انجان راستہ — ثاقب رحیم خان
نہ جانے اس سے پہلے کا موسم کیسا تھا۔ کسی بہار کسی خزاں کا کچھ پتہ نہیں تھا آگاہی کو صرف کچھ نقوش چھوڑے تھے۔
نہ جانے اس سے پہلے کا موسم کیسا تھا۔ کسی بہار کسی خزاں کا کچھ پتہ نہیں تھا آگاہی کو صرف کچھ نقوش چھوڑے تھے۔
آم پھلوں کا بادشاہ ہے اسی لیے سب کا راج دلارا ہے۔ امیر، غریب سب کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اسی لئے سخن کے بادشاہ
امی امی! مجھے علی نے مارا، زویا روتی ہوئی مسز کمال کے پاس آئی۔” نہیں امی! زویا جھوٹ بول رہی، امی میں نے نہیں مارا۔”
پرانے دور کی بات ہے ملک میں تعلیم کی شرح بہت کم تھی، جو کہ نئے دور میں بھی مستقل مزاجی سے وہیں موجود ہے۔
میں اس وقت جس جگہ پر موجود ہوں وہ میرا کمرہ ہے، جہاں فی لحال نیم تاریکی ہے۔ کمرے کا احاطہ خاصہ تنگ ہے۔ عقبی
پچھلے پہر جب چاند بھی ڈھل گیا ہوتا ہے اور تاروں کی بارات بھی قریباً جاچکی ہوتی ہے، بجنے والی یہ مترنم سی گھنٹی میرے
صبح کے لگ بھگ سات بج رہے تھے جب وہ جھولا جسے میں بڑے مزے سے جھول رہا تھا، اچانک سے آنے والے زلزلے سے
”کاش میں انسان ہوتا۔۔۔ کاش۔۔۔ اگر میں انسان ہوتا تو آج اپنے بیٹے کے آگے یوں ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے۔ اُس کے آگے رحم کی
شاہین – ”برگد کی چڑیلیں” – عمیرہ احمد ”میرے گھر میں ایک پرانا برگد ہے جس پر چڑیلیں رہتی ہیں جو ہمیں بہت تنگ کرتی