عداوت — ہما شہزاد

کوئی سوال؟ ہمیشہ کی طرح لیکچر کے اختتام پر اُس نے مارکر کا کیپ بند کر کے ایک نظر کلاس میں بیٹھے ہوئے سٹوڈنٹس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”جی عمران؟” جن سٹوڈنٹس نے سوال پوچھنے کے لیے ہاتھ کھڑے کیے تھے اُن میں سے ایک کو اُس نے مخاطب کیا اور خود ڈائس کی جانب آگئی۔
”میڈم آپ نے بتایا کہ ہماری ہینڈ رائٹنگ ہماری شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ”عمران نے بات کا آغاز کیا۔
”جی بالکل!” سویرا نے اثبات میں سر ہلایا۔
”لیکن میڈم میرا ایک دوست ہے وہ آج کل ایک رائٹنگ بک لے کر آیا ہے۔ اُس بک میں مختلف سٹائلز کی ہینڈ رائٹنگ سیکھنے کے لیے lessons ہیں۔”
سویرا کے ساتھ کلاس میں موجود سب ہی سٹوڈنٹس بہ غور عمران کی بات سن رہے تھے۔
”تو میڈم جب کوئی اپنی رائٹنگ اُس بک کے مطابق بدل لے گا تو کیا اُس کی شخصیت بھی تبدیل ہو جائے گی؟” عمران نے اپنا سوال مکمل کرتے ہوئے ڈائس کے پیچھے کھڑی اپنی سائیکولوجی کی ٹیچر کی طرف دیکھا جو بڑے سکون سے اُس کی بات مکمل ہونے پر ہلکا سا مسکرا رہی تھی۔
”اچھا سوال ہے” سویرا نے ڈائس پہ اپنے دونوں بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔
”عمران، آپ کے دوست کی شخصیت میں تبدیلی نہیں آئے گی۔” وہ فقط ایک جملہ بول کر خاموش ہو گئی۔
”لیکن میڈم! ظاہر ہے جب اُس کی رائٹنگ بدلے گی تو پھر اس کی شخصیت کو ہم اُس کی نئی رائٹنگ کی بنیاد پر ہی جانچیں گے۔” پہلی قطار میں بیٹھی فرح نے کہا۔
اُس سمیت کلاس میں بیٹھے سب ہی سٹوڈنٹس اپنے ذہنوں میں یہی سوال لئے ہوئے تھے۔ عمران بھی اپنے سوال کا مناسب جواب نہ ملنے پر ماتھے پر بل ڈالے اُلجھا سا بیٹھا تھا۔ ”ٹھیک کہا فرح آپ نے” سویرا مسکرائی۔ ”ہم عمران کے دوست کو اُس کی نئی رائٹنگ کی بنیاد پر ہی جانچیں گے۔” سویرا کی اس بات پر کلاس ایک مرتبہ پھر تذبذب کا شکار ہو گئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

