قید — ساجدہ غلام محمد

”انسان کو کس طرح نیند آتی ہے؟” ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ سونے کے لیے لیٹا تھا اور اب اچانک یہ سوال اس کے ذہن میں ابھرا تھا۔ قریب ہی اس کی بیوی کی مدہم سانسیں بتا رہی تھیں کہ وہ گہری نیند سو رہی ہے۔
”آج نوٹ کرتا ہوں کہ نیند میں جاتے ہوئے انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔” اس نے کروٹ بدلتے ہوئے مسکرا کر سوچا اور آنکھیں بند کر لیں۔
”یہ بات کتنی منفرد ہے اور اگر مجھے پتا چل جائے تو شاید میں پہلا انسان ہوں گا جس نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہو گا۔ شاید میری اس دریافت سے سائنس دان بھی اس طرف متوجہ ہو جائیں۔” اس کا شعور سوچ پر سوچ کو کھڑا کرتا ہوا آہستہ آہستہ اوپر اٹھنا شروع ہو گیا تھا کہ اچانک سوچوں کا مینار ٹوٹا اور شعور واپس اپنی دنیا میں پلٹ آیا۔ باہر کسی گاڑی نے زور سے ہارن بجایا تھا۔
”جاہل لوگ! دوسروں کے آرام کا ذرا بھی خیال نہیں ہے۔ ” اس نے آنکھیں کھول کر کھڑکی کی جانب دیکھا اور پھر بڑبڑاتے ہوئے کروٹ بدل لی۔
”اچھا بھلا سونے لگا تھا۔ ہاں تو میں سوچ رہا تھا کہ انسان نیند میں کس طرح جاتا ہے۔ اس ہارن نے سارا تسلسل توڑ دیا۔ سر ہی کھا جاتے ہیں یہ ہارن۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میں اسی وجہ سے جلد بہرا ہی نہ ہو جاؤں۔ کل فیس بک پر ارسل نے پوسٹ لگائی ہوئی تھی سماعت کی آلودگی اور اس کے نقصانات پر۔ میں نے لائیک کی تھی وہ پوسٹ لیکن ارسل میری پوسٹس لائک نہیں کرتا۔ پتا نہیں مجھ سے کیا پرخاش ہے اسے۔” اس کا جسم دھیرے دھیرے ڈھیلا ہونا شروع ہو گیا تھا ۔
”واہ!یعنی کہ میں نیند کی کیفیت میں جا رہا ہوں۔” جسم کے ڈھیلے پن کو اس نے خوشدلی سے محسوس کیا تھا۔شعوراس کے اس احساس کو نظر انداز کر کے سوچ سے سوچ کی کڑی ملاتا ہوا، ہلکا پھلکا ہو کر دوبارہ اٹھنا شروع ہو گیا تھا۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک شعور کو لگا کہ وہ بلندی سے نیچے گر رہا ہے۔جسم کو ایک جھٹکا سا لگا اور اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول لیں۔
”ہیپنک جرک( jerk Hypnic)۔” اس کے ذہن میںلفظ گونجا ۔ ایک نظر گہری نیند سوئی ہوئی بیوی پر ڈال کر اس نے آنکھیں دوبارہ موند لیں۔
