حسینہ معین – گفتگو

الف کتاب : ایسا کیوں آپا؟

حسینہ معین : کیونکہ آ پ کبھی نوٹ کریں کہ اگر آپ ایک لائن سے ریموٹ گھماتے جائیں تو آپ کو لگے کہ ایک ہی ڈرامہ چل رہا ہے۔ وہاں سے میاں بیوی کی لڑائی ہو رہی ہے، وہاں سے نند کا جھگڑا چل رہا ہے، میاں تین تین شادیا ں کر رہے ہیں،بیوی ادھر ادھر بھا گ رہی ہیں، کس کی کس سے شادی ہوئے جا رہی ہے کچھ پتا نہیں چل رہا۔ارے بھئی اس کے علاوہ کوئی ٹاپک نہیں ہے ہمارے پاس؟ اور جملے بھی لگ بھگ وہی ہیں، ایک جیسے۔اب تو میں نے یہ بھی سنا ہے کہ ظاہر ہے کہ ایک ہی رائٹر اتنا لمبا سوپ نہیں لکھ سکتا، تواسے چار ، چھ رائٹرز میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

الف کتاب: جی آپا ہوتا ہے۔ اور اصل میں یہ تو دنیا بھر میں پریکٹس ہے۔ امریکہ، برطانیہ میں جو سوپ بنتے ہیں وہاں رائٹرز کی ایک پوری ٹیم ہوتی ہے جو ان پہ کام کرتی ہے۔

حسینہ معین:ہاں لیکن وہاں جو کام ہوتا ہے وہ تو خاص طور پہ خیال رکھتے ہیں کہ ایک قسط کا دوسری قسط سے تال میل جم رہا ہے یا نہیں، یا یہ کہ کہیں ایک ہی موضوع کے چار چار پروگرام ایک ساتھ تو نہیں چل رہے۔ دیکھتے ہیں کہ اگر ایک ٹیم میں ایک سے زیادہ رائٹرز ہیں تو سب کی  ایک دوسرے سے wavelength ملتی ہے یا نہیں۔یہاں تو جو ملا چلا دیا، ایک ہی ڈرامہ ہو گا لیکن لگے گا ٹکڑے جوڑے ہوئے ہیں۔

الف کتاب: آپ کے ہم عصر لکھاریوں میں کون تھا جن کے کام سے آپ بہت متاثر تھیں؟

حسینہ معین:میرے ساتھ جو بڑے بڑے نام کام کررہے تھے ان میں حمید کاشمیری، نورالہدیٰ شاہ جو کچھ بعد میں آئیں، امجد اسلام امجد، مستنصر حسین تارڑ ، قمر جلیل اور بھی کئی بڑے لوگ شامل ہوا کرتے تھے۔اور میں ان سب کے کام سے بہت متا ثر تھی۔ ہوا یہ کہ اگر اس زمانے میں انڈر ٹریننگ یہ لوگ ایک ایک آدمی کو ساتھ لگا دیتے ، جو لکھنے کا شوقین ہوتاکہ ساتھ ساتھ سیکھتا رہتا کہ لکھتے کیسے ہیں، تو سیکنڈ ٹیم تیار ہو جاتی۔ہمارے پاس سے جب یہ سب لوگ ہٹ گئے تو پیچھے کوئی نہیں بچا۔مطلب فرنٹ لائن کے پیچھے بھی فوج کا دستہ ہوتا ہے نا کہ سامنے والے گئے تو پیچھے سنبھالنے کے لیے اور لوگ موجود ہیں۔یہ نہیں ہو سکا۔اور ایسا صرف لکھنے کے ساتھ نہیں ہوا، یہ ہر شعبے کی محرومی ہے۔نہ ڈائریکشن میں کوئی ہے، نہ انتظامات میں ، تو ظاہر ہے، معیار گرنا ہی تھا۔

الف کتاب:  ایک سکرپٹ ایڈیٹریا کونٹینٹ ہیڈ کے طور پرآپ کسی بھی سکرپٹ کی مضبوطی کس طرح پرکھتی تھیں؟کون سی چیز آپ کو سب سے پہلے متوجہ کرتی ہے اور کون سی غلطیوں کی وجہ سے آپ کسی سکرپٹ کو ریجیکٹ کرتی ہیں؟



حسینہ معین: دیکھو، کبھی بھی کتاب کے پہلے کچھ صفحے آپ کو نہیں بتا پاتے کہ کہانی کیسی ہے۔اس لیے میں پہلے کچھ صفحے پڑھ کر اندازے نہیں لگاتی۔ میرے خیال سے اسے کچھ وقت دینا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن بہر حال کچھ چیزیں میرے لیے سکرپٹ میں ضروری ہوتی ہیں۔resolution ،  conflict اور کردار۔  میرے نزدیک کہانی کا resolution بہت اہم چیز ہے۔ کہانی میں اچھا ، برا جو بھی دکھایا گیا ہے، کیا اسے سمیٹا گیا ہے؟ کہانی کے اختتام پہ کوئی مسیج ہے؟ جو مسئلہ اٹھا یا گیا، کیا اس کا حل بتا یا گیا ہے؟ اب ایک ڈرامہ آتا تھا قدوسی صاحب کی بیوہ۔ شدید دکھ ہوتا تھا اسے دیکھ کر۔ کیا بتانا چاہ رہے ہیں یہ لوگ، کہ ہمارے غریب معاشرے میں اتنی برائیاں ہیں؟ ایسی اخلاقی گراوٹ ہے؟ اور جو مسئلے اس میں دکھا رہے ہیں، ان کا کہیں حل ہی نہیں بتاتے۔

