رین کوٹ — ہاشم ندیم

تیز برستی بارش میں جب کسی کی نئی ماڈل کی گاڑی ہچکولے لیتی ہوئی ایک جھٹکے سے رُک جائے تو اس کوفت کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جو اس گاڑی میں سوار ہو۔ نعمان کو بھی اس اچانک افتاد کا ذرا بھی اندازہ نہ تھا۔ آج صبح فیکٹری کے لیے نئی سائٹ دیکھنے گھر سے نکلا، تو ہلکی پھوار اسی وقت شروع ہوچکی تھی، مگر جلد ہی وہ بوندا باندی تیز برسات میں تبدیل ہوگئی اور شہر کے آخری بس اسٹاپ سے کچھ پرے گاڑی نے چند ہچکیاں لیں اور رک گئی۔
”کیا ہوا ؟”
ڈرائیور نے پریشانی کے عالم میں بونٹ بند کیا۔
”صاحب جی کچھ سمجھ نہیں آرہا، یہ آٹو میٹک گاڑیاں اپنی سمجھ سے باہر ہیں۔ کسی مکینک کوبلوانا پڑے گا جناب۔”
نعمان نے بے زاری سے سرہلایا۔
”ٹھیک ہے۔ تم کسی مکینک کو بلا لائو، میں سامنے والے بس اسٹاپ کے شیڈ کے نیچے تمہارا انتظار کرتا ہوں۔ بند گاڑی میں یوں سرِ راہ بیٹھنا مجھے بہت عجیب لگتا ہے۔”
نعمان نے گاڑی سے نکلنے سے پہلے رین کوٹ پہن لیا تاکہ اس کا قیمتی سوٹ خراب ہونے سے بچ جائے اور پھر تیزی سے قدم اٹھاتا، خود کو بارش سے بچاتا، سامنے بس اسٹاپ کی جانب بڑھ گیا۔ سڑک کے دونوں اطراف ٹین کے چھپر نما اسٹاپ بنائے گئے تھے جس کی ٹین کی ہٹ نما چھت کے نیچے لکڑی کے بنچ پڑے ہوئے تھے۔ دونوں جانب کچھ مسافر بیٹھے اور کھڑے بس کا انتظار کررہے تھے۔ نعمان نے رین کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے سرسری نظر سڑک کی دوسری جانب بنے دوسرے اسٹاپ پر ڈالی اور پھر اس کی نظریں جیسے جم کر رہ گئیں۔ اس نے دو تین بار پلکیں جھپک کر اپنے گماں کو یقین کی حد تک پہنچانے کی کوشش کی۔ مگر وہ سراب نہیں … حقیقت تھی… ہاں وہی تو تھی… کاجل… اس کے بالکل مخالف سمت والے اسٹاپ کے نیچے کھڑی بار ش سے بھیگی ہوئی، ہمیشہ کی طرح خود کو پہلے بے تحاشا بھگو کر پھر کانپتے رہنے والی کاجل۔
نعمان بے اختیار اس کی جانب بڑھنے کے لیے سڑک پر دو قدم چلا تو کسی گاڑی کے تیز ہارن نے اسے چونک کر واپس پلٹنے پر مجبور کردیا۔ ہارن کی آواز سن کر کاجل نے بھی چونک کر اِدھر دیکھا اور اس کی نظریںبھی نعمان سے ٹکرائیں تو وہ ہکا بکا سی رہ گئی۔ اب جانے وہ بارش کی بوندیں تھیں یا پھر اس کے آنسو جو اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے اس کے گلابی عارض کے موتی بن گئے۔ دفعتاً نعمان کو احساس ہوا کہ کاجل کے ساتھ کوئی مرد بھی تھا۔ پرانی جینز پر ایک پتلی سی شرٹ میں ملبوس، بار بار ہاتھوں کو رگڑ کر گرمانے کی کوشش میں مصروف۔ اس نے ایک آدھ بار کاجل سے کوئی بات بھی کی اور کاجل نے سر جھکا کر اسے زیرِ لب جواب دیا۔ شاید وہ کاجل کا شوہر تھا۔
نعمان اس شش و پنج میں گرفتار کھڑا رہا۔ نعمان کے جانب والی بس آگئی اور مسافر جلدی میں ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے اُس میں سوار ہوکر اپنی منزل کو روانہ ہوگئے اور نعمان وہاں تنہا کھڑا رہ گیا۔ بارش تیز ہوتی جارہی تھی۔
