الف — قسط نمبر ۱۰

”وہ جو آپ کو ہر سال آپ کی سالگرہ پر دیتے تھے۔” اُس نے بڑے جتانے والے انداز میں مومن کو جیسے یاد دلایا۔ قلبِ مومن نے جواباً بے حد ملامتی نظروں سے اُسے دیکھا۔
”اچھا ۔۔۔ اچھا ۔۔۔ وہی والی۔۔۔ لاتا ہوں۔” شکور اُس کی نظروں کو پہچان گیا تھا۔ وہ گڑبڑایا ہوا گیا تھا اور چند منٹوں میں ہی دھول اور مٹی سے اٹتے ہوئے وہ پینٹنگز اُٹھا کر لے آیا تھا۔جن پر اخبار نہ چڑھا ہوتا تو دھول اور مٹی اُن کی شکل و صورت خراب کرچکی ہوتی۔
”عبدالعلی صاحب کی خطاطی کے شاہکار ہیں یہ۔۔۔ انہیں اس طرح کون رکھتا ہے۔”
خالق علی اُن پینٹنگز پر چڑھی اخباروں کو اس طرح دھول سے اٹا ہوا دیکھ کر جیسے بے اختیار تڑپ اُٹھا تھا۔ قلبِ مومن کا چہرہ سُرخ ہوا ۔ اُس نے کاٹ کھانے والی نظروں سے شکور کو دیکھا تھا۔ اُسے امید نہیں تھی وہ اُنہیں جھاڑے پونچھے بغیر اسی طرح اُٹھا لائے گا۔
”اخبار تو چڑھا ہوا ہے جی۔۔۔ اسی لئے صاف نہیں کیا میں نے۔۔۔ اخبار نہ چڑھا ہوتا تو روز جھاڑ پونچھ کرتا میں۔” شکور نے کہا خالق علی سے تھا مگر یہ وضاحت قلبِ مومن کے لئے تھی۔ خالق علی کے سامنے میز پر رکھ کر اُس نے ایک پینٹنگ سے وہ اخبار ہٹائی تھی اور خالق علی کی آنکھیں چمکنے لگی تھیں۔
”بس باقیوں سے مت ہٹائیں۔” اُس نے ہاتھ کے اشارے سے شکور کو روکا تھا۔
”یہ سات ہیں نا؟” اُس نے قلبِ مومن سے پوچھا ۔ اُس نے جواباً اثبات میں سرہلایا۔
”ہر سال اُن کے پاس جاتا تھا تو آپ کے لئے بنارہے ہوتے تھے وہ یہ پینٹنگ۔۔۔میں نے بڑی منتیں کی تھیں کہ کوئی ایک ہی مجھے عطا کردیں یا ویسی ہی میرے لئے بھی بنا دیں مگر عبدالعلی صاحب ہمیشہ مسکر کر ٹال دیتے تھے۔ کہتے تھے یہ میرے قلبِ مومن کے لئے ہیں اور اب دیکھیں میرا نصیب۔۔۔ ایک نہیں سا ت کی سات مجھے مل رہی ہیں۔” خالق علی کے جملوں نے قلبِ مومن پر جیسے گھڑوں پانی ڈالا۔
”ہاں جی دادا جی نیک روح تھے۔ نیکوں کی چیزیں نیکوں کے پاس ہی جانی ہوتی ہیں۔”
شکور نے خالق علی کے جذبے سے متاثر ہوتے ہوئے بے حد جذباتی انداز میں قلبِ مومن کے سامنے کھڑے کھڑے گہری ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے خالق علی کو جیسے خراج تحسین پیش کیا تھا ۔ اس بات سے بے خبر کہ اُس کے اس جملے نے قلبِ مومن کو شرمساری کے ایک اور دریا میں ڈبویا تھا۔
”نیک کہاں جی میں۔۔۔ میں تو ایک ادنیٰ گناہ گار ہوں۔ نیک تو آپ ہیں جنہیں عبدالعلی صاحب کی خدمت کا شرف حاصل ہوا۔” خالق علی نے شکور کو جواباً خراج تحسین پیش کیا اور وہ خراج تحسین شکور کو نہال کرگیا تھا۔
”ہاں جی خدمت تو مجھ سے ہی کراتے تھے اور۔۔۔” اس سے پہلے کہ شکور اُن خدمات کی تفصیلات دینا شروع کرتا قلبِ مومن نے مداخلت کی تھی۔
”میڈم سے جاکر پوچھو ۔۔۔ اُن کو کچھ چاہیے۔” قلبِ مومن کا اشارہ کس میڈم کی طرف تھا۔ شکور کو پلک جھپکتے میں سمجھ آگیا تھا مگر اُسے اس طرح اپنا وہاں سے نکالا جانا پسند نہیں آیا۔
”کافی تو دے آیا تھا میں۔ اتنی دیر میں کافی ہی پیتی ہیں ایکٹریسز۔۔۔ ہاں لیکن میں پھر بھی پوچھ لیتا ہوں۔” اُس نے کچھ کہنا چاہا تھا مگر قلبِ مومن کی تیکھی نظروں کو پھانپتے ہوئے اُس نے ساتھ ہی وہاں سے جانے میں عافیت جانی۔
