بارِ گراں — افشاں علی
آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں شفق کی سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ پرندے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اپنے آشیانوں کی جانب محوِ پرواز تھے۔ ہلکی ہلکی
آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں شفق کی سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ پرندے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اپنے آشیانوں کی جانب محوِ پرواز تھے۔ ہلکی ہلکی
خشک پتوں کے ڈھیرکے پاس بیٹھی وہ ہمیشہ کی طرح گم صم تھی ۔ جگہ جگہ سے ادھڑے دھاگوں کے پھیکے پڑتے رنگوں سے سجی
وشمہ چت لیٹی خالی الذہنی کی سی کیفیت میں کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی۔ وہ سوچوں کی اندھیر نگری میں بھٹک رہی تھی
سنہ ٢٠٠٧ء… جی ٹی روڈ قصبوں اور شہروں کو چیرتی ہوئی لاہور کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جوں جوں لاہور کا فاصلہ کم ہوتا جاتا
وہ درد جو میں نے کل محسوس کیا…وہ پاکستان میں روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خاندان محسوس کرتا ہے۔ وہ ننھی سی چڑیا…ہمارے
کہتے ہیں، رشتے احساس کے ہی ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہے تو غیر بھی اپنے، اور احساس نہیں تو اپنے بھی پرائے لیکن کچھ رشتے
پرانی کتابیں گود میں رکھے نادیہ کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی ۔ ڈھلتے سورج کی مدھم شعاعیں اس کے چہرے پر پڑ رہی
”دیکھو بہن آپ کا بیٹا چودہ پاس ہو یا سولہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں تو بس اس کی کمائی سے مطلب ہے
میں پل کے نیچے لگے ہوئے سبزی کے ٹھیلوں کے پاس کھڑا ٹریفک دیکھ رہا تھا،جب میں نے سڑک کے کنارے چودہ یا پندرہ سال
مہمان آنے والے تھے میں ڈرائنگ روم کی صفائی اور جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی کہ مجھے کھڑکی کے بالکل قریب ایک عورت کی سسکیوں