”یہ انسان کے اندر بھی کیا کمال کی مشینری بنائی ہے رب نے۔ سونے کے دوران اگر جسم کو کوئی مسئلہ ہو تو ہیپنک جرک کے ذریعے انسان کو سگنل دے دیتی ہے کہ پوزیشن ٹھیک کر لو۔ لیکن میں تو ٹھیک انداز میں ہی لیٹا ہوا ہوں۔ کچھ لوگ تو بالکل الٹے ہو کر سوتے ہیں۔ دم نہیں گھٹتا ہو گاان کا؟ پرسوں جو ڈرامہ آ رہا تھا ٹی وی پر، اس میں ہیرو کیسے اوندھے منہ سورہا تھا۔ یہ تو صحت اور سنت، دونوں کے خلاف ہے۔ میڈیا والے کہاں ان باتوں کا دھیان رکھتے ہیں۔” شعور نے ایک بار پھر سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ اندھیرے میں نہایت باریک سا پردہ اوپر تنا ہوا تھا۔ شعور نے سوچ سے سوچ نکالتے ہوئے اس پردے کی طرف اٹھنا شروع کیا اور اس دفعہ وہ وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ جیسے ہی شعور اس تک پہنچا، اچانک پردے میں شگاف ہوا اور شعور اسے عبور کر کے لاشعور کی رنگوں بھری دنیا میں داخل ہو گیا۔
وہ سو چکا تھا۔
٭…٭…٭
”اُٹھ جائیں! فجرکی جماعت کا وقت نکل جائے گا۔” بیوی نے کندھا پکڑ کر ہلایا تو وہ ہڑبڑا گیا۔ سیاہ پردہ چاک ہوا تھا اور شعور یک لخت لاشعور کی دنیا سے نکل کر واپس اپنی دنیا میں آ گیا تھا۔بیوی تہجد پڑھنے کی عادی تھی اور فجر کی نماز کے لیے وہی اسے جگاتی تھی۔
”اوہ!” اس نے یاد کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ کیسے نیند کی کیفیت میں گیا تھا اور اس کے ذہن میں آخری سوچ کیا تھی لیکن اسے کچھ بھی یاد نہیں آیا۔
”آج بہت غور کروں گا۔ بہت دلچسپ تجربہ ہے یہ۔” اس نے مسکراتے ہوئے سوچا اور غسل خانے کی جانب بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
ایک دفعہ پھر رات کی خاموشی اور تنہائی تھی۔ وہ سونے کے لیے لیٹ چکا تھا لیکن آنکھیں بند کرنے کے باوجود اس کا ذہن اپنے طور پر خوب چاک و چوبند تھا، یہ جاننے کے لئے کہ انسان کس طرح نیند کی وادی میں جاتا ہے۔
”آج تو میں جان کر ہی رہوں گا۔ حیرت ہے، کسی نے آج تک اس بارے میں نہیں سوچا۔ کمال ہے بھئی۔ خیر! کل بہت اہم میٹنگ ہے۔ سفید شرٹ کے ساتھ وہ نیلی ٹائی ٹھیک رہے گی جو عباد لندن سے میرے لئے لے کر آیا تھا۔ مزے میں ہے عباد بھی۔ لندن کی زندگی کا اپنا ہی حسن ہے۔ وہاں چلتی ہوئی ڈبل ڈیکر بسیں اور بکنگھم پیلس۔ وہاں کی ملکہ اتنی بوڑھی ہو گئی ہے، پتا نہیں کب مرے گی۔ میری دادی کی عمر کی تو ہو گئی ہے۔ دادی کو تو فوت ہوئے سات سال ہونے والے ہیں۔ ساگ کتنا لذیذ بناتی تھیں وہ، وہ ذائقہ ابھی تک مجھے دوبارہ کہیں نہیں ملا۔۔۔” شعور سوچوں کا جال بُنتا ہوا پردے کے بالکل پاس پہنچ چکا تھا۔ پردے میں شگاف ہوا اور شعور لاشعور کی دنیا میں داخل ہو گیا۔ اس کے داخل ہوتے ہی پردہ دوبارہ پہلے کی طرح بند ہو گیا۔
لاشعور کی دنیا انوکھی تھی۔ شعور، لاشعور کا ہاتھ تھامے اڑتا پھر رہا تھا۔ کبھی سفید شرٹ پر نیلی ٹائی پہنے میٹنگ روم میں بیٹھا پزا کھاتا ہوا، کبھی شیروانی اور کلاہ پہن کر لندن کی ڈبل ڈیکر بس پر گھومتا ہوا۔