لیکن اُس کی اگلی بات نے نہ صرف اُن کے تذبذب کو دور کر دیا بلکہ عمران بھی اپنے سوال کے جواب پر مطمئن ہو گیا۔ ”اصل میں سٹوڈنٹس آپ لوگ آج کے ٹاپک کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پائے۔” سویرا نے کلاس میں نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ ”لیکن عمران نے بہت اچھا سوال پوچھا ہے جس سے آپ لوگوں کی اُلجھن دور ہو جائے گی۔ میں نے یہ کہا کہ عمران کے دوست میں رائٹنگ تبدیل کرنے کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
جانتے ہیں میں نے ایسا کیوں کہا؟”
سب سٹوڈنٹس نے نفی میںسر ہلایا۔
”وہ اس لئے سٹوڈنٹس کہ عمران کے دوست میں چینج پہلے ہی آچکا ہے اور وہ اُسی چینج کی وجہ سے اپنی رائٹنگ تبدیل کر رہا ہے ورنہ وہ اپنی پہلی رائٹنگ کو ہی جاری رکھتا۔” کلاس میں موجود سب سٹوڈنٹس اب بات سمجھ آنے پر مسکرا رہے تھے۔
”یہی میں آپ کو سمجھا رہی تھی کہ رائٹنگ سٹائل آپ کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے۔جیسی آپ کی شخصیت ہوگی، آپ کی سوچ ہو گی، ویسا ہی آپ کے لکھنے کا انداز ہو گا۔” سویرا نے اپنی بات مکمل کی۔ ”یعنی میڈم! عمران کا دوست اب رائٹنگ بک میں سے جو رائٹنگ پسند کرے اور اُس کی پریکٹس کرے گا اصل میں وہ رائٹنگ اُس کا ذہن منتخب کرے گی۔ تو اس کیس میں رائٹنگ بک اس کو چینج نہیں کرے گی بلکہ اس کے اندر آنے والی تبدیلی کسی رائٹنگ کو منتخب کرے گی۔” عمران کے ساتھ بیٹھے باسط نے بات کو مزید کھول کر بیان کیا۔
”بالکل” سویرا نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے اس کی تائید کی۔ ”اور کوئی سوال؟ ہمارے پاس چند منٹ ہی باقی ہیں۔” سویرا نے بائیں بازو پر بندھی گھڑی پہ وقت دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی ثمرین؟” سویرا نے ہاتھ کھڑا کیے پہلی صف میں بیٹھی سٹوڈنٹ کو مخاطب کیا۔
”میڈم آپ نے آج کے لیکچر میں یہ بھی بتایا کہ بائیں ہاتھ سے لکھنے والوں کی پرسنالٹی دائیں ہاتھ سے لکھنے والوں سے مختلف ہوتی ہے ۔ میں نے نوٹ کیا ہے میڈم کہ بہت سے دائیں ہاتھ سے لکھنے والے لوگ، بائیں ہاتھ سے لکھنے کی کوشش بھی شوق سے کرتے ہیں کیوںکہ بائیں ہاتھ سے لکھنے والوں کی رائٹنگ بہت خوب صورت ہوتی ہے۔”
سویرا پوری توجہ سے ثمرین کی بات سن رہی تھی۔
”تو میڈم! آپ کی رائٹنگ تو بہت خوب صورت ہے لیکن کیا آپ نے کبھی بائیں ہاتھ سے لکھنے کی کوشش کی؟ شائدآپ کی بائیں ہاتھ کی رائٹنگ اور بھی خوب صورت ہوتی۔”
ثمرین کے سوال کے بعد کلاس میں ایک دم ہی مکمل خاموشی چھا گئی۔
سب ہی سٹوڈنٹس سویرا کی جانب دیکھتے ہوئے اُس کے جواب کے منتظر تھے۔
سویرا سوال سن کر کچھ دیر تک خاموشی سے کھڑی رہی، جیسے کسی گہری سوچ میں تھی۔ پھر وہ جواب دینے کی بجائے مارکر اٹھائے وائٹ بورڈ کی جانب آگئی۔
”میں اپنے بائیں ہاتھ سے بھی اتنا ہی خوب صورت لکھ سکتی ہوں۔”
یہ جملہ اُس نے اپنے بائیں ہاتھ سے بورڈ پر تحریر کیا اور کلاس کی طرف دیکھ کر مسکرا دی۔
سٹوڈنٹس کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹ اُس کی رائٹنگ کی خوب صورتی کا اعتراف تھا۔
”یعنی میڈم آپ نے بھی شوقیہ بائیں ہاتھ سے لکھنا سیکھا۔”
ثمرین نے بورڈ پر دیکھتے ہوئے تبصرہ کیا۔
”نہیں شوقیہ نہیں۔ ”سویرا نے نفی میں سر ہلایا۔ ”بلکہ ایک حادثے کے نتیجے میں۔” بات مکمل کرتے ہوئے اُس کے لہجے میں عجیب سی اُداسی تھی۔
٭٭٭٭
”ڈاکٹر سویرا آپ کو ڈاکٹر نوید اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں۔” وہ مریض دیکھ کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ ریسپشنسٹ نے اُسے انٹر کام پر اطلاع دی۔
”’اوکے پھر میرے واپس آنے تک آپ کوئی مریض نہ بھیجیں۔” اُس نے ریسیور رکھا اور کرسی سے اٹھ گئی۔
وہ شام کو جس پرائیویٹ ہسپتال میں جاب کرتی تھی،ڈاکٹر نوید وہاں کے سربراہ تھے۔
”آپ نے بلایا سر؟” وہ دروازے پہ ہلکی سی دستک دے کر اندر داخل ہوئی۔
”جی ڈاکٹر سویرا، پلیز بیٹھیں۔” درمیانی عمر کے سوبر سے ڈاکٹر نوید نے ایک نظر اُس پہ ڈال کر میز کے سامنے موجود کرسیوں کی جانب اشارہ کیا۔
”اصل میں ڈاکٹر سویرا! یہ میرے ایک مریض کی رپورٹ ہے اور اُسے کچھ سائیکولوجیکل ٹریٹمنٹ (Psychological Treatment) کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کل سنڈے ہے تو آپ اس رپورٹ کو سٹڈی کر لیں۔ پیر کو وہ مریض آپ کے پاس آئے گا۔”
سویر اکے بیٹھتے ہی انہوں نے اپنے سامنے رکھی ایک فائل کھولتے ہوئے کہا۔
”جی سر۔ ”سویرا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”یہ اصل میں ایک بزرگ مریض ہیں اور …”
ڈاکٹر نوید کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اُن کے موبائل پر کال آنے لگی۔
”ایکسکیوزمی!” انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کال ریسیو کی۔
ڈاکٹر نوید بات کرنے میں مصروف ہو گئے تو وہ ایسے ہی سامنے موجود میز پہ پڑی چیزوں پہ نظر دوڑانے لگی۔
میز پر زیادہ تر مریضوں کی فائلز یا لفافوں میں بند رپورٹس رکھی تھیں۔
سویر انے اپنے دائیں جانب موجود لفافے پر نظر ڈالی تو پھر جیسے وہ پلک جھپکنا بھی بھول گئی۔
”گل رعنا رضا” لفافے پر لکھا نام بہت جانا پہچانا تھا۔ سویرا کی نظریں اُسی نام پر ساکت ہو گئیں۔
”جی ڈاکٹر سویرا!” ڈاکٹر نوید نے کال ختم ہونے کے بعد اُسے پکارا تو جیسے وہ کسی خواب سے جاگی۔
”جی سر!” اُس نے لفافے سے اپنی نظریں ہٹاتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر تک مریض کی کیس ہسٹری سننے کے بعد وہ ڈاکٹر نوید سے فائل لے کر اپنے کمرے میں واپس آگئی۔
لیکن اُس کا دماغ ابھی بھی ڈاکٹر نوید کے کمرے میں پڑے لفافے میں اٹکا ہوا تھا۔
جس وقت وہ سب مریض دیکھ کر فارغ ہوئی رات کے 9 بج رہے تھے۔ وہ بے دلی سے اُٹھ کر کھڑکی کی جانب آگئی۔
نیچے پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے اُس کی نظر ڈاکٹر نوید پر پڑی جو اپنی کار کا دروازہ کھول رہے تھے اور تب ہی ایک خیال کوندے کی طرح اُس کے ذہن میں لپکا۔
”افشاں! ڈاکٹر نوید ہیں کمرے میں؟” اُس نے دھڑکتے دل کے باوجود لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے ریسپشن پہ موجود لڑکی کو مخاطب کیا۔
”نہیں ڈاکٹر سویرا، سر ابھی ابھی گئے ہیں۔ آپ کو کوئی کام تھا؟” ریسپشنسٹ نے پوچھا۔
”ہاں، اصل میں انہوں نے کہا تھا کہ میں ایک مریض کی رپورٹ جاتے ہوئے اُن کے کمرے سے لیتی جاؤں۔”
”ٹھیک ہے ڈاکٹر سویرا، سر نے کہا تھا تو آپ اُن کے کمرے سے وہ رپورٹ لے لیں۔”
افشاں نے جیسے اُس کی مشکل آسان کر دی۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے” وہ مسکراتے ہوئے ڈاکٹر نوید کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
کمرے میں موجود میز پر ابھی بھی لفافے موجود تھے لیکن سویرا کا مطلوبہ لفافہ نظر نہ آیا۔
اُس نے کانپتے ہاتھوں سے اُوپر والے لفافوں کو ہٹانا شروع کیا تو نیچے وہ لفافہ موجود تھا، جسے کھول کے پڑھنے کے لیے وہ بے چین تھی۔
اُس نے گہرا سانس لے کر اُسے اپنے شولڈر بیگ میں رکھا اور کمرے سے باہر آگئی۔
٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

دانہ پانی — قسط نمبر ۳

Read Next

وہ راحت جاں — دانیہ آفرین امتیاز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!