”تو ان شاہکاروں کا کیا ہدیہ پیش کروں میں؟” اُس کے جاتے ہی خالق علی نے بے حد مودبانہ اور انکسارانہ انداز میں قلبِ مومن سے کہا۔
”آپ کیا دے سکتے ہیں؟” وہ پتہ نہیں کیا جانچنا چاہتا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”کچھ بھی۔۔۔کوئی بھی amount۔۔۔ یا ایسا کرتے ہیں میں آپ کو ایک چیک دے دیتا ہوں۔۔۔ بلینک۔۔۔ آ پ جو چاہے اس میں بھرلیں۔” خالق علی نے کہتے ہوئے توقف کئے بغیر اپنے ساتھ لایا ہوا ایک چھوٹا بیگ کھولتے ہوئے اُس میں سے چیک بک نکال کر اُس پر دستخط کئے اور کھڑا ہوتے ہوئے وہ چیک بک قلبِ مومن کی طرف بڑھادی جو بے حد ہکا بکا خالق علی کی آفر اور اُس چیک کو دیکھ رہا تھا۔
”آپ کسی میوزیم کو بیچیں گے اسے؟” قلبِ مومن نے کسی عجیب سی کیفیت میں وہ چیک پکڑتے ہوئے اُس سے پوچھا۔
خالق علی نے بے اختیار توبہ کرنے والے انداز میں اپنے کانوں کی لویں چھوئی تھیں۔
”توبہ کریں جی توبہ۔۔۔ شاہکاروں کو کون بیچتا ہے۔۔۔؟ پیسے کا کیا ہے وہ تو دوبارہ کمالوں گا میں مگر عبدالعلی صاحب کا فن لازوال ہے۔ میں ترکے میں اپنے بیٹوں کو دے کے جاؤں گا تاکہ اُن کے گھر کی دیواروں پر سجیں۔ اللہ کا نام میری اولاد کو یاد رہے اور اُس کا کلام بھی۔”
کوئی گھونسہ تھا جو قلبِ مومن کے دل پر پڑا تھا۔ درد دل سے اُٹھ کر پورے وجود کو ہلا گیا تھا۔ وہ ”ہدایت” کو اپنے ہاتھ سے پیسے کے عوض بیچ رہا تھا اور دُنیا ہدایت خرید رہی تھی اور اُسے اُس پیسے سے دُنیا خریدنی تھی۔
”میں ذرا اپنے گارڈ اور ڈرائیور کو بلوا لوں نیچے سے یہ اُٹھوانے کے لئے۔ آپ اپارٹمنٹ کی Receptionپر بتادیں۔” خالق علی نے اُس کی کیفیت سے بے خبر اُس سے کہا تھا۔
”میں ذرا کنفیوز ہوگیا ہوں۔۔۔ مجھے کچھ دن دیں یہ سوچنے کے لئے۔۔۔ پھر فیصلہ کرتا ہوں۔” خالق علی کو جیسے قلبِ مومن کی بات پر یقین نہیں آیا تھا۔
”میں نے بلینک چیک دیا ہے آپ کو جو چاہے بھرلیں اس میں۔۔۔ لاکھوں ، کروڑوں جو بھی ۔۔۔ پاکستان سے باہر کسی کرنسی میں Paymentچاہیے تو وہ بھی ہوجائے گی۔” قلبِ مومن نے چیک اُس کے ہاتھ میں واپس دیتے ہوئے کہا۔
”ابھی آپ یہ رکھ لیں مجھے کچھ سوچنے دیں۔ میری emotional attachment ہے ان پینٹنگز کے ساتھ۔۔۔ اس طرح فوراً نہیں دے سکتا میں انہیں۔” اُس کے انداز میں کچھ ایسا تھا کہ خالق علی نے اس بار اصرار نہیں کیا تھا۔ اُس نے بڑی نرمی سے چیک کو دوبارہ سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
”میں بالکل سمجھ سکتا ہوں جناب مگر اس چیک کو آپ فی الحال اپنے پاس رکھیں۔ یہ آپ کو فیصلہ کرنے میں مدد دے گا۔ پیسے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ ہر کنفیوژ ن سے نکال دیتا ہے۔ سارے راستے صاف نظر آتے ہیں۔۔۔ صحیح بھی اور غلط بھی۔۔۔ دھندلا کچھ نہیں رہنے دیتا یہ انسان کے سامنے۔” خالق علی نے جیسے ایک اور جوتا مارا تھا قلبِ مومن کے ضمیر کو اور ضمیر تڑپا تھا۔
