حسینہ معین – گفتگو

حسینہ معین – گفتگو



حسینہ معین جدید پاکستانی ٹی وی ڈرامے کے موجدوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے پی ٹی وی اس وقت جوائن کیا جب ڈرامہ بہت گہرے اور سنجیدہ سروں میں تھا ۔ پھر حسینہ معین آئیںاور نہوں نے پی ٹی وی کی سرمئی سکرین پر جیسے رنگ بکھیر دیے۔۔۔

ایک بہائو سے چلتی ہوئی تیز رفتا ر کہانی۔۔ایسے زندہ ، سانس لیتے کردار کہ جیسے ابھی سکرین سے نکل کر آپ کے سامنے چلنے پھرنے لگیں گے۔ ۔۔بے ساختہ، تیکھے مکالمے کہ ذہن عش عش کر اُٹھے۔۔۔اور کہانی کا مرکزی کردارنبھاتی، ایک مضبوط، ہنس مکھ، بہادر لڑکی۔ 

یہ سب عناصر نہ صرف حسینہ آپا کی پہچان بنے، بلکہ انہوں نے عورت کو ٹی وی پر لکھے جانے کا ، دکھائے جانے کا ایک نیا انداز بھی بخشا۔ آپ کہانی پڑھنے یا لکھنے کے شوق کے بارے میں سنجیدہ ہوں اور آپ نے حسینہ آپا کے ڈرامے نہ دیکھ رکھے ہوں، یہ دو متضاد باتیں محسوس ہوتی ہیں۔تو آئیے، ملواتے ہیں آپ کو حسینہ آپا سے۔۔۔اور جانتے ہیں ان سے کہانی کی بنت کے راز۔

الف کتاب : آپا، کچھ اپنے سفر کی شروعات کے بارے میں بتائیے۔کیسے لکھنا شروع کیا آپ نے؟

حسینہ معین: (مسکراتے ہوئے)میری شروعات؟ اصل میں میں نے لکھناشروع کیا تھا جب میں کلاس 7th میں تھی۔ یہاں سے بچوں کا ایک میگزین نکلتا تھا  ‘بھائی جان’  اورجنگ کا بچوں کا اخبار تھا،جس میں میں نے کچھ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھی تھیں۔پھر کالج کے زمانے کی بات ہے کہ وہاں سرکولر آیا ریڈیو پاکستان سے ،کہ جشنِ تمثیل ہو رہا ہے طلبا ء و طالبات کاتو آپ کے کالج سے بھی ہمیں ٢٥ منٹ کا ایک ڈرامہ چاہیے۔اس وقت میں صرف سیکنڈ ائیر میں تھی۔ہماری اُردو کی پروفیسر تھیں، مسز سلمیٰ حقی، انہوں نے مجھے کہا کہ تم لکھو۔کیونکہ وہ دیکھتی تھیں کہ میں وال پیپر میگزین کے لیے کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھی، حالانکہ وہ بس یونہی شرارت کی چیزیں تھیں کہ کبھی کسی ٹیچر کے بارے میں کچھ لکھ دیا کبھی کسی لڑکی کے بارے میں، تو انہوں نے کہا کہ تم لکھو۔ میں نے کہا کہ بھئی مجھے تو نہیں آتا۔یہ ڈرامہ ورامہ تو الگ چیز ہے۔تو انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں تم ہی لکھو۔ بس پھر میں نے دو ڈھائی دن میں ڈرامہ لکھ کر انہیں دے دیا۔ کچھ دن بعد اطلاع آئی کہ اسے فرسٹ پرائز ملا ہے۔ہماری پرنسپل نے اسمبلی میں اعلان کیا۔ اس سے بڑی خوشی ہوئی کہ واہ بھئی۔ بس وہ ہماری بریک تھی، سٹارٹنگ پوائنٹ۔اس کے بعد ریڈیو پاکستان والوں نے کہا کہ آپ Studio no. 9 کے لیے لکھیں۔آ پ کی رائٹنگ میچور ہے۔تو میں نے خوشی میں اس پروگرام کے لیے آٹھ دس ڈرامے لکھے۔اس کے بعد میں بی اے کر کے ایم اے میں چلی گئی تو ایم اے چونکہ کچھ مشکل ہوتا ہے تو پھر ڈرامے لکھنا چھوڑ دیے۔پھر ایم اے کیا، پھر بی ایڈ کیا۔ پھر (سوچتے ہوئے)  جب کراچی میں ٹی وی آیا تو انہوں نے ریڈیوکا ایک ڈرامہ لے کر مجھے کہا کہ اسے آپ ٹی وی کے لیےdramatize کر دیں۔ اب ریڈیو کے لیے لکھنا آسان ہے۔ بس آپ کی imagination کام کرتی ہے اور آپ لکھتے چلے  جاتے ہیں۔لیکن ٹی وی کے لیے آپ کو دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ کیا ایسا اصل میں ہو سکتا ہے یا نہیں، ٹی وی کی سکرین پہ اسے کسی physical حالت میں دکھایا جا سکتا ہے یا نہیں۔تو خیر پھر میں نے اسی ڈرامے کو ٹی وی کے لیے لکھ دیا۔ ”نیا راستہ” کے نام سے وہ ڈرامہ چلا۔وہ بھی بہت کامیاب ہوا۔ خیر ہو سکتا ہے اس میں میرا کوئی کمال نہ ہو، کامیڈی کی وجہ سے وہ ڈرامہ مشہور ہو گیا ہو۔ بہر حال پھر مجھے پی ٹی وی والوں نے باقاعدہ بلایا اور کہا کہ آپ عید کے لیے ایک پلے لکھیں۔ پھر میں نے عید کے لیے Happy Eid Mubarak لکھا۔ اس میں مرکزی کردار نیلوفر(عباسی) اور شکیل نے کیے۔وہ بھی بہت پاپولر ہوا۔ اصل میں اس زمانے میں کامیڈی بہت کم کی جا رہی تھی۔ خیر وہ اتنا مشہور ہوا کہ اس کے فوری بعدپی ٹی وی والوں نے کہا کہ اب آپ ایک سیریل لکھیں۔ عظیم بیگ چغتائی کی ایک کتاب تھی، اس میں سے ایک کہانی تھی ”عورت تیرا نام کمزوری”۔۔۔انہوں نے کہا کہ اس پر سیریل لکھ دیں۔ جب میں نے وہ کہانی پڑھی تو وہ بس ایک دس ، بارہ صفحے کا افسانہ تھا، اب اُسے سات قسطوں میں بنانا، میں نے کہا یہ تو بڑا مشکل ہے۔اور وہ تھا بھی 1920ء سے 1930ء کے دوران کا۔اس زمانے کے مزاق بھی الگ تھے، کرداروں کی بنائی بھی، سب الگ تھا۔انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، آپ اسے چھوڑیں، بس مرکزی خیال لے کر اپنی کہانی لکھ دیں۔Free adaptation۔تو وہ پھر ہم نے شہزوری کے نام سے کیا اور luckily شہزوری بہت زیادہ کامیاب رہا۔

الف کتاب: شہزوری تو بہت زبردست پلے تھا۔ کمال۔ اتنے برجستہ مکالمے، اور ایسی دلیر لڑکی۔

حسینہ معین:دیکھو، ٹی وی ڈرامے کی کامیابی، تین لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔رائٹر، ڈائیریکٹر، اور آرٹسٹ۔اگر تینوں میں میل نہ ہو تو ڈرامہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔اور شہزوری میں یہ سب موجود تھا۔ اب جب شہزوری کامیاب ہوا تو بس ایک سلسلہ سا چل پڑا۔



٢۔آپ نے پی ٹی وی کے لیے پہلا اوریجنل سکرپٹ لکھا، کرن کہانی۔ اس سے پہلے ناولز کو ڈرامائی تشکیل دی جاتی تھی۔ اس تجربے کے بارے میں بتائیے۔

حسینہ معین:یہ شہزوری کے بعد ہوا۔ جب شہزوری کامیاب ہوا تو مجھے پی ٹی وی والوں نے کہا کہ اب آپ ایک اور لکھیے، وہ بھی عظیم بیگ چغتائی کی ایک کتاب تھی۔ ۔تب میں نے انہیں کہا کہ دیکھیے ایسا کرتے ہیں کہ میں ایک آئیڈیا دیتی ہوں اور اس پر ہی لکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح کسی کہانی پہ لکھنے میں بھی اتنی ہی محنت پڑتی ہے کیونکہ کہانی بالکل نئے سرے سے لکھنی ہوتی ہے، صرف مرکزی خیال لیا جاتا ہے۔ توانہوں نے کہا کہ اچھا آپ آئیڈیا دیں۔ تو پھر میں نے کرن کہانی کا آئیڈیا دیا۔شروع میں وہ لوگ بڑے پریشان تھے کہ بھئی پہلے تو ہمارے ہاں ایسا کبھی ہوا نہیں، کیونکہ ہم تو ہفتے کے ہفتے کے حساب سے چلتے ہیں۔ ایک ہفتے کا لکھا اگلے ہفتے میں شوٹ ہوتا ہے اور ریکارڈ ہو کر آن ائیر چلا جاتا ہے۔اب اگر کہانی لکھتے ہوئے آپ کہیں رُک گئیں اور آپ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کہانی آگے کیسے جائے تو ہم تو مارے جائیں گے۔ میں نے انہیں مطمئن کرنے کی بہت کوشش کی کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اور تب اس وقت بہت لوگوں نے میرا ساتھ دیا۔افتخار عارف صاحب تھے وہاں، انہوں نے کہا کہ آپ لوگ فکر نہ کریں، یہ کر لیں گی۔محسن علی صاحب نے بھی کہا کہ یہ کر لیں گی۔کنور آفتاب صاحب اس وقت وہاں کے جی ایم تھے۔تو ان سب لوگوں نے اتنا encourage کیا کہ کرن کہانی بن گئی، اور لکھی گئی اور آخر تک ڈائریکٹرز میں ہمارے ساتھ شیرین خان بھی شامل ہو گئیں۔اور وہ بھی بہت اچھی ڈائیریکٹر تھیں۔کرن کہانی کی کامیابی کے بعد پی ٹی وی والوں نے کہا کہ بس اب آپ خود ہی لکھیے، اپنے آئیڈیاز پر۔بس پھر میں نے زیر زبر پیش لکھا، انکل عُرفی لکھا ۔

الف کتاب: آپ کے یہ تمام ڈرامے بے حد کامیاب رہے، بہت مشہور ہوئے۔ ایک اچھے سکرپٹ کے علاوہ اور کیا وجوہات تھیں ان کامیابیوں کی؟

حسینہ معین:دیکھیں میری ہمیشہ سے پریکٹس تھی کہ میں دو ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کرتی تھی۔دو اس لیے کہ ایک ڈائریکٹر میرے ساتھ ڈسکس کر رہا ہوتا تھا ، سن رہا ہوتا تھا کہ میں نے کیا لکھا ہے،اور اگر اس کو ٹھیک کیا جائے تو کیسے کیا جائے اور دوسرا ڈرامہ ریکارڈ کروا رہا ہوتا تھا۔لیکن آپ یہ دیکھیں کہ آپ میری جتنی بھی سیریلز دیکھیںگے آپ کو کہیں بھی ڈائریکشن کا فرق نظر نہیں آئے گا۔یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے بہت اچھے ڈائریکٹرز ملے۔ شروع ہی سے یہ میرے ساتھ یہ دو ڈائریکٹرز، شیرین خان اور محسن علی چلتے رہے۔ So much so  کہ جب میں نے ہیڈ کوارٹر میں آئیڈیا دیا کہ میں ہنری جیمز کے ناول ”The Portrait of a Lady” پہ لکھنا چاہتی ہوںتو وہاں سے جواب آیا کہ اگر یہ حسینہ کر رہی ہیں تو کرنے دیں لیکن اگر کوئی اور کر رہا ہے تو نہیں ہو گا!



Loading

Read Previous

فصیح باری خان – گفتگو

Read Next

خلیل الرحمٰن قمر  – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!