ابھی شعور مزید اڑان بھرنے کی تیاریوں میں ہی تھا کہ اچانک پردہ چاک ہوا اور وہ واپس اپنی دنیا میں پلٹ آیا۔
بیوی کو کھانسی آئی تھی۔ خشک تھی، پانی پیے بنا چارہ نہیں تھا۔ اس نے بمشکل آنکھیں کھول کر اپنے سرہانے رکھی پانی کی بوتل اس کی جانب بڑھائی۔
”طبیعت ٹھیک ہے؟ ”
”جی! بس خشک سردی کی وجہ سے نیند میں ہی اچانک کھانسی آ گئی ۔”بیوی پانی پی کر بوتل اپنے سرہانے رکھ کے لیٹ گئی تو اس نے دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔
”سردی بھی بڑھ گئی ہے۔ شام کو کمرے میں ہیٹر جلا کر کام تو کرتا رہا لیکن پانی کا برتن رکھنا بھول گیا۔ صبح نماز کے لیے اٹھوں گا تو رکھ دوں گا۔ اکرام صاحب بھی کہہ رہے تھے کہ کمرے میں ہیٹر جلے تو پانی ضرور رکھنا چاہیئے ورنہ کمرے کی ہوا خشک ہو جاتی ہے۔ ” تکیے پر اپنے سیدھے گال کے نیچے بایاں ہاتھ رکھ کر وہ دوبارہ سونے کی کوشش کر رہا تھا۔کچھ ہی لمحوں بعد ہپنک جرک کی وجہ سے اس کے گال کے نیچے کان کے پاس بائیں ہاتھ کی ایک انگلی زور سے ہلی تو اسے اپنے کان میں اس کی بہت اونچی سرسراہٹ سنائی دی۔
”ہمم! اس کا مطلب ہے کہ نیند میں جانے سے پہلے ایک فیز ایسا بھی آتا ہے جس میں انسان کی حسِ سماعت بہت زیادہ تیز ہو جاتی ہے۔ ” اس نے ہاتھ تکیے سے ہٹا کر ایک جانب رکھ دیا۔ مکمل خاموشی میں شعورکو کچھ ہی منٹ لگے تھے۔ وہ پردہ چاک کر کے لاشعور کی دنیا میں پہنچ چکا تھا۔ جہاں کبھی اس کے پیچھے چور ڈاکو لگ جاتے تو کبھی باس سے جھڑکیاں۔ نہ جانے کتنا ہی وقت گزر گیا۔ لاشعور، شعور کا ہاتھ تھامے اس کے ساتھ ساتھ تھا۔
”فضل! فضل!” اچانک کسی نے اس کا نام پکارا تھا۔ شعور نے پردہ چاک کر کے واپس اپنی دنیا میں جانا چاہا لیکن خلافِ توقع وہ چاک نہ ہوا۔شعور نے پورا زور لگایا، پردے پر ٹکریں ماریں لیکن وہ پردہ چاک نہ کر سکا۔
”بابا!” اس کا بیٹا اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔ شعور کے اضطراب میں اضافہ ہو گیا۔ اندھا دھند بھاگتے ہوئے وہ پردے کا آخری سرا ڈھونڈ رہا تھا، کوئی سرا، کوئی سوراخ، کوئی درز، کچھ تو جہاں سے وہ واپس اپنی دنیا میں جا سکے لیکن کچھ نہ ملا۔ شعورتھک ہار کر لاشعور کی دنیا میں ہی بیٹھ گیا۔
”تم اب واپس نہیں جا سکتے! تم یہاں قید ہو گئے ہو۔” لاشعور کے لہجے میں شعور کے لیے ہمدردی تھی۔
”کمرے میں گیس بھر جانے کی وجہ سے دونوں کا انتقال ہو چکا ہے۔” ڈاکٹر نے بیٹے کو بتاتے ہوئے افسوس سے سر ہلایا۔شعور وہیں لاشعور کی دنیا میں سر پٹختا رہ گیا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

جنّت — طارق عزیز

Read Next

محبت ہوگئی تم سے — تنزیلہ یوسف

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!