”چلتا ہوں دیر ہورہی ہے پر آؤں گا دوبارہ آپ کے پاس ان شاء اللہ۔” اُس نے اُسی پرتپاک انداز میں قلبِ مومن سے مصافحہ کیا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔ مومن کچھ عجیب سی کیفیت میں وہاں کھڑا اُسے جاتا دیکھتا رہا۔ کچھ دیر کے لئے وہ جیسے مومنہ کو بھی بھول گیا تھا۔ جس نے لاؤنج کے دوسرے حصے میں بیٹھے ہوئے بھی خالق اور قلبِ مومن کے درمیان ہونے والی ساری گفتگو سنی تھی۔
قلبِ مومن شاید بہت دیر وہاں کھڑا رہتا اگر بے حد عجلت میں داؤد لاؤنج میں داخل نہ ہوتا جس کا سانس تقریباً پھولا ہوا تھا۔
”سوری مومن بھائی لیٹ ہوگیا۔ مومنہ آئی نہیں کیا؟” اُس نے اندر آتے ہی مومنہ کو لاؤنج کے اس حصے میں نہ دیکھ کر مومن سے کہا تھا اور وہ جیسے ہوش و حواس میں واپس آیا۔
”آچکی ہیں۔” قلبِ مومن نے بے اختیار کہا اور پھر وہ اُسے لئے ہوئے لاؤنج کے دوسرے حصے میں آگیا جہاں مومنہ کو بیٹھا دیکھ کر داؤد بے اختیار کھل اُٹھا تھا۔
”سوری مجھے کچھ زیادہ دیر ہوگئی۔” داؤد نے مومنہ سے کہا۔
”کوئی بات نہیں۔”
داؤد اور قلبِ مومن صوفوں پر بیٹھ گئے تھے اور داؤد نے بیٹھتے ہی اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا تھا۔
”کیا ڈسکس ہورہا تھا۔” اُس نے لیپ ٹاپ کھولتے ہوئے باری باری قلبِ مومن اور مومنہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”سکرپٹ اور وہ مجھے پسند ہے۔۔۔ میرا رول بھی۔۔۔ چند سوال تھے جو میں نے کرلئے۔۔۔ چند اور کرنے ہیں۔” مومنہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔داؤد چہکا۔
”ارے واہ یہ تو میرے آنے سے پہلے کافی کام ہوگیا۔” داؤد کی خوشی کی بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ اُسے توقع نہیں تھی کہ قلبِ مومن اور مومنہ اتنے آرام سے اُس کی کسی مدد کے بغیر بھی اکٹھے کام کررہے ہوں گے۔
”اس سے پہلے کہ ہم سکرپٹ پر مزید بات چیت کریں میں چاہتا ہوں مجھے یہ پتہ چل جائے کہ آپ کا پے منٹ پیکیج کیا ہوگا۔” مومن کے ذہن میں پتہ نہیں کیا خیال آیا تھا۔
”مومنہ دوست ہے مومن بھائی۔۔۔ وہ ہمارے لئے flexible ہی رکھے گی سارا پیکیج۔” داؤد نے بڑے مصالحانہ انداز میں مسکراتے ہوئے مومنہ کو دیکھ کر کہا۔
مومنہ جواباً نہیں مسکرائی تھی۔
”کیوں؟۔۔۔ میں کیوں رکھوں گی flexibleاپنا پیکیج۔۔۔ پروفیشنل ہوں Charityتو کر نہیں رہی۔” اُس کا جملہ قلبِ مومن کو بُری طرح چبھا تھا۔
”آپ کو میرے لئے کوئی Charityکرنے کی ضرورت ہے بھی نہیں۔ میں آپ سے کوئی concessionمانگوں گا بھی نہیں۔ آپ بتائیں آپ کیا Payment چاہتی ہیں۔” قلبِ مومن نے فوراً اُ س سے کہا تھا۔
”عبدالعلی صاحب کی بنائی ہوئی وہ سات کیلی گرافیز۔”
قلبِ مومن کو لگا وہ مذاق کررہی تھی۔ اُس نے خالق علی کے ساتھ ہونے والی گفتگو تو یقینا سن لی تھی۔ داؤد نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے باری باری دونوں کا چہرہ دیکھا۔
”کیا مطلب؟”
”میں اُن پینٹنگز کی بات کررہی ہوں جو آپ تھوڑی دیر پہلے بیچ رہے تھے۔” وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
”یہ الف کے لئے میرا معاوضہ ہوگا۔”
”میں یہ نہیں دے سکتا۔”
