امربیل — قسط نمبر ۷
”میں نے سوچا شاید تم زارا سے ملتے ہوگے۔” علیزہ اگلی شام اپنے کمرے سے نکل کر لاؤنج کی طرف آرہی تھی، جب اس نے
”میں نے سوچا شاید تم زارا سے ملتے ہوگے۔” علیزہ اگلی شام اپنے کمرے سے نکل کر لاؤنج کی طرف آرہی تھی، جب اس نے
”ان این جی اوز کے آفس کینٹ کے علاقہ میں ہیں اور ظاہر ہے یہ تو ناممکن ہے کہ آرمی کے علاقے میں ہونے والی
”موڈ ٹھیک ہوگیا تمہارے کزن کا؟” شہلا نے ساتھ چلتے چلتے اچانک علیزہ سے پوچھا۔ ”ہاں۔” وہ ہلکے سے مسکرائی۔ ”چلو شکر ہے کم از
”عمر کے بارے میں کیا بات کر رہے تھے؟” وہ بھی کچھ فکر مند ہو گئی تھی۔ نانو اب بہت الجھی ہو ئی لگ رہی
اگلے دن یونیورسٹی میں اس کا دل نہیں لگا تھا۔ گھر واپس آتے ہی وہ سیدھا کچن میں گئی۔ ”نانو رات کے لئے کیا پکوا
”علیزہ بی بی ! یہ پودے اندر لے جاؤں؟” ملازم نے ایک بار پھر اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا تھا۔ علیزہ نے چونک
مجھے یہ کہنا ہے بعض کہانیاں لکھتے ہوئے آپ کو ایک مستقل خلش کا احساس ہوتا رہتا ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں، یہ کہانی کہیں
”کیا دیکھ رہی ہیں آپ اس آئینے میں؟” مثال نے کچھ تجسس آمیز انداز میں عکس سے پوچھا جو اس Cheval mirror کے سامنے کھڑی
طغرل نے اس آئینے میں پہلے اپنے آپ کو دیکھا پھر اپنے عقب میں آئے شیردل اور عکس کو دیکھا۔ اسے وہاں رکے دیکھ کر
اس آئینے نے کئی سال پہلے کی طرح آج بھی شہربانو کی نظر کو خود سے ہٹنے نہیں دیا… گزر جانے نہیں دیا۔ وہ آئینے
Alif Kitab Publications Dismiss