تم میرا نصیب نہ تھے — سلمیٰ خٹک

وہ دونوں انگلینڈ کے ایک دور دراز ساحل سمندر پر چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔سامنے اُن کے بچے پانی میں کھیل رہے تھے۔ سیاحوں کے لیے وہ دونوں بھی توجہ کا مرکز تھے۔ جوزف گورا چٹا، نیلی آنکھوں اور لمبے قد والا کسرتی بدن کا مالک، آدھی آستینوں والی سفید شرٹ اور جینز میں پاؤں پھیلائے اپنی کہنیوں پر ٹکا ہوا نیم دراز تھا۔ اس کے ساتھ نور تھی۔ پوری آستینوں کی ڈھیلی ڈھالی شرٹ، ساتھ میں لمبا سکرٹ اور اپنا پورا سر سکارف میں چھپائے ہوئے تھی۔ اس نے بڑی سن گلاسز لگائی ہوئی تھیں اور جوزف کے سامنے سمٹ کر ایک طرف چٹائی پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”نائس کپل!” (اچھی جوڑی ہے) ایک معمر جوڑے نے نزدیک سے گزرتے ہوئے انہیں دیکھ کر کہا اور مُسکرا کر آہستہ آہستہ آگے چل دیئے۔
”تھینک یو!” جوزف نے مسکرا کر کہا۔
”وہ ہمارے بچے ہیں۔” اُس نے معمر جوڑے کو بچوں کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔ وہ دونوں بڑی حیرت سے اُن چار بچوں کو دیکھنے لگے۔ دو لڑکے اور دو لڑکیاں، لیکن ایک لڑکا اور لڑکی بالکل گورے جب کہ دوسرے دو گندمی رنگت کے مگر بے حد خوب صورت بھوری آنکھوں والے بچے تھے اور گورے تو کالی اور بھوری آنکھوں پر مر مٹتے ہیں۔
”خوش رہو!” عورت نے انہیں دعا دی اور اپنے بوڑھے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ ریت پر ان سے دور چل دی۔
”اب بھی کہتا ہوں، شادی کر لو مجھ سے، ہم دونوں ہی خوش رہیں گے اور ہمارے بچے بھی۔” جوزف نے نور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”جوزف! تم باز نہیں آؤ گے۔”
نور نے قدرے خفگی سے کہا۔
اس نے بچوں کو آواز دی اور قریب پڑے باسکٹ سے سینڈوچز اور جوس کے ڈبے نکالنے لگی۔ بچے چیختے ہوئے اکٹھے جوزف کے اوپر دور سے دوڑتے ہوئے چڑھ دوڑے اور وہ ”ہائے میں مر گیا” اور ”بچاؤ بچاؤ اِن چھوٹے شیطانوں سے مجھے بچاؤ” چلاتے ہوئے ایک ایک کو پکڑنے لگا۔
نور مسکراتے ہوئے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ سب کچھ کتنا مکمل اور اچھا لگ رہا تھا مگر اس کے دل میں ایک ہوک سی اُٹھی کہ یہ تو بالکل اُلٹ تھا۔ کچھ بھی تو مکمل نہیں تھا اُس کی زندگی میں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

دور سمندر پار سورج ایک بہت بڑے سونے کے تھال کی مانند دکھائی دے رہا تھا جو آہستہ آہستہ پانی میں اُترنے کی تیاری کررہا تھا۔ نور نے سامان سمیٹا، چٹائی لپیٹی اور جوزف نے بچوں کو اپنے آپ کو خشک کرنے کے لیے الگ الگ تولیے دیئے اور انہیں جوتے پہنانے میں مدد کرنے لگا۔
