رول ماڈل — ماہم علی

پرانی کتابیں گود میں رکھے نادیہ کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی ۔ ڈھلتے سورج کی مدھم شعاعیں اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں ۔
”تو میرا پڑھنے کا سفر یہیں تک تھا… انتہائی شوق کے با وجود بھی میں آگے نہیں پڑھ پا رہی ۔ ” اس نے دکھ سے سوچا۔
نادیہ کو پڑھنے کا بے حد شوق تھا لیکن ان کے گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کا اتنا رواج نہیں تھا … گاؤں کی دو لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے کے بعد سے سب والدین نے اپنی بچیوں کو گھر بٹھا لیا تھا ۔ بہ قول ان کے ۔ ”تعلیم بچیوں کو باغی بنا رہی ہے۔”
نادیہ نے جیسے تیسے میٹرک کر لیا، لیکن آگے پڑھنے کے لیے شہر جا کر پڑھنا تھا جو کہ ناممکن تھا ۔
یوں ہی گھٹنوں پر سر رکھ کر بیٹھے بیٹھے ناجانے کتنے پل بیت گئے، جب نیچے سے اسے بابا کی آواز سنائی دی۔
”نادیہ او نادیہ!… کدھر ہو بیٹا تم۔”
”آرہی ہوں بابا!”
تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتے اس نے بابا کو جواب دیا۔
”میرا پتر کہاں رہ گیا تھا… کب سے میں آوازیں دے رہا ہوں۔” بابا نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”بابا! اوپر بیٹھی ہوئی تھی … کپڑے اتارنے گئی تو وہیں بیٹھ گئی ۔ ”
”اچھا تو ذرا بتاؤ تو میں تمھارے لیے کیا لایا ہوں ۔ ” بابا نے مسکرا کر نادیہ سے پوچھا ۔
”اوہ ہو کیا ہو سکتا ہے ۔ ” نادیہ تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگی ۔
”نا بیٹا اپنے ننھے سے دماغ پر زور نہ ڈالو… یہ لو خود ہی دیکھ لو تم۔”
انھوں نے ایک لفافہ نادیہ کی طرف بڑھایا۔ نادیہ الجھن سے ابو کو دیکھتے ہوئے وہ لفافہ کھولنے لگی ۔ یک دم اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی۔
”ارے یہ تو ایڈمیشن فارم ہے … میرے پیارے ابو ۔ ”
فرط ِ مسرت سے وہ ابو کے گلے لگ گئی ۔
”میں اپنی مینا کو یوں اداس نہیں دیکھ سکتا تھا … مجھے پتا ہے کہ تمھیں پڑھنے کا کتنا شوق ہے… میری بھی کوشش ہے کہ تم بہت سا پڑھو ۔ پھر استانی بن کر گاؤں کے بچوں کو پڑھاؤ ۔ ” ابو اس کو خوش دیکھ کر مُسکراتے ہوئے کہنے لگے۔
”پر ابو خاندان والے کیا کہیں گے اور گاؤں کے لوگ…”
نادیہ کے لہجے میں فکر مندی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”تو میری بیٹی ہے… تجھے میں پڑھا رہا ہوں ، خاندان والے جو کہیں ، ہمیں ان سے کیا لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں کرتے … تم بس اب پہلے کی طرح خوب دل لگا کر پڑھنا … اور گاؤں کے لوگوں کے لیے مثال بن جانا جو خواہ مخواہ اپنی بچیوں کو پڑھنے نہیں دے رہے … یہ تو تم لوگوں کا حق ہے … ”
ابو کے کہنے پر نادیہ ہلکی پھلکی ہو کر مسکرانے لگی …
” نا میں پوچھتی ہوں ضرورت کیا ہے اسے آگے پڑھنے کی … جتنا پڑھ لیا اتنا کافی نہیں کیا ؟ ”
اماں جانے کب آ گئی تھیں ۔
