب ہے جس کو دیکھ کر ہم اپنی بیٹی کا رشتہ طے کریں گے۔ ہمیں بھلا ان ڈگریوں سے کیا لینا دینا۔” رشیدہ نے ہاتھ اٹھا کر سامنے بیٹھے عمر رسیدہ جوڑے کو صاف لہجے میں کہا تو انہوں نے گہری نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر رشیدہ سے مخاطب ہوئے۔
”دیکھئے بہن جی پڑھا لکھا انسان ہو تو نوکری بھی اچھی ملتی ہے اور جب نوکری اچھی ہو تو تنخواہ تو خواہ مخواہ اچھی ہوگی اور ہمارا بیٹا مہینے کہ پچیس ہزار آسانی سے کما لیتا ہے اور ویسے بھی ہمارا اکلوتا بیٹا ہے ہمارا جو کچھ بھی ہے سب اسی کا تو ہے۔” انہوں نے تحمل سے کہا۔
”پچیس ہزار؟ ارے بہن آج کی مہنگائی میں پچیس ہزار کی قیمت پچیس روپے سے زیادہ نہیں رہی۔” رانی کی ماں نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ ”پھر جیسے آپ کی مرضی۔” وہ پرسکون لہجے میں کہتی اپنے شوہر کو اشارہ کرتی اُٹھ کھڑی ہوئیں اور دونوں باہر کی جانب بڑھ گئے۔ رشیدہ نے ان کو دروازے تک چھوڑ کر آنا بھی مناسب نہ سمجھا اور بیٹھ کر سامنے میز پر رکھی بسکٹ والی پلیٹ میں سے بسکٹ اٹھا کر چائے میں ڈبو کر کھانے لگی۔
”امی یہ خالہ صغرا بھی کیسے کیسے نکمے رشتے لے آتی ہے۔” کمرے سے نکلتی ہوئی رانی نے رشیدہ کو دیکھتے ہوئے ناگواری سے کہا۔
”اس بار آلینے دے صغرا کو اس کی ایسی خبرلوں گی کہ دوبارہ ایسے رشتے نہیں لائے گی۔” رشیدہ نے غصے سے کہا تو رانی میز پر پڑے برتن اٹھانے لگی۔
”امی رات کے کھانے میں کیا بناؤں؟” رانی نے برتن سمیٹتے ہوئے پوچھا۔
”دال گوشت بنالے اور ساتھ میں سلاد او ررائتہ بھی بنا لینا۔ تیری ممانی آنے والی ہے شام کو۔ اس نے بھی ایک رشتہ بتایا تھا تیرے لئے۔ اب آئے گی تو تفصیل معلوم ہوگی۔” رشیدہ نے چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے کہا۔
”کیا ممانی نے بھی کوئی رشتہ بتایا ہے؟ ممانی کا بتایا رشتہ تو پھر اچھا ہی ہوگا انہوں نے اپنی بیٹیوں کے رشتہ بھی تو کتنے امیر گھرانوں میں کئے ہیں۔” رانی نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا تو رشیدہ بھی مسکرا دی۔
”ہاں کہتی تو ٹھیک ہی ہے۔ فرزانہ کوئی ایسا ویسا رشتہ تو نہیں بتانے والی۔” رشیدہ نے رانی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
”اچھا اب یہیں کھڑی باتیں کرتی رہے گی یا جاکر ہانڈی کا بھی بندوبست کرے گی۔” رشیدہ نے اپنی ٹون بدلی تو رانی جلدی سے کچن کی جانب بڑھ گئی۔
”ارے رانی بیٹا ادھر آ ادھر میرے پاس آکر بیٹھ۔” ممانی نے اسے محبت سے پاس بلاتے ہوئے کہا تو وہ مسکراتی ان کے پاس جاکر چار پائی پر بیٹھ گئی۔
”دیکھ تو رشیدہ تیری بیٹی پہلے سے بھی کتنی سوہنی ہوگئی ہے۔” فرزانہ نے رانی کو دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے جھینپ کرنگاہیں جھکالیں۔
”بس تو دیکھنا کل رشتے والے جو آئیں گے ان کو ہماری رانی ضرور پسند آئے گی۔”
لڑکا دبئی ہوتا میں ہوتا ہے ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی پاکستان آیا ہے۔ دیکھنے میں بھی بھلا چنگا ہے اور شادی کے بعد لڑکی کو بھی اپنے ساتھ دبئی لے جائے گا۔ بس میں نے تو اسے دیکھتے ہی اپنی رانی کی بات چلا دی تھی۔ اب کل وہ لوگ آئیں گے تو تُو خود بھی دیکھ کر تسلی کرلینا۔” فرزانہ نے رشیدہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”جارانی کھانا لگا جاکر فرزانہ کو بھوک لگی ہوگی۔” رشیدہ کی آواز پر پر رانی چونکی جو ابھی سے پردیسی بابو کے خیالوں میں کھوچکی تھی۔
وہ جلدی سے اُٹھ کر کھانا لگانے لگی۔ سب نے مل کر کھانا کھایا اور کچھ دیر بعد سو گئے۔ اُس کی نیند تو پردیسی بابو کے خیالوں نے چُرالی تھی۔ آج کی رات رانی کے لئے سوکر گزارنے کی نہیں بلکہ خواب دیکھ کر گزارنے کی تھی۔ وہی خواب جو ہر لڑکی دیکھتی ہے۔ خواب دیکھتے دیکھتے کب اس کو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا اس کو خود بھی خبر نہ ہوسکی۔
٭…٭…٭
آج اس نے خوب دل لگا کر مہمانوں کی آمد کی تیاری کی تھی۔ ورنہ آج سے پہلے جتنے بھی رشتے آئے تھے ماں کو پسند آتے نہ بیٹی کو۔ یہ پہلا رشتہ تھا، جو دونوں ماں بیٹی کے دل کو لگا تھا۔ مہمانوں کی آمد ہوچکی تھی۔ رانی ہاتھ میں چائے کی ٹرے تھامے سب کے لئے چائے لے گئی۔ اس کی نظر سامنے بیٹھے نوجوان پر پڑی۔ وہ رانی کو دیکھ کر ہی مُسکرا رہا تھا رانی نے شرما کر نظریں جھکالیں اور سب کے لئے کپ میں چائے ڈالنے لگی۔ چند ثانیے بیٹھے رہنے کہ بعد وہ اٹھ کر کمرے میں چلی آئی۔ اس کا دل معمول سے ہٹ کر دھڑک رہا تھا۔ رانی سنگھار میز کے پاس کھڑی تھی، جب رشیدہ ہنستی مسکراتی کمرے میں داخل ہوئی۔
”مبارک ہو تو ان کو پسند آگئی ہے۔” رشیدہ کی بات پر رانی ماں سے لپٹ گئی۔
لڑکے والے جاچکے تھے نکاح کی تاریخ ایک ہفتے کہ بعد رکھی گئی تھی۔ سب کچھ اتنی جلدی ہورہا تھا کہ رانی کو خود بھی اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔
شادی میں بس قریبی رشتے داروں کو ہی مدعو کیا گیا تھا۔ ویسے بھی رشیدہ کا داماد دبئی کا تھا وہ اپنے دیہاتی رشتے داروں کو بلا کر اپنا امپریشن خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔!!!
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

میٹھی یاد — لعل خان

Read Next

رول ماڈل — ماہم علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!