قلبِ مومن نے سوچے سمجھے بغیر فوری طور پر اُسے انکار کیا تھا۔ وہ اُٹھی اپنا بیگ اُٹھایا اور اُس میں سے سکرپٹ نکال کر میز پر رکھتے ہوئے اُس نے بڑے ہموار انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے پھر یہ سکرپٹ میں یہیں رکھ کر جارہی ہوں۔” وہ کہتے ہوئے جانے کے لئے چل پڑی تھی اور داؤد کی جیسے جان نکل گئی تھی۔
”آپ کیا کریں گی ان کیلی گرافیز کو؟” قلبِ مومن نے اُلجھ کر اُس سے پوچھا تھا۔
”بیچوں گی نہیں اس لئے آپ یہ فکر نہ کریں کہ کسی میوزیم یا collectorکو بیچ دوں گی۔” مومنہ نے جواباً کہا تھا۔
”میں نے ایسا کہا بھی نہیں۔” وہ بے اختیار مدافعانہ انداز میں بولا۔
”ٹھیک ہے آپ یہ Paintingsلے لیں میں اس شرط پر آپ کو دوں گا کہ آپ انہیں مجھے ہی بیچیں گی۔”
وہ کیا سوچ کر اُسے وہ Paintingsدینے پر راضی ہوگیا تھا اس کا اندازہ مومن کو نہیں ہوا تھا۔ وہ جیسے اُس کے دل کا فیصلہ تھا۔
”میں آپ کو بھی نہیں بیچوں گی۔” مومنہ نے جواباً دوٹوک انداز میں کہا۔ اس سے پہلے کہ قلبِ مومن کچھ کہتا۔ داؤد نے بے اختیار مداخلت کی۔
”بس doneہوگیا۔ Congratulationsْْ۔۔۔ میں کانٹریکٹ سائن کرواتا ہوں۔ ابھی ڈرافٹ کرتا ہوں۔” داؤد جیسے قلبِ مومن کو اب اس ایشو پر کچھ بولنے سے روک دینا چاہتا تھا۔
”اگلی میٹنگ تب ہوگی جب یہ پینٹنگز میرے گھر آجائیں گی۔” مومنہ نے اُس انداز میں کہا۔ مومن کو بُرا لگا۔
”میں زبان سے پھرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔”
”میں بھی نہیںہوں۔”
مومنہ نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”یہ جان کر اچھا لگا۔۔۔ آپ کے ساتھ کام کرکے زیادہ اچھا لگے گا۔” مومن نے جواباً دوستانہ انداز دکھانے کی کوشش کی۔
”مجھے آپ کے ساتھ اور آپ کے لئے کام کرنے میں دلچسپی نہیں ہے لیکن اس سکرپٹ پر کام کرنے میں ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ سکرپٹ آپ کا ہے۔۔۔ خدا حافظ۔” وہ بڑے ٹھنڈے لہجے میں کہہ کر چلی گئی تھی۔
مومن کے چہرے پر کئی رنگ آکر گئے تھے اور داؤد کے چہرے پر تاثر۔۔۔ تو مومنہ سلطان کچھ بھی بھولی نہیں تھی اور قلبِ مومن سب کچھ بھول جانا چاہتا تھا۔
”یہ بھجوادوں گا آج ہی مومنہ کی طرف اور کانٹریکٹ بھی ساتھ ہی سائن کروا لاؤں گا۔”
داؤد کو بلا کی جلدی تھی اور اُس نے یوں ظاہر کیا تھا جیسے مومنہ کچھ کہہ کر ہی نہیں گئی تھی۔ مومن نے پلٹ کر اُسے دیکھا ۔ وہ لیپ ٹاپ پر کچھ برق رفتاری سے ٹائپ کررہا تھا۔ یقینا وہ مومنہ کا کانٹریکٹ تھا۔
”آج نہیں کل۔” مومن نے اُسے کہا تھا۔ داؤد نے بے اختیار لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر جیسے بے یقینی کے عالم میں اُسے دیکھا۔
”مومن بھائی دیر نہ کریں آپ کو اندازہ نہیں ہے مومنہ کے پاس آج کل کہاں کہاں سے آفرز آرہی ہیں۔ ہمیں مارکیٹ میں خبر بریک کرنی ہے۔” وہ بلاواسطہ مومن کو جیسے مومنہ کی اہمیت یاد دلا رہا تھا۔
”کل۔” مومن ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔
”ٹھیک ہے۔ کل صبح ہی آجاؤں گا میں۔”
داؤد نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ قلبِ مومن سے بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
