تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۳
صبیحہ کا دوانی کے ساتھ یہ اس کی آٹھویں ملاقات تھی، جس میں اس نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ردعمل کم از
صبیحہ کا دوانی کے ساتھ یہ اس کی آٹھویں ملاقات تھی، جس میں اس نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ردعمل کم از
”برقع کے کچھ فائدے ہیں یہ مجھے آج پتا چلا ہے۔” وہ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا شوخی سے کہہ رہا تھا۔ ”مگر اس
آسمان وہ عروج ہے جس کو پانے کی خواہش ہمیں ہمیشہ بے تاب رکھتی ہے۔ ہم سب کبھی نہ کبھی تھوڑا سا آسماں ضرور تلاش
ایف ایم پر ایس کے کا پروگرام شروع ہونے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے جب وہ سارے کام ادھورے چھوڑ کر کانوں میں ہینڈ
حیدرآباد سے کراچی تک دو گھنٹے کا سفر اذیت ناک تھا ۔ سارے راستے موبائل کان سے لگائے میں امی کو تسلیاں دیتی رہی، لیکن
”تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو عمر؟ ” ایاز حیدر فون پر درشت لہجے میں کہہ رہے تھے۔ ”آخر کتنی بار مجھ تک تمہاری شکایات
آرمی مانیٹرنگ کمیٹی… اب یہ کیا بکواس ہے؟” عمر جہانگیر نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل کو میز پر تقریباً پٹختے ہوئے کہا۔ فوجی حکومت
”ہاشم …” اس پکار میں گہراکرب چھپا تھا۔ ”چل پتر! گھر چل۔” شام کے سرمئی اندھیرے میں قدرے ایک پرانی قبر کے پاس بے ترتیب
”ریت زک سے سیاہ ہوتی ہے اور اعمال سے رو سیاہ یا بلند۔” وہ اپنے اندر کی بہتی ندی کی ذرا سی بوچھاڑ اپنی بے
عمر نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد اگلے دو سال لاہور اور اسلام آباد میں گزارے تھے۔ وہ نانو کے گھر نہیں رہا