”کیوں ضرورت نہیں ہے پڑھنے کی … ہماری نادیہ کو شوق جو اتنا ہے … میں خود تو نہیں پڑھ سکا پر اپنی بیٹی کو ضرور پڑھاؤں گا ۔ ”
” نا تمھاری تو منطق ہی اُلٹی ہے … دس جماعتیں کیا کم ہیں … پورے خاندان میں اتنا کوئی نہیں پڑھا جتنا نادیہ نے پڑھ لیا … جوان جہان لڑکی کو اتنا دور پڑھنے کے لیے بھیجنے کی ضرورت ہی کیا ہے … ”
اماں شروع سے ہی اس کی پڑھائی کے خلاف تھیں ۔ وہ سیدھی سادی ان پڑھ عورت تھیں، جو لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی وجہ سے لڑکیوں کی پڑھائی کو برُا سمجھتی تھیں۔
”چھوڑ ان باتوں کو … جاؤ نادیہ بیٹا ! تم زبردست سی چائے بنا لاؤ پھر ہم سب مل کر پیتے ہیں۔”
نادیہ کے ابو نے اسے بہانے سے وہاں سے بھیجنا چاہا ۔
”جی ابو ! میں لاتی ہوں۔”
نادیہ کے جانے کے بعد وہ بیوی کی طرف پلٹے ۔
”کیا ضرورت تھی… بچی کے سامنے یہ باتیں کرنے کی… اسے شوق ہے تو پڑھنے دو … گھر بیٹھ کے فضول کی سوچیں سوچنے سے تو بہتر ہے وہ پڑھ لکھ کر اپنی پڑھائی کے ذریعے سے اس گاؤں کے لوگوں کی سوچ بدل ڈالے ۔ ”
”تمھیں سمجھ نہیں آتی … حشمت ! خاندان والے کیا کہیں گے … اور زمانہ دیکھا ہے تم نے آج کل کتنا خراب ہو گیا ہے … گاؤں کی بات الگ تھی اب یوں اتنا دور جانا یہ تو صحیح بات نہیں ہے ناں ۔ ” اماں نے متفکر ہو کر کہا ۔
” ارے اللہ کی بندی ! نادیہ کو خاندان والے نہیں پڑھا رہے جو وہ باتیں کریں گے … ابھی اس کا باپ زندہ ہے … میں ذمہ داری اٹھا سکتا ہوں اس کی … اور زمانے کی تم نے اچھی کہی بندہ خود ٹھیک ہو ناں تو زمانہ کچھ نہیں کر سکتا … اور مجھے اپنی بیٹی پر پورا بھروسا ہے … وہ میری بیٹی ہے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی میں محض لوگوں کی باتوں کے ڈر سے اپنی بیٹی کو گھر بٹھا دوں اتنا گیا گزرا نہیں ہوں … اور تم بھی آئندہ اس کے سامنے ایسا ویسا کچھ مت کہنا … بچی کا دل برا ہو جائے گا ۔ ”
حشمت میاں کے سامنے اماں کی کب چلی تھی جو آج وہ ان کی بات مان لیتے … اماں من ہی من میں بڑ بڑانے لگیں ۔ جب کہ باورچی خانے میں چائے بناتی نادیہ ابا کی باتیں سن کر مسکرا رہی تھی ۔
٭٭ ٭
نادیہ بے تحاشا خوش تھی آخر اس کے پڑھنے کا خواب پورا ہو رہا تھا ۔ اگلے دن ابو کے ساتھ شہر جا کر وہ داخلہ فارم جمع کرا آئی ۔ ابو نے اسے کالج جانے کے لیے تانگا لگوا دیا ۔ یوں نادیہ اپنے خاندان کی پہلی لڑکی بن گئی جس نے کالج میں قدم رکھا ۔
کالج کے پہلے دن وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ پہلے دن اس کے ابو خود اسے چھوڑنے گئے ۔ خاندان والوں کی باتوں کو نظر انداز کر کے وہ بہت محنت اور لگن سے پڑھنے لگی ۔
ایک دن وہ کالج سے آکر اسائنمنٹ بنا رہی تھی جب اس کا موبائل بجا ۔ نوکیا کا یہ سیکنڈ ہینڈ موبائل ابو نے اسے دلایا تھا تاکہ پڑھائی کے سلسلے میں مدد لینی ہو تو وہ اپنی سہیلیوں سے رابطہ کر سکے ۔
”السلام علیکم!”
”کدھر بزی ہو تم … صبح سے کال کر کر کے تھک گیا ہوں … کچھ اندازہ بھی ہے میں کتنا پریشان ہو گیا تھا … کہاں تھی تم اور فون بند کیوں تھا؟”
دوسری طرف اس کی پھوپھو کا بیٹا اور اس کا منگیتر شاہد تھا ۔
”میں کالج گئی ہوئی تھی … تبھی نمبر بند تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے آئی تو آن کیا … کیسے ہو ۔ ”
”ایک تم اور تمہارا کالج … آخر یہ سلسلہ کب ختم ہوگا ۔ ”
شاہد بھی اس کے پڑھنے کے خلاف تھا ۔
”خیر چھوڑو ان باتوں کو ، میں نے ضروری بات کرنے کے لیے فون کیا تھا ۔ ”
”کون سی ضروری بات ؟ ” نادیہ نے چونک کر پوچھا ۔
”تمھیں پتا ہے ناں کہ کل ویلنٹائن ڈے اور کل ہی میری سال گرہ بھی ہے… اور اس خاص دن کو میں تمھارے ساتھ منانا چاہتا ہوں پچھلی بار بھی تم نہیں آئی تھیں … اب مجھے انکار نہیں سننا ۔ ” شاہد دھونس جما کر بولا ۔
”کیسی باتیں کر رہے ہو شاہد ! میں تمھارے ساتھ کیسے جا سکتی ہو ۔ ” اس نے پریشانی سے کہا ۔
”کیوں تم نہیں جا سکتی کیا … سب لڑکیاں جاتی ہیں اپنے منگیتروں کے ساتھ … تم کچھ انوکھی تو نہیں ہوتی جا رہی ۔ ”
”بات انوکھی کی نہیں ہے شاہد … میرے لیے بہت مشکل ہے یوں تم سے کہیں باہر ملنا … ” اس نے صاف انکار کر دیا …
”تمھیں تو میری پرواہ ہی نہیں ہے … پڑھنے کے لیے روز شہر جا سکتی ہو اور مجھ سے ملنے کے لیے ایک دن باہر نہیں جا سکتی ہو … بات کیا ہے آخر ۔ ” شاہد غصے سے پھنکارا ۔
”کوئی بات نہیں ہے شاہد … تم سمجھنے کی کوشش کرو شاہد … میں شہر پڑھنے کے لیے جاتی ہوں … وہ الگ بات ہے مگر میں تم سے ملنے کے لیے نہیں آسکتی۔”
”مجھے تم سے یہی امید تھی… پہلے کب تم نے میری کوئی بات مانی ہے جو اب مانو گی … تم سدا کی بدھو ہو اور بدھو ہی رہنا … میرے دوستوں کی فرینڈز روز روز ان کے ساتھ گھومتی پھرتی ہیں … ایک میری ہی قسمت خراب ہے جو تم صرف ایک دن کے لیے بھی باہر نہیں مل سکتیں۔”
”میں ملنے سے انکار نہیں کر رہی ہوں… گھر سے باہر کسی جگہ ملنے سے انکار ہے بس ۔ ” نادیہ آہستگی سے بولی۔
”واہ! زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور تم ویلنٹائن والے دن بھی گھر پر ملنے کا کہہ رہی ہو… اس دن لوگ محبت کا اظہار کرتے ہیں… اتنا اچھا مناتے ہیں … مجھے نہیں پتا بس تم کسی بھی طرح کل مجھ سے باہر کہیں بھی ملو گی… میں نے دوستوں سے شرط لگائی ہے کہ اس بار تمھیں باہر ضرور لے کر جاؤں گا… اتنا مذاق اُڑاتے ہیں سب میرا… اب کی بار میں نے یہ شرط جیتنا ہے مجھے نہیں پتا ، کل تم ضرور آؤ گی۔” فیصلہ کن انداز میں کہہ کر شاہد نے فون بند کر دیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالچ — سونیا چوہدری

Read Next

احساس — ثمینہ طاہر بٹ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!