دوسرا مجھے بے جان کردار نہیں پسند۔ سکرپٹ میں سب سے پہلے کردار انٹروڈیوس کروائو۔ بتا ئو کہ کردار کیا ہے۔ اور کردار بھی ایسا کہ جان دار، جیتا جاگتا فرد لگے۔ کتابی شکل نہ ہو۔جملہ بھی ایسا کہ کتاب کی لائن نہ لگے۔ ایک اور اہم پہلو conflict ہوتا ہے۔ کہ کہانی کس مشکل، کس مقصد کے بارے میں ہے۔ چاہے وہ کوئی مزاحیہ سا مسئلہ ہو۔ لیکن conflict ہمیشہ سکرپٹ کو روح دیتا ہے۔ کہانی کو آگے چلنے کی وجہ دیتا ہے۔

الف کتاب:آپ کے مطابق ایک مضبوط سکرپٹ کے لیے کون سے تین اجزاء سب سے زیادہ ضروری ہیں؟

حسینہ معین:بہت ساری چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔ میرے حساب سے کسی بھی کہانی ، سکرپٹ کا سب سے اہم جُز اس کے کردار ہوتے ہیں۔ میں جب بھی کہانی بناتی ہوں تو سب سے پہلے کردار بناتی ہوں۔کرداروں کو بنانے کے لیے میں بہت محنت کرتی ہوں۔ شہزاد خلیل صاحب کہا کرتے تھے کہ حسینہ تم تو کہانی میں نوکر کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتی ہو جتنا ہیرو کو۔میں کہتی تھی شہزاد صاحب وہ بھی تو ایک کردار ہے، اگر وہ ڈھیلا پڑ گیا تو آپ کا پورا پلے suffer کرے گا۔میرے کردار اپنی کہانی خود بناتے ہیں۔ کہانی بناتے ہوئے کردارکے ساتھ کبھی زبردستی نہ کریں۔ کہانی کو کردار کے ساتھ بالکل جوڑ دیں، کردار آپ کو خود بتائے گا کسی بھی سچویشن میں اس کا رویہ کیسا ہو گا!جب کردار بنائیں تو انہیںبہت پرفیکٹ اور one-dimensional نہ بنائیں، جیسے آج کل ڈراموں کی ہیروئنز ہیں۔ رو رہی ہیں تو روئے جا رہیں ہیں، قربانی دینی ہے تو دیے جا رہی ہیں۔۔۔یہ مت کریں۔کردار کو پراگریس کرنے دیں۔ انسان کی زندگی میں دس چیزیں ہوتی ہیں۔ مختلف چیزیں انسان کو مختلف طرح سے بدلتی ہیں۔جیسے انسان مختلف پرتوں میں سمٹا ہوتا ہے، کبھی کیسا تو کبھی کیسا، اُسی طرح کردار بھی مختلف جہتیں رکھتے ہیں۔ انہیں کھل کے اپنا آپ دکھانے دیں۔اس سے آپ کی کہانی کو ہی مدد ملے گی۔

ایک اور اہم بات یہ کہ جب آپ لکھیں تو سچویشنز کے ذریعے کہانی کو جوڑتے چلیں جائیں۔لمبے لمبے بیانیے نہ ڈالیں۔ جیسا آج کل دکھاتے ہیں کہ بیک گرائونڈ میں narration چل رہی ہے، وہ نہ کریں۔ لمبے لمبے monologues نہ بولیں۔پورے پورے گانے پیچھے چل رہے ہیں، یہ سب مت کریں۔یہ سب بہت irritating لگتا ہے۔

اور ایک اور چیز جس کا میں بہت خیال رکھتی ہوں کہ ہم اپنی اقدار سے باہر نہ جائیں۔ آپ جو لکھتے ہیں وہ آپ کا پورا پس منظر دکھاتا ہے، اس لیے خیال رکھیں کہ آپ لوگوں کو پڑھنے اور دیکھنے کے لیے کیا دیں رہے ہیں۔ آپ کی ایک ذمہ داری ہے معاشرے کی طرف۔ کچھ ایسا نہ دکھائیں جس سے معاشرہ اور تباہی کی طرف جائے۔ اب ایک ڈرامے میں میں نے دیکھا کہ کچھ لڑکے سکول کی چھوٹی بچیوں کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے جا رہے ہیں اور وہ چلی گئیں۔ That was very wrong!۔یہ سب کیوں دکھا رہے ہیں۔ دکھانے کا مقصد کیا تھا؟ہر لڑکی سوچے گی کہ لو بھئی گھومنے کو مل رہا ہے۔ اور ہر لڑکا سوچے گا کہ اچھا، یہ اتنا آسان ہے توہم کھڑے ہو جائیں گے کسی کالج کے باہر، اور پٹا لیں گے کسی کو۔ یہ رائٹرز کا بڑا unjust رویہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس طرح کی چیزیں زیادہ تر لڑکیا ں ہی لکھ رہی ہیں۔



Loading

Read Previous

فصیح باری خان – گفتگو

Read Next

خلیل الرحمٰن قمر  – گفتگو

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!