”اُسے شوق ہے کیلی گرافی کا؟ پتہ ہے کچھ اس کے بارے میں؟” مومن نے یک دم داؤد سے پوچھا تھا۔
”مومن بھائی کیلی گرافی کرتی رہی ہے وہ۔۔۔ پروفیشنلی نہ سہی لیکن بہت اچھی کرتی ہے۔ خطاط ہی بننا چاہتی تھی وہ۔۔۔ یہ ایکٹنگ وغیرہ تو مجبوری بن گئی تھی اُس کی۔۔۔ اور اب نصیب۔” مومن داؤد کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔ اُسے حسنِ جہاں یاد آئی تھی مگر وہ مومنہ سلطان تھی۔
٭…٭…٭
”ارے مومنہ تم کہاں سے آگئی اتنے مہینوں کے بعد؟” بستر پر لیٹے ماسٹر ابراہیم نے اُسے دیکھتے ہی اُٹھنے کی کوشش کی تھی مگر مومنہ نے اُنہیں روک دیا۔
”آپ کی طبیعت خراب ہے ماسٹر صاحب اور آپ نے مجھے بتایا تک نہیں۔۔۔ مت اُٹھیں۔”
وہ اُن کے بستر سے کچھ فاصلے پر ایک کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ وہ آج پہلی بار اُن کے کمرے کے اندر آئی تھی۔
”نہیں نہیں طبیعت خراب نہیں ہے یہ فاروق کو عادت ہے بس بات کا بتنگڑ بنانے کی۔” ماسٹر ابراہیم نے تکیے کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے اندر آتے ہوئے اُس سترہ اٹھارہ سالہ ملازم کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو اب اُن کے لئے لائی ہوئی کچھ دوائیاں میز پر رکھ رہا تھا۔
”پھر بھی مجھے بتانا تو چاہیے تھا آپ کو ماسٹر صاحب۔” مومنہ نے کہا۔ ملازم اب پانی کا خالی جگ اُٹھا کر باہر چلا گیا تھا۔
”یہ آپ ہیں ماسٹر صاحب؟” مومنہ بے اختیار دیوار پر لگی کچھ تصویروں کو حیرانی اور بے یقینی کے عالم میں دیکھتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ماسٹر ابراہیم بے حد ندامت کے عالم میں ہنسے تھے۔
”ہاں بس بیٹا ہم پر بھی ایسا زمانہ گزرا تھا۔”
مومنہ دیوار پر لگی اُن ڈھیروں تصویروں کو بڑے تجسس اور اشتیاق سے باری باری دیکھ رہی تھی جن میں ماسٹر ابراہیم جینز اور شرٹس میں ملبوس دنیا کے بہت سے مشہور سیاحتی مقامات پر کھڑے نظر آرہے تھے۔
”آج پہلی بار آپ کاکمرہ دیکھ رہی ہوں اور یہ تصویریں بھی۔ آپ تو بڑے سمارٹ اور خوبصورت ہوتے تھے اور بہت اچھا tasteہے آپ کا۔”مومنہ نے پلٹ کر اُنہیں مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا۔وہ اب کمرے میں پڑی اُن پرانی چیزوں پر نظر ڈال رہی تھی جو ماسٹر ابراہیم کی اچھی پسند کو ظاہر کررہی تھیں۔
”سفر میں ہر منزل طے کی ہے ہم نے۔” انہوں نے عجیب انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ مومنہ نے اُن کے لہجے پر غور نہیں کیا ۔ وہ ایک بار پھر اُن تصویروں کو دیکھ رہی تھی۔
”یہ میلان ہے میں نے پہچان لیا۔ پچھلے مہینے گئی تھی یہاں۔۔۔ خوبصورت شہر ہے۔” مومنہ بے اختیار ایک تصویر پر اُنگلی رکھتے ہوئے کہا۔
”آدھی زندگی گزاری ہے میلان میں۔ اس لئے تصویریں لگا رکھی ہیں۔ نظروں کے سامنے رہتا ہے ہر وقت۔” انہوں نے جواباً کہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

الف — قسط نمبر ۰۹

Read Next

باغی ۔۔۔۔۔ قسط نمبر ۸ ۔۔۔۔ شاذیہ خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!