حقیقی دوستی ۔ الف نگر

حقیقی دوستی

ارم عبدالرزاق

خرگوش جج نے ایسا فیصلہ سنایا کہ بکری حیران ہی رہ گئی۔ ایک سبق آموز کہانی۔

پیارے بچو! کسی علاقے میں ایک ہرا بھرا جنگل تھا۔ جہاں تمام جانور اتفاق سے رہتے تھے۔ سب مل جل کر کھاتے پیتے اور کوئی جھگڑا نہ کرتے۔ جنگل کے جانوروں نے اپنے لیے ایک عدالت بھی قائم کررکھی تھی تاکہ اگر کسی کا کوئی جھگڑا ہو تو اس عدالت سے فیصلہ کروایا جاسکے۔ عدالت کا جج ایک بوڑھا خرگوش تھا۔

خرگوش کافی سمجھ دار تھا۔ اُس نے جانوروں کے لیے جنگل میں گھاس کے الگ الگ حصے مقرر کررکھے تھے تاکہ ہر جانور اپنے حصے سے گھاس کھائے۔ اسی طرح گوشت کھانے والے جانوروں کے علاقے بھی تقسیم کردیے تھے۔

اسی جنگل میں ایک بکری اور ایک ہرنی بھی رہتی تھیں۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ ہرنی بہت شریف جب کہ بکری کچھ شرارتی تھی۔ وہ کبھی کبھار شرارت سے دوسرے جانوروں کا حصہ بھی ہڑپ کرجاتی۔ ہرنی اسے سمجھاتی مگر بکری باز نہ آتی۔

ایک دن بکری نے بھینس کے حصے میں جاکر گھاس چرنا شروع کردی۔ بھینس نے دیکھا تو غصے سے آگ بگولہ ہوگئی: ”ارے بکری بی! یہ میرا علاقہ ہے یہاں تمہیں گھاس چرنے کی اجازت نہیں ہے۔” بھینس نے بکری کو گھورتے ہوئے کہا لیکن بکری پر اثر نہ ہوا۔

”اری بھینس بہن! بس تھوڑی دیر ہی تو کھاؤں گی۔” یہ کہہ کر بکری دوبارہ چرنے لگی۔ بھینس روتی پیٹتی خرگوش کی عدالت میں جاپہنچی۔

”حضور! مجھے انصاف دلائیں۔ بکری نے میرے حصے کی گھاس کھائی ہے۔” بھینس نے عدالت میں جاکر شکایت لگائی تو خرگوش نے کوئل کے ذریعے بکری کو طلب کرلیا۔ اب بکری سر جھکائے بوڑھے خرگوش کے سامنے کھڑی تھی۔ پھر کچھ دیر بعد اُس نے زبان کھولی: ”حضور! میں نے بھینس کے حصے کی گھاس نہیں کھائی۔” بکری کی بات پر سب جانور حیران رہ گئے۔ چناں چہ خرگوش نے گواہی کے لیے ہرنی کو طلب کرلیا۔ بکری خوش ہوگئی۔ اسے یقین تھا کہ ہرنی اس کی دوست ہے اس لیے وہ میرے ہی حق میں گواہی دے گی لیکن یہ اس کی خوش فہمی تھی۔

ہرنی نے خرگوش جج کے سامنے بیان دیا: ”حضور! بکری نے بھینس کی گھاس کھائی ہے، میں نے خود دیکھا تھا۔” اپنی دوست ہرنی کے اس بیان پر بکری حیران رہ گئی۔ اُسے رہ رہ کر ہرنی پر غصہ آرہا تھا لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ چناں چہ خرگوش نے بکری کو سزا سنائی کہ ایک ہفتے تک بکری والا گھاس کا حصہ بھی بھینس کے قبضے میں رہے گا اور بکری بھوکی رہے گی۔ یہ سنتے ہی بکری کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔

بوڑھے خرگوش نے دو کتوں کو حکم دیا کہ باری باری وہ بکری کی نگرانی کریں تاکہ وہ اپنے اور بھینس والے حصے میں گھاس کھانے نہ جاسکے۔

اِس فیصلے کے بعد بوجھل قدموں سے بکری عدالت سے باہر آئی۔ اسے شدید بھوک لگ رہی تھی مگر اب وہ کچھ کھا نہیں سکتی تھی۔ یوں ہی بھوک پیاس میں پورا ایک دن گزر گیا۔ غصے میں آکر بکری نے ہرنی سے دوستی بھی ختم کرلی تھی۔ جب دوسرے دن کا آغاز ہوا تو بھوک کی وجہ سے بکری سے چلا نہیں جارہا تھا۔ دوپہر تک اُس کی حالت بہت خراب ہوگئی۔ وہ بے ہوش ہونے کو تھی کہ دور سے اُسے ہرنی آتی دکھائی دی۔ غصے سے بکری نے ہرنی کو دیکھا لیکن ہرنی مسکرا رہی تھی۔

”پیاری بہن بکری! کیسی ہو؟” ہرنی نے قریب آکر کہا مگر بکری نے منہ دوسری طرف پھر لیا۔

”بکری بہن! تمہیں معلوم ہے کہ قصور تمہارا ہی تھا۔ میں تمہیں سمجھاتی رہی لیکن تم نے بات نہ مانی۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تمہاری دوست نہیں ہوں بلکہ میں تمہاری خیر خواہی چاہتی تھی کیوں کہ بِلاوجہ کسی کا حق مارنا ظلم ہے۔” ہرنی نے کہا لیکن بکری پھر بھی دوسری طرف منہ کیے خاموش رہی۔ ہرنی دوبارہ بولی: ”مجھے معلوم تھا کہ جھوٹی گواہی دینا اچھی بات نہیں۔ اِس لیے میں نے وہاں سچ بولا۔ پیاری بہن! میں تمہیں بھوکا نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہ دیکھو! تمہارے لیے کیا لائی ہوں۔” یہ کہہ کر ہرنی نے گھاس والی گٹھڑی اس کی طرف اچھال دی پھر خود وہاں سے چلی گئی۔

بکری بھوک سے نڈھال تھی۔ اُس نے تازہ اور ہری بھری گھاس دیکھی تو فوراً اِس پر ٹوٹ پڑی۔ گھاس چرتے ہوئے وہ سوچنے لگی کہ ہرنی بی نے ٹھیک ہی کہا ہے۔ قصور تو میرا اپنا تھا لیکن ہرنی نے اپنا حق ادا کیا پھر اپنے حصے سے میرے لیے چارہ بھی لائی۔ حقیقی دوستی تو یہی ہے۔ یہ سوچ کر بکری نے گھاس ختم کی اور معافی مانگنے ہرنی کی طرف چل پڑی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

چل میرے بادل! ۔ الف نگر

Read Next

عید مِلن پارٹی ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!