یہ بارشیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی باہر کچھ زیادہ بھگو نہ بھی پائیں پھر بھی ہمارے اندر جل تھل مچا دیتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے اندر برستی وہ پھوار باہر کسی کو نظر نہیں آتی، لیکن کچھ بدنصیب ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن کے اندر باہر برستے ساون کا ایک چھینٹا بھی نہیں پڑتا۔ ان کے اندر صحرا ہی رہتا ہے۔ آج صبح نعمان نے جب گھر سے نکلتے ہوئے کھونٹی سے اپنے مخصوص نیلے رنگ کا رین کوٹ اتارا، تو ایک لمحے کے لیے جیسے اس کا سارا ماضی اس کی آنکھوں کے سامنے برق کی طرح گزر گیا۔
وہ بھی ایک ایسی ہی طوفانی بارش کا دن تھا جب پہلی مرتبہ اس کی ملاقات کاجل سے ہوئی تھی۔ وہ دونوں ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھنے کے باوجود شعبے علیحدہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے انجان تھے، لیکن اس روز کی شدید بارش نے ان دونوں کو ملوا دیا۔ وہ دونوں ہی کالج بس نکل جانے کے بعد ڈیپارٹمنٹ کے برآمدے میں بارش رکنے کے انتظار میں کھڑے تھے، لیکن کچھ بارشیں کبھی نہیں تھمتیں۔ بادل برس کر چلے جاتے ہیں مگر من کی پھوار کبھی نہیں رکتی۔ اُن دونوں کے لیے بھی یہ بارش کچھ ایسا ہی پیغام لے کر آئی تھی۔ ساون میں شامیں بہت جلد ڈھل جاتی ہیں۔ کاجل بھی تیزی سے ہوتی شام اور مزید کالی گھٹائوں کی آمد سے پریشان کھڑی اپنی نازک کلائی پر بندھی گھڑی کو بار بار دیکھ رہی تھی۔ نعمان بھی ایک جانب کھڑا خود کو کوس رہا تھا کہ اس نے آج اپنی بائیک نکالنے میں سستی کیوں کی؟ آخر جب بارش نے تھمنے کا نام نہیں لیا اور اندھیرا بڑھنے لگا، تو گھبرائی ہوئی کاجل نے کچھ فاصلے پر کھڑے نعمان کوپکارا۔
”سنیں پلیز! آپ کیمپس کے باہر سے کوئی رکشا پکڑ لائیں گے میرے لیے؟ بہت دیر ہوگئی ہے۔ گھر میں امی پریشان ہورہی ہوں گی۔”
نعمان خود بھی یہ سوچ رہا تھا کہ اب یہاں کھڑے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا مین گیٹ سے باہر جاکر کوئی سواری پکڑ لینی چاہیے۔ کچھ ہی دیر میں بھیگا بھاگا سا نعمان ایک رکشے کے ساتھ کیمپس میں داخل ہوا۔ کاجل کو ڈیفنس کی طرف جانا تھا اور نعمان کو صدر۔ دونوں کی سمت مخالف تھی لیکن موسم کے تیور بتارہے تھے کہ کچھ دیر بعد جب شام ڈھل جائے گی، تب شاید واپسی کے لیے سڑک پر کوئی سواری بھی نہ ملے۔ ویسے بھی یونیورسٹی شہر سے دور مضافات میں واقع تھی ۔ آخر کار طے یہ پایا کہ پہلے کاجل کو اس کے گھر اتارا جائے گا اور پھر یہی رکشا نعمان کو اس کی منزل تک پہنچائے گا۔ راستے میں کاجل رکشے کے اندر سکڑی سمٹی سی بیٹھی رہی مگر یہ رکشا بھی بڑی بدتمیز قسم کی سواری ہے، ایک ذرا سا کنکر بھی پہیے کے نیچے آجائے تو پورا ”کانپ” جاتا ہے۔ لہٰذا نعمان اور کاجل کو جمے رہنے کے لیے سامنے لگی لوہے کی راڈ کو نہایت مضبوطی سے تھام کر بیٹھنا پڑا، لیکن جھٹکے تھے کہ رکنے میں ہی نہیں آرہے تھے اور پھر جب بے خیالی میں ان دونوں کی ایک دوسرے پر نظر پڑی، تو اپنی اپنی حالت دیکھ کر وہ دونوں ہی بے ساختہ کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ یہ ان کی دوستی کی ابتدا تھی۔
اور پھر کوئی دن ایسا نہ گزرا جب ان دونوں کی ملاقات نہ ہوئی ہو۔ وہ گھنٹوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو کھوجاکر تے اور بالآخر ان کی یہ کھوج محبت کے اس گم نام جزیرے پر جاکر ختم ہوئی جہاں داخل ہونے کے لیے تو ہزار راستے موجود ہوتے ہیں، مگر نکلنے کا ایک بھی دروازہ نہیں ہوتا۔ پھر ایک دن ایسی ہی ایک بھیگتی شام میں کاجل نے نعمان کو یہ رین کوٹ تحفے میں دیا تھا۔ ان کے شہر میں بارشیں بہت ہوتی تھیں، لیکن کا جل کا یہ تحفہ اس بھیگی شام کی یاد میں تھا جب ان دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ویسے بھی کاجل کو رین کوٹ پہنے مرد بہت سوبر لگتے تھے۔ اسے نعمان کو یہ نیلا رین کوٹ پہنے دیکھنے کا بہت شوق تھا، لیکن ان کے نصیب کا وہ آخری ساون ثابت ہوا۔
اگلے برس ہی ان کی محبت کے چاند کو گرہن لگ گیا ۔ کاجل کے بھائی نے اسے کہیں باہر نعمان کے ساتھ یونیورسٹی اوقات میں گھومتے پھرتے دیکھ لیا اور کاجل کی تعلیم کا سلسلہ موقوف کردیا گیا۔ نعمان نے اپنے طور پر ہر کوشش کر دیکھی، مگر کاجل کی نظر بندی ختم نہ ہو سکی۔ گھر والوں نے کاجل کی سہیلیوں کو بھی زیرِ لب کاجل کے بارے میں دخل نہ دینے کا پیغام دے دیا تھا۔ ایسے میں کاجل کی ہم جماعت نائلہ جو اس کی ہمسائی بھی تھی، نعمان کا آخری سہارا ثابت ہوئی اور اس نے کسی طور کاجل تک نعمان کا یہ پیغام پہنچایا کہ اگر وہ دونوں نہ مل پائے تو نعمان مرجائے گا، مگر محبت کا زہر کسی کو پوری موت کب مرنے دیتا ہے؟ سو نعمان بھی زندہ رہا، مگر بہت سالوں تک دوسروں سے الگ زندگی گزارتا رہا۔ کاجل کے گھر والوں نے جلدی میں اس کی چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کی رسم ادا کرکے اپنی جان چھڑائی۔ کاجل نے نائلہ کے ذریعے ہی نعمان کو یہ آخری پیغام بھجوایا کہ وہ اپنے گھر کی ہونے جارہی ہے، لہٰذا اب نعمان بھی اس کا خیال اپنے دل سے نکال کر اپنا گھر بسالے۔ نعمان یہ سن کر اند رسے ہزار بار کٹ کر رہ گیا۔ یہ لڑکیاں اپنا گھر بستے ہی کس آسانی سے دوسروں کو گھر بستی کے مشورے دینا شروع کردیتی ہیں۔ نائلہ کے بہ قول کاجل کا رشتہ بہت اچھے اور امیر کبیر خاندان میں ہوا تھا اور اس کا شوہر کاجل کا بہت خیال رکھتا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

بارِ گراں — افشاں علی

Read Next

جنّت — طارق عزیز

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!