وہ لوگ ساحل سمندر سے پندرہ بیس منٹ کے فاصلے پر رہتے تھے۔ یہ انگلینڈ کا ایک خوب صورت اور پُرسکون قصبہ تھا۔ یہ علاقہ زیادہ تر ریٹائرڈ اور عمر رسیدہ لوگوں کا مسکن تھا جو ساری عمر بڑے شہروں کے شور و غل میں مشینی زندگی گزارنے کے بعد اپنے آخری ایام آرام و سکون سے گزارنے کی خواہش میں یہاں رہتے تھے۔ بچے ان کے گھونسلوں سے اُڑ چکے تھے اور اُسی مشینی زندگی کے سائیکل میں جتے ہوئے تھے، جس میں اُن کے والدین عمر گزار چکے تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنے بوڑھے والدین کو سال گرہ، کرسمس پر شکل دکھا جاتے تھے ورنہ تو کونسل کی طرف سے صفائی والا، دوائی دینے والی نرس اور یہاں تک کہ تین وقت کا کھانا بھی انہیں کوئی آکر دے جاتا تھا۔ ایسے قصبے میں رہنے کا فیصلہ اُس نے اِسی لیے کیا تھا کہ اپنے ہم وطنوں سے دور رہ سکے اور اُس کے خاندان والے اُس تک پہنچ نہ پائیں۔ وہ سب سے ناطہ توڑ کر، پاکستان سے بڑی رازداری سے اور چھپ کر بچوں کے ساتھ انگلینڈ آئی تھی اور یہاں اس نے پناہ کے لیے درخواست دی جو منظور ہوگئی تھی۔ اس کی ڈگریاں اُس کے بہت کام آئی تھیں۔ اس نے جس سکول میں بچوں کو داخل کروایا تھا، اُس کی پرنسپل نے از راہِ ہم دردی اُسے ”ٹیچنگ اسسٹنٹ” کے طور پر رکھ لیا تھا۔ وہ کلاس ٹیچر کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ کبھی بچوں سے سبق سنتی تو کبھی ڈرائنگ کی کلاس کے لیے بچوں کو پنسل کاغذ پکڑاتی، کلاس روم کے چھوٹے چھوٹے کام اس کے ذمہ تھے۔ تنخواہ کم تھی مگر گزارہ ہو رہا تھا۔ گھر اُسے کونسل نے دیا تھا۔بچوں کی تعلیم مفت تھی تو صرف کھانے پینے کا خرچہ ہی تھا۔ جوزف سے ملاقات بھی بڑی یادگار تھی۔
٭…٭…٭
جیسے ہی ٹیکسی اُس کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچی، وہ اور بچے اُتر کر سامنے چھوٹے سے گھر کو دیکھنے لگے۔ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا گھر بالکل چھوٹا سا ”گڑیا کا گھر” معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے سامنے چھوٹا سا سبزے کا پلاٹ تھا جس کی گھاس کافی بڑھ چکی تھی۔ سامنے سرخ دروازہ تھا۔ ٹیکسی والے نے اُس کے دو بڑے سوٹ کیس نکالے اور نور نے اُسے کرائے کے پیسے پکڑائے۔ اس نے ٹیکسی والے سے نزدیکی بازار کا پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ چھوٹا سا قصبہ ہے۔ تقریباً دس بارہ منٹ کی مسافت پر چھوٹا سا بازار ہے جب کہ ساتھ والی گلی کے نکڑ پر ایک چھوٹا سا سٹور ہے جس میں ضرورت کی ہر چیز مل جاتی ہے۔ وہ اس کا شکریہ ادا کرکے سوٹ کیس دروازے کے پاس لانے لگی۔ بچوں کو بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ جتنے پیسے پاکستان سے لائی تھی وہ اُس نے ایئرپورٹ سے پاؤنڈ میں تبدیل کروا لیے تھے جو بڑی تیزی سے ختم ہورہے تھے۔ برمنگھم ایئرپورٹ سے نکل کر وہ اپنی ایک سکول کی سہیلی کے گھر گئی تھی جہاں دس بارہ دن گزارنے کے دوران اُس نے خاندانی دشمنی اور اپنی اور بچوں کی جان کو خطرہ بتا کر انگلینڈ میں پناہ کے لیے درخواست دی تھی۔ جب اُسے اس دور دراز علاقے میں گھر کی آفر کی گئی تو اُس کی درخواست پر کام آسانی سے ہوگیا اور اب برمنگھم سے پانچ گھنٹے ٹرین کی مسافت کے بعد اور ٹرین سٹیشن سے ٹیکسی میں گھر آنے کے بعد بچوں کو زوروں کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہ دروازے پر ہی چیخ رہے تھے۔ پرس میں سے گھر کی چابیاں نکالتے ہوئے اُس نے غصے سے بچوں کو پشتو میں ڈانٹا۔ وہ غصے میں انہیں گھر کے اندر داخل ہونے کو کہہ رہی تھی اور ساتھ ہی اپنی بھی تھکاوٹ اور بھوک سے اُن کو آگاہ کررہی تھی۔
”میرا دماغ خراب نہ کرو تم دونوں، کچھ کرتی ہوں میں، پہلے گھر میں تو داخل ہونے دو۔ تنگ کرکے رکھ دیا ہے تم دونوں نے مجھے تم لوگوں کے لیے ہی تو یہ سب کچھ کررہی ہوں۔” وہ رو دینے کو تھی جب اچانک خوف سے اُس کے اوسان خطا ہوگئے۔ کوئی بے حد قریب سے پشتو ہی میں اُس کو مخاطب کررہا تھا۔ اُس نے تیزی سے مُڑ کر دیکھا تو اور بھی حیران و پریشان ہوگئی۔ سامنے لمبے قد کا، نیلی آنکھوں والا ایک گورا کھڑا تھا جس کی ایک ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا تھا اور وہ چھڑی کے سہارے کھڑا تھا۔
”ہیلو! ذَما نُوم جوزف دے۔ ماشو مانو نہ غصہ مہ کوہ” (ہیلو! میرا نام جوزف ہے، بچوں پر غصہ مت ہو۔)
نور کچھ بول ہی نہ سکی۔ آدھے گھنٹے بعد وہ گھر کے اندر تھی اور بچے خوشی خوشی پنیر اور ٹماٹر کے سینڈوچز کھا رہے تھے جو جوزف اپنے گھر سے بناکر لایا تھا۔ سیب کے جوس کا بڑا ڈبہ اور ساتھ میں چاکلیٹ کیک کے چار چھوٹے ٹکڑے ایک پلیٹ میں رکھے ہوئے تھے۔ اُس کے دو بچے جو نور کے بچوں کے ہم عمر لگ رہے تھے، ان دونوں بچوں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے جو سینڈوچز اور جوس پر ٹوٹ پڑے تھے۔ جوزف خاموشی سے اُس کو تکے جارہا تھا۔ اُسے بے چینی سی ہونے لگی۔ وہ صوفے پر پہلو بدل کر بچوں سے پانی کا پوچھ رہی تھی۔ مگر وہ کہاں اُس کی سن رہے تھے، سینڈوچز کے بعد وہ لوگ اب چاکلیٹ پر ہاتھ صاف کررہے تھے۔
”میں ابھی آیا۔” یہ کہتے ہوئے جوزف اُٹھا اور اپنے دونوں بچوں کو بھی اُٹھنے کا شارہ کیا۔ اپنی چھڑی سنبھالتے ہوئے وہ باہر کے دروازے کی طرف بڑھا۔
نور کو حیرت ہوئی کہ وہ اچانک اُٹھ کر کیوں چلا گیا۔ اُس نے جلدی سے دروازہ لاک کیا اور پہلی دفعہ اُس چھوٹے سے گھر کا جائزہ لینے لگی۔ نیچے چھوٹا سا لاؤنج تھا جس میں دو سیٹوں والے دو صوفے پڑے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں چھوٹا سا چوکور میز اور چار کرسیوں والی ڈائیننگ ٹیبل تھی۔ دو کافی ٹیبل بھی پڑی ہوئی تھیں۔
