عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)
وہ کھلے داخلی دروازے سے اندر جانے کے بجائے وہیں برآمدے میں ہی رک گئی تھی۔ داخلی دروازے کے دائیں طرف یہ ایک Cheval Standing
وہ کھلے داخلی دروازے سے اندر جانے کے بجائے وہیں برآمدے میں ہی رک گئی تھی۔ داخلی دروازے کے دائیں طرف یہ ایک Cheval Standing
”یہ کس نے بھیجے ہیں؟” زینی نے اس بے نام پیلے گلابوں کے گلدستے پر نظر ڈالتے ہوئے مڑکر سلطان سے پوچھا۔ آج تک اسے
”کیا دیکھ رہی ہیں آپ اس آئینے میں؟” مثال نے کچھ تجسس آمیز انداز میں عکس سے پوچھا جو اس Cheval mirror کے سامنے کھڑی
طغرل نے اس آئینے میں پہلے اپنے آپ کو دیکھا پھر اپنے عقب میں آئے شیردل اور عکس کو دیکھا۔ اسے وہاں رکے دیکھ کر
اس آئینے نے کئی سال پہلے کی طرح آج بھی شہربانو کی نظر کو خود سے ہٹنے نہیں دیا… گزر جانے نہیں دیا۔ وہ آئینے
چند لمحے پہلے آئینے میں نظر آنے والے اپنے عکس کو اس بار اس نے خیردین کی آنکھوں میں منعکس ہوتے دیکھا تھا۔ ایک سرخ
عکس نے گاڑی سے اترتے ہوئے سر اٹھا کر اس آئینے کو دیکھا جو اس گھر کے برآمدے میں دروازے کے پاس رکھا تھا اور
آئینے پر ایک اور نظر ڈالتے ہوئے اندر جانے سے پہلے چڑیا نے پلٹ کر ایک نظر بر آمدے کے سامنے پھیلے ہوئے لان کو
آئینے میں ابھرنے والے عکس نے چڑیا کو روک لیا تھا۔ کسی پرانے ،مہربان واقف حال، غمگسار دوست کی طرح اس کے دل اور قدموں
اس آئینے نے کئی سال پہلے کی طرح آج بھی اس کی نظر کو خود سے ہٹنے نہیں دیا… گزر جانے نہیں دیا۔ وہ آئینے