باغی — قسط نمبر ۴ — شاذیہ خان
اپنی دکان پر روبی سے باتیں کرتے ہوئے عابدایک دم طیش میں آ گیا کیوں کہ اسے لگ رہا تھا کہ روبی اسے روز ایک
اپنی دکان پر روبی سے باتیں کرتے ہوئے عابدایک دم طیش میں آ گیا کیوں کہ اسے لگ رہا تھا کہ روبی اسے روز ایک
فوزیہ ہاتھ میں گوہر کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا پتا لیے بس سے نیچے اتری اور ایک راہ گیر کو پرچی دکھاتے ہوئے ایڈریس دریافت کیا۔
آج کافی دن کے بعد فوزیہ عابد کی دکان میں کھڑی چیزیں دیکھ رہی تھی۔اب گاہ بہ گاہ وہ اس کی دکان میں آتی رہتی
” شکر ہے بھئی نکل آئے دکان سے۔ آج تو لگ رہا تھا کہ دم ہی گھٹ جائے گا۔ توبہ کتنا رش تھا۔”فائزہ نے اپنے
”سنو! مجھے تم مجھے لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو؟” میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک معصوم سا بچہ میلے سے کپڑوں
سبزی منڈی کے ایک جانب گلی سڑی سبزیوں کے ڈھیر تھے، جن پر مکھیاں اور مچھر بھنبھنا رہے تھے ۔ ارد گرد ناقابلِ برداشت بد
”میز پر پڑے لوازمات سے انصاف کرتے ہوئے ہر ایک اپنی رائے دینے میں مشغول تھا ”تم نے اچھا نہیں کیا بلال…” ”کتنی صابر بچی
ڈھولک کی تھاپ اس کے دِل کی دھڑکنوں کی رفتار میں اضافے کا باعث بن رہی تھی، مسکراہٹ پورے استحقاق سے اس کے لبوں کی
دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی اس کا سامنا ممی سے ہوا تھا… اس کا چہرہ دیکھتے ہی وہ ٹھٹکیں۔ ”کیا ہوا ہے؟” وہ بے