اس نے ساتھ والا دروازہ کھولا تو اسے چھوٹا سا کچن نظر آیا۔ اُسے حیرت ہوئی کہ وہاں واشنگ مشین اور فریج بھی پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف دیوار کے ساتھ کوکنگ رینج بھی موجود تھا۔ اوپر دیوار میں چھوٹی چھوٹی الماریاں نصب تھیں۔ اُس نے الماریاں جلدی جلدی کھول کر سرسری سی نگاہ ڈالی تو اسے کچھ برتن نظر آئے۔ اوپر کے پورشن میں دو بیڈ روم اور ایک باتھ روم تھا۔ بڑے بیڈ روم میں ایک ڈبل بیڈ اور کپڑوں کی الماری جب کہ چھوٹے کمرے میں دو سنگل بیڈز پڑے ہوئے تھے۔ بچے بھی گھر میں اوپر نیچے پھر رہے تھے مگر اب انہیں نیند آنے لگی تھی انہیں۔
اُس نے اپنے سوٹ کیس میں سے اپنی دو گرم چادریں نکالیں اور ڈبل بیڈ کے گدے پر ڈال دیں۔ بچوں کو سویٹر اور جرابیں پہنا کر بیڈ پر لیٹنے کی تاکید کی کیوں کہ اُس کے پاس تو کمبل وغیرہ کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ دن بھی اُس کے بچوں نے دیکھنے تھے۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن وہ بچوں کے سامنے کم زور نہیں پڑنا چاہتی تھی، سو جلدی سے کمرے سے نکل آئی۔
اُسے اپنا گرم کوٹ یاد آیا جو نیچے صوفے پر پڑا ہوا تھا۔
”چلو یہی اوڑھا دیتی ہوں۔ کل جا کر ضروری چیزیں لے آؤں گی۔”
وہ نیچے پورشن میں آئی تو دفعتاً دروازے پر دستک ہوئی۔ اُسے یاد آیا جوزف نے آنے کا کہا تھا۔ اُس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ سامنے کھڑا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کمبل اور دوسرے ہاتھ میں چھڑی تھی جب کہ اُس کی بیٹی ساتھ میں کارن فلیکس کا ڈبہ اور ایک لیٹر دودھ کے ٹیٹرا پیک ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔
”سوری! تھوڑی دیر ہوگئی۔ یہاں قریب ہی چھوٹی سی دکان ہے ہم وہاں سے یہ چیزیں لینے گئے تھے۔” نور دروازے پر ہی کھڑی رہی۔
”اندر آنے دو بھئی ایک دو اور بھی کام ہیں۔” جوزف نے کہا تو نور جلدی سے پیچھے ہوئی اور انہیں اندر آنے کا راستہ دیا۔
جوزف کی آواز سُن کر دونوں بچے بھی نیچے آگئے۔ جوزف کی بیٹی اُن سے ان کے بارے میں پوچھنے لگی جب کہ جوزف کچن کی طرف بڑھ گیا۔ کمبل اُس نے وہیں صوفے پر رکھ دیا تھا۔اُس نے فریج کا سوئچ آن کیا اور کچن کے ایک کونے میں لگے ہوئے شیلف کی طرف بڑھا۔
”اِدھر آؤ! یہ بٹن دیکھ رہی ہو۔ اِس کو آن کرنے سے تمہارے گھر میں سنٹرل ہیٹنگ آن ہوجائے گی۔ تمہارے سارے کمروں میں جو دیواروں کے ساتھ لوہے کی بنی ہوئی بڑی بڑی گرل سی لگی ہوئی ہیں، اِن میں سے گرم پانی گزرنے لگے گا اور کمروں کو گرم کرنے کا کام شروع ہو جائے گا۔” وہ انگریزی میں بڑی روانی کے ساتھ اُسے سمجھا رہا تھا۔
”اور ہاں نلکوں میں بھی گرم پانی آنے لگے گا۔” وہ اب بھی باتیں کرتے کرتے کچھ بٹنوں کو دبا رہا تھا۔
”بس ہوگیا! میں نے اِس میں ٹائم بھی سیٹ کر دیا ہے۔ اب رات کودس بجے کے قریب یہ ہیٹر بند ہو جایا کریں گے اور صبح پانچ بجے دوبارہ خود ہی آن ہو جایا کریں گے۔ تم لوگ جب تک اٹھو گے تو گھرگرم ہوگیا ہوگا۔ اچھا میں چلتا ہوں تم لوگ تھکے ہوگے۔ وہ سامنے پینتیس نمبر گھر ہے میرا، صبح بات ہوگی۔”
