نگار خانہ — مصباح علی سید
شام اداس اور ویران تھی۔ ٹھنڈا پڑتا سورج نارنجی تھال سے جھانکتا تھا۔ جیسے جیسے نیچے ہوا کے پھیکے جھونکوں میں تیرتے پنچھی اپنے اپنے
شام اداس اور ویران تھی۔ ٹھنڈا پڑتا سورج نارنجی تھال سے جھانکتا تھا۔ جیسے جیسے نیچے ہوا کے پھیکے جھونکوں میں تیرتے پنچھی اپنے اپنے
ہوا میں تازگی قدرے کم تھی، اب تک لوگ شاید اِس سوکھی ہوا کے عادی ہوچکے تھے ۔سورج نے بھی اپنی فوج میں چند ہزار
”فراز اُٹھ جا! پانی ختم ہو گیا ہے جا کے بالٹی بھر لا۔” پروین نے ہاتھ میں پکڑی بالٹی زمین پر رکھی اور خود بھی
”پتھر کا دور واپس آگیا ہے.. اور اب کی بار سب کچھ پتھر کا بنا کر دم لے گا۔” وہ کمرے میں بیٹھے ہم کلامی
آم پھلوں کا بادشاہ ہے اسی لیے سب کا راج دلارا ہے۔ امیر، غریب سب کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اسی لئے سخن کے بادشاہ
میں اس وقت جس جگہ پر موجود ہوں وہ میرا کمرہ ہے، جہاں فی لحال نیم تاریکی ہے۔ کمرے کا احاطہ خاصہ تنگ ہے۔ عقبی
تنگ گلی کے دونوں کناروں پر بنے فٹ پاتھ انہی لوگوں کے قبضے میں تھے۔ جن کی صورت بھک منگوں جیسی اور حرکتیں پاگل دیوانوں
شاہین – ”برگد کی چڑیلیں” – عمیرہ احمد ”میرے گھر میں ایک پرانا برگد ہے جس پر چڑیلیں رہتی ہیں جو ہمیں بہت تنگ کرتی
Alif Kitab Publications Dismiss