سرعیاں — افسانہ نگار: چیتین القان (مترجم: مسعود اختر شیخ)
ایک تھا فلسفی۔ پڑھتاکم، لکھتا زیادہ تھا بلکہ لکھنے پڑھنے سے بھی بڑھ کر وہ سوچنے کا زیادہ شوقین تھا۔ ایک دفعہ اس شخص کے
ایک تھا فلسفی۔ پڑھتاکم، لکھتا زیادہ تھا بلکہ لکھنے پڑھنے سے بھی بڑھ کر وہ سوچنے کا زیادہ شوقین تھا۔ ایک دفعہ اس شخص کے
جان ڈریک نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے مردم بیزار اور دل آزار لہجے میں کہا: ”دیکھو آنٹی! جو کچھ بھی کہنا ہے، جلدی سے کہہ
الیاس اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور
یہ اک گمبھیر موضوع ہے یعنی موسم گرما، تو لکھنے کے لیے بھی کافی سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ موسم گرما جو اپنے ساتھ بہت سارے
نورالحسن دو دن کے لیے لاہور گیا تھا ۔ ولی اپنے آپ کو آزاد محسوس کر رہاتھا ۔ آج وہ دیر رات تک دوستوں میں
آخر ایک ماہ کی محنت کے بعدگُلانے کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ وہ بہت خوش تھی۔ نور الحسن کی سالگرہ کے دن وہ
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب رُوفی کے دانت پر بجلی گری۔ رُوفی (جن کو بعد میں شیطان کا نام ملا)بجلی سے بہت ڈرتے
اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔
”باادب! باملاحظہ! ہوشیار…مس ظرافت کچن کے ہموار پختہ فرش پر قدم دکھ چکی ہیں۔ لہٰذا کوئی بڑا یابچہ آس پاس پھٹکنے نہ پائے ورنہ جنابِ
ولی کو کھانا وقت پر ملے نہ ملے ، کرکٹ وقت پر ضرور کھیلنی ہے ۔ پڑھنے کو وقت ملے نہ ملے ، کرکٹ کے