نور ممنونیت سے اسے دیکھنے لگی۔ غیب سے کوئی فرشتہ ہی اُتر آیا تھا اُس کی مدد کرنے کو۔ وہ دروازے پر پہنچا تو نور کو یاد آیا کہ اُس نے پہلی بات پشتو میں کی تھی۔ اُس کے بعد تو وہ دونوں انگریزی میں ہی بات کرتے رہے تھے۔
”سنو! پشتو کیسے سیکھی ہے تم نے؟” نور نے پوچھا۔
”میں سوچ رہا تھا کہ تم کب پوچھو گی مجھ سے؟” وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”میں برٹش آرمی میں تھا اور دو سال افغانستان میں سروس کرتا رہا ہوں۔ چھ مہینے پہلے یہ سوغات لے کر آیا ہوں وہاں سے۔” اس نے اپنی پلاسٹر لگی ٹانگ کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
”اور وہاں کے مقامی لوگوں سے کچھ نہ کچھ پشتو سیکھی ہے، مگر تم افغانی نہیں ہو۔ تمہارا لہجہ بارڈر کے اُس طرف کا ہے، یعنی پاکستان کا۔” نور حیرت سے اُس کو دیکھتی رہی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
”کسی بھی قسم کی مدد چاہیے ہو تو سامنے ہی میرا گھر ہے۔ دروازے وغیرہ اچھی طرح سے بند کرلینا۔ شب بہ خیر۔” یہ کہہ کر وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ سڑک کے پار بنے ہوئے اسی طرح کے چھوٹے سے ایک سرخ اینٹوں والے گھر کی طرف بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
شروع کے دن بہت کٹھن تھے۔ اپنی سہیلی کے گھر رہتے ہوئے وہ صرف برطانوی دفتر کے چکر ہی لگاتی تھی جہاں اُس کا انٹرویو ہوا تھا۔ اُسے اپنا آپ پناہ گزین بننے کا اہل ثابت کرنے کے لیے کچھ سچ، کچھ جھوٹ کا سہارا لے کر افسران کو قائل کرنا تھا۔ بچے گھر پر اس کی سہیلی کے پاس ہوتے تھے۔ جیسے ہی اُسے کونسل نے یہ چھوٹا سا گھر الاٹ کیا، اُس نے دوسرے ہی دن اپنے بیگ پیک کیے اور یہاں آگئی۔ اُس نے اپنی سہیلی کو بھی غلط پتا بتایا تھا۔ وہ کسی بھی جاننے والوں سے بہت دور چلے جانا چاہتی تھی۔
اور اب یہاں بچوں کے ساتھ اس گھر میں، جب کہ آدھی سے زیادہ رات گزر چُکی تھی اور ڈبل بیڈ پر دونوں بچوں کے درمیان لیٹے ہوئے اور جوزف کے دیئے ہوئے کمبل اوڑھے ہوئے اسے مستقبل کی فکروں نے آگھیرا تھا۔ وہ کیا کرے گی؟ پاکستان سے نکلنے کا فیصلہ کرنے سے لے کر آج اِس وقت تک اُسے کوئی چیز یاد نہیں تھی۔ بس وہ خود کو اور بچوں کو پشاور سے، اپنے شوہر سے، اپنے والدین سے، اپنی فیملی سے سب سے دور، بہت دور لے جا کر چھپ جانا چاہتی تھی۔ مگر اب اُسے نئے نئے اندیشوں نے آ گھیرا تھا۔ کیا وہ اکیلے اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کر پائے گی؟ کیا انگلینڈ آنے کا فیصلہ اُس نے صحیح کیا یا نہیں؟ کیا وہ ہمیشہ اپنے وطن، اپنے شہر اور خاندان کے لوگوں سے چھپ کر رہ سکے گی؟ اور انہیں سوچوں میں غلطاں نور کی آنکھ پتا نہیں کس وقت لگی۔
اگلے کئی دن کافی مصروف رہے تھے۔ دوسرے ہی دن جوزف نے اسے بازار سے جاکر ضروری سامان خریدنے میں مدد کی۔ وہ ایسے نور کے سارے کاموں میں مدد کررہا تھا جسے وہ برسوں سے اُسے جانتا ہو۔ کچھ ہی دنوں میں وہ سرخ اینٹوں والا مکان گھر کی شکل اختیار کرگیا تھا۔ پردے لگ گئے، تکیے، بیڈ شیٹ وغیرہ آگئے۔ جوزف کے مشورے پر نور نے چھوٹا کمرہ بچوں کے لیے سیٹ کیا۔ ڈرائنگ روم کے لیے کُشن اور ایک دو پینٹنگز وغیرہ لیں۔ کافی سامان تو جوزف یہ کہہ کر خود ہی لے آیا تھا کہ اُس کے گھر میں ویسے ہی یہ چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔
”میری بیوی جب مجھے چھوڑ کر گئی تو سب کچھ یہیں چھوڑ گئی تھی، یہ کہہ کر وہ مجھ سے جُڑی ہوئی کوئی چیز ساتھ نہیں رکھناچاہتی۔” ایک دن نور کے پوچھنے پر جوزف نے اسے بتایا۔
”مگر وہ کیوں چھوڑ کر گئی تمہیں؟” نور نے تجسس سے پوچھا۔
”جب تک میں پیسے بنانے کی مشین بنا رہاوہ خوش تھی، مگر جب زخمی ہوکر واپس آیا تو اُس نے کوئی اور ڈھونڈ لیا۔” اُس نے تلخ لہجے میں بتایا۔
”اور بچے؟” نور نے سراسیمگی کے عالم میں اگلا سوال کیا۔
”شکر ہے بچے بھی خود چھوڑ کر گئی ہے ورنہ میں تو اِن کے بغیر جینے کا تصورہی نہیں کرسکتا۔ میری زندگی اِن دونوں کے دم سے ہے۔” یہ کہتے ہوئے جوزف کی آنکھوں میں نمی کی سی آگئی۔ نور کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں۔ اُسے جوزف بالکل اپنے جیسے ہی تو لگا تھا۔ دونوں اپنے بچوں پر دل و جان سے فدا تھے اور اُن کی زندگی کا محور اُن کے بچے ہی تھے۔
”چلو بھئی! بہت جذباتی سین ہوگئے۔” جوزف اپنی ہتھیلیوں سے آنسو پونچھتے ہوئے بولا۔
”میں نے بچوں کو سکول سے لینے جانا ہے، یہاں نزدیک ہی ہے۔ پیدل ہی اُن کو لاچھوڑ آتا ہوں اور لے آتا ہوں۔ تم بھی بچوں کو سکول میں ڈال لو۔ اگر چاہو تو کل سکول اکٹھے جاکر پرنسپل سے بات کرلیتے ہیں۔” وہ اٹھتے ہوئے اور چھڑی سیدھی کرتے ہوئے بولا۔
”ہاں! ضرور چلوں گی۔” نور نے جلدی سے کہا۔
”ٹھیک ہے! کل تیار رہنا۔ بچوں کو بھی لے جائیں گے۔”
”جوزف!” نور نے اچانک اسے آواز دی۔
”ہاں”۔ جوزف جواب اٹھ کر کھڑا ہوچکا تھا، اس کی آواز پر بولا۔
”تھینک یو۔”
”کس لیے؟”
”اُس سب کے لیے جو تم نے میرے لیے کیا۔”
”ارے! میں نے اتنا کچھ کیا اور تم صرف تھینک یو کہہ کر جان چھڑا رہی ہو۔”جوزف نے مایوس ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
نور کو ہنسی آگئی۔ اب اتنے دنوں جوزف کے ساتھ ہوتے ہوئے اتنا تو اُسے معلوم ہوچکا تھا کہ وہ بے لاگ اور لگی لپٹی بغیر بات کرنے والا بندہ تھا اور اُسے پہلے ہی اندازہ تھا کہ وہ ”کوئی بات نہیں” یا اس قسم کا کوئی رسمی جملہ تو بولے گا ہی نہیں۔
”اچھا بتاؤ! اب تمہارے احسانات کیسے چکاؤں؟” نور نے ہنسی روکتے ہوئے پوچھا، ”بھئی کبھی کبھی اچھا سا کھانا بنا کر کھلا دیا کرو۔”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

زندگی تو باقی ہے — مائرہ قیصر

Read Next

دیکھ تیرا کیا رنگ